فلمی دنیا کے فضلی برادران 1
فلم دوپٹہ کی لازوال کامیابی نے لاہور کی فلم انڈسٹری کے قدم بھی بڑے مضبوط کیے تھے۔
ISLAMABAD:
برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں بہت سے ایسے مسلم برادران منظر عام پر آئے تھے جن کا فن اور جن کی بے پناہ صلاحیتیں ان کی شخصیت کو سنوارنے کا باعث بنیں پھر وہ شخصیات بام عروج کو پہنچیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں ان برادران نے بڑا نام کمایا، جیسے کہ فن پہلوانی میں بھولو برادران، فن سارنگی نوازی میں بندو خان برادران، فن قوالی میں صابری برادران، کرکٹ کے کھیل میں حنیف برادران، اسکواش میں خان برادران، ادب میں قاسمی برادران، اداکاری میں سنتوش کمار برادران، کلاسیکی گائیکی میں نزاکت سلامت برادران، غزل کی گائیکی میں اسد امانت برادران، فلمی موسیقی میں طافو برادران، فلمی شاعری میں فاضلی برادران اور فلم سازی و ہدایت کاری میں فضلی برادران جنھوں نے فلم انڈسٹری میں چاہے وہ انڈیا کی ہو یا پاکستان کی بڑا نام کمایا اور فلم انڈسٹری میں ایک تاریخ رقم کی۔
آج میرے کالم کی شخصیت فضلی برادران ہیں پہلے میں سبطین فضلی اور حسنین فضلی کی شخصیت پر روشنی ڈالوں گا یہ فضلی برادران غیر منقسم ہندوستان اور پھر پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک روشن باب رہے ہیں، فضلی برادران الٰہ آباد کے علاقے اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد کا نام سید فضل رب تھا اور یہ خان بہادر کہلاتے تھے اور یہ شعر و ادب کے بھی بڑے شیدائی تھے ۔سبطین فضلی اور حسنین فضلی جب شعور کی عمر کو پہنچے تو انھیں بھی شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوتی گئی دونوں بھائی اپنے والد کے نام فضل کی مناسبت فضلی ہوتے چلے گئے اور پھر دونوں بھائیوں کے ساتھ فضلی ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ دونوں بھائیوں میں فنون لطیفہ میں کچھ کر دکھانے کے جذبے نے جنم لیا اور پھر یہ اعظم گڑھ سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر کلکتہ کی فلم انڈسٹری کی طرف نکل گئے۔
ان دنوں کلکتہ اور بمبئی دونوں فلم انڈسٹری کا مرکز تھے، دونوں بھائی انتہائی ذہین اور بڑے محنتی تھے دیکھتے ہی دیکھتے کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی چھاپ قائم کرتے چلے گئے۔ فضلی برادران کے نام سے فلمسازی اور ہدایت کاری کے میدان میں اترے اور پہلے کلکتہ کی فلم انڈسٹری اور پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں فضلی برادران کے نام کے ڈنکے بجنے لگے دونوں بھائیوں نے مل کر مسلم سوشل فلموں میں اپنی شخصیت منوائی اور فضلی برادران کے بینر پر بہت سی فلمیں پروڈیوس کیں جنھیں کامیابی نصیب ہوئی اور سارے ہندوستان میں ان کی مسلم سوشل فلموں نے ایک دھوم مچا دی تھی۔
1940ء سے لے کر 1950ء تک ان کی فلمیں مقبولیت حاصل کرتی رہیں اس دوران کی بنائی ہوئی فلموں میں معصوم، مہندی، قیدی، شمع، دل، دنیا اور عصمت نے فلم بینوں کے دلوں پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، ہندوستان اور پاکستان دو ملکوں میں بٹ گئے تو ہندوستان میں مسلم سوشل فلموں کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں اور مسلمان فنکاروں کو تعصب کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ یہ صورت بمبئی فلم انڈسٹری کے مسلمان فنکاروں کے لیے ناقابل برداشت تھی اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان سے بڑے نامی گرامی، آرٹسٹوں، شاعروں، موسیقاروں کے ساتھ ساتھ فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنی زندگی اور مستقبل کے تحفظ کی خاطر ہندوستان کو خیرباد کہہ کر پاکستان چلے جائیں پھر بہت سے اور مسلم فنکاروں کی ہجرت کے بعد فضلی برادران بھی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔
فضلی برادران نے لاہور میں سکونت اختیار کی،بمبئی کی شہرت لاہور کی فلم انڈسٹری میں بڑی کام آئی اور یہاں کی فلم انڈسٹری نے فضلی برادران کی راہوں میں آنکھیں بچھا دی تھیں جب کہ لاہور فلم انڈسٹری کو فضلی برادران جیسے منجھے ہوئے فلم ساز و ہدایت کاروں کی اشد ضرورت بھی تھی۔ فضلی برادران 1952ء میں اپنی فلمی سرگرمیوں کے ساتھ پھر سے متحرک ہوگئے تھے۔ ہدایت کار سبطین فضلی نے شریک فلمساز اسلم لودھی کے ساتھ فلم ''دوپٹہ'' کا آغاز کیا۔ اس دور کے نامور رائٹر حکیم احمد شجاع سے فلم دوپٹہ کا اسکرپٹ لکھوایا۔ فلم کی ہیروئن عظیم گلوکارہ و اداکارہ نور جہاں تھی اور فلم کے مرکزی کرداروں میں اجے کمار، سدھیر، یاسمین، زرینہ، غلام محمد اور آزاد تھے۔
دوپٹہ کے گیت نگار مشیر کاظمی اور موسیقار فیروز نظامی تھے یہ وہی فیروز نظامی تھے جنھوں نے 1947ء میں بنائی گئی فلم جگنو کی موسیقی دی تھی، جس میں نور جہاں اور دلیپ کمار مرکزی کرداروں میں تھے۔ فلم ''جگنو'' میں نور جہاں کی آواز کے حسن اور فیروز نظامی کی دل کش موسیقی تنویر نقوی کے خوبصورت گیتوں نے فلم ''جگنو'' کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ فلم ''دوپٹہ'' میں فیروز نظامی کا ساتھ شاعر مشیر کاظمی دے رہے تھے اور یہ فلم مشیرکاظمی کے لیے بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتی تھی۔ مشیر کاظمی نے پھر فلم کے جتنے بھی گیت لکھے وہ اپنی مثال آپ اور لاجواب تھے۔ فلم کا ہر گیت فلم بینوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا تھا اور چند گیت تو ایسے تھے کہ اگر آج بھی سنو تو وہ دل کو چھو لیتے ہیں جیسے کہ مندرجہ ذیل گیت:
چاندنی راتیں' او چاندنی راتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں
تاروں سے کریں باتیں' چاندنی راتیں
تکتے تکتے ٹوٹی جائے آس پیا نہ آئے
......
تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے
آنکھوں میں انتظارکی دنیا بسا گئے
......
باتوں ہی بات میں چاندنی رات میں
جیا میرا کھو گیا ہائے کسی کا ہو گیا
......
جگر کی آگ سے اس دل کو جلتا دیکھتے جاؤ
مٹی جاتی ہے ارمانوں کی دنیا دیکھتے جاؤ
......
میں بن پتنگ اڑ جاؤں گی
ہوا کے سنگ لہراؤں گی لہراؤں گی
فلم دوپٹہ کی لازوال کامیابی نے لاہور کی فلم انڈسٹری کے قدم بھی بڑے مضبوط کیے تھے پھر اداکار سدھیر نے سبطین فاضلی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا اور فلم ''آنکھ کا نشہ'' کا آغاز کیا۔ آنکھ کا نشہ کی کہانی آغا حشر کاشمیری کی تھی جس کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے، اس بار ہدایت کار سبطین فضلی نے موسیقار بدل دیا تھا، اس فلم کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے جب کہ گیت نگاروں میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیار پوری تھے اپنے دور کی یہ بھی ایک اچھی فلم تھی اور اس کے بھی چند گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر گلوکارہ اقبال بانو کے گائے ہوئے ان گیتوں کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی:
اک پل بھی نہیں آرام یہاں
دکھ درد کے لاکھ بہانے ہیں
ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں نیم کلاسیکل انداز میں ترتیب دیے گئے اس گیت کو بھی بڑا پسند کیا گیا تھا۔ ''آنکھ کا نشہ'' کے بعد فضلی برادران نے اپنی ذاتی فلم ''دو تصویریں'' بنائی مگرکمزور کہانی اس فلم کو لے ڈوبی جس کی وجہ سے فضلی برادران بھی بڑے دل برداشتہ ہوئے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ اردو فلموں کو ناکامی کے دور سے دوچار ہونا پڑا تھا اور آہستہ آہستہ پنجابی فلموں نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا، ہیر رانجھا، ماہی منڈا، یکے والی اور دلا بھٹی جیسی کامیاب فلموں نے اردو فلموں کو اپنے سامنے ٹکنے ہی نہیں دیا۔ فضلی برادران بھی پنجابی فلموں کی یلغارکی وجہ سے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے گئے اور پھر یوں ہوا کہ وہ گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے پھر کافی عرصے کے بعد کراچی سے ایک اور فضلی برادر، فضل احمد کریم فضلی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ فضلی احمد کریم فضلی، سبطین فضلی اور حسنین فضلی کے چھوٹے بھائی تھے انھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے جب بی۔اے کی ڈگری لی تو ان کے والد نے ان کو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے انگلینڈ بھیج دیا تھا جب یہ انگلینڈ سے تعلیم حاصل کرکے واپس انڈیا آئے تو وہاں پھر آئی۔سی۔ایس کا امتحان پاس کیا اور پھر بنگال میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور ایک طویل عرصے تک بنگال ہی میں قیام کیا اور جب پاکستان وجود میں آیا تو فضل احمد کریم فضلی مشرقی پاکستان کی حکومت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ (جاری ہے)
برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں بہت سے ایسے مسلم برادران منظر عام پر آئے تھے جن کا فن اور جن کی بے پناہ صلاحیتیں ان کی شخصیت کو سنوارنے کا باعث بنیں پھر وہ شخصیات بام عروج کو پہنچیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں ان برادران نے بڑا نام کمایا، جیسے کہ فن پہلوانی میں بھولو برادران، فن سارنگی نوازی میں بندو خان برادران، فن قوالی میں صابری برادران، کرکٹ کے کھیل میں حنیف برادران، اسکواش میں خان برادران، ادب میں قاسمی برادران، اداکاری میں سنتوش کمار برادران، کلاسیکی گائیکی میں نزاکت سلامت برادران، غزل کی گائیکی میں اسد امانت برادران، فلمی موسیقی میں طافو برادران، فلمی شاعری میں فاضلی برادران اور فلم سازی و ہدایت کاری میں فضلی برادران جنھوں نے فلم انڈسٹری میں چاہے وہ انڈیا کی ہو یا پاکستان کی بڑا نام کمایا اور فلم انڈسٹری میں ایک تاریخ رقم کی۔
آج میرے کالم کی شخصیت فضلی برادران ہیں پہلے میں سبطین فضلی اور حسنین فضلی کی شخصیت پر روشنی ڈالوں گا یہ فضلی برادران غیر منقسم ہندوستان اور پھر پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک روشن باب رہے ہیں، فضلی برادران الٰہ آباد کے علاقے اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد کا نام سید فضل رب تھا اور یہ خان بہادر کہلاتے تھے اور یہ شعر و ادب کے بھی بڑے شیدائی تھے ۔سبطین فضلی اور حسنین فضلی جب شعور کی عمر کو پہنچے تو انھیں بھی شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوتی گئی دونوں بھائی اپنے والد کے نام فضل کی مناسبت فضلی ہوتے چلے گئے اور پھر دونوں بھائیوں کے ساتھ فضلی ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ دونوں بھائیوں میں فنون لطیفہ میں کچھ کر دکھانے کے جذبے نے جنم لیا اور پھر یہ اعظم گڑھ سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر کلکتہ کی فلم انڈسٹری کی طرف نکل گئے۔
ان دنوں کلکتہ اور بمبئی دونوں فلم انڈسٹری کا مرکز تھے، دونوں بھائی انتہائی ذہین اور بڑے محنتی تھے دیکھتے ہی دیکھتے کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی چھاپ قائم کرتے چلے گئے۔ فضلی برادران کے نام سے فلمسازی اور ہدایت کاری کے میدان میں اترے اور پہلے کلکتہ کی فلم انڈسٹری اور پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں فضلی برادران کے نام کے ڈنکے بجنے لگے دونوں بھائیوں نے مل کر مسلم سوشل فلموں میں اپنی شخصیت منوائی اور فضلی برادران کے بینر پر بہت سی فلمیں پروڈیوس کیں جنھیں کامیابی نصیب ہوئی اور سارے ہندوستان میں ان کی مسلم سوشل فلموں نے ایک دھوم مچا دی تھی۔
1940ء سے لے کر 1950ء تک ان کی فلمیں مقبولیت حاصل کرتی رہیں اس دوران کی بنائی ہوئی فلموں میں معصوم، مہندی، قیدی، شمع، دل، دنیا اور عصمت نے فلم بینوں کے دلوں پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، ہندوستان اور پاکستان دو ملکوں میں بٹ گئے تو ہندوستان میں مسلم سوشل فلموں کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں اور مسلمان فنکاروں کو تعصب کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ یہ صورت بمبئی فلم انڈسٹری کے مسلمان فنکاروں کے لیے ناقابل برداشت تھی اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان سے بڑے نامی گرامی، آرٹسٹوں، شاعروں، موسیقاروں کے ساتھ ساتھ فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنی زندگی اور مستقبل کے تحفظ کی خاطر ہندوستان کو خیرباد کہہ کر پاکستان چلے جائیں پھر بہت سے اور مسلم فنکاروں کی ہجرت کے بعد فضلی برادران بھی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔
فضلی برادران نے لاہور میں سکونت اختیار کی،بمبئی کی شہرت لاہور کی فلم انڈسٹری میں بڑی کام آئی اور یہاں کی فلم انڈسٹری نے فضلی برادران کی راہوں میں آنکھیں بچھا دی تھیں جب کہ لاہور فلم انڈسٹری کو فضلی برادران جیسے منجھے ہوئے فلم ساز و ہدایت کاروں کی اشد ضرورت بھی تھی۔ فضلی برادران 1952ء میں اپنی فلمی سرگرمیوں کے ساتھ پھر سے متحرک ہوگئے تھے۔ ہدایت کار سبطین فضلی نے شریک فلمساز اسلم لودھی کے ساتھ فلم ''دوپٹہ'' کا آغاز کیا۔ اس دور کے نامور رائٹر حکیم احمد شجاع سے فلم دوپٹہ کا اسکرپٹ لکھوایا۔ فلم کی ہیروئن عظیم گلوکارہ و اداکارہ نور جہاں تھی اور فلم کے مرکزی کرداروں میں اجے کمار، سدھیر، یاسمین، زرینہ، غلام محمد اور آزاد تھے۔
دوپٹہ کے گیت نگار مشیر کاظمی اور موسیقار فیروز نظامی تھے یہ وہی فیروز نظامی تھے جنھوں نے 1947ء میں بنائی گئی فلم جگنو کی موسیقی دی تھی، جس میں نور جہاں اور دلیپ کمار مرکزی کرداروں میں تھے۔ فلم ''جگنو'' میں نور جہاں کی آواز کے حسن اور فیروز نظامی کی دل کش موسیقی تنویر نقوی کے خوبصورت گیتوں نے فلم ''جگنو'' کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ فلم ''دوپٹہ'' میں فیروز نظامی کا ساتھ شاعر مشیر کاظمی دے رہے تھے اور یہ فلم مشیرکاظمی کے لیے بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتی تھی۔ مشیر کاظمی نے پھر فلم کے جتنے بھی گیت لکھے وہ اپنی مثال آپ اور لاجواب تھے۔ فلم کا ہر گیت فلم بینوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا تھا اور چند گیت تو ایسے تھے کہ اگر آج بھی سنو تو وہ دل کو چھو لیتے ہیں جیسے کہ مندرجہ ذیل گیت:
چاندنی راتیں' او چاندنی راتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں
تاروں سے کریں باتیں' چاندنی راتیں
تکتے تکتے ٹوٹی جائے آس پیا نہ آئے
......
تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے
آنکھوں میں انتظارکی دنیا بسا گئے
......
باتوں ہی بات میں چاندنی رات میں
جیا میرا کھو گیا ہائے کسی کا ہو گیا
......
جگر کی آگ سے اس دل کو جلتا دیکھتے جاؤ
مٹی جاتی ہے ارمانوں کی دنیا دیکھتے جاؤ
......
میں بن پتنگ اڑ جاؤں گی
ہوا کے سنگ لہراؤں گی لہراؤں گی
فلم دوپٹہ کی لازوال کامیابی نے لاہور کی فلم انڈسٹری کے قدم بھی بڑے مضبوط کیے تھے پھر اداکار سدھیر نے سبطین فاضلی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا اور فلم ''آنکھ کا نشہ'' کا آغاز کیا۔ آنکھ کا نشہ کی کہانی آغا حشر کاشمیری کی تھی جس کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے، اس بار ہدایت کار سبطین فضلی نے موسیقار بدل دیا تھا، اس فلم کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے جب کہ گیت نگاروں میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیار پوری تھے اپنے دور کی یہ بھی ایک اچھی فلم تھی اور اس کے بھی چند گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر گلوکارہ اقبال بانو کے گائے ہوئے ان گیتوں کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی:
اک پل بھی نہیں آرام یہاں
دکھ درد کے لاکھ بہانے ہیں
ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں نیم کلاسیکل انداز میں ترتیب دیے گئے اس گیت کو بھی بڑا پسند کیا گیا تھا۔ ''آنکھ کا نشہ'' کے بعد فضلی برادران نے اپنی ذاتی فلم ''دو تصویریں'' بنائی مگرکمزور کہانی اس فلم کو لے ڈوبی جس کی وجہ سے فضلی برادران بھی بڑے دل برداشتہ ہوئے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ اردو فلموں کو ناکامی کے دور سے دوچار ہونا پڑا تھا اور آہستہ آہستہ پنجابی فلموں نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا، ہیر رانجھا، ماہی منڈا، یکے والی اور دلا بھٹی جیسی کامیاب فلموں نے اردو فلموں کو اپنے سامنے ٹکنے ہی نہیں دیا۔ فضلی برادران بھی پنجابی فلموں کی یلغارکی وجہ سے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے گئے اور پھر یوں ہوا کہ وہ گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے پھر کافی عرصے کے بعد کراچی سے ایک اور فضلی برادر، فضل احمد کریم فضلی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ فضلی احمد کریم فضلی، سبطین فضلی اور حسنین فضلی کے چھوٹے بھائی تھے انھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے جب بی۔اے کی ڈگری لی تو ان کے والد نے ان کو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے انگلینڈ بھیج دیا تھا جب یہ انگلینڈ سے تعلیم حاصل کرکے واپس انڈیا آئے تو وہاں پھر آئی۔سی۔ایس کا امتحان پاس کیا اور پھر بنگال میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور ایک طویل عرصے تک بنگال ہی میں قیام کیا اور جب پاکستان وجود میں آیا تو فضل احمد کریم فضلی مشرقی پاکستان کی حکومت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ (جاری ہے)