ڈاکٹروں کی قلت 20 کروڑ آبادی کیلیے صرف ایک لاکھ 55 ہزار ڈاکٹر
اوپن میرٹ پر 85فیصد طالبات اور15فیصد طلبا کو داخلے دیے جاتے ہیں،پروفیسر طارق
حکومت سندھ کو صوبے میں مرد ڈاکٹروں کی قلت کے معاملے پر ہوش آگیا ہے اور سندھ میں پہلی بارلڑکوں کا میڈیکل کالج کھول کراس میں اسی سال سے داخلے دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، 22کروڑ آبادی والے ملک میں صرف ایک لاکھ75ہزار ڈاکٹر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ڈینٹل کے شعبے میں صرف16ہزار ڈینٹل سرجن کی سہولت میسر ہے۔
ایک لاکھ 75 ہزارمیں سے20ہزار ڈاکٹربیرون ملک میں ملازمت کررہے ہیں جبکہ میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصل ہونے والی لیڈی ڈاکٹروں کی اکثریت سرکاری میڈیکل کالجوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعداس پیشے سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہے جس کی وجہ سے بھی ڈاکٹروں کی شدید قلت پیداہوگئی ہے۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرطارق رفیع نے بتایاکہ میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ پر 85فیصد طالبات اور15فیصد طلبا کو داخلے دیے جاتے ہیں، سرکاری میڈیکل کالجوں میں طالبات کے داخلے طلبا کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ان85 فیصد طالبات میں سے50فیصد طالبات ایم بی بی ایس کی تعلیم کے بعد یادوران تعلیم ہی ازدواجی زندگی سے منسلک ہوجاتی ہیں جس کے بعد ان کی تعلیم سے عوام کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن حکومت سندھ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
سرکاری میڈیکل کالجوں میںایم بی بی ایس کی5سال تعلیم مکمل کرنے پرفی امیدوار30لاکھ روپے کے حکومت کے اخراجات آتے ہیں اگرکوئی بھی امیدواردوران تعلیم یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد شعبہ طب سے کسی نہ کسی وجہ سے علیحدگی اختیارکرنے کی صورت میں نہ صرف حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے نقصان کا سامنا ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب ڈاکٹروں کی بھی شدیدقلت ہوجاتی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں مزید 10ہزارڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے جس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی تاہم پیپلزپارٹی حکومت نے اس صورت حال کے پیش نظرسندھ میں پہلابوائزمیڈیکل کالج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو اچھا اقدام ہے۔
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، 22کروڑ آبادی والے ملک میں صرف ایک لاکھ75ہزار ڈاکٹر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ڈینٹل کے شعبے میں صرف16ہزار ڈینٹل سرجن کی سہولت میسر ہے۔
ایک لاکھ 75 ہزارمیں سے20ہزار ڈاکٹربیرون ملک میں ملازمت کررہے ہیں جبکہ میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصل ہونے والی لیڈی ڈاکٹروں کی اکثریت سرکاری میڈیکل کالجوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعداس پیشے سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہے جس کی وجہ سے بھی ڈاکٹروں کی شدید قلت پیداہوگئی ہے۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرطارق رفیع نے بتایاکہ میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ پر 85فیصد طالبات اور15فیصد طلبا کو داخلے دیے جاتے ہیں، سرکاری میڈیکل کالجوں میں طالبات کے داخلے طلبا کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ان85 فیصد طالبات میں سے50فیصد طالبات ایم بی بی ایس کی تعلیم کے بعد یادوران تعلیم ہی ازدواجی زندگی سے منسلک ہوجاتی ہیں جس کے بعد ان کی تعلیم سے عوام کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن حکومت سندھ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
سرکاری میڈیکل کالجوں میںایم بی بی ایس کی5سال تعلیم مکمل کرنے پرفی امیدوار30لاکھ روپے کے حکومت کے اخراجات آتے ہیں اگرکوئی بھی امیدواردوران تعلیم یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد شعبہ طب سے کسی نہ کسی وجہ سے علیحدگی اختیارکرنے کی صورت میں نہ صرف حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے نقصان کا سامنا ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب ڈاکٹروں کی بھی شدیدقلت ہوجاتی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں مزید 10ہزارڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے جس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی تاہم پیپلزپارٹی حکومت نے اس صورت حال کے پیش نظرسندھ میں پہلابوائزمیڈیکل کالج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو اچھا اقدام ہے۔