جہانگیرترین کی نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست خارج
آف شور کمپنی فرشتوں نے نہیں جہانگیر ترین نے بنائی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے مؤقف پیش کیا کہ شائنی ویو کمپنی جہانگیر ترین نے نہیں ایچ ایس بی سی ٹرسٹ نے بنائی اور قانون کے تحت ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرسٹ کو کمپنی کس نے بنایا ہو گا، کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی اور گھر کا نقشہ اور تعمیرات جہانگیر ترین نے ہی کروائی، جہانگیر ترین کو دستاویزات دینے کے لیے کئی مواقع دئیے ۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ تمام دستاویزات ٹرسٹ کے پاس تھیں، عدالت کے سامنے نئے دستاویزات رکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو دستاویزات آپ لارہے ہیں، پہلے کہاں تھے، نئے دستاویزات نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے، جہانگیر ترین کتنے ارب روپے ملک سے باہر لے کر گئے؟۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ فی الحال تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں، تاہم اس کیس میں 50 کروڑ روپے باہر لے جائے گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مؤکل نے کبھی سوچا کہ پیسہ واپس لایا جائے، اب تو پیسہ واپس لانے کی لہر چل پڑی ہے، اٹھائے گئے نکات میں نظر ثانی کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سارے کا سارا فراڈ ہے، آف شور کمپنی فرشتوں نے نہیں جہانگیر ترین نے بنائی، لندن گھر آپ کا تھا تو ٹرسٹ کے پاس ریکارڈ کیوں تھا، کیموفلاج کرنے کے لیے ٹرسٹ بنایا گیا، جھانسہ دینے کے لئے ڈمی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، کیا ٹرسٹ اور آف شور کمپنی کو پیسہ بھی فرشتوں نے دیا، کیا ملک کے لیڈر ایسے اپنی جائیداد چھپاتے ہیں۔ عدالت نے نے جہانگیر ترین کی نااہلی کیس پر نظر ثانی درخواست خارج کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے مؤقف پیش کیا کہ شائنی ویو کمپنی جہانگیر ترین نے نہیں ایچ ایس بی سی ٹرسٹ نے بنائی اور قانون کے تحت ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرسٹ کو کمپنی کس نے بنایا ہو گا، کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی اور گھر کا نقشہ اور تعمیرات جہانگیر ترین نے ہی کروائی، جہانگیر ترین کو دستاویزات دینے کے لیے کئی مواقع دئیے ۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ تمام دستاویزات ٹرسٹ کے پاس تھیں، عدالت کے سامنے نئے دستاویزات رکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو دستاویزات آپ لارہے ہیں، پہلے کہاں تھے، نئے دستاویزات نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے، جہانگیر ترین کتنے ارب روپے ملک سے باہر لے کر گئے؟۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ فی الحال تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں، تاہم اس کیس میں 50 کروڑ روپے باہر لے جائے گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مؤکل نے کبھی سوچا کہ پیسہ واپس لایا جائے، اب تو پیسہ واپس لانے کی لہر چل پڑی ہے، اٹھائے گئے نکات میں نظر ثانی کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سارے کا سارا فراڈ ہے، آف شور کمپنی فرشتوں نے نہیں جہانگیر ترین نے بنائی، لندن گھر آپ کا تھا تو ٹرسٹ کے پاس ریکارڈ کیوں تھا، کیموفلاج کرنے کے لیے ٹرسٹ بنایا گیا، جھانسہ دینے کے لئے ڈمی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، کیا ٹرسٹ اور آف شور کمپنی کو پیسہ بھی فرشتوں نے دیا، کیا ملک کے لیڈر ایسے اپنی جائیداد چھپاتے ہیں۔ عدالت نے نے جہانگیر ترین کی نااہلی کیس پر نظر ثانی درخواست خارج کردی۔