ہیروولن ایکسٹراعلائوالدین کا ہر کردار کامیاب رہا

فلمی کیرئیر کا آغاز1942ء میں فلم ’’سنجوگ‘‘ سے کیا ، 319فلموں میں پرفارم کیا

فلمی کیرئیر کا آغاز1942ء میں فلم ’’سنجوگ‘‘ سے کیا ، 319فلموں میں پرفارم کیا فوٹو: فائل

NOWSHERA:
عام طور پر فلموں میں اداکاروں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں ، ہیرو ، ولن اور ایکسٹراکے طور پر کامیاب ہوتا ہے۔

کوئی مزاحیہ اداکاری میںنام پیدا کرتا ہے، لیکن ان سب میں ایک ایسا اداکار علاو الدین ہے جو اس تمام تقسیم سے بالاتر اداکاری کے تمام شعبوں میں کامیاب رہا ۔ جو پاکستان فلم انڈسٹری کی ساٹھ سالہ فلمی تاریخ کے ورسٹائل اداکار تھے ۔علاوالدین کے فلمی کیرئیر کا آغاز ایک ایکسٹرا کے طور پر 1942ء میں فلم ''سنجوگ'' سے ہوا تھا۔ پاکستان میں ان کو پہلی بار فلم ''پھیرے'' میں ولن کے کردار میں دیکھا گیا ، جو پاکستان کی پہلی ہی پنجابی اور کامیاب ترین فلم تھی۔

ان کے علاوہ اس دور میں ''محبوبہ''، ''محفل''،''انوکھی''، ''وعدہ''، ''باغی''، ''مجرم'' ، ''مکھڑا'' ، ''چھومنتر''، ''پینگاں''، ''پلکاں''، ''دربار'' ، ''آؒخری نشان'' اور ''راز ''وغیرہ میں بھی ولن کے روایتی کردار کیے۔1955ء کے دور میں پنجابی فلم ''پتن'' میں ولن کا جو نیم مزاحیہ رول کیا وہ ہمیشہ یاد رہیگا۔

اسی سال کی یادگار فلم ''پاٹے خان'' بھی تھی ، اس فلم میں تین عظیم گلوکاراؤںنورجہاں، زبیدہ خانم اور مسرت نذیر نے بطور اداکارائیں کام کیا۔ 1957ء میں فلم ''آس پاس''میں ایک آوارہ اور ٹھکرائے ہوئے نوجوان کا رول کیا۔اس فلم نے ان کے لیے مرکزی کرداروں کے راستے کھول دیے اور وہ اردو ، پنجابی فلموں میں یکساں طور پر کامیاب ہوگئے۔ ''آدمی'' ، ''بھروسہ'' ، ''نیند'' ، ''کوئل'' ، ''جھومر'' جیسی فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔1959ء میں فلمساز وہدایتکار سیف الدین سیف کی کلاسک فلم ''کرتار سنگھ'' میں انھوں نے کیرئیر کا سب سے بڑا اور یادگار رول کیا۔




یہ پاکستان کی واحد فلم ہے جو تقسیم کے موضوع پرزمینی حقائق پر بنائی گئی ، بھارتی پنجاب میں یہ فلم مسلسل تین سال تک چلتی رہی۔ ''شہید'' ہدایتکار خلیل قیصر کی اس تاریخی فلم میں علاوالدین نے ایک عرب قبیلے کے سردار کے طور پر جو کردارنگاری کی تھی، اسے پاکستانی فلمی تاریخ میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے ۔'' فرنگی '' میں ملنگ ، ''زرقا'' میں فلسطینی مجاہد، ''یہ امن '' میں ایک معتوب کشمیری ان کے یادگار کردار تھے۔ علاؤ الدین ''تیس مار خان'' میں کامیڈی اداکار کے طور پر بھی کامیاب ہوئے ۔

ایسی فلمیں جن میں وہ ہیرونہیں تھے مگر فلم کی کہانی انھی کے گرد گھومتی تھی ، ان میں افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانے ''جھمکے'' پر بننے والی فلم 'بدنام 'ہے۔ علاو الدینکی کامیاب فلموں میں ''برسات میں '' ، ''قانون'' ، ''شیک ہینڈ'' ، ''تین پھول'' ، ''زمین ''، ''اعلان'' ، ''یتیم ''، ''جگری یار ''، ''یار مار'' ، ''لاڈو'' ''مہندی'' ، ''جگ بیتی'' ، ''پنج دریا'' ، ''گناہ گار'' '' غیرت تے قانون '' ''نظام لوہار''،''چاچا جی'' قابل ذکرہیں۔ علاو الدین کے عروج کا دور ستر کے عشرے کے شروع میں ختم ہوگیا تھا۔ اداکار ساون کا دور شروع ہوگیا تھا ۔

''نشہ جوانی دا'' 1974ء مرکزی کردار میں اور 1990ء میں ''دشمنی'' آخری فلم تھی۔راولپنڈی کے ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے اور پاپا علاو الدین کے نام سے جانے جاتے تھے ، گلوکاری کا شوق انھیں ممبئی لے آیا جہاں گلوکاری میں تو کامیابی نہ مل سکی تھی مگر اداکار کے طور پر پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ نرگس اور دلیپ کمار کی فلم ''میلہ'' میں اسکول ماسٹر کا رول کامیابی سے کیا تھا۔ انھوں نے کل 319فلموں میں کام کیا تھا ان میں سے 194 اردو جب کہ باقی 125پنجابی زبان کی فلمیں تھیں ۔ماضی کی مشہور زمانہ فلمیں ''خاندان '' ، ''دل دا جانی '' اور ''سسی پنوں'' بنانیوالے ہدایتکار ریاض احمد راجو ان کے چھوٹے بھائی تھے ۔13 مئی 1983 ء میں انتقال کرگئے۔
Load Next Story