ابھی تو چار دن بھی نہ گزرے تھے
آج بات کچھ بگڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، پوری وفاقی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس حکومت کا ہنی مون پیرڈ ابھی جاری ہے مگر مشکلیں کچھ پہلے کی اور کچھ بعد کی سامنے آن پڑی ہیں۔ جو مشکلات پہلے سے موجود تھیں ان کا ذکر ہم بعد میں کرتے ہیں مگر جو مشکلات ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں اس پر تبصرہ ہم پہلے کر لیتے ہیں۔سیاست ایک بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے اس میں اگر کنکر پھینکیں گے تو بات کچھ استاد بڑے غلام علی کی ٹھمری کی طرح سامنے آئے گی کہ۔
''کنکر مارے جگا گیر رہے جمنا کے چوراہے رے ہائے رام ''
یہ جو جمنا کا چوراہا ہے وہ کھلی بات ہے جو سب پے عیاں ہے، ورنہ ہم تو سوئے ہوئے تھے۔ اب جب جاگے تو پھر جاگ گئے اور ایسا رونا رویا کہ نہ رہی رات کی خبر نہ دن کی تعریف ۔ کہ پھر میرؔ تقی میر اس رونے کو کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ
جو اس شورسے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کا سوتا رہے گا
ابھی تو خان صاحب خود اس گردش میں ہیں کہ آیا وہ جیتے ہیں یا جتوائے گئے ہیں اور جس مینڈیٹ پر وہ کام کرنے لگے ہیں وہ مینڈیٹ ان کا ہے بھی یا نہیں۔الجبرا کے سینس اور اصطلاح میں وہ اسی صف میں کھڑے ہیں کہ جہاں جو مینڈیٹ خود ان کے پاس تھا وہ اب ہے بھی کہ نہیں ۔یہ معاملے بہت پیچیدہ ہیں۔ نہ گورنر ہاؤس کے سیر سپاٹوں سے سلجھ سکتے ہیں نہ وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے، یہ اور بات ہے کہ ''دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے '' مگر یہاں معاملہ دل کو خوش رکھنے کا نہیں۔ اب اس چکرمیںبھی نہیں پڑنا چاہیے کہ مقبولیت وہ رہے گی یا نہیں۔
خان صاحب یہ کیسے کہتے ہیں کہ یہ نیا پاکستان ہے۔ یہ جناح کا پاکستان ہے یا ضیاء الحق کا پاکستان ہے ابھی تک ایسی صف بندی نظر نہیں آئی ۔ ان کے دور حکومت میں میاں عاطف کو شامل کرو تو لگتا ہے جناح کا پاکستان اور اگر نہ کرو تو لگتا ہے کہ ضیاء الحق کا پاکستان ۔ یہ کیسی صف بندی ہے جس کو خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ مفروضہ ہے کہ سول ملٹری ریلشنز اور ہم سب ایک پیج پر ہیں ۔
زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب کا انداز حکمرانی بادشاہت اور اقرباء پروی پر مبنی تھا ایک خلاء بنا تھا، نئے طرز حکمرانی کے لیے مگر آج بھی افسر شاہی وہ ہی ہے جو پہلے تھی ۔کوئی پوچھے تو سہی کہ افسران کی تعیناتی کا معیار کیا ہے ۔اس معیار میں کس قدر transparency پائی جاتی ہے۔
اقرباء پروی کا وہ عالم ہے جس کی کوئی مثال نہیں اور یہی سب ہے جس سے بیانیہ ترتیب پاتے ہیں۔ کسی کو غدار اورکسی کو محب وطن کا خطاب دیا جاتا ہے۔ کوئی کافر تو کوئی مومن قرار پاتا ہے۔ حکمران حکمرانی کر نہیں پارہے اور عوام کو خوش فہمیوں میں رکھا جارہا ہے ۔ گورنر ہاؤس کے سیر سپاٹے اور چندے سے ڈیم بنانے کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ یہ سب مفروضے ہیں ۔ آپ سے پہلے بھی یہی کاروبار کیا جارہا تھا اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہونے جارہا ہے ۔ اگر کچھ نئے ہونے کا احساس چلا گیا تو آپ بھی اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے اور ایسا ہی کچھ تیزی سے ہورہا ہے۔
یہ منی بجٹ ایک چھوٹی سی بات ہے ، گیس کے نرخ بڑھانا ، ترقیاتی بجٹ کم کرنا ، مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے اور آمدنی کے لیے نئے نئے ٹیکسز لگانا یا پھر پرانے ٹیکسز کی شرح بڑھانا، افراط زر کو بڑھانا ہوگا جسکا اثر براہ راست غریبوں پر پڑیگا تو کیا آپ نے بھی وہی جو پچھلی حکومتیں کرتی تھیں۔ progressive taxes کی بات تو آپ نے کی مگر لگائے و ہ ہی regressive taxes۔لوگ چیخ پڑے۔
کوئی فوری ضرورت درکار نہ تھی اگر آپ قوم سے ڈیم بنانے اور اس کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کی بات نہ کرتے، افغانی اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات نہ کرتے ۔ آپ کی حکومت کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ ان الجھنوں کا شکار ہوگئے اور دوسری طرف چیف جسٹس کا اسٹیٹمنٹ کہ کالاباغ ڈیم ضرور بنے گا اور ڈیم کی تعمیر کے خلاف بولنے والوں پر آرٹیکل چھ کا اطلاق بھی کیا جائے گا۔
یہ کیسا جوڈیشل ایکٹوازم ہے اور آپ بھی اس میں شامل ہوگئے۔کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آپ نے جس طرح economic advisory council بنائی تھی اور اسی طرح آپ water advisory council بھی بناتے اور پھر یہ معاملہ consultation policy کا تھا جو جامع انداز میں بننا چاہیے۔ مگر یہ سب کام جلد بازی کے نہیں ان کے لیے ایک واضع اور جامع پالیسی ترتیب دینا ہوگی ۔
آج بات کچھ بگڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، پوری وفاقی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 1991ء میں ارسا (water accord 1991) کی صورت میں ہمارے پاس پانی کا ایک معاہدہ موجود ہے جس کے اندر سمندر میں پانی کے اخراج کے لیے ایک مقررہ حد لیے پانی کم ہونے اور زیادہ ہونے کی صورت میں بٹوارے کے طریقے پر مفاہمت ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اس پر تکراری ہیں۔ Indus delta کی بد نصیبی یہ ہے کہ وہ بالکل آخر میں ہے اور اس کا سندھ کی زراعت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس کا سمندر کے اندر داخل ہونا سمندر کے قریب زمینوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ہم اس بات کو سننے سے بھی قاصر ہیں اور دنیا بھر میں سمندری طوفان آرہے ہیں۔ خدا نہ کرے ہم بھی ان طوفانوں کی زد میں آئیں اگر یہ صورتحال پیدا ہوئی تو چیزیں تبھی سامنے آئیں گی ۔
کیا ہم ریاست مدینہ بنا سکتے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن ہے نہیں ! نہ ایسے پارسا لوگ ہیں اور نہ ہی قیادت ۔اس وقت دنیا میں ایسی کوئی ریاست نہیں جسکی مثال ہم ریاست مدینہ جیسی بول اور دیں سکیں یا تھوڑا سا بھی قریب پائیں۔نہ ہی ریاست مدینہ میں لوگوں کے ایکڑوں پھیلے ہوئے گھر تھے ، نہ پراڈو تھی نہ لینڈ کروزر تھی ۔ ایسی باتیں کر کے ہم صرف لوگوں کا دل بہلا سکتے ہیں ایک ایسے وقت میں جب بہت بڑے طوفاں ہماری دہلیز پر کھڑے ہیں۔پاس دمڑی نہیں۔ مونجھو نالو فتح خان۔(پیسہ ہے نہیں باتیں کھربوں کی)
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت Balance of payment کا ہے، بجٹ کا خسارہ ، آمدنی میں اضافہ ،ہماری معیشت تین فیصد شرح نمو سے آگے نہیں جارہی۔ جس میں روزگار کے مواقعے پیدا نہیں ہوسکتے ۔ ڈار صاحب اس معیشت کو 5.3 فیصد تک لے کر تو آئے مگر قرضہ کتنا لیا یہ معلوم نہیں ۔ وہ ہمارے امپورٹ بڑھا کر چلے مگر ایکسپورٹس میں خسارہ بے بہا۔اور پھر کرپشن جس کی وجہ سے جو قرضے ہم نے لیے صحیح استعمال نہ کرسکے ۔
قرضہ بڑھ سکتا ہے مگر قرضے سے جو سرمایہ کاری ہوئی وہ کھوکھلی تھی اس سے آمدنی کے ذرایع نہ بن سکے ۔ دنیا میں اس وقت جو کنسٹرکشن کے پروجیکٹ ہورہے ہیں ، اگر آپ نے باہر کی کسی کمپنی سے کانٹریکٹ کیا ہو تویقین جانیے کہ وہ over invoiced ہو گا۔ یہ بات بھی یقینی ہوگی کہ اس میں بہت بڑا کمیشن ہوگا جو کمپنیاں وہاں کی اشرافیہ کو دیتی ہوں گی اور اگر آپ نے ایسا پروجیکٹ قرضہ لے کر شروع کیا ہے تو یقینأ اشرافیہ ارب پتی ، ان کی جائیداد باہر اور ملک مقروض ہوگا۔
یہ بڑے سنجیدہ اور حوصلے کے کام ہیں جس کے لیے اگر ہمunpopular ہوتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔اس ملک کے ایک ناکام وزیراعظم بھی تھے محمد خان جونیجو جو پاکستان کے ایک بدترین ڈکٹیٹر کے ساتھی بھی تھے مگر چونکہ ان کی نیت صاف اور سچی تھی تو آج کی وہ خوشبو کی مانند کچھ اس طرح یاد آتے ہیں جس طرح غالب کہتے ہیں
''سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں''
یہ وقت سنجیدگی کا ہے ، جلد بازی میں چوکے اور چھکے لگانے کا نہیں۔ یہ حقیقی دنیا ہے ، یہاں ہمیں حقیقی چیلینجز کا سامنا ہے ۔ سب کو آن بورڈ لینا ہوگا ۔ سب کی سننی ہوگی ۔ جتنے خطرے ہمیں اندر سے ہیں، اتنے ہی باہر سے بھی ۔ سب کا مقابلہ مل کر اور ڈٹ کر کرنا ہوگا۔
''کنکر مارے جگا گیر رہے جمنا کے چوراہے رے ہائے رام ''
یہ جو جمنا کا چوراہا ہے وہ کھلی بات ہے جو سب پے عیاں ہے، ورنہ ہم تو سوئے ہوئے تھے۔ اب جب جاگے تو پھر جاگ گئے اور ایسا رونا رویا کہ نہ رہی رات کی خبر نہ دن کی تعریف ۔ کہ پھر میرؔ تقی میر اس رونے کو کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ
جو اس شورسے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کا سوتا رہے گا
ابھی تو خان صاحب خود اس گردش میں ہیں کہ آیا وہ جیتے ہیں یا جتوائے گئے ہیں اور جس مینڈیٹ پر وہ کام کرنے لگے ہیں وہ مینڈیٹ ان کا ہے بھی یا نہیں۔الجبرا کے سینس اور اصطلاح میں وہ اسی صف میں کھڑے ہیں کہ جہاں جو مینڈیٹ خود ان کے پاس تھا وہ اب ہے بھی کہ نہیں ۔یہ معاملے بہت پیچیدہ ہیں۔ نہ گورنر ہاؤس کے سیر سپاٹوں سے سلجھ سکتے ہیں نہ وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے، یہ اور بات ہے کہ ''دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے '' مگر یہاں معاملہ دل کو خوش رکھنے کا نہیں۔ اب اس چکرمیںبھی نہیں پڑنا چاہیے کہ مقبولیت وہ رہے گی یا نہیں۔
خان صاحب یہ کیسے کہتے ہیں کہ یہ نیا پاکستان ہے۔ یہ جناح کا پاکستان ہے یا ضیاء الحق کا پاکستان ہے ابھی تک ایسی صف بندی نظر نہیں آئی ۔ ان کے دور حکومت میں میاں عاطف کو شامل کرو تو لگتا ہے جناح کا پاکستان اور اگر نہ کرو تو لگتا ہے کہ ضیاء الحق کا پاکستان ۔ یہ کیسی صف بندی ہے جس کو خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ مفروضہ ہے کہ سول ملٹری ریلشنز اور ہم سب ایک پیج پر ہیں ۔
زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب کا انداز حکمرانی بادشاہت اور اقرباء پروی پر مبنی تھا ایک خلاء بنا تھا، نئے طرز حکمرانی کے لیے مگر آج بھی افسر شاہی وہ ہی ہے جو پہلے تھی ۔کوئی پوچھے تو سہی کہ افسران کی تعیناتی کا معیار کیا ہے ۔اس معیار میں کس قدر transparency پائی جاتی ہے۔
اقرباء پروی کا وہ عالم ہے جس کی کوئی مثال نہیں اور یہی سب ہے جس سے بیانیہ ترتیب پاتے ہیں۔ کسی کو غدار اورکسی کو محب وطن کا خطاب دیا جاتا ہے۔ کوئی کافر تو کوئی مومن قرار پاتا ہے۔ حکمران حکمرانی کر نہیں پارہے اور عوام کو خوش فہمیوں میں رکھا جارہا ہے ۔ گورنر ہاؤس کے سیر سپاٹے اور چندے سے ڈیم بنانے کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ یہ سب مفروضے ہیں ۔ آپ سے پہلے بھی یہی کاروبار کیا جارہا تھا اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہونے جارہا ہے ۔ اگر کچھ نئے ہونے کا احساس چلا گیا تو آپ بھی اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے اور ایسا ہی کچھ تیزی سے ہورہا ہے۔
یہ منی بجٹ ایک چھوٹی سی بات ہے ، گیس کے نرخ بڑھانا ، ترقیاتی بجٹ کم کرنا ، مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے اور آمدنی کے لیے نئے نئے ٹیکسز لگانا یا پھر پرانے ٹیکسز کی شرح بڑھانا، افراط زر کو بڑھانا ہوگا جسکا اثر براہ راست غریبوں پر پڑیگا تو کیا آپ نے بھی وہی جو پچھلی حکومتیں کرتی تھیں۔ progressive taxes کی بات تو آپ نے کی مگر لگائے و ہ ہی regressive taxes۔لوگ چیخ پڑے۔
کوئی فوری ضرورت درکار نہ تھی اگر آپ قوم سے ڈیم بنانے اور اس کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کی بات نہ کرتے، افغانی اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات نہ کرتے ۔ آپ کی حکومت کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ ان الجھنوں کا شکار ہوگئے اور دوسری طرف چیف جسٹس کا اسٹیٹمنٹ کہ کالاباغ ڈیم ضرور بنے گا اور ڈیم کی تعمیر کے خلاف بولنے والوں پر آرٹیکل چھ کا اطلاق بھی کیا جائے گا۔
یہ کیسا جوڈیشل ایکٹوازم ہے اور آپ بھی اس میں شامل ہوگئے۔کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آپ نے جس طرح economic advisory council بنائی تھی اور اسی طرح آپ water advisory council بھی بناتے اور پھر یہ معاملہ consultation policy کا تھا جو جامع انداز میں بننا چاہیے۔ مگر یہ سب کام جلد بازی کے نہیں ان کے لیے ایک واضع اور جامع پالیسی ترتیب دینا ہوگی ۔
آج بات کچھ بگڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، پوری وفاقی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 1991ء میں ارسا (water accord 1991) کی صورت میں ہمارے پاس پانی کا ایک معاہدہ موجود ہے جس کے اندر سمندر میں پانی کے اخراج کے لیے ایک مقررہ حد لیے پانی کم ہونے اور زیادہ ہونے کی صورت میں بٹوارے کے طریقے پر مفاہمت ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اس پر تکراری ہیں۔ Indus delta کی بد نصیبی یہ ہے کہ وہ بالکل آخر میں ہے اور اس کا سندھ کی زراعت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس کا سمندر کے اندر داخل ہونا سمندر کے قریب زمینوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ہم اس بات کو سننے سے بھی قاصر ہیں اور دنیا بھر میں سمندری طوفان آرہے ہیں۔ خدا نہ کرے ہم بھی ان طوفانوں کی زد میں آئیں اگر یہ صورتحال پیدا ہوئی تو چیزیں تبھی سامنے آئیں گی ۔
کیا ہم ریاست مدینہ بنا سکتے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن ہے نہیں ! نہ ایسے پارسا لوگ ہیں اور نہ ہی قیادت ۔اس وقت دنیا میں ایسی کوئی ریاست نہیں جسکی مثال ہم ریاست مدینہ جیسی بول اور دیں سکیں یا تھوڑا سا بھی قریب پائیں۔نہ ہی ریاست مدینہ میں لوگوں کے ایکڑوں پھیلے ہوئے گھر تھے ، نہ پراڈو تھی نہ لینڈ کروزر تھی ۔ ایسی باتیں کر کے ہم صرف لوگوں کا دل بہلا سکتے ہیں ایک ایسے وقت میں جب بہت بڑے طوفاں ہماری دہلیز پر کھڑے ہیں۔پاس دمڑی نہیں۔ مونجھو نالو فتح خان۔(پیسہ ہے نہیں باتیں کھربوں کی)
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت Balance of payment کا ہے، بجٹ کا خسارہ ، آمدنی میں اضافہ ،ہماری معیشت تین فیصد شرح نمو سے آگے نہیں جارہی۔ جس میں روزگار کے مواقعے پیدا نہیں ہوسکتے ۔ ڈار صاحب اس معیشت کو 5.3 فیصد تک لے کر تو آئے مگر قرضہ کتنا لیا یہ معلوم نہیں ۔ وہ ہمارے امپورٹ بڑھا کر چلے مگر ایکسپورٹس میں خسارہ بے بہا۔اور پھر کرپشن جس کی وجہ سے جو قرضے ہم نے لیے صحیح استعمال نہ کرسکے ۔
قرضہ بڑھ سکتا ہے مگر قرضے سے جو سرمایہ کاری ہوئی وہ کھوکھلی تھی اس سے آمدنی کے ذرایع نہ بن سکے ۔ دنیا میں اس وقت جو کنسٹرکشن کے پروجیکٹ ہورہے ہیں ، اگر آپ نے باہر کی کسی کمپنی سے کانٹریکٹ کیا ہو تویقین جانیے کہ وہ over invoiced ہو گا۔ یہ بات بھی یقینی ہوگی کہ اس میں بہت بڑا کمیشن ہوگا جو کمپنیاں وہاں کی اشرافیہ کو دیتی ہوں گی اور اگر آپ نے ایسا پروجیکٹ قرضہ لے کر شروع کیا ہے تو یقینأ اشرافیہ ارب پتی ، ان کی جائیداد باہر اور ملک مقروض ہوگا۔
یہ بڑے سنجیدہ اور حوصلے کے کام ہیں جس کے لیے اگر ہمunpopular ہوتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔اس ملک کے ایک ناکام وزیراعظم بھی تھے محمد خان جونیجو جو پاکستان کے ایک بدترین ڈکٹیٹر کے ساتھی بھی تھے مگر چونکہ ان کی نیت صاف اور سچی تھی تو آج کی وہ خوشبو کی مانند کچھ اس طرح یاد آتے ہیں جس طرح غالب کہتے ہیں
''سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں''
یہ وقت سنجیدگی کا ہے ، جلد بازی میں چوکے اور چھکے لگانے کا نہیں۔ یہ حقیقی دنیا ہے ، یہاں ہمیں حقیقی چیلینجز کا سامنا ہے ۔ سب کو آن بورڈ لینا ہوگا ۔ سب کی سننی ہوگی ۔ جتنے خطرے ہمیں اندر سے ہیں، اتنے ہی باہر سے بھی ۔ سب کا مقابلہ مل کر اور ڈٹ کر کرنا ہوگا۔