ثقافت کے اندر کثافت
جونئی حکومت آئی ہے، نئے وزیر نئے سیکریٹری وغیرہ تو ان سے گزارش ہے کہ محکمہ ثقافت کو بھی تھوڑا سا نیا کردیں۔
یہ ''ثقافت'' میں کثافت کا نظریہ ہمارا نیا نہیں ہے بلکہ سارے علمائے کرام اور مشائخ عظام کے ساتھ کالانعام کا بھی خیال ہے کہ ثقافت صرف اس چیز کا نام ہے جو آج کل ہمارے ملک کے اندر پڑوسی ملک سے دھڑا دھڑ درآمد کی جا رہی ہے جسے کچھ لوگ ثقافتی یلغار بھی کہہ دیتے ہیں حالانکہ اگر موقع ملتا ہے تو خود بھی جا کر اس ثقافتی یلغار میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
لیکن ہمارا موضوع وہ ثقافت نہیں بلکہ وہ ہے جس کے لیے حکومت نے ایک محکمہ بنایا ہوا ہے، یہ تو معلوم نہیں کہ مرکز یا وفاق میں ایسا کوئی محکمہ ہے یا نہیں اگر نہیں ہے تو فوراً بنا لینا چاہیے کہ کم از کم ایک دو وزیر اور بہت سارے مونہوں کے لیے نوالوں کا انتظام تو ہو جائے گا جیسا کہ ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا عرف کے پی کے میں ہو چکا ہے جس کا ہمیں بھی علم نہیں تھا لیکن خدا غارت کرے ایک دانائے راز واقف اسرار اور اشنائے رموز کا جسے ہمارے دوست ہونے کا دعویٰ ہے اور کام ہے دوستی کے نام پر دشمنی کرنا ۔
ہوایوں کہ پتہ نہیں کیوں کیسے اور کس لیے ہوا لیکن یہ معلوم کہ کب ہوا؟
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم تو کتابیں لکھتے رہے، اپنی سہی کر کے چھاپتے رہے بلکہ ہمیں بہت پہلے ہی سے معلوم تھا کہ ان سرکاری ''تلوں'' تیل تو بہت ہوتا ہے لیکن ہر کوئی اسے نچوڑ نہیں سکتا ' خاص خاص ''تیلی'' ہی جی بھر کر تیل نچوڑتے ہیں ہم چونکہ ''تیلی'' نہیں تھے اس لیے کبھی ان ''سرکاری تلوں'' سے تیل کی امید نہیں رکھی نہ طباعت نہ ایوارڈ نہ کتابوں پر انعام وغیرہ کی کوئی توقع نہیں پالی'اپنا بوجھ خود اٹھاتے رہے۔
لیکن اب کے جو کتاب لکھی وہ کچھ زیادہ بھاری ہوگئی اور ہمارے لیے بھاری پتھر ثابت ہورہی تھی تب اس دوست نما دشمن نے بتایا کہ محکمہ ثقافت کے پاس کتابوں کی طباعت کا فنڈ موجود ہے اس سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔
سو ہم نے ''رجوع'' کرلیا یا یوں کہیے کہ اپنے لیے ایک مصیبت خود مول لی' جاتے رہے آتے رہے کہتے رہے سنتے رہے' فنڈ تو کیا ملتا کہ ہم غلط کوچے میں نکل گئے تھے البتہ دو سال کا عرصہ اور دو جوڑے جوتے خرچ ہو گئے۔ فنڈ آنے والا ہے، کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے، یہ الیکشن گزر جائے یہ ہو جائے وہ ہو جائے نیا سیکریٹری ڈائریکٹر آنے والا ہے۔
اور تو کچھ نہیں ہوا لیکن معلومات بڑی زبردست قسم کی حاصل ہوئیں جو ایک مناسب ضحامت کی کتاب کے لیے کافی ہیں ان معلومات میں بہت زیادہ تو ''ناگفتنی'' ہیں لیکن وہ ناگفتنی بھی اتنی ناگفتنی نہیں کہ سرکار کے تقریباً ہر محکمے اور ادارے میں عام ہے اور جس کا مختصر بیان صرف ایک شعر میں کیا جاسکتا ہے کہ
ہر شاخ پہ ''وہ'' بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا ؟
ہوتا یوں ہے کہ ہر سرکاری ادارے میں جب کسی پر شک ہو جاتا ہے کہ کام کا آدمی ہے تو اسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے کیونکہ کام کا آدمی ''ٹیڑھی لکڑی'' بھی ہوتا ہے جو کباب میں ہڈی داڑھ میں کنکر جوتے میں پتھر اور حلوے میں کانٹا بھی ثابت ہوتا ہے اس لیے صرف ان لوگوں کو ''شاخوں'' پر بٹھا دیا جاتا ہے جو کام کے تو نہیں ہوتے لیکن سب کچھ جاننے والے ہوتے ہیں اور یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اور پھر خاص طور پر سرکار سیاست میں ایسا ہوتا ہے کہ جو کام کے آدمی ہوتے ہیں لائق اور قابل ہوتے ہیں اپنے اندرکچھ صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ تھوڑے سے اکھڑ بھی ہوتے ہیںکسی کے آگے پیچھے ہونا' تیل لگانا' دم ہلانا اور ''یس سر'' کہنا ان کے مزاج میں نہیں ہوتا اور اپنے ''ٹیلنٹ'' پر نازاں ہوتے ہیں چنانچہ ایسے لوگ ناپسندیدہ کے کیٹگری میں رہتے ہیں اور جن کے اندر کچھ نہیں ہوتا اور جانتے بھی ہیں کہ ہمارے اندر کچھ بھی نہیں وہ اپنے خالی پن کو خوشامد اور چمچہ گیری کے نیچے چھپا لیتے ہیں اور پسندیدہ لسٹ میں شامل ہو کر رتبے پالیتے ہیں، ظاہر ہے کہ محکمہ ثقافت خیبرپختون خوا بھی اس آب و ہوا اور اس مٹی کی ضمیر پر مبنی ہے، اس لیے ہم نے دیکھا کہ جو لائق فائق کام کے لوگ ہیں ان کو کونے میں رکھا گیا تھا اور ہر شاخ پر ''وہ رہا'' بٹھایا ہوا تھا، ایسے میں ہم ''میرٹ'' کا رونا کسی سے روتے سو جاتے۔ آتے رہے کہتے رہے سنتے رہے۔ اور کتاب کا مسودہ کہیں کسی دراز میں سڑتا رہا ۔
ہم بھی کچھ زیادہ لمبی سانس نہیں رکھتے، بہت پہلے ہی تین حرف بھیج کر آچکے ہوتے لیکن کچھ ''اچھے لوگ'' بچارے روکتے رہے' تسلیاں دیتے رہے کہ کسی دن اس ''اون'' کا شال بن جائے گا لیکن وہ بچارے اپنے ٹیلنٹ کے مارے ہوئے بے اختیار لوگ تھے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پارہے تھے ۔
ایک دن غصہ ہوکر ہم نے اپنے اس دوست نما دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے ہمیں اس دلدل میں پھنسایا تھا، اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ذرا وہ کتاب تو مجھے دو کہ اس میں ایسی کیا بات ہے؟ کتاب اس نے دو تین دن میں پڑھی اور پھر گویا ہوا معاف کرنا میں تجھے یہ سمجھانا بھول گیا تھا کہ کتاب قطعی فضول بے مقصد اور بے کار ہونی چاہیے اور تم نے ایسی کتاب دی ہے جو کام کی ہے تو انجام تو یہی ہونا تھا۔
حرف آخر یہ کہ اب یہ جونئی حکومت آئی ہے، نئے وزیر نئے سیکریٹری وغیرہ تو ان سے گزارش ہے کہ محکمہ ثقافت کو بھی تھوڑا سا نیا کردیں جن شاخوں پر وہ بیٹھے ہیں ان کو اڑا دیں اور جو کام کے لوگ ''بے کار'' بنا کر رکھے گئے ہیں، ان کو کام کا بنا دیں۔
غالباً اس کا وزیر عاطف خان ہے جنھیں ہم جانتے تو نہیں لیکن سنا ہے ''کچھ کرنے'' کا مزاج رکھتے ہیں تو چلیے دیکھتے ہیں کیا کر دکھاتے ہیں ؟ کم از کم دو چار لوگ تو اس میں ایسے ہوں جو ثقافت کے معنی تو جانتے ہوں۔
لیکن ہمارا موضوع وہ ثقافت نہیں بلکہ وہ ہے جس کے لیے حکومت نے ایک محکمہ بنایا ہوا ہے، یہ تو معلوم نہیں کہ مرکز یا وفاق میں ایسا کوئی محکمہ ہے یا نہیں اگر نہیں ہے تو فوراً بنا لینا چاہیے کہ کم از کم ایک دو وزیر اور بہت سارے مونہوں کے لیے نوالوں کا انتظام تو ہو جائے گا جیسا کہ ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا عرف کے پی کے میں ہو چکا ہے جس کا ہمیں بھی علم نہیں تھا لیکن خدا غارت کرے ایک دانائے راز واقف اسرار اور اشنائے رموز کا جسے ہمارے دوست ہونے کا دعویٰ ہے اور کام ہے دوستی کے نام پر دشمنی کرنا ۔
ہوایوں کہ پتہ نہیں کیوں کیسے اور کس لیے ہوا لیکن یہ معلوم کہ کب ہوا؟
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم تو کتابیں لکھتے رہے، اپنی سہی کر کے چھاپتے رہے بلکہ ہمیں بہت پہلے ہی سے معلوم تھا کہ ان سرکاری ''تلوں'' تیل تو بہت ہوتا ہے لیکن ہر کوئی اسے نچوڑ نہیں سکتا ' خاص خاص ''تیلی'' ہی جی بھر کر تیل نچوڑتے ہیں ہم چونکہ ''تیلی'' نہیں تھے اس لیے کبھی ان ''سرکاری تلوں'' سے تیل کی امید نہیں رکھی نہ طباعت نہ ایوارڈ نہ کتابوں پر انعام وغیرہ کی کوئی توقع نہیں پالی'اپنا بوجھ خود اٹھاتے رہے۔
لیکن اب کے جو کتاب لکھی وہ کچھ زیادہ بھاری ہوگئی اور ہمارے لیے بھاری پتھر ثابت ہورہی تھی تب اس دوست نما دشمن نے بتایا کہ محکمہ ثقافت کے پاس کتابوں کی طباعت کا فنڈ موجود ہے اس سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔
سو ہم نے ''رجوع'' کرلیا یا یوں کہیے کہ اپنے لیے ایک مصیبت خود مول لی' جاتے رہے آتے رہے کہتے رہے سنتے رہے' فنڈ تو کیا ملتا کہ ہم غلط کوچے میں نکل گئے تھے البتہ دو سال کا عرصہ اور دو جوڑے جوتے خرچ ہو گئے۔ فنڈ آنے والا ہے، کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے، یہ الیکشن گزر جائے یہ ہو جائے وہ ہو جائے نیا سیکریٹری ڈائریکٹر آنے والا ہے۔
اور تو کچھ نہیں ہوا لیکن معلومات بڑی زبردست قسم کی حاصل ہوئیں جو ایک مناسب ضحامت کی کتاب کے لیے کافی ہیں ان معلومات میں بہت زیادہ تو ''ناگفتنی'' ہیں لیکن وہ ناگفتنی بھی اتنی ناگفتنی نہیں کہ سرکار کے تقریباً ہر محکمے اور ادارے میں عام ہے اور جس کا مختصر بیان صرف ایک شعر میں کیا جاسکتا ہے کہ
ہر شاخ پہ ''وہ'' بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا ؟
ہوتا یوں ہے کہ ہر سرکاری ادارے میں جب کسی پر شک ہو جاتا ہے کہ کام کا آدمی ہے تو اسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے کیونکہ کام کا آدمی ''ٹیڑھی لکڑی'' بھی ہوتا ہے جو کباب میں ہڈی داڑھ میں کنکر جوتے میں پتھر اور حلوے میں کانٹا بھی ثابت ہوتا ہے اس لیے صرف ان لوگوں کو ''شاخوں'' پر بٹھا دیا جاتا ہے جو کام کے تو نہیں ہوتے لیکن سب کچھ جاننے والے ہوتے ہیں اور یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اور پھر خاص طور پر سرکار سیاست میں ایسا ہوتا ہے کہ جو کام کے آدمی ہوتے ہیں لائق اور قابل ہوتے ہیں اپنے اندرکچھ صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ تھوڑے سے اکھڑ بھی ہوتے ہیںکسی کے آگے پیچھے ہونا' تیل لگانا' دم ہلانا اور ''یس سر'' کہنا ان کے مزاج میں نہیں ہوتا اور اپنے ''ٹیلنٹ'' پر نازاں ہوتے ہیں چنانچہ ایسے لوگ ناپسندیدہ کے کیٹگری میں رہتے ہیں اور جن کے اندر کچھ نہیں ہوتا اور جانتے بھی ہیں کہ ہمارے اندر کچھ بھی نہیں وہ اپنے خالی پن کو خوشامد اور چمچہ گیری کے نیچے چھپا لیتے ہیں اور پسندیدہ لسٹ میں شامل ہو کر رتبے پالیتے ہیں، ظاہر ہے کہ محکمہ ثقافت خیبرپختون خوا بھی اس آب و ہوا اور اس مٹی کی ضمیر پر مبنی ہے، اس لیے ہم نے دیکھا کہ جو لائق فائق کام کے لوگ ہیں ان کو کونے میں رکھا گیا تھا اور ہر شاخ پر ''وہ رہا'' بٹھایا ہوا تھا، ایسے میں ہم ''میرٹ'' کا رونا کسی سے روتے سو جاتے۔ آتے رہے کہتے رہے سنتے رہے۔ اور کتاب کا مسودہ کہیں کسی دراز میں سڑتا رہا ۔
ہم بھی کچھ زیادہ لمبی سانس نہیں رکھتے، بہت پہلے ہی تین حرف بھیج کر آچکے ہوتے لیکن کچھ ''اچھے لوگ'' بچارے روکتے رہے' تسلیاں دیتے رہے کہ کسی دن اس ''اون'' کا شال بن جائے گا لیکن وہ بچارے اپنے ٹیلنٹ کے مارے ہوئے بے اختیار لوگ تھے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پارہے تھے ۔
ایک دن غصہ ہوکر ہم نے اپنے اس دوست نما دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے ہمیں اس دلدل میں پھنسایا تھا، اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ذرا وہ کتاب تو مجھے دو کہ اس میں ایسی کیا بات ہے؟ کتاب اس نے دو تین دن میں پڑھی اور پھر گویا ہوا معاف کرنا میں تجھے یہ سمجھانا بھول گیا تھا کہ کتاب قطعی فضول بے مقصد اور بے کار ہونی چاہیے اور تم نے ایسی کتاب دی ہے جو کام کی ہے تو انجام تو یہی ہونا تھا۔
حرف آخر یہ کہ اب یہ جونئی حکومت آئی ہے، نئے وزیر نئے سیکریٹری وغیرہ تو ان سے گزارش ہے کہ محکمہ ثقافت کو بھی تھوڑا سا نیا کردیں جن شاخوں پر وہ بیٹھے ہیں ان کو اڑا دیں اور جو کام کے لوگ ''بے کار'' بنا کر رکھے گئے ہیں، ان کو کام کا بنا دیں۔
غالباً اس کا وزیر عاطف خان ہے جنھیں ہم جانتے تو نہیں لیکن سنا ہے ''کچھ کرنے'' کا مزاج رکھتے ہیں تو چلیے دیکھتے ہیں کیا کر دکھاتے ہیں ؟ کم از کم دو چار لوگ تو اس میں ایسے ہوں جو ثقافت کے معنی تو جانتے ہوں۔