معاشرت اور معاملات سے بے اعتنائی
ہمارے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، سرکا ری و نجی املاک تجاوزات کی نذر ہوچکی ہیں.
اسلام نے معاشرت اور معاملات کے بارے میں بہت تفصیل کے ساتھ احکامات بیان کیے ہیں۔
سورہ الحجرات معاشرت کے احکام پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں معاشرت اور معاملات کے بارے تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں۔ معاشرت اور معاملات دین اسلام کے دونوں بڑے شعبے ہیں لیکن افسوس اس کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی ہے، حتٰی کہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم نے یہ دونوں عملا اپنی زندگی سے خارج کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے حقوق کے بارے بہت فیاض ہیں اور معاف فرما دیتے ہیں لیکن بندے کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں کرتے جب تک اسے اس بندے سے معاف نہ کرایا جائے، اس لیے حقوق العباد کا مسئلہ بہت سنگین اور نازک ہے۔ عبادات کے متعلق شریعت کے احکامات ایک چوتھائی ہیں بقیہ تین چوتھائی احکامات معاملات اور معاشرت سے متعلق ہیں۔
معاملات کی خرابی کا اثر عبادات پر ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے سامنے بڑی عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس حال میں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں، اللہ تعالی کو رو رو کر پکارتے ہیں کہ یااللہ ! میرا یہ مقصد پورا کردیجیے فلاں مقصد پورا کردیجیے، بڑی عاجزی کے ساتھ دعائیں کررہے ہوتے ہیں، لیکن کھانا ان کا حرام، لباس ان کا حرام اور ان کا جسم حرام آمدن سے پرورش پایا ہوا ہوتا ہے، تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی۔۔۔ ؟
ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر معاملات اور حقوق العباد کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ عبادات میں اگر کمی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی آسان ہے کیوں کہ اس کے متبادل بہت سارے طریقے ہیں لیکن حقوق العباد میں اگر کمی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ ان کی تلافی اللہ نے اپنے پاس نہیں رکھی ہے بل کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کردے یا حق ادا نہ کردیا جائے، چاہے تم ہزار توبہ کرتے رہو، ہزار نفافل پڑھتے رہو، بل کہ قیامت کے دن اس کا حساب بہت ہی کڑا ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر ؓ عادل اس شخص کو کہا کرتے تھے جس کے معاملات درست ہو تے، ایک مرتبہ کسی نے دو گواہ پیش کیے، ایک کے معاملات تو حضرت عمر ؓ کو معلوم تھے لیکن دوسرے کے معلوم نہیں تھے۔
آپ ؓ نے پوچھا کہ اس شخص کے معاملات کسی کو معلوم ہیں۔ مجلس میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ کبھی اس شخص کے ساتھ اکٹھا سفر کیا ہے ؟ کبھی کوئی لین دین کا معاملہ آیا ہے ؟ کیا یہ تمہارا پڑوسی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں ؟ حضرت عمر ؓ ارشاد فرمایا کہ آپ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھتے دیکھا ہوگا اس وجہ سے اس کے عادل ہونے کی گواہی دے رہے ہو۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر تو آپ اس کو نہیں جانتے۔ اس واقعہ سے معاملات کی درستی کا خود اندازہ ہم لگا سکتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس کی گواہی تک قبول نہیں کی۔
آج معاشرے میں آپس کے جھگڑوں اور تنازعات کا جو سیلاب امڈ ہوا ہے اس کا ایک بہت بڑا سبب معاملات کو صاف نہ رکھنا ہے۔ حالاں کہ معاملات کی صفائی کے بارے ہمارے دین کی ایک انتہائی زرّیں تعلیم ہے کہ آپس میں بھائیوں کی طرح رہو لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔ مطلب یہ کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ بھائیوں اور اپنائیت کا مظاہرہ کرو، لیکن جب لین دین کا معاملہ آجائے تو بہتر تعلقات کے ہوتے ہوئے بھی انہیں ایسے انجام دو جیسے دو اجنبی شخص انہیں انجام دیتے ہیں۔ یعنی معاملات ہر پہلو سے صاف ہونے چاہییں تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک اپنے معاملات کو صاف رکھے تاکہ بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سدباب ہوجائے۔
آج ہم نے دین مبین کو صرف عبادات تک محدود کر رکھا ہے اور یہ بات ذہن میں بٹھا رکھی ہے کہ دین اسلام صرف نماز پڑھنا ہے۔ ہم مسجد میں جاکر نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کا م کیا اور ذمے د اری پوری کردی باقی عبادات کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے ( معاملات، معاشرت، سیاست اور اخلاقیات) کے ساتھ دین کا کیا واسطہ؟ آج معاشرتی برائیوں کا جو سیلاب امڈ آیا ہے اس کی وجہ بھی یہی غلط نظریہ اور سوچ ہے۔ اس محدود اور غلط سوچ نے اسلامی معاشرے کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم معاشرتی گناہوں کا ارتکاب کرتے پھرتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج ہر جگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، سرکا ری اور نجی املاک پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں، قانون شکنی دل و دماغ میں رچی ہوئی ہے، لڑائی جھگڑے عام معمول ہیں، راستے میں گندگی پھیلانا، ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے جیسے معاشرتی برائیوں کے سیلاب میں ہم پھنس چکے ہیں۔
یقین مانیے! کہ اگر آج ہم نے معاشرتی مسائل کے حوالے سے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں سے صرف ایک تعلیم پر عمل کیا تو معاشرے میں تما م برائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات کی بنیاد آپ ﷺ کے اس ارشاد پر ہے، مفہوم : '' مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔'' لہٰذا اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کا لحاظ رکھے اور دل میں پکا ارادہ کرے کہ اس کے کسی قول و فعل سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح نہ ہو اور جرائم کا خاتمہ نہ ہو۔ اگر آپ ﷺ کی یہ حدیث مبارک ہمارے ذہن میں ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کو ئی تجاوزات قائم کرے۔ کیوں کہ ان تجاوزات میں صرف ایک نہیں بہت سارے گناہوں کا ارتکاب ہورہا ہے۔
مثلا زمین پر ناجائز قبضہ ایک بہت بڑا گناہ ہے، ان تجاوزات کی وجہ سے راہ گیروں کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جو ایک مستقل گناہ ہے، یہ رشوت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، ان تمام برائیوں کے باوجود ہمارے مسلمان بھائی تجاوزات کو سرے سے گناہ اور بُری بات ہی نہیں سمجھتے، بل کہ اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گناہ کبیرہ میں اپنے آپ کو اچھے مسلمان کہنے والے زیادہ مبتلا ہیں۔ اسی طرح اگر مذکورہ بالا حدیث ہمارے سامنے ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی برلب سڑک جلسے جلوس اور ہڑتال کے لیے ڈیرے ڈال دے، چلتی ہوئی سڑک پر رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے، اس عمل سے لوگوں کا کتنا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، کیا یہ لوگوں کو اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرنا نہیں ہے ؟ لیکن ہم پھر بھی جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں کا اہتمام سڑکوں پر کرکے کامل مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ دونوں متضاد چیزیں قطعاً جمع نہیں ہوسکتیں۔
آپ ﷺ نے تو نماز پڑھنے والے کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی جگہ نماز نہ پڑھے جہاں لوگوں کو گزرنے میں دشواری ہو۔ ٹریفک کے قوانین کو ہم نے مذاق بنایا ہوا ہے، ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ ان قوانین کی خلاف ورزی سے ہم کتنے گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے بسا اوقات ایک بے گناہ کی جان چلی جاتی ہے ورنہ ایک مسلمان کو ذہنی تکلیف پہنچانا تو متعین ہے، اور کسی شخص کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی حرام ہے۔ حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ کسی شخص کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی اس حدیث میں داخل ہے۔
ٹریفک کے قوانین پر عمل نہ کرنا، لائنسس میں حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے خلاف ورزی بھی ہے۔ حالاں کہ وعدہ خلافی بھی گناہ کبیرہ ہے۔ غلط پارکنگ کے نتائج آپ ہم سب دیکھ رہے ہیں، یہ کتنی ذہنی کوفت میں ایک انسان کو مبتلا کرنا ہے لیکن غلط پارک کرکے سرے سے احساس ہی پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اس غلط پارکنگ کی وجہ سے میں بہ یک وقت کتنے گناہوں کا ارتکاب کررہا ہوں۔ آج لائوڈ اسپیکر کا جو غلط استعمال ہو رہا ہے، کیا یہ ایذارسانی اور لوگوں کو اپنی زبان سے تکلیف دینے کا سبب نہیں ہے۔۔۔ ؟ آپ ﷺ نے تو نماز تہجد میں بلند آواز کی تلاوت سے منع کیا تھا تاکہ سونے والوں کی نیند میں خلل نہ آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادات دینِ اسلام کا بہت اہم جز ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے، تاہم ہمارا دین صرف عبادات تک محدود نہیں بل کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو دین اسلام کی تعلیمات سے خالی ہو۔ اسلام نے ہمیں ساری باتیں بتائی ہیں اور اسلامی تعلیمات سدا بہار ہیں، ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں اور یہی اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کا بہ خوبی ادراک کرسکتا ہے۔
آج ہم نے اسلام کے زرّیں اصولوں کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے تبدیلی کا عمل شروع کر کے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں سے ہم نے صرف مذکورہ حدیث پر عمل کرنے کا عزم کرلیا تو یقین مانیے زندگی کا سکون خود بہ خود واپس لوٹ آئے گا۔
سورہ الحجرات معاشرت کے احکام پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں معاشرت اور معاملات کے بارے تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں۔ معاشرت اور معاملات دین اسلام کے دونوں بڑے شعبے ہیں لیکن افسوس اس کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی ہے، حتٰی کہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم نے یہ دونوں عملا اپنی زندگی سے خارج کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے حقوق کے بارے بہت فیاض ہیں اور معاف فرما دیتے ہیں لیکن بندے کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں کرتے جب تک اسے اس بندے سے معاف نہ کرایا جائے، اس لیے حقوق العباد کا مسئلہ بہت سنگین اور نازک ہے۔ عبادات کے متعلق شریعت کے احکامات ایک چوتھائی ہیں بقیہ تین چوتھائی احکامات معاملات اور معاشرت سے متعلق ہیں۔
معاملات کی خرابی کا اثر عبادات پر ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے سامنے بڑی عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس حال میں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں، اللہ تعالی کو رو رو کر پکارتے ہیں کہ یااللہ ! میرا یہ مقصد پورا کردیجیے فلاں مقصد پورا کردیجیے، بڑی عاجزی کے ساتھ دعائیں کررہے ہوتے ہیں، لیکن کھانا ان کا حرام، لباس ان کا حرام اور ان کا جسم حرام آمدن سے پرورش پایا ہوا ہوتا ہے، تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی۔۔۔ ؟
ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر معاملات اور حقوق العباد کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ عبادات میں اگر کمی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی آسان ہے کیوں کہ اس کے متبادل بہت سارے طریقے ہیں لیکن حقوق العباد میں اگر کمی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ ان کی تلافی اللہ نے اپنے پاس نہیں رکھی ہے بل کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کردے یا حق ادا نہ کردیا جائے، چاہے تم ہزار توبہ کرتے رہو، ہزار نفافل پڑھتے رہو، بل کہ قیامت کے دن اس کا حساب بہت ہی کڑا ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر ؓ عادل اس شخص کو کہا کرتے تھے جس کے معاملات درست ہو تے، ایک مرتبہ کسی نے دو گواہ پیش کیے، ایک کے معاملات تو حضرت عمر ؓ کو معلوم تھے لیکن دوسرے کے معلوم نہیں تھے۔
آپ ؓ نے پوچھا کہ اس شخص کے معاملات کسی کو معلوم ہیں۔ مجلس میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ کبھی اس شخص کے ساتھ اکٹھا سفر کیا ہے ؟ کبھی کوئی لین دین کا معاملہ آیا ہے ؟ کیا یہ تمہارا پڑوسی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں ؟ حضرت عمر ؓ ارشاد فرمایا کہ آپ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھتے دیکھا ہوگا اس وجہ سے اس کے عادل ہونے کی گواہی دے رہے ہو۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر تو آپ اس کو نہیں جانتے۔ اس واقعہ سے معاملات کی درستی کا خود اندازہ ہم لگا سکتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس کی گواہی تک قبول نہیں کی۔
آج معاشرے میں آپس کے جھگڑوں اور تنازعات کا جو سیلاب امڈ ہوا ہے اس کا ایک بہت بڑا سبب معاملات کو صاف نہ رکھنا ہے۔ حالاں کہ معاملات کی صفائی کے بارے ہمارے دین کی ایک انتہائی زرّیں تعلیم ہے کہ آپس میں بھائیوں کی طرح رہو لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔ مطلب یہ کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ بھائیوں اور اپنائیت کا مظاہرہ کرو، لیکن جب لین دین کا معاملہ آجائے تو بہتر تعلقات کے ہوتے ہوئے بھی انہیں ایسے انجام دو جیسے دو اجنبی شخص انہیں انجام دیتے ہیں۔ یعنی معاملات ہر پہلو سے صاف ہونے چاہییں تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک اپنے معاملات کو صاف رکھے تاکہ بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سدباب ہوجائے۔
آج ہم نے دین مبین کو صرف عبادات تک محدود کر رکھا ہے اور یہ بات ذہن میں بٹھا رکھی ہے کہ دین اسلام صرف نماز پڑھنا ہے۔ ہم مسجد میں جاکر نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کا م کیا اور ذمے د اری پوری کردی باقی عبادات کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے ( معاملات، معاشرت، سیاست اور اخلاقیات) کے ساتھ دین کا کیا واسطہ؟ آج معاشرتی برائیوں کا جو سیلاب امڈ آیا ہے اس کی وجہ بھی یہی غلط نظریہ اور سوچ ہے۔ اس محدود اور غلط سوچ نے اسلامی معاشرے کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم معاشرتی گناہوں کا ارتکاب کرتے پھرتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج ہر جگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، سرکا ری اور نجی املاک پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں، قانون شکنی دل و دماغ میں رچی ہوئی ہے، لڑائی جھگڑے عام معمول ہیں، راستے میں گندگی پھیلانا، ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے جیسے معاشرتی برائیوں کے سیلاب میں ہم پھنس چکے ہیں۔
یقین مانیے! کہ اگر آج ہم نے معاشرتی مسائل کے حوالے سے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں سے صرف ایک تعلیم پر عمل کیا تو معاشرے میں تما م برائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات کی بنیاد آپ ﷺ کے اس ارشاد پر ہے، مفہوم : '' مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔'' لہٰذا اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کا لحاظ رکھے اور دل میں پکا ارادہ کرے کہ اس کے کسی قول و فعل سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح نہ ہو اور جرائم کا خاتمہ نہ ہو۔ اگر آپ ﷺ کی یہ حدیث مبارک ہمارے ذہن میں ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کو ئی تجاوزات قائم کرے۔ کیوں کہ ان تجاوزات میں صرف ایک نہیں بہت سارے گناہوں کا ارتکاب ہورہا ہے۔
مثلا زمین پر ناجائز قبضہ ایک بہت بڑا گناہ ہے، ان تجاوزات کی وجہ سے راہ گیروں کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جو ایک مستقل گناہ ہے، یہ رشوت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، ان تمام برائیوں کے باوجود ہمارے مسلمان بھائی تجاوزات کو سرے سے گناہ اور بُری بات ہی نہیں سمجھتے، بل کہ اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گناہ کبیرہ میں اپنے آپ کو اچھے مسلمان کہنے والے زیادہ مبتلا ہیں۔ اسی طرح اگر مذکورہ بالا حدیث ہمارے سامنے ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی برلب سڑک جلسے جلوس اور ہڑتال کے لیے ڈیرے ڈال دے، چلتی ہوئی سڑک پر رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے، اس عمل سے لوگوں کا کتنا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، کیا یہ لوگوں کو اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرنا نہیں ہے ؟ لیکن ہم پھر بھی جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں کا اہتمام سڑکوں پر کرکے کامل مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ دونوں متضاد چیزیں قطعاً جمع نہیں ہوسکتیں۔
آپ ﷺ نے تو نماز پڑھنے والے کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی جگہ نماز نہ پڑھے جہاں لوگوں کو گزرنے میں دشواری ہو۔ ٹریفک کے قوانین کو ہم نے مذاق بنایا ہوا ہے، ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ ان قوانین کی خلاف ورزی سے ہم کتنے گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے بسا اوقات ایک بے گناہ کی جان چلی جاتی ہے ورنہ ایک مسلمان کو ذہنی تکلیف پہنچانا تو متعین ہے، اور کسی شخص کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی حرام ہے۔ حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ کسی شخص کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی اس حدیث میں داخل ہے۔
ٹریفک کے قوانین پر عمل نہ کرنا، لائنسس میں حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے خلاف ورزی بھی ہے۔ حالاں کہ وعدہ خلافی بھی گناہ کبیرہ ہے۔ غلط پارکنگ کے نتائج آپ ہم سب دیکھ رہے ہیں، یہ کتنی ذہنی کوفت میں ایک انسان کو مبتلا کرنا ہے لیکن غلط پارک کرکے سرے سے احساس ہی پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اس غلط پارکنگ کی وجہ سے میں بہ یک وقت کتنے گناہوں کا ارتکاب کررہا ہوں۔ آج لائوڈ اسپیکر کا جو غلط استعمال ہو رہا ہے، کیا یہ ایذارسانی اور لوگوں کو اپنی زبان سے تکلیف دینے کا سبب نہیں ہے۔۔۔ ؟ آپ ﷺ نے تو نماز تہجد میں بلند آواز کی تلاوت سے منع کیا تھا تاکہ سونے والوں کی نیند میں خلل نہ آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادات دینِ اسلام کا بہت اہم جز ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے، تاہم ہمارا دین صرف عبادات تک محدود نہیں بل کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو دین اسلام کی تعلیمات سے خالی ہو۔ اسلام نے ہمیں ساری باتیں بتائی ہیں اور اسلامی تعلیمات سدا بہار ہیں، ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں اور یہی اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کا بہ خوبی ادراک کرسکتا ہے۔
آج ہم نے اسلام کے زرّیں اصولوں کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے تبدیلی کا عمل شروع کر کے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں سے ہم نے صرف مذکورہ حدیث پر عمل کرنے کا عزم کرلیا تو یقین مانیے زندگی کا سکون خود بہ خود واپس لوٹ آئے گا۔