ملک پھر نازک دوراہے پر
آج کی اپوزیشن کی یہ خواہش اور کوشش ہو گی کہ عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے لیے شکوک وشبہات پیدا کر دیے جائیں۔
ہماری سیاست میں ایک سال کے دوران بڑی معنی خیز تبدیلیاں آئی ہیں ۔ اس حوالے سے سب سے بڑی اور با معنی تبدیلی یہ آئی ہے کہ موروثی اقتدارکا خاتمہ ہوگیا، دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اشرافیہ کی جگہ مڈل کلاس اقتدار میں آئی، تیسری بڑی گمبھیر تبدیلی یہ آئی کہ اشرافیہ کے خلاف احتساب شروع ہوا، جس کی زد میں ملک کے سابق سربراہ بھی آگئے اور احتساب کورٹ سے انھیں لمبی لمبی سزائیں بھی ملیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سزاؤں کے خلاف عوام میں کوئی جوار بھاٹا نہیں آیا، عوام نے خاموشی سے احتسابی اقدامات کو برداشت کر لیا جو اشرافیہ کی توقع کے خلاف تھا۔
نئی منتخب حکومت نے پر امن طور پر اقتدار سنبھال لیا اور تیزی کے ساتھ عوامی مسائل حل کرنے میں مصروف ہو گئی۔ نئی حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے عوام میں امیدکی ایک کرن پھوٹی ہے، جو نئی حکومت کے لیے تو حوصلہ افزا ہے، البتہ فارغ ہونے والی حکومت کے لیے حوصلہ شکن ہے۔
عوام کے رویوں اور ردعمل سے سابق حکمرانوں کی مایوسی سمجھ میں آنے والی بات ہے اور عوامی موڈ اور ردعمل کی روشنی میں فارغ حکومت کو صبر کر لینا اور حالات سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے لیکن عشروں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لیے بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ یہ محترم لوگ اگرچہ انتخابات کے فوری بعد بے چینی کا اظہارکر رہے تھے لیکن ہائیکورٹ سے سزائیں کالعدم ہونے کے بعد ان جلد بازوں اور عجلت پسندوں میں امیدکی ایک نئی کرن پھوٹی ہے۔ ان حضرات کو دو بڑی شکایتیں ہیں، ایک روایتی شکایت یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
دوسری شکایت یہ ہے کہ ان کی قیادت کو دی جانے والی سزائیں انتقامی ہیں۔ اس حوالے سے یہ محترم لوگ عدالتی فورم پر لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو اقتدارکے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرتے جارحانہ بیانات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہارکر رہے ہیں، جس سے سیاسی محاذ پر تصادم کے خطرات لاحق ہو رہے ہیں، ملک میں آنے والی بامعنی تبدیلی کو ملک وقوم کے لیے فال نیک سمجھنے والے اس مخدوش نفاذ اور ماحول سے متفکر ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نئے نہیں بلکہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ یہ الزام چل رہے ہیں اور جبتک ہماری سیاسی اشرافیہ اقتدار کو اپنا موروثی حق سمجھتی رہے گی، یہ الزامات بھی چلتے رہیں گے اور سیاسی تصادم کے امکانات بھی باقی رہیں گے، ہر ملک میں عدلیہ اور اس کے فیصلے قابل احترام ہوتے ہیں کیونکہ جمہوری معاشروں کی آخری امید اعلیٰ عدلیہ ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جو سزائیں دی گئی ہیں، وہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی ہیں،جسے ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت ہمیشہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
حالیہ اپوزیشن عدلیہ میں یہ قانونی لڑائی لڑ رہی ہے یہ ایک آئینی اور قانونی راستہ ہے لیکن عدالتی نظام میں اس قسم کے متضاد فیصلے عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں، لیکن یہ فیصلے نہ نئے ہیں نہ غیر روایتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تنازع کو عدلیہ کے فورم ہی میں حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے یا اسے سیاسی تصادم کے راستے پر ڈالا جاتا ہے۔اس قسم کے مسائل ان ملکوں میں سر نہیں اٹھاتے، جن ملکوں میں سیاست دان اقتدارکو اپنا آبائی حق نہیں سمجھتے اور عوام کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس بدنصیب ملک پر اشرافیہ قابض ہے اور یہ اس کی سائیکی بن گئی ہے کہ سیاست اور اقتدار پر اس کا حق آبائی ہے۔
2018ء کے الیکشن کوکتنا ہی متنازعہ بنا دیا جائے، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس الیکشن نے 71 سالہ اقتداری روایت کو توڑ دیا ہے اور اب عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ہاتھوں میں بھی آسکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی فکری اور نفسیاتی تبدیلی ہے جو ہرگز منفی نہیں ہے۔ اگر موجودہ مڈل کلاس حکومت عوام کی امیدوں پر پوری اترتی ہے تو پھر سیاست سے اشرافیہ کی اجارہ داری بھی ختم ہو سکتی ہے اور موروثی سیاست کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ اشرافیہ کی فطری خواہش یہی ہو گی کہ موجودہ حکومت عوام کی امیدوں پر پوری نہ اترے اس کے لیے وہ مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہے اور تصادم کی فضا بھی پیدا کر سکتی ہے۔
آج کی اپوزیشن کی یہ خواہش اور کوشش ہو گی کہ عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے لیے شکوک وشبہات پیدا کر دیے جائیں تاکہ ان کے مقاصد کے لیے راہ ہموار ہو۔ عدلیہ کی یہ ذمے داری ہے کہ اہل سیاست کی طرف سے عدلیہ کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا نہ ہونے دے۔ درحقیقت ملک ایک نازک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں نہ موروثیت ہوتی ہے نہ ولی عہدی نظام ہوتا ہے لیکن اس ملک کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ 71 سالوں سے اس ملک میں یا توموروثی جمہوریت قائم رہی یا پھر فوجی حکومتوں کا دور دورہ رہا یہ دونوں ہی طرز حکومت عوام کے مفادات کی نفی کرتے ہیں، ان طرز ہائے حکومت کی حمایت کرنا عوام دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہمارے دانشورانہ حلقے بجا طور پر غیر جمہوری اشرافیہ کی جمہوری حکومت کی حمایت کو ایک سیاسی گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دانشورانہ حلقوں کی یہ رائے قابل احترام بھی ہے بشرطیکہ وہ ان جمہوری حکومتوں کی بھی سختی سے مذمت کریں جو آمروں کی گود میں پل کر جوان ہوئی ہیں اور ان کے مزاج میں بھی آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہمارا ملک ایک بامعنی سیاسی دوراہے پرکھڑا ہے، دانشوروں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا یا اپنی رائے دینی چاہیے۔
نئی منتخب حکومت نے پر امن طور پر اقتدار سنبھال لیا اور تیزی کے ساتھ عوامی مسائل حل کرنے میں مصروف ہو گئی۔ نئی حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے عوام میں امیدکی ایک کرن پھوٹی ہے، جو نئی حکومت کے لیے تو حوصلہ افزا ہے، البتہ فارغ ہونے والی حکومت کے لیے حوصلہ شکن ہے۔
عوام کے رویوں اور ردعمل سے سابق حکمرانوں کی مایوسی سمجھ میں آنے والی بات ہے اور عوامی موڈ اور ردعمل کی روشنی میں فارغ حکومت کو صبر کر لینا اور حالات سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے لیکن عشروں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لیے بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ یہ محترم لوگ اگرچہ انتخابات کے فوری بعد بے چینی کا اظہارکر رہے تھے لیکن ہائیکورٹ سے سزائیں کالعدم ہونے کے بعد ان جلد بازوں اور عجلت پسندوں میں امیدکی ایک نئی کرن پھوٹی ہے۔ ان حضرات کو دو بڑی شکایتیں ہیں، ایک روایتی شکایت یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
دوسری شکایت یہ ہے کہ ان کی قیادت کو دی جانے والی سزائیں انتقامی ہیں۔ اس حوالے سے یہ محترم لوگ عدالتی فورم پر لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو اقتدارکے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرتے جارحانہ بیانات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہارکر رہے ہیں، جس سے سیاسی محاذ پر تصادم کے خطرات لاحق ہو رہے ہیں، ملک میں آنے والی بامعنی تبدیلی کو ملک وقوم کے لیے فال نیک سمجھنے والے اس مخدوش نفاذ اور ماحول سے متفکر ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نئے نہیں بلکہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ یہ الزام چل رہے ہیں اور جبتک ہماری سیاسی اشرافیہ اقتدار کو اپنا موروثی حق سمجھتی رہے گی، یہ الزامات بھی چلتے رہیں گے اور سیاسی تصادم کے امکانات بھی باقی رہیں گے، ہر ملک میں عدلیہ اور اس کے فیصلے قابل احترام ہوتے ہیں کیونکہ جمہوری معاشروں کی آخری امید اعلیٰ عدلیہ ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جو سزائیں دی گئی ہیں، وہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی ہیں،جسے ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت ہمیشہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
حالیہ اپوزیشن عدلیہ میں یہ قانونی لڑائی لڑ رہی ہے یہ ایک آئینی اور قانونی راستہ ہے لیکن عدالتی نظام میں اس قسم کے متضاد فیصلے عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں، لیکن یہ فیصلے نہ نئے ہیں نہ غیر روایتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تنازع کو عدلیہ کے فورم ہی میں حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے یا اسے سیاسی تصادم کے راستے پر ڈالا جاتا ہے۔اس قسم کے مسائل ان ملکوں میں سر نہیں اٹھاتے، جن ملکوں میں سیاست دان اقتدارکو اپنا آبائی حق نہیں سمجھتے اور عوام کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس بدنصیب ملک پر اشرافیہ قابض ہے اور یہ اس کی سائیکی بن گئی ہے کہ سیاست اور اقتدار پر اس کا حق آبائی ہے۔
2018ء کے الیکشن کوکتنا ہی متنازعہ بنا دیا جائے، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس الیکشن نے 71 سالہ اقتداری روایت کو توڑ دیا ہے اور اب عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ہاتھوں میں بھی آسکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی فکری اور نفسیاتی تبدیلی ہے جو ہرگز منفی نہیں ہے۔ اگر موجودہ مڈل کلاس حکومت عوام کی امیدوں پر پوری اترتی ہے تو پھر سیاست سے اشرافیہ کی اجارہ داری بھی ختم ہو سکتی ہے اور موروثی سیاست کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ اشرافیہ کی فطری خواہش یہی ہو گی کہ موجودہ حکومت عوام کی امیدوں پر پوری نہ اترے اس کے لیے وہ مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہے اور تصادم کی فضا بھی پیدا کر سکتی ہے۔
آج کی اپوزیشن کی یہ خواہش اور کوشش ہو گی کہ عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے لیے شکوک وشبہات پیدا کر دیے جائیں تاکہ ان کے مقاصد کے لیے راہ ہموار ہو۔ عدلیہ کی یہ ذمے داری ہے کہ اہل سیاست کی طرف سے عدلیہ کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا نہ ہونے دے۔ درحقیقت ملک ایک نازک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں نہ موروثیت ہوتی ہے نہ ولی عہدی نظام ہوتا ہے لیکن اس ملک کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ 71 سالوں سے اس ملک میں یا توموروثی جمہوریت قائم رہی یا پھر فوجی حکومتوں کا دور دورہ رہا یہ دونوں ہی طرز حکومت عوام کے مفادات کی نفی کرتے ہیں، ان طرز ہائے حکومت کی حمایت کرنا عوام دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہمارے دانشورانہ حلقے بجا طور پر غیر جمہوری اشرافیہ کی جمہوری حکومت کی حمایت کو ایک سیاسی گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دانشورانہ حلقوں کی یہ رائے قابل احترام بھی ہے بشرطیکہ وہ ان جمہوری حکومتوں کی بھی سختی سے مذمت کریں جو آمروں کی گود میں پل کر جوان ہوئی ہیں اور ان کے مزاج میں بھی آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہمارا ملک ایک بامعنی سیاسی دوراہے پرکھڑا ہے، دانشوروں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا یا اپنی رائے دینی چاہیے۔