قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران گرما گرمی اپوزیشن کا احتجاج
جب تک وزیر اطلاعات معافی نہیں مانگیں گے ایوان میں نہیں آئیں گے، خورشید شاہ
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے خورشید شاہ پر الزام لگانے کے بعد قومی اسمبلی میں گرما گرمی ہوگئی اور اپوزیشن ارکان احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے خورشید شاہ پر الزام پر مبنی ٹویٹ کا معاملہ اٹھا دیا، انہوں نے کہا کہ کسی ثبوت کے بغیر الزام لگانے سے استحقاق مجروح ہوا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات اس الزام کو ثابت کریں۔
فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکو کو ڈاکو کہہ دیں تو یہ لوگ برامان جاتے ہیں، سب چوروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں اور چوروں کو پکڑیں گے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک کے اداروں کو کھوکھلا کیا گیا، یہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ناتجربہ کار لوگ ہیں لیکن جس طرح دو تین دہائیوں سے ملک چلایا گیا ایسے ملک نہیں چلے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پی آئی اے، ریڈیوپاکستان اور پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، بیرون ملک ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو پاکستان بنادیا گیا، خورشیدشاہ نے پی آئی اے میں سیکڑوں لوگ بھرتی کرائے، انھوں نے تین دن میں 800 لوگ بھرتی کیے، مشاہد اللہ نے اپنے بھائی اورکزن کوپی آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز کرایا، جس طرح انہوں نے خزانے کو لوٹا اس طرح تو کوئی ڈاکے کے پیسے مجرے پربھی نہیں لٹاتا۔
غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنے پر اسپیکر نے کئی مرتبہ فواد چوہدری کو ٹوکا لیکن وہ نہیں مانے۔ اس دوران ایوان میں فواد چوہدری کے خلاف نعرے بھی لگے اور انہیں لوٹا بھی کہا گیا۔
فواد چوہدری کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ ہے یہاں ایک ایک شخص کی اہمیت ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بے روزگاروں کو روزگار دیا، ہم نے مڈل کلاس تنخواہ داروں کی ایک سو بیس فیصد تنخواہیں بڑھائیں، میں کبھی وفاقی وزیر اطلاعات نہیں رہا لیکن ایک ذمہ دار شخص کو ایسی غیر ذمہ دار بات نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی حکومت نے 800 نوکریاں دیں تو اچھا کیا، مجھے موقع ملے تو ایک لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں دونگا چاہے پھانسی لگا دو۔
خورشید شاہ نے کہا کہ منتخب اراکین کی عزت ہوتی ہے، یہ نہیں کہتا کہ الفاظ کہنے والا گھٹیا شخص ہے مگر ذمہ دار وزیر نے گھٹیا زبان استعمال کی، متعلقہ وزیرایوان سے معافی مانگیں، جب تک وہ معافی نہیں مانگیں گے ایوان میں نہیں آئیں گے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے اراکین کا ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ایوان کا ایک ماحول ہوتا ہے، نازیبا الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے، وزیر اطلاعات معافی مانگیں ورنہ ہمیں بھی مجبوراً واک آؤٹ کرنا پڑے گا۔ اسپیکر نے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کو اپوزیشن کو منانے کے لیے بھیج دیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے خورشید شاہ پر الزام پر مبنی ٹویٹ کا معاملہ اٹھا دیا، انہوں نے کہا کہ کسی ثبوت کے بغیر الزام لگانے سے استحقاق مجروح ہوا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات اس الزام کو ثابت کریں۔
فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکو کو ڈاکو کہہ دیں تو یہ لوگ برامان جاتے ہیں، سب چوروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں اور چوروں کو پکڑیں گے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک کے اداروں کو کھوکھلا کیا گیا، یہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ناتجربہ کار لوگ ہیں لیکن جس طرح دو تین دہائیوں سے ملک چلایا گیا ایسے ملک نہیں چلے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پی آئی اے، ریڈیوپاکستان اور پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، بیرون ملک ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو پاکستان بنادیا گیا، خورشیدشاہ نے پی آئی اے میں سیکڑوں لوگ بھرتی کرائے، انھوں نے تین دن میں 800 لوگ بھرتی کیے، مشاہد اللہ نے اپنے بھائی اورکزن کوپی آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز کرایا، جس طرح انہوں نے خزانے کو لوٹا اس طرح تو کوئی ڈاکے کے پیسے مجرے پربھی نہیں لٹاتا۔
غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنے پر اسپیکر نے کئی مرتبہ فواد چوہدری کو ٹوکا لیکن وہ نہیں مانے۔ اس دوران ایوان میں فواد چوہدری کے خلاف نعرے بھی لگے اور انہیں لوٹا بھی کہا گیا۔
فواد چوہدری کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ ہے یہاں ایک ایک شخص کی اہمیت ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بے روزگاروں کو روزگار دیا، ہم نے مڈل کلاس تنخواہ داروں کی ایک سو بیس فیصد تنخواہیں بڑھائیں، میں کبھی وفاقی وزیر اطلاعات نہیں رہا لیکن ایک ذمہ دار شخص کو ایسی غیر ذمہ دار بات نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی حکومت نے 800 نوکریاں دیں تو اچھا کیا، مجھے موقع ملے تو ایک لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں دونگا چاہے پھانسی لگا دو۔
خورشید شاہ نے کہا کہ منتخب اراکین کی عزت ہوتی ہے، یہ نہیں کہتا کہ الفاظ کہنے والا گھٹیا شخص ہے مگر ذمہ دار وزیر نے گھٹیا زبان استعمال کی، متعلقہ وزیرایوان سے معافی مانگیں، جب تک وہ معافی نہیں مانگیں گے ایوان میں نہیں آئیں گے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے اراکین کا ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ایوان کا ایک ماحول ہوتا ہے، نازیبا الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے، وزیر اطلاعات معافی مانگیں ورنہ ہمیں بھی مجبوراً واک آؤٹ کرنا پڑے گا۔ اسپیکر نے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کو اپوزیشن کو منانے کے لیے بھیج دیا۔