غیر منظور شدہ 350 اسکیمیں ترقیاتی منصوبوں سے نکالنے کا فیصلہ
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کمی سے سی پیک منصوبوں پرکوئی اثرنہیں پڑے گا، 675میں سے 597ارب روپے وزارتوں کے لیے مختص کر دیے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 350 سے زائد غیر منظور شدہ ترقیاتی اسکیموں کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے نکالنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے جبکہ ریوائزڈ پی ایس ڈی پی سے سی پیک کے کسی منصوبے کو نہیں نکالا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کا اجلاس گزشتہ روز چیئرمین کمیٹی آغا شاہزیب خان درانی کی صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر میر کبیر محمد شاہی، رخسانہ زبیری اور کہدی بابر کے علاوہ وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے نیا بننے والا پی ایس ڈی پی پیش نہیں کیا گیا جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کیا اتنی اجلت میں نئے بجٹ کا فیصلہ ہوا کہ پی ایس ڈی پی کی کاپی بھی ابھی تک پرنٹ نہیں کرائی جا سکی۔
وزارت منصوبہ بندی کے ایڈوائزر آصف شیخ نے کہاکہ ہم نے آخری ورکنگ ڈے میں وزیر منصوبہ بندی سے اس پی ایس ڈی پی کی منظوری لی، صبح پی ایس ڈی پی کی کاپی قائمہ کمیٹی میں پیش کر دی جائے گی۔
وزارت منصوبہ بندی کے حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا جس کو کم کر کے 675 ارب روپے کر دیا گیا ہے، نئے پی ایس ڈی پی سے سی پیک منصوبوں کو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاور سیکٹر کی ایلوکیشن کو تھوڑا ایڈ جسٹ کیا ہے، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے لیے ترقیاتی بجٹ کی بلاک ایلوکیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا، صرف پی ایس ڈی پی سے غیر منظور شدہ ترقیاتی منصوبے نکال دیے گئے ہیں جبکہ جن منصوبوں پر اخراجات 10سے 20فیصد اخراجات ہو چکے تھے اس کو تھوڑا ایڈجسٹ کیا ہے جبکہ 20فیصد سے زائد جن منصوبوں پر اخراجات کیے جا چکے ہیں، ان کو نہیں چھیڑا گیا۔
وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں 597ارب روپے وزارتوں کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایف بی آرحکا م نے اجلاس میں کہاکہ بجٹ کو ریوائز کرتے وقت ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، ایف بی آر میں افسران اور اسٹاف کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہمارا اسسٹنٹ کمشنر آفس بوائے کے ساتھ بیٹھتا ہے، کمیٹی میں پی ایس ڈی پی میں ترمیم کا معاملہ آج دوبارہ زیر بحث لایا جائے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کا اجلاس گزشتہ روز چیئرمین کمیٹی آغا شاہزیب خان درانی کی صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر میر کبیر محمد شاہی، رخسانہ زبیری اور کہدی بابر کے علاوہ وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے نیا بننے والا پی ایس ڈی پی پیش نہیں کیا گیا جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کیا اتنی اجلت میں نئے بجٹ کا فیصلہ ہوا کہ پی ایس ڈی پی کی کاپی بھی ابھی تک پرنٹ نہیں کرائی جا سکی۔
وزارت منصوبہ بندی کے ایڈوائزر آصف شیخ نے کہاکہ ہم نے آخری ورکنگ ڈے میں وزیر منصوبہ بندی سے اس پی ایس ڈی پی کی منظوری لی، صبح پی ایس ڈی پی کی کاپی قائمہ کمیٹی میں پیش کر دی جائے گی۔
وزارت منصوبہ بندی کے حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا جس کو کم کر کے 675 ارب روپے کر دیا گیا ہے، نئے پی ایس ڈی پی سے سی پیک منصوبوں کو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاور سیکٹر کی ایلوکیشن کو تھوڑا ایڈ جسٹ کیا ہے، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے لیے ترقیاتی بجٹ کی بلاک ایلوکیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا، صرف پی ایس ڈی پی سے غیر منظور شدہ ترقیاتی منصوبے نکال دیے گئے ہیں جبکہ جن منصوبوں پر اخراجات 10سے 20فیصد اخراجات ہو چکے تھے اس کو تھوڑا ایڈجسٹ کیا ہے جبکہ 20فیصد سے زائد جن منصوبوں پر اخراجات کیے جا چکے ہیں، ان کو نہیں چھیڑا گیا۔
وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں 597ارب روپے وزارتوں کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایف بی آرحکا م نے اجلاس میں کہاکہ بجٹ کو ریوائز کرتے وقت ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، ایف بی آر میں افسران اور اسٹاف کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہمارا اسسٹنٹ کمشنر آفس بوائے کے ساتھ بیٹھتا ہے، کمیٹی میں پی ایس ڈی پی میں ترمیم کا معاملہ آج دوبارہ زیر بحث لایا جائے گا۔