مزاحمت کی علامت دارین طاطور

آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران سیاسی جدوجہد کو تیز کرنے کے لیے مزاحمتی ادب نے ہمیشہ بھر پور کردار ادا کیا۔

زندگی اورمزاحمت روز ازل سے ایک دوسرے کے ساتھ چل رہی ہیں لیکن بعض افراد اس مزاحمت میں دوسروں سے مختلف اس لیے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ صرف اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں، جلا وطنی کے عذاب سے بھی دو چار ہوتے ہیں اور اپنی جان سے بھی جاتے ہیں۔ معروف شاعر فیض احمد فیضؔ کا یہ مصرعہ شاید اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزرگئے

فیضؔ صاحب اپنے خیالات اور نظریات کے ذریعے عمر بھر اُن قوتوں کے ساتھ جنگ کرتے رہے جو مزدوروں،کسانوں اور زندگی کے پس ماندہ طبقوں کا استحصال کرتی ہیں اور ان آمرانہ طاقتوں کو بھی للکارتے رہے جو سامراج کے ساتھ مل کر جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ اپنے نظریات کی ڈور تھامے کسی پر آسائش شہر میں زندگی بسرکرنے کے بجائے وہ فلسطین جا پہنچے اور اسرائیلی توپوں کے سامنے کھڑے مادر وطن کے لیے جان دینے والے نہتے فلسطینیوں کی جد وجہد میں شامل ہو گئے۔ یاسر عرفات کے کہنے پر انھوں نے ''لوٹس'' نامی رسالے کے مدیر کی ذمے داریاں سنبھالیں جو افریقہ اورایشیاء کے حریت پسندوں اور دنیا بھر کے روشن خیال لکھاریوں کے دل کی آواز سمجھا جاتا تھا اور اس کی ادارتی ذمے داریاں تب تک نبھاتے رہے جب تک تل ابیب میں واقع ان کا دفتر اسرائیلی گولہ باری سے بچا رہا۔

فلسطین سے فیضؔ صاحب کی وابستگی کا اندازہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کے اُس خط سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے فیضؔ صاحب کی وفات پر لکھا تھا اور وہ قلبی تعلق اس کا گواہ ہے جو دوسری تحریروں کے علاوہ ان کی نظم ''فلسطینی بچے کے لیے لوری'' میں دکھائی دیتا ہے ۔ ان کی نظم ''ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے'' حریت پسندوں کو اس بات کا یقین دلاتی رہے گی کہ ایک دن وہ اپنے مقاصد میں ضرورکامیاب ہوں گے۔ یہ نظم اسی امید کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

ہم جیتیں گے

حقا ! ہم اک دن جیتیں گے

فلسطین، کشمیر، افغانستان یا دنیا کے کسی بھی حصے میں اگرکوئی ظلم یا نا انصافی ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں کے شاعر و ادیب خاموش رہیں یا دنیا بھر کے امن پسند شہری اس کی مذمت نہ کریں۔ فلسطین کی ایک بچی عہد تمیمی نے جب اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تو اُسے پابند سلاسل کر دیا گیا جس پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی شاعر گیدون لیوی نے ایک نظم تحریرکی جس کے جرم میں اسرائیلی وزیر دفاع نے ان کی نظمیں چھاپنے پر پابندی عائد کر دی ۔ گیدون لیوی نے ایک پیغام میں کہا تھا ''عہد تمیمی نے صرف ایک طمانچہ مارا اور اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو پچاس سال سے طمانچے رسید کرتی چلی آ رہی ہے۔'' یاد رہے کہ گیدون لیوی کی طرح دنیا بھر میں امن کے لیے کام کرنے والے کئی ایسے افراد اور تنظیمیں موجود ہیں جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کو جائز اور ان کی زمین پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیتی ہیں ۔


فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہمارے ملک میں دوسری فلموں اور ڈراموں کے علاوہ ''یہ امن'' کے نام سے معروف ہدایت کار ریاض شاہد مرحوم ماضی میں ایک فلم بھی بنا چکے ہیں جس میں نورجہاں کا گایا اور حبیب جالبؔ کا لکھا ہوا گیت'' ظلم رہے اور امن بھی ہو۔ کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔'' اپنے دور کا معروف ترین گیت بن کر سامنے آیا تھا۔ اس فلم میں اسرائیلی فوج کے خلاف جدوجہد کا مرکزی کردار بھی ایک خاتون نے ہی ادا کیا تھا جس کے لیے اپنے دور کی معروف اداکارہ نیلوکو منتخب کیا گیا تھا۔ اسی طرح افغانستان میں جاری جنگ اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف بھی وہاں کے شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں مختلف تحریروں کا سہارا لیا۔ افغانستان کی ایک شاعرہ اپنے ملک میںلگائی جانے والی جنگ کی آگ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے ۔

کوئی دھماکوں کے لیے سامان لاتا ہے

کوئی خود کش بمبار ہے

کسی نے میری ووٹ ڈالنے والی انگلی کاٹ دی ہے

خدایا ! کیا تم میرے درد کی آواز نہیں سنو گے

دنیا کے مختلف علاقوں میں مردوں کے ساتھ خواتین لکھاریوں نے اپنے قلم سے ظلم و جبر کے خلاف بھرپور احتجاج جاری رکھا اور انھیں اس کی سزا بھی دی گئی۔ ضیا ء الحق کے دور میں بہت ساری دوسری خواتین کے ساتھ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور نسرین انجم کا نام آمریت کے خلاف نفرت اور غصے کا اظہار بن کر سامنے آیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو نسرین انجم بھٹی کی نظم'' میں مرزا مہران دا میری راول جنج چڑھی'' نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو مزاحمت کی نئی راہ دکھائی۔

پچھلے دنوں فلسطینی شاعرہ اور حریت پسند خاتون دارین طاطورکا نام اسرائیلی جارحیت کے خلاف صف آرا ہم وطنوں کے جذبہ حریت کو ابھارنے کی علامت بن کر سامنے آیا تو عدالت نے انھیں لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور آزادی پسندوں کی مدد کا مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ ماہ قید کا حکم سنایا۔ اس سے دو سال قبل بھی انھیں اسرائیل کے خلاف نظمیں لکھنے کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا تھا۔ اس سزا کی بنیادی وجہ وہ مشہور زمانہ نظم تھی جو ''مزاحمت کرو، میرے لوگو مزاحمت کرو۔'' کے عنوان سے شروع ہوتی ہے۔ واشنگٹن میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے تین خواتین نے جب اس نظم کو پہلے انگریزی اور پھر عربی زبان میں پڑھ کر سنایا تو یو ٹیوب کے ذریعے دارین طاطور کے خیالات پوری دنیا تک پہنچ گئے۔ ان خواتین کا تعلق Code pink نامی تنظیم سے تھا جس کا مقصد عراق میں جنگ کا خاتمہ اور نئی جنگوں کو روک کر ان پر آنے والے اخراجات کو انسانی فلاح و بہبود اور تعلیم و صحت پر خرچ کرنا ہے۔

آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران سیاسی جدوجہد کو تیز کرنے کے لیے مزاحمتی ادب نے ہمیشہ بھر پور کردار ادا کیا اور جنگی محاذوں پر شاعروں کے لکھے ہوئے ترانے سپاہیوں کاخون گرمانے کا باعث بنے لیکن ان میں ایسے بہت کم شاعر اور ادیب تھے جنہوں نے قلمی جدوجہد کے ساتھ آزادی کے لیے اپنی جان دینے والے حریت پسندوں کے شانہ بشانہ بغاوت کا جھنڈا بھی بلند کیا ہو ۔ دارین طاطور صرف مزاحمتی شاعروںکے لیے نہیں بلکہ ان شاعرات کے لیے بھی حوصلے اوریقین کی علامت بن کر ابھری ہیں جو اپنے اپنے ممالک میں غیر ملکی استعمار،آمریت اور نسل پرستی کے خلاف نہ صرف قلمی بلکہ عملی طور پر بھی جدوجہد میں بھی مصروف ہیں ۔
Load Next Story