محترم وزیرِاعظم صاحب
ہم آپ کی کام یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ آپ کو تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔
آپ کو اپنی جماعت کی انتخابات میں شان دار کام یابی اور وزارت عظمیٰ مبارک ہو، جس کا تاج آپ کے سر پر سجنے ہی کو ہے۔
ہم آپ کی کام یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ آپ کو تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ یہ اعزاز یوں بھی اہم ہے کہ ملک کے دیگر منتخب حکم رانوں کی طرح آپ کی حکومت بھی دوبار جمہوریت دشمن قوتوں کے سیاہ ارادوں اور مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھی۔ آپ کی پہلی حکومت کو سابق بیوروکریٹ اور آپ کی طرح جنرل ضیاء الحق کے ہم نواؤں میں شامل غلام اسحٰق خان کے صدارتی اختیار نے نگل لیا اور دوسری بار بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ملنے والا اقتدار آپ کے ہاتھوں سے چھین کر ان میں ہتھکڑیاں پہنادی گئیں۔
آپ کے نام زد کردہ آرمی چیف جنرل پرویز نے، جنھیں خبروں کے مطابق آپ کے والد اپنا بیٹا کہتے تھے، آپ جیسے مضبوط اور نہایت بااختیاروزیراعظم کو کسی اردلی کی طرح برطرف کرکے قیدی بنایا، سزا دلوائی اور پھر سعودی عرب روانہ کردیا۔ پرویز مشرف نے بالکل اسی طرح آپ اور آپ کی جماعت کا نام تاریخ کا حصہ بنادینے کی کوشش کی جس طرح جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے کر سمجھ لیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی پھندے پر جھول گئی۔
پرویز مشرف نے ایک معاہدے کے ذریعے (جس کے وجود کا انکار کی تکرار کے بعد آپ کو اقرار کرنا ہی پڑا) آپ کو سعودی عرب بھیج کر، آپ کی زباں بندی کرکے اور آئینی ترمیم کے ذریعے کسی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کا راستہ روک کر اپنے نزدیک پاکستانی سیاست سے نواز شریف خاندان اور پی ایم ایل (ن) کا نام مٹا ڈالا، مگر اپنے عیش کدے میں اسیر یہ سابق آمر آج تاریخ اور عوام کے فیصلے کو دیکھ کر شاید اپنا منہ نوچ رہا ہوگا۔
حکومت کی برطرفی سمیت آپ، آپ کے خاندان اور جماعت کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ قابلِ مذمت ہے، مگر جناب! یہ بھی سوچیے کہ بھاری مینڈیٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیراعظم کے ساتھ ایسی بدسلوکی ہوئی لیکن اسے ووٹ دینے والے عوام خاموش رہے! کیوں؟ یہ آپ کی بعض غلطیاں تھیں جنھوں نے اداروں سے گلیوں محلوں تک ہر ایک کو آپ سے مایوس اور ناراض کردیا۔
اگرچہ آپ کا پہلا دورحکومت بھی آپ نے پیلی ٹیکسی اسکیم جیسے منصوبے پر قومی خزانہ ضایع کیا، مگر آپ کا دوسرا دورِاقتدار، جو عوامی حمایت اور اختیارات کے اعتبار سے پاکستان میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مماثلت رکھتا ہے، بڑی غلطیوں اور جمہوریت کے آمرانہ روپ کی مثال بن گیا۔ عدلیہ پر حملہ، اخبارات پر یلغار، سرکاری افسران کو بغیر عدالتی کارروائی کے ہتھکڑی لگانے جیسے واقعات اس دور کی سیاہ یادگاریں ہیں۔
اس دور میں معاشی اعتبار سے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کرنے کا فیصلہ اور ''قرض اتارو، ملک سنوارو '' اسکیم کی ناکامی آپ کی حکومت کے دامن پر سیاہ داغ بن کر سامنے آئی۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران آپ کی جماعت کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع ملا، بلاشبہہ شہبازشریف حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں میں قائم حکومتوں سے بہتر رہی، مگر سستی روٹی اور لیپ ٹاپ کی تقسیم کے جیسے منصوبوں پر پیسہ ضایع کرکے یلوکیب اسکیم کی یاد تازہ کردی گئی۔
آپ کی گذشتہ دونوں حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کرپائیں۔، آپ کو تیسری بار ملک کا اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ آپ ایسے حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں جب پاکستان بحرانوں کی سرزمین بن چکا ہے۔ اس وقت ملک کو امن وامان کی خوف ناک ترین صورت حال درپیش ہے۔ خیبر پختون خوا میں مذہبی انتہاپسندوں نے قیامت ڈھا رکھی ہے تو دوسری طوف بلوچستان آگ میں جل رہا ہے اور ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر کراچی ٹارگیٹ کلنگ کے شکنجے میں جکڑا لہولہان ہے۔
ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، پاکستان ریلوے، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت مختلف ادارے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ بجلی کے سنگین ترین بحران نے صنعتوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، کتنے ہی کارخانے بند ہوچکے ہیں اور کتنے ہی بند ہونے کے قریب ہیں۔ ستم بالائے ستم، عوام کا بال بال بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔
معاشی تباہ حالی نے حسب معمول عوام کا جینا دشوار کردیا ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ، سی این جی کی قلت، بڑھتی ہوئی منہگائی، دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ، ان حالات میں غریب آدمی کی زندگی جہنم بن چکی ہے، وہ غریب آدمی جس کے پاس اس ملک میں شب روز بِتانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہمارے ہاں جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کی یہ ریت رہی ہے کہ خزانہ بھرنے کے لیے وہ عام آدمی کا خون نچوڑتی ہیں اور معاشی پالیسیوں کے نام پر جاگیرداروں، تاجروں اور صنعت کاروں کو مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دورِحکومت میں ساہوکارانہ ذہنیت کے حامل شوکت عزیز نے بہ طور وزیرِخزانہ اور وزیراعظم نے طبقہ اُمراء کو نوازنے اور چھانٹیوں، برطرفیوں اور ان جیسی جو پالیسیاں اپنائیں، انھوں نے غریبوں خصوصاً مزدوروں کے حالات مزید تلخ کردیے۔
آپ ایک سرمایہ کار اور صنعت کار ہیں، چناں چہ عوام اس حوالے سے خدشات کا شکار ہیں کہ کہیں آپ صرف تاجروں اور صنعت کاروں پر مہربان ہوں اور عوام کو مہنگائی اور سرمایہ داروں کے سرمایہ بڑھانے کی ہوس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔ آپ کو عام آدمی کے حالات میں بہتری کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ خزانہ کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔
دہشت گردی ملک کا اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے سرمایہ کاری کا راستہ روک کر ملک کی معاشی صورت حال مزید خراب کردی ہے۔ ملک کی معیشت بہتر بنانے کے لیے آپ کو دہشت گردی پر قابو پانا ہوگا۔
محترم وزیر اعظم صاحب!
مسائل اور مصائب کا شکار عوام آپ کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ انھیں یہ آس تو نہیں کہ آپ کے آنے سے فوری طور پر ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور آسمان سے ہُن برسنے لگے گا، مگر ان کی آنکھوں اور سینوں میں یہ امکان ضرور روشن ہے کہ حالات میں بہت بہتری ضرور آئے گی۔ اب یہ آپ پر اور آپ کی جماعت پر منحصر ہے کہ عوام کو درپیش مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں، مگر یہ یاد رکھیے کہ اس بار غلطی کا کوئی موقع نہیں۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔
ہم آپ کی کام یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ آپ کو تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ یہ اعزاز یوں بھی اہم ہے کہ ملک کے دیگر منتخب حکم رانوں کی طرح آپ کی حکومت بھی دوبار جمہوریت دشمن قوتوں کے سیاہ ارادوں اور مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھی۔ آپ کی پہلی حکومت کو سابق بیوروکریٹ اور آپ کی طرح جنرل ضیاء الحق کے ہم نواؤں میں شامل غلام اسحٰق خان کے صدارتی اختیار نے نگل لیا اور دوسری بار بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ملنے والا اقتدار آپ کے ہاتھوں سے چھین کر ان میں ہتھکڑیاں پہنادی گئیں۔
آپ کے نام زد کردہ آرمی چیف جنرل پرویز نے، جنھیں خبروں کے مطابق آپ کے والد اپنا بیٹا کہتے تھے، آپ جیسے مضبوط اور نہایت بااختیاروزیراعظم کو کسی اردلی کی طرح برطرف کرکے قیدی بنایا، سزا دلوائی اور پھر سعودی عرب روانہ کردیا۔ پرویز مشرف نے بالکل اسی طرح آپ اور آپ کی جماعت کا نام تاریخ کا حصہ بنادینے کی کوشش کی جس طرح جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے کر سمجھ لیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی پھندے پر جھول گئی۔
پرویز مشرف نے ایک معاہدے کے ذریعے (جس کے وجود کا انکار کی تکرار کے بعد آپ کو اقرار کرنا ہی پڑا) آپ کو سعودی عرب بھیج کر، آپ کی زباں بندی کرکے اور آئینی ترمیم کے ذریعے کسی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کا راستہ روک کر اپنے نزدیک پاکستانی سیاست سے نواز شریف خاندان اور پی ایم ایل (ن) کا نام مٹا ڈالا، مگر اپنے عیش کدے میں اسیر یہ سابق آمر آج تاریخ اور عوام کے فیصلے کو دیکھ کر شاید اپنا منہ نوچ رہا ہوگا۔
حکومت کی برطرفی سمیت آپ، آپ کے خاندان اور جماعت کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ قابلِ مذمت ہے، مگر جناب! یہ بھی سوچیے کہ بھاری مینڈیٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیراعظم کے ساتھ ایسی بدسلوکی ہوئی لیکن اسے ووٹ دینے والے عوام خاموش رہے! کیوں؟ یہ آپ کی بعض غلطیاں تھیں جنھوں نے اداروں سے گلیوں محلوں تک ہر ایک کو آپ سے مایوس اور ناراض کردیا۔
اگرچہ آپ کا پہلا دورحکومت بھی آپ نے پیلی ٹیکسی اسکیم جیسے منصوبے پر قومی خزانہ ضایع کیا، مگر آپ کا دوسرا دورِاقتدار، جو عوامی حمایت اور اختیارات کے اعتبار سے پاکستان میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مماثلت رکھتا ہے، بڑی غلطیوں اور جمہوریت کے آمرانہ روپ کی مثال بن گیا۔ عدلیہ پر حملہ، اخبارات پر یلغار، سرکاری افسران کو بغیر عدالتی کارروائی کے ہتھکڑی لگانے جیسے واقعات اس دور کی سیاہ یادگاریں ہیں۔
اس دور میں معاشی اعتبار سے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کرنے کا فیصلہ اور ''قرض اتارو، ملک سنوارو '' اسکیم کی ناکامی آپ کی حکومت کے دامن پر سیاہ داغ بن کر سامنے آئی۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران آپ کی جماعت کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع ملا، بلاشبہہ شہبازشریف حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں میں قائم حکومتوں سے بہتر رہی، مگر سستی روٹی اور لیپ ٹاپ کی تقسیم کے جیسے منصوبوں پر پیسہ ضایع کرکے یلوکیب اسکیم کی یاد تازہ کردی گئی۔
آپ کی گذشتہ دونوں حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کرپائیں۔، آپ کو تیسری بار ملک کا اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ آپ ایسے حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں جب پاکستان بحرانوں کی سرزمین بن چکا ہے۔ اس وقت ملک کو امن وامان کی خوف ناک ترین صورت حال درپیش ہے۔ خیبر پختون خوا میں مذہبی انتہاپسندوں نے قیامت ڈھا رکھی ہے تو دوسری طوف بلوچستان آگ میں جل رہا ہے اور ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر کراچی ٹارگیٹ کلنگ کے شکنجے میں جکڑا لہولہان ہے۔
ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، پاکستان ریلوے، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت مختلف ادارے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ بجلی کے سنگین ترین بحران نے صنعتوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، کتنے ہی کارخانے بند ہوچکے ہیں اور کتنے ہی بند ہونے کے قریب ہیں۔ ستم بالائے ستم، عوام کا بال بال بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔
معاشی تباہ حالی نے حسب معمول عوام کا جینا دشوار کردیا ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ، سی این جی کی قلت، بڑھتی ہوئی منہگائی، دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ، ان حالات میں غریب آدمی کی زندگی جہنم بن چکی ہے، وہ غریب آدمی جس کے پاس اس ملک میں شب روز بِتانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہمارے ہاں جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کی یہ ریت رہی ہے کہ خزانہ بھرنے کے لیے وہ عام آدمی کا خون نچوڑتی ہیں اور معاشی پالیسیوں کے نام پر جاگیرداروں، تاجروں اور صنعت کاروں کو مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دورِحکومت میں ساہوکارانہ ذہنیت کے حامل شوکت عزیز نے بہ طور وزیرِخزانہ اور وزیراعظم نے طبقہ اُمراء کو نوازنے اور چھانٹیوں، برطرفیوں اور ان جیسی جو پالیسیاں اپنائیں، انھوں نے غریبوں خصوصاً مزدوروں کے حالات مزید تلخ کردیے۔
آپ ایک سرمایہ کار اور صنعت کار ہیں، چناں چہ عوام اس حوالے سے خدشات کا شکار ہیں کہ کہیں آپ صرف تاجروں اور صنعت کاروں پر مہربان ہوں اور عوام کو مہنگائی اور سرمایہ داروں کے سرمایہ بڑھانے کی ہوس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔ آپ کو عام آدمی کے حالات میں بہتری کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ خزانہ کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔
دہشت گردی ملک کا اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے سرمایہ کاری کا راستہ روک کر ملک کی معاشی صورت حال مزید خراب کردی ہے۔ ملک کی معیشت بہتر بنانے کے لیے آپ کو دہشت گردی پر قابو پانا ہوگا۔
محترم وزیر اعظم صاحب!
مسائل اور مصائب کا شکار عوام آپ کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ انھیں یہ آس تو نہیں کہ آپ کے آنے سے فوری طور پر ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور آسمان سے ہُن برسنے لگے گا، مگر ان کی آنکھوں اور سینوں میں یہ امکان ضرور روشن ہے کہ حالات میں بہت بہتری ضرور آئے گی۔ اب یہ آپ پر اور آپ کی جماعت پر منحصر ہے کہ عوام کو درپیش مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں، مگر یہ یاد رکھیے کہ اس بار غلطی کا کوئی موقع نہیں۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔