جنرل اکبر خان رنگروٹ
جنرل اکبر خان نے اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت بنا رکھی تھی اور وہ اپنے نام کے ساتھ رنگروٹ کا حلقہ لگایا کرتے تھے۔
GILGIT:
راولپنڈی سازش کیس سے شہرت پانے والے جنرل اکبر خان دوسری بار ذوالفقارعلی بھٹوکے دور اقتدار میں اس وقت منظر عام پر آئے جب انھیں چین کی طرز پر پاکستان پیپلزآرمی تشکیل دینے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
چونکہ یہ ایک طرح سے متوازی نجی فوج تیارکرنے کا منصوبہ تھا اس لیے قدرتی طور پر متعلقہ حلقوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی جس کے نتیجے میں براہ راست پارٹی قیادت کے زیرکمان پیپلزآرمی قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ سوچ کے حامل رہنماؤں کے ذہنوں میں پلنے والا یہ منصوبہ ، جو ابھی کاغذوں پر ہی تھا، کوئی عملی روپ دھارنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل اکبرخان بھی ایک بار پھرگمنامی کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر ہمیشہ کے لیے پس منظر میں چلے گئے۔
یاد رہے کہ مقبولیت کے لحاظ سے وہ بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا جس میں نہ صرف وہ خود ہر جگہ ماؤکیپ پہنے نظر آتے بلکہ پیپلزپارٹی کے کارکن ان کے جلسوں میں شرکاء کا لہوگرمانے کے لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ لگایا کرتے تھے، پارٹی کے رہنماؤں نے وزیر اعظم چو این لائی کے لباس سے ملتا جلتا شیروانی جیسا بند گلے کے کوٹ والا یونیفارم پہننا شروع کردیا تھا اور اپنے لیڈرکو صدر یا وزیراعظم کے بجائے چیئرمین بھٹو کہنے کا رواج زور پکڑ رہا تھا۔
جنرل اکبر خان نے اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت بنا رکھی تھی اور وہ اپنے نام کے ساتھ رنگروٹ کا حلقہ لگایا کرتے تھے۔ یہ بات پہلی بار میرے علم میں اس وقت آئی جب میں نے ایک دستاویز میں ان کے نام کی جگہ جنرل اکبر خان (رنگروٹ) لکھا ہوا دیکھا۔
تب میں ''ہلال پاکستان'' میں کام کرتا تھا جو ''مساوات'' ہی کی طرح پیپلزپارٹی کا ترجمان سندھی اخبار تھا۔ ایک روز ہمارے منیجر اشتہارات غفار میمن مرحوم نے مجھے ایک صاحب سے ملوایا جو ان کے بقول کچھ لٹریچر انگریزی سے اردو اور سندھی میں ترجمہ کروانا چاہتے تھے۔
لٹریچرکیا وہ دراصل پارٹی کا پروپیگنڈا مواد تھا، لیکن مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی، ہم نے کام کا معاوضہ طے کیا اور وہ صاحب پہلی قسط کے طور پرکاغذوں کے دو پلندے میرے حوالے کر کے چلے گئے۔ انھی کا ترجمہ کرتے وقت جنرل اکبر خان کی وہ منفرد شناخت میرے علم میں آئی جس کا ذکر میں نے اپنے ڈیسک کے دوسرے ساتھیوں سے بھی کیا تھا۔ پتہ چلا شاعر انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی بھی اپنے نام کے ساتھ ''مرحوم '' لکھا کرتے تھے۔گویا ایسا کرنا اس زمانے کے فیشن میں شامل تھا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جنرل اکبر خان کے حوالے سے وہ دستاویزات انگریزی فوج میں خدمات انجام دینے کے دوران ان کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل تھیں اور بطور ادارہ ریاست میں فوج کے کردارکے بارے میں ان کے خیالات، سوچ اور نظریات کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان دستاویزات کے حوالے سے جو دلچسپ باتیں اب تک میرے حافظے میں محفوظ ہیں وہ میں یہاں آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ جنرل موصوف نے ایک جگہ ''فٹیک'' یا ''پھٹیک'' پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی جو دراصل ایک اصطلاح ہے اور اس مشق یا ایکسرسائز کے لیے استعمال ہوتی ہے جس سے فوج میں بطور سپاہی نئے بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کا سب سے پہلے واسطہ پڑتا ہے۔
اس مشق کا مقصد انھیں مصروف رکھنا اور فارغ نہ بیٹھنے دینا ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی برٹش دور میں اس کی ایجاد کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ فارغ آدمی کا دماغ شیطان استعمال کرتا ہے اور وہ کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ 1857ء کے بلوے یا غدر کے بعد سے خاص طور پر انھیں انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور اس کے طریقے سوچنے سے روکنے کے لیے ''فٹیک'' متعارف کرائی گئی تھی۔
پریڈ گراؤنڈ سے واپسی پر جب رنگروٹوں کو بیرک میں آرام اور آپس میں خوش گپیاں کرتے دیکھا جاتا تو فوراً وسل (سیٹی) بجا کر انھیں باہر جمع کیا جاتا اور کدالیں، پھاؤڑے، بیلچے وغیرہ دیکر کھدائی کے کام پر لگا دیا جاتا ۔ نگرانی پر مامور بیرک انچارج ،جو عموماً حوالدار ہوا کرتا تھا، انھیں دوگھنٹے میں 30 - 30 فٹ کے فاصلے پر 6 فٹ قطر کے 10 فٹ گہرے 6 گڑھے کھودنے کا حکم دیتا۔ کام مکمل ہونے پر فیتے سے گڑھوں کو ناپ کر دیکھا جاتا کہ وہ دی ہوئی صراحت کے مطابق کھودے گئے ہیں یا نہیں۔ وقت کی پابندی کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جاتا کہ کام دیے ہوئے وقت ہی میں پورا ہو۔نہایت باریک بینی سے ایک ایک چیز چیک کی جاتی۔
سب کچھ ٹھیک پائے جانے پر رنگروٹوں کو حکم دیا جاتا کہ کھودی ہوئی مٹی اور پتھر دوبارہ گڑھوں میں ڈال کر انھیں بھردیا جائے، وہ بھی اتنی صفائی اور عمدگی کے ساتھ کہ کہیں سے بھی نہ لگے کہ وہاں کچھ دیر پہلے گڑھے کھودے گئے تھے۔ خوب تھکے ہوئے پسینے میں شرابور رنگروٹ بیرک میں واپس آتے ہی پڑکر سو جاتے اور اگلی صبح اس وقت اٹھتے جب پریڈ گراؤنڈ جانے کی تیاری اور میس پہنچ کر ناشتہ کرنے کی وسل بجتی۔ کسی کو یہ پوچھنے کی جرائت نہ ہوتی تھی کہ ان سے فٹیک یا پھٹیک کے نام پر یہ بے مقصد مشقت کیوں لی جاتی ہے۔
ایک دوسری دستاویز میں جنرل موصوف کے حوالے سے ، جوخود بھی کمیشنڈ آفیسرکے بجائے عام سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے اور ان تمام مراحل سے گزرے تھے جو قسم پریڈ سے پہلے رنگروٹوں کے لیے لازم ہوتے ہیں، لکھا تھا کہ پریڈ کراتے وقت انسٹرکٹر ہمیں اکثر نر کا بچہ اور شیرکا بچہ کہہ کر مخاطب کرتے اور یہ جوش دلانے کے لیے کہتے تمہارے پریڈ کرتے وقت زمین کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہاں سے گیدڑوں کا ریوڑ نہیں شیروں کا غول گزرا ہے۔ اس کا طریقہ یہ بتایا جاتا کہ ایڑی اتنی زور سے زمین پر ماری جائے کہ گراؤنڈ سے اکھڑنے والی مٹی پیچھے والے کی پیشانی پر جا لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پریڈ کرتے وقت ہر رنگروٹ خود کو شیرکا بچہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ۔
انھیں یہ پتہ بہت دیر سے اس وقت چلا جب سپاہی کی رینک سے نکل کر وہ کمیشنڈ افسر بن چکے تھے کہ بھاری بھرکم مضبوط لانگ بوٹ پہنے ہوئے رنگروٹ جب اتنی طاقت لگاکر ایڑی زمین پر مارتا ہے تو وہ ضرب براہ راست دماغ پر پڑتی ہے اور مسلسل ایسا کرنے کے نتیجے میں دماغ کو خون پہنچانے والی رگیں اور شریانیں مردہ ہوجاتی ہیں اور وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ انگریزوں نے اپنی نوآبادیات میں یہ تیکنک ایسے جوان تیار کرنے کے لیے ایجاد کی تھی جو نتائج کی پروا کیے بغیر حکم بجا لائیں۔ ان دستاویزات کے مطابق انگریزی فوج میں ''ڈو اینڈ ڈائی، نیور سے وائی'' ( یعنی جو حکم ملے بجا لاؤ اور مر جاؤ، مت پوچھوکیوں) جیسی اصلاحات ان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتی تھیں ۔
انگریزی فوج میں چارے کے طور پر بھرتی کیے جانے والے مقامی سپاہیوں کے حوالے سے بعض لطائف کا بھی ان دستاویزات میں ذکر تھا۔ مثلاً فوجی کی ڈیفینیشن یہ بتائی گئی کہ وہ بھورے رنگ کا ایسا جانور ہے جو دن کو جنگلوں اور رات کوکمبلوں میں ڈبلیوکی شکل میں نظر آتا ہے۔ اگر انگریزی فوج کے کسی ہندوستانی سپاہی نے انفرادی طور پرکوئی بڑا کارنامہ انجام دیا تو نظریہ اجتماعیت کے نام پر اس کو پس منظر میں دھکیل کر بطور ادارہ فوج اور اس کی ہائی کمان کوکریڈٹ دیا جاتا تھا۔
کچھ جی دار فوجیوں نے اس کو لطیفے کے سانچے میں یوں ڈھالا کہ ایک سپاہی کی غلطی کی سزا پوری پلٹن کو دیے جانے کا جواز بھی اسی نظریہ اجتماعیت کو بتایا گیا۔ بھٹو دور میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کے حوالے سے جنرل اکبر خان کے بعد فوج کے سابق سربراہ، جنرل ٹکا خان کو بہت زیادہ شہرت ملی جس کی وجہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے مشرقی پاکستان میں نہایت بے رحمی سے کیا گیا فوجی آپریشن بنا تھا۔
راولپنڈی سازش کیس سے شہرت پانے والے جنرل اکبر خان دوسری بار ذوالفقارعلی بھٹوکے دور اقتدار میں اس وقت منظر عام پر آئے جب انھیں چین کی طرز پر پاکستان پیپلزآرمی تشکیل دینے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
چونکہ یہ ایک طرح سے متوازی نجی فوج تیارکرنے کا منصوبہ تھا اس لیے قدرتی طور پر متعلقہ حلقوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی جس کے نتیجے میں براہ راست پارٹی قیادت کے زیرکمان پیپلزآرمی قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ سوچ کے حامل رہنماؤں کے ذہنوں میں پلنے والا یہ منصوبہ ، جو ابھی کاغذوں پر ہی تھا، کوئی عملی روپ دھارنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل اکبرخان بھی ایک بار پھرگمنامی کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر ہمیشہ کے لیے پس منظر میں چلے گئے۔
یاد رہے کہ مقبولیت کے لحاظ سے وہ بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا جس میں نہ صرف وہ خود ہر جگہ ماؤکیپ پہنے نظر آتے بلکہ پیپلزپارٹی کے کارکن ان کے جلسوں میں شرکاء کا لہوگرمانے کے لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ لگایا کرتے تھے، پارٹی کے رہنماؤں نے وزیر اعظم چو این لائی کے لباس سے ملتا جلتا شیروانی جیسا بند گلے کے کوٹ والا یونیفارم پہننا شروع کردیا تھا اور اپنے لیڈرکو صدر یا وزیراعظم کے بجائے چیئرمین بھٹو کہنے کا رواج زور پکڑ رہا تھا۔
جنرل اکبر خان نے اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت بنا رکھی تھی اور وہ اپنے نام کے ساتھ رنگروٹ کا حلقہ لگایا کرتے تھے۔ یہ بات پہلی بار میرے علم میں اس وقت آئی جب میں نے ایک دستاویز میں ان کے نام کی جگہ جنرل اکبر خان (رنگروٹ) لکھا ہوا دیکھا۔
تب میں ''ہلال پاکستان'' میں کام کرتا تھا جو ''مساوات'' ہی کی طرح پیپلزپارٹی کا ترجمان سندھی اخبار تھا۔ ایک روز ہمارے منیجر اشتہارات غفار میمن مرحوم نے مجھے ایک صاحب سے ملوایا جو ان کے بقول کچھ لٹریچر انگریزی سے اردو اور سندھی میں ترجمہ کروانا چاہتے تھے۔
لٹریچرکیا وہ دراصل پارٹی کا پروپیگنڈا مواد تھا، لیکن مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی، ہم نے کام کا معاوضہ طے کیا اور وہ صاحب پہلی قسط کے طور پرکاغذوں کے دو پلندے میرے حوالے کر کے چلے گئے۔ انھی کا ترجمہ کرتے وقت جنرل اکبر خان کی وہ منفرد شناخت میرے علم میں آئی جس کا ذکر میں نے اپنے ڈیسک کے دوسرے ساتھیوں سے بھی کیا تھا۔ پتہ چلا شاعر انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی بھی اپنے نام کے ساتھ ''مرحوم '' لکھا کرتے تھے۔گویا ایسا کرنا اس زمانے کے فیشن میں شامل تھا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جنرل اکبر خان کے حوالے سے وہ دستاویزات انگریزی فوج میں خدمات انجام دینے کے دوران ان کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل تھیں اور بطور ادارہ ریاست میں فوج کے کردارکے بارے میں ان کے خیالات، سوچ اور نظریات کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان دستاویزات کے حوالے سے جو دلچسپ باتیں اب تک میرے حافظے میں محفوظ ہیں وہ میں یہاں آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ جنرل موصوف نے ایک جگہ ''فٹیک'' یا ''پھٹیک'' پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی جو دراصل ایک اصطلاح ہے اور اس مشق یا ایکسرسائز کے لیے استعمال ہوتی ہے جس سے فوج میں بطور سپاہی نئے بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کا سب سے پہلے واسطہ پڑتا ہے۔
اس مشق کا مقصد انھیں مصروف رکھنا اور فارغ نہ بیٹھنے دینا ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی برٹش دور میں اس کی ایجاد کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ فارغ آدمی کا دماغ شیطان استعمال کرتا ہے اور وہ کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ 1857ء کے بلوے یا غدر کے بعد سے خاص طور پر انھیں انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور اس کے طریقے سوچنے سے روکنے کے لیے ''فٹیک'' متعارف کرائی گئی تھی۔
پریڈ گراؤنڈ سے واپسی پر جب رنگروٹوں کو بیرک میں آرام اور آپس میں خوش گپیاں کرتے دیکھا جاتا تو فوراً وسل (سیٹی) بجا کر انھیں باہر جمع کیا جاتا اور کدالیں، پھاؤڑے، بیلچے وغیرہ دیکر کھدائی کے کام پر لگا دیا جاتا ۔ نگرانی پر مامور بیرک انچارج ،جو عموماً حوالدار ہوا کرتا تھا، انھیں دوگھنٹے میں 30 - 30 فٹ کے فاصلے پر 6 فٹ قطر کے 10 فٹ گہرے 6 گڑھے کھودنے کا حکم دیتا۔ کام مکمل ہونے پر فیتے سے گڑھوں کو ناپ کر دیکھا جاتا کہ وہ دی ہوئی صراحت کے مطابق کھودے گئے ہیں یا نہیں۔ وقت کی پابندی کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جاتا کہ کام دیے ہوئے وقت ہی میں پورا ہو۔نہایت باریک بینی سے ایک ایک چیز چیک کی جاتی۔
سب کچھ ٹھیک پائے جانے پر رنگروٹوں کو حکم دیا جاتا کہ کھودی ہوئی مٹی اور پتھر دوبارہ گڑھوں میں ڈال کر انھیں بھردیا جائے، وہ بھی اتنی صفائی اور عمدگی کے ساتھ کہ کہیں سے بھی نہ لگے کہ وہاں کچھ دیر پہلے گڑھے کھودے گئے تھے۔ خوب تھکے ہوئے پسینے میں شرابور رنگروٹ بیرک میں واپس آتے ہی پڑکر سو جاتے اور اگلی صبح اس وقت اٹھتے جب پریڈ گراؤنڈ جانے کی تیاری اور میس پہنچ کر ناشتہ کرنے کی وسل بجتی۔ کسی کو یہ پوچھنے کی جرائت نہ ہوتی تھی کہ ان سے فٹیک یا پھٹیک کے نام پر یہ بے مقصد مشقت کیوں لی جاتی ہے۔
ایک دوسری دستاویز میں جنرل موصوف کے حوالے سے ، جوخود بھی کمیشنڈ آفیسرکے بجائے عام سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے اور ان تمام مراحل سے گزرے تھے جو قسم پریڈ سے پہلے رنگروٹوں کے لیے لازم ہوتے ہیں، لکھا تھا کہ پریڈ کراتے وقت انسٹرکٹر ہمیں اکثر نر کا بچہ اور شیرکا بچہ کہہ کر مخاطب کرتے اور یہ جوش دلانے کے لیے کہتے تمہارے پریڈ کرتے وقت زمین کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہاں سے گیدڑوں کا ریوڑ نہیں شیروں کا غول گزرا ہے۔ اس کا طریقہ یہ بتایا جاتا کہ ایڑی اتنی زور سے زمین پر ماری جائے کہ گراؤنڈ سے اکھڑنے والی مٹی پیچھے والے کی پیشانی پر جا لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پریڈ کرتے وقت ہر رنگروٹ خود کو شیرکا بچہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ۔
انھیں یہ پتہ بہت دیر سے اس وقت چلا جب سپاہی کی رینک سے نکل کر وہ کمیشنڈ افسر بن چکے تھے کہ بھاری بھرکم مضبوط لانگ بوٹ پہنے ہوئے رنگروٹ جب اتنی طاقت لگاکر ایڑی زمین پر مارتا ہے تو وہ ضرب براہ راست دماغ پر پڑتی ہے اور مسلسل ایسا کرنے کے نتیجے میں دماغ کو خون پہنچانے والی رگیں اور شریانیں مردہ ہوجاتی ہیں اور وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ انگریزوں نے اپنی نوآبادیات میں یہ تیکنک ایسے جوان تیار کرنے کے لیے ایجاد کی تھی جو نتائج کی پروا کیے بغیر حکم بجا لائیں۔ ان دستاویزات کے مطابق انگریزی فوج میں ''ڈو اینڈ ڈائی، نیور سے وائی'' ( یعنی جو حکم ملے بجا لاؤ اور مر جاؤ، مت پوچھوکیوں) جیسی اصلاحات ان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتی تھیں ۔
انگریزی فوج میں چارے کے طور پر بھرتی کیے جانے والے مقامی سپاہیوں کے حوالے سے بعض لطائف کا بھی ان دستاویزات میں ذکر تھا۔ مثلاً فوجی کی ڈیفینیشن یہ بتائی گئی کہ وہ بھورے رنگ کا ایسا جانور ہے جو دن کو جنگلوں اور رات کوکمبلوں میں ڈبلیوکی شکل میں نظر آتا ہے۔ اگر انگریزی فوج کے کسی ہندوستانی سپاہی نے انفرادی طور پرکوئی بڑا کارنامہ انجام دیا تو نظریہ اجتماعیت کے نام پر اس کو پس منظر میں دھکیل کر بطور ادارہ فوج اور اس کی ہائی کمان کوکریڈٹ دیا جاتا تھا۔
کچھ جی دار فوجیوں نے اس کو لطیفے کے سانچے میں یوں ڈھالا کہ ایک سپاہی کی غلطی کی سزا پوری پلٹن کو دیے جانے کا جواز بھی اسی نظریہ اجتماعیت کو بتایا گیا۔ بھٹو دور میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کے حوالے سے جنرل اکبر خان کے بعد فوج کے سابق سربراہ، جنرل ٹکا خان کو بہت زیادہ شہرت ملی جس کی وجہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے مشرقی پاکستان میں نہایت بے رحمی سے کیا گیا فوجی آپریشن بنا تھا۔