زمین پر قدم تو انھوں نے اب رکھا ہے
خان صاحب کو اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کی ساری باتیں محض سیاسی شعبدہ بازی کرتی تھیں۔
جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ عوام کی توقعات اِس لحاظ سے کچھ غلط اور بے جا بھی نہیں ہیں، اِن ساری توقعات کے اصل خالق اور محرک خود خان صاحب ہی تھے ۔ جنہوں نے اپنی گزشتہ پانچ سالہ ساری سیاست ہی سابقہ حکمرانوں کے خلاف ایسے معاملات اور ایشوز پر چلائی جنھیں وہ خود آج اپنے دور میں پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے خان نے جو الزام چاہا لگاتے رہے۔ انھیں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ سارے ایشوز خود اُن کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
لگتا ہے انھیں یقین تھا ہی نہیں کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ میاں صاحب جس تیزی سے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد کے دلوں میں گھر کررہے تھے کہ تجزیہ نگاروں کے سارے تجزیے اور تبصرے انھیں اگلے پانچ سالوں کے لیے بھی اِس ملک کا حکمراں سمجھنے لگے تھے ۔یہ تو اُن کے اپنے ستاروں کی گردش کہ ساری بساط ہی الٹ گئی۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ میاں نواز شریف آج بھی اِس ملک کے مقبول ترین حکمراں ہوتے۔
اِس نئی حکومت کو گرچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ ہم اُس کا احتساب شروع کردیں ، لیکن ہمیں اتنا حق تو ضرور ہے کہ وی آئی پی کلچر اور حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر خان صاحب بہت شور مچایا کرتے تھے۔لیکن آج خان صاحب بھی اُسی ٹھاٹ باٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ فرق ہوا ہے تو صرف یہ کہ پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کاروںکا استعمال ہواکرتا تھا مگر اب کارکی جگہ ہیلی کاپٹروں نے لے لی ہے۔
اپنے اِس شاہانہ اقدام کی حمایت اور توجیح میں عزر یہ پیش کیاگیا کہ اِس طرح غریب عوام کو اُن مشکلوں سے بچا لیا گیا ہے، جو وزیراعظم کے لشکرکی آمدورفت کی وجہ سے سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے سے انھیں درپیش ہوا کرتی تھیں ۔کینیڈا کے وزیراعظم کی سادگی کی مثالیں دینے والے شخص کی زباں سے ایسی توجیحات کچھ اِس لیے بھی زیب نہیں دیتیں کہ وہ تو خود تبدیلی اور سادگی اپنانے کا بہت بڑا دعوے دار تھا۔وہ اگر سائیکل پر سفر نہیں کرسکتا ہے توکم از کم عام لوگوں کی طرح بناء کسی پروٹوکول کے بنی گالا سے پرائم منسٹر ہاؤس آجاتا تو کیا حرج تھا ۔
گورنر ہاؤسس اور پرائم منسٹر ہاؤس کو بلڈوزکرنے کا ناقابل عمل دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب وہ خود جانتے تھے کہ ایسا کرنا قطعی ناممکن ہے۔کاریں اور بھینسیں بیچ ڈالنے سے ایسی کون سی تبدیلی رونماہوسکتی ہے جس کا ہمارے عوام کو بڑا انتظار تھا ۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی کاریں صرف ایک وزیراعظم کے زیرِ استعمال نہیں ہوا کرتیں۔
غیر ملکی رہنماؤں کے دوروں اور بین الاقوامی کانفرنسس میں اُن کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے۔ خان صاحب آج اِن کاروں کو سستے داموں بیچ کرکل مہنگے داموں نئی کاریں خریدکر قومی دولت کا غیر ضروری نقصان اور زیاں نہیں کررہے ہونگے ۔ ایسے سارے کام محض بچگانہ اور نمائشی ہواکرتے ہیں۔ اِن سے انسان کی ذہنی حالت اور سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔اُس کی سوچ کا محور اِس ملک کے بڑے بڑے مسائل ہیں یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی آٹھ بھینیس ہیں جنھیں بیچ کر وہ ملک کے سارے قرضے اداکردے گا۔
خان صاحب کو اِن معاملات سے اب باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ وہ اب اپوزیشن لیڈر نہیں رہے بلکہ اِس ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں ۔ قوم اُن سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے فیصلوں کی توقع کرتی ہے۔ ملک میں بے تحاشہ مسائل ایسے ہیں جو اُن کی فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز ایک عرصے سے بند پڑی ہے۔ ملکی خزانے سے ہر ماہ ایک خطیر رقم اُس کے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں جا رہی ہے۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو خان صاحب نے میاں صاحب کو کبھی اِس بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے نہیں دیا۔ اب انھیں خود اِس کی ذمے داری سنبھالنی ہوگی، وہ اور اُن کے ذہین اور قابل وزراء کی ٹیم اِس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے اِس کا فیصلہ جلد کرنا ہوگا ۔ ٹال مٹول کرنے یانظریں چرانے سے مسائل حل نہیں ہواکرتے۔ اِسی طرح قومی ایئرلائن پی آئی اے بھی آپ کی فوری توجہ کی مستحق ہے ۔ اُسے بھی مکمل تباہ ہونے سے بچانا ہے۔
اِس قومی اثاثے کو پرائیوٹائز کرنے کے آپ بہت بڑے مخالف رہے ہیں ۔ اِس کا کوئی متبادل قابل عمل حل آپ کے ماہرین کے پاس ضرور ہوگا ۔ اب حکومت اور اختیارسب کچھ آپ کے پاس ہے ۔ وزراء کی بہت بڑی ٹیم کابینہ کے اجلاسوں میں ہر ہفتے شریک ہوتی ہے ۔ اِن دونوں بڑے ایشوز پرابھی تک کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دی۔
کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے اُس کی خارجہ پالیسی بہت بڑا پیمانہ ہواکرتی ہے ۔ سابقہ حکومت کو تو اپنا وزیر خارجہ بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ شومئی قسمت سے خان صاحب کوایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔محل وقوع کے اعتبار سے ہمارا وطن عزیز جس خطے میں واقع ہے ،عالمی نکتہ نظر میں اُسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ حسن اتفاق سے سی پیک منصوبے نے اُس کی اِس اہمیت وافادیت کو اور بھی اجاگرکردیا ہے ۔
اقتصادی حوالوں سے یہ مستقبل کا ایک بہت اہم علاقہ تصور کیا جانے لگا ہے ۔ دوست اور دشمن سب کی نظریں اِس پر لگی ہوئی ہیں ۔ ہماری سا لمیت اور بقاء کا تعلق بھی اب اِسی منصوبے سے جڑا ہوا ہے۔ اِس منصوبے پر ابہام اور شکوک وشبہات پیدا کرکے ہم اپنے دشمنوں کے ارادوں اورعزائم کوتقویت پہنچا رہے ہونگے۔ہمیں جلد از جلد اِس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا نہ کہ دشمنوں سے مالی مراعات کی خاطر اُسے کچھ عرصے کے لیے مؤخر یا معطل کرنے کی باتیں کرنا ہوگی ۔اِسی طرح بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کرنا بھی کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ہے، لیکن یہ خواہش یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
میاں نواز شریف کو تو ہم اِس خواہش کے جرم میں ''مودی کے یار'' جیسے القابات سے نوازتے رہے ہیں، لیکن ہمارے لیے اپنے پہلے ہی خطاب میں ایسی خواہش کرنایا اُن سے مذاکرات کی منتیں کرنا کیسے درست اور صحیح ہوگیا ۔کلبھوشن یادیو جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا اور ابھی تک ہماری تحویل میں ہے۔اُسے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اُس پر عمدرآمد میں عالمی عدالت انصاف حائل ہے ۔ میاں صاحب پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ اپنی زباں سے اُس کا نام تک نہیں لیاکرتے تھے، لیکن خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں وہ بھی اُس کا نام بھول چکے ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے سارے الزامات آج خود خان صاحب کے لیے مشکل بن چکے ہیں ۔ وہ اُن سے نظریں بھی چرانا چاہیں بھی تو نہیں چرا سکتے، جس الیکٹرانک میڈیا کے سہارے وہ صبح و شام سابقہ حکمرانوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے تھے آج وہی میڈیا اُن کی ایک ایک حرکت پر نظررکھے ہوئے ہے۔اُن کے سادگی اور کفایت شعاری پر بڑے بڑے لیکچراور اُس پر عمل درآمدکے سارے قصے میڈیا پرانے کلپس چلاچلاکر انھیں یاد دلارہا ہوتا ہے۔ قول وفعل کے اِس تضاد کو ہم تبدیلی کے کن ضابطوں اور اصولوں میں تلاش کریں گے۔
خان صاحب کو اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کی ساری باتیں محض سیاسی شعبدہ بازی کرتی تھیں۔اُن کاحقیقت سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں تھا ۔ حکومتی مسائل اور مشکلات کا صحیح ادراک تو انھیں اب حاصل ہوا ہے۔اِس سے پہلے تو وہ صرف ہواؤں میں باتیں کیاکرتے تھے ۔ زمین پر قدم توانھوں نے اب رکھا ہے۔
لگتا ہے انھیں یقین تھا ہی نہیں کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ میاں صاحب جس تیزی سے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد کے دلوں میں گھر کررہے تھے کہ تجزیہ نگاروں کے سارے تجزیے اور تبصرے انھیں اگلے پانچ سالوں کے لیے بھی اِس ملک کا حکمراں سمجھنے لگے تھے ۔یہ تو اُن کے اپنے ستاروں کی گردش کہ ساری بساط ہی الٹ گئی۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ میاں نواز شریف آج بھی اِس ملک کے مقبول ترین حکمراں ہوتے۔
اِس نئی حکومت کو گرچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ ہم اُس کا احتساب شروع کردیں ، لیکن ہمیں اتنا حق تو ضرور ہے کہ وی آئی پی کلچر اور حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر خان صاحب بہت شور مچایا کرتے تھے۔لیکن آج خان صاحب بھی اُسی ٹھاٹ باٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ فرق ہوا ہے تو صرف یہ کہ پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کاروںکا استعمال ہواکرتا تھا مگر اب کارکی جگہ ہیلی کاپٹروں نے لے لی ہے۔
اپنے اِس شاہانہ اقدام کی حمایت اور توجیح میں عزر یہ پیش کیاگیا کہ اِس طرح غریب عوام کو اُن مشکلوں سے بچا لیا گیا ہے، جو وزیراعظم کے لشکرکی آمدورفت کی وجہ سے سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے سے انھیں درپیش ہوا کرتی تھیں ۔کینیڈا کے وزیراعظم کی سادگی کی مثالیں دینے والے شخص کی زباں سے ایسی توجیحات کچھ اِس لیے بھی زیب نہیں دیتیں کہ وہ تو خود تبدیلی اور سادگی اپنانے کا بہت بڑا دعوے دار تھا۔وہ اگر سائیکل پر سفر نہیں کرسکتا ہے توکم از کم عام لوگوں کی طرح بناء کسی پروٹوکول کے بنی گالا سے پرائم منسٹر ہاؤس آجاتا تو کیا حرج تھا ۔
گورنر ہاؤسس اور پرائم منسٹر ہاؤس کو بلڈوزکرنے کا ناقابل عمل دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب وہ خود جانتے تھے کہ ایسا کرنا قطعی ناممکن ہے۔کاریں اور بھینسیں بیچ ڈالنے سے ایسی کون سی تبدیلی رونماہوسکتی ہے جس کا ہمارے عوام کو بڑا انتظار تھا ۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی کاریں صرف ایک وزیراعظم کے زیرِ استعمال نہیں ہوا کرتیں۔
غیر ملکی رہنماؤں کے دوروں اور بین الاقوامی کانفرنسس میں اُن کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے۔ خان صاحب آج اِن کاروں کو سستے داموں بیچ کرکل مہنگے داموں نئی کاریں خریدکر قومی دولت کا غیر ضروری نقصان اور زیاں نہیں کررہے ہونگے ۔ ایسے سارے کام محض بچگانہ اور نمائشی ہواکرتے ہیں۔ اِن سے انسان کی ذہنی حالت اور سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔اُس کی سوچ کا محور اِس ملک کے بڑے بڑے مسائل ہیں یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی آٹھ بھینیس ہیں جنھیں بیچ کر وہ ملک کے سارے قرضے اداکردے گا۔
خان صاحب کو اِن معاملات سے اب باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ وہ اب اپوزیشن لیڈر نہیں رہے بلکہ اِس ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں ۔ قوم اُن سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے فیصلوں کی توقع کرتی ہے۔ ملک میں بے تحاشہ مسائل ایسے ہیں جو اُن کی فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز ایک عرصے سے بند پڑی ہے۔ ملکی خزانے سے ہر ماہ ایک خطیر رقم اُس کے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں جا رہی ہے۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو خان صاحب نے میاں صاحب کو کبھی اِس بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے نہیں دیا۔ اب انھیں خود اِس کی ذمے داری سنبھالنی ہوگی، وہ اور اُن کے ذہین اور قابل وزراء کی ٹیم اِس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے اِس کا فیصلہ جلد کرنا ہوگا ۔ ٹال مٹول کرنے یانظریں چرانے سے مسائل حل نہیں ہواکرتے۔ اِسی طرح قومی ایئرلائن پی آئی اے بھی آپ کی فوری توجہ کی مستحق ہے ۔ اُسے بھی مکمل تباہ ہونے سے بچانا ہے۔
اِس قومی اثاثے کو پرائیوٹائز کرنے کے آپ بہت بڑے مخالف رہے ہیں ۔ اِس کا کوئی متبادل قابل عمل حل آپ کے ماہرین کے پاس ضرور ہوگا ۔ اب حکومت اور اختیارسب کچھ آپ کے پاس ہے ۔ وزراء کی بہت بڑی ٹیم کابینہ کے اجلاسوں میں ہر ہفتے شریک ہوتی ہے ۔ اِن دونوں بڑے ایشوز پرابھی تک کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دی۔
کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے اُس کی خارجہ پالیسی بہت بڑا پیمانہ ہواکرتی ہے ۔ سابقہ حکومت کو تو اپنا وزیر خارجہ بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ شومئی قسمت سے خان صاحب کوایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔محل وقوع کے اعتبار سے ہمارا وطن عزیز جس خطے میں واقع ہے ،عالمی نکتہ نظر میں اُسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ حسن اتفاق سے سی پیک منصوبے نے اُس کی اِس اہمیت وافادیت کو اور بھی اجاگرکردیا ہے ۔
اقتصادی حوالوں سے یہ مستقبل کا ایک بہت اہم علاقہ تصور کیا جانے لگا ہے ۔ دوست اور دشمن سب کی نظریں اِس پر لگی ہوئی ہیں ۔ ہماری سا لمیت اور بقاء کا تعلق بھی اب اِسی منصوبے سے جڑا ہوا ہے۔ اِس منصوبے پر ابہام اور شکوک وشبہات پیدا کرکے ہم اپنے دشمنوں کے ارادوں اورعزائم کوتقویت پہنچا رہے ہونگے۔ہمیں جلد از جلد اِس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا نہ کہ دشمنوں سے مالی مراعات کی خاطر اُسے کچھ عرصے کے لیے مؤخر یا معطل کرنے کی باتیں کرنا ہوگی ۔اِسی طرح بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کرنا بھی کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ہے، لیکن یہ خواہش یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
میاں نواز شریف کو تو ہم اِس خواہش کے جرم میں ''مودی کے یار'' جیسے القابات سے نوازتے رہے ہیں، لیکن ہمارے لیے اپنے پہلے ہی خطاب میں ایسی خواہش کرنایا اُن سے مذاکرات کی منتیں کرنا کیسے درست اور صحیح ہوگیا ۔کلبھوشن یادیو جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا اور ابھی تک ہماری تحویل میں ہے۔اُسے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اُس پر عمدرآمد میں عالمی عدالت انصاف حائل ہے ۔ میاں صاحب پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ اپنی زباں سے اُس کا نام تک نہیں لیاکرتے تھے، لیکن خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں وہ بھی اُس کا نام بھول چکے ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے سارے الزامات آج خود خان صاحب کے لیے مشکل بن چکے ہیں ۔ وہ اُن سے نظریں بھی چرانا چاہیں بھی تو نہیں چرا سکتے، جس الیکٹرانک میڈیا کے سہارے وہ صبح و شام سابقہ حکمرانوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے تھے آج وہی میڈیا اُن کی ایک ایک حرکت پر نظررکھے ہوئے ہے۔اُن کے سادگی اور کفایت شعاری پر بڑے بڑے لیکچراور اُس پر عمل درآمدکے سارے قصے میڈیا پرانے کلپس چلاچلاکر انھیں یاد دلارہا ہوتا ہے۔ قول وفعل کے اِس تضاد کو ہم تبدیلی کے کن ضابطوں اور اصولوں میں تلاش کریں گے۔
خان صاحب کو اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کی ساری باتیں محض سیاسی شعبدہ بازی کرتی تھیں۔اُن کاحقیقت سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں تھا ۔ حکومتی مسائل اور مشکلات کا صحیح ادراک تو انھیں اب حاصل ہوا ہے۔اِس سے پہلے تو وہ صرف ہواؤں میں باتیں کیاکرتے تھے ۔ زمین پر قدم توانھوں نے اب رکھا ہے۔