قصہ ایک کتاب کی رونمائی کا …
آج کل ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں اتنی بڑی تعداد میں شاعر وادیب یا مصنف نظر آئیں گے کہ جسے دیکھ...
آج کل ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں اتنی بڑی تعداد میں شاعر وادیب یا مصنف نظر آئیں گے کہ جسے دیکھ کر یوں لگتاہے جیسے اب تو غالباً گھر گھر میں ایک ایک شاعر وادیب تو ضرور موجود ہے۔ خصوصاً شاعری کے حوالے سے تو خواتین وحضرات کی کثرت نظر آتی ہے جسے دیکھیں وہ شاعری کرتا نظر آتا ہے۔
لہٰذا آج کل مارکیٹ میں دستیاب لگاتار اور مسلسل چھپنے والی کتابوں میں زیادہ تر تعداد شاعری پر مبنی کتب کی ہے۔ جسے پہلے کبھی ایک وقت تھا کہ ہمیں گلی گلی میں ڈاکٹر نظر آتے تھے کہ ہر کوئی اپنی اولاد کو ڈاکٹر کے سوا کچھ اور بنانا ہی نہیں چاہتا تھا، جنھیں اﷲ کے فضل وکرم سے آگے چل کر ''دکھی انسانیت کی خدمت'' کرنا ہوتی تھی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں ڈاکٹروں کی فوج کے باوجود کل بھی مریض علاج معالجے کے لیے در بدر ہورہے تھے اور آج بھی علاج کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، مگر ان مفلس وبد نصیب لوگوں کو آج بھی نہ ڈاکٹر میسر ہے اور نہ ہی اسپتال ودواخانے۔
بات ہورہی تھی ادیب وشاعروں کی تو اس حوالے سے ہمیں کئی برس پہلے کے گزرے واقعات یاد آنے لگے تو سوچا انھیں آپ سے بھی شیئر کریں۔ بہت سال پہلے ہماری ایک دیرینہ واقف کار نے اپنی شاعری کی کتاب چھپوائی تھی اور بڑے فخر سے ہم سمیت اپنے تمام دوستوں وعزیزوں میں باقاعدہ تقسیم بھی کروائی ، جس پر سب سے پہلے تو یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس دیدہ زیب کتاب میں بخدا سب کچھ تھا پر دور دور تک کہیں شاعری نہیں تھی تو دوسرے ان موصوفہ کی کتاب پر شائع شدہ ان کی تر وتازہ سی تصویر دیکھ کر ہمیں دوسرا شدید دھچکا لگا تھا کہ ہم نے کبھی عام زندگی میں انھیں اتنا حسین وجمیل نہیں پایاتھا جتنا وہ بیوٹی پارلر سے کرائے گئے کمال مہارت سے میک اپ کی بدولت اس تصویر میں لگ رہی تھیں۔
بات لکھنے لکھانے کی ہورہی ہے تو اس سلسلے میں ہمیں ایک ایڈیٹر صاحبہ یاد آرہی ہیں جن کے پرچے میں ہم زمانہ طالب علمی میں لکھا کرتے تھے تو ان محترمہ کو اس پرچے سے زیادہ اپنی تصنیف کردہ کتابوں کی زیادہ فکر لاحق رہتی تھی اور وہ اکثر اپنے قارئین ورائٹرز کو یہ لالچ دے دے کر اپنی تصانیف فروخت کیا کرتی تھیں کہ تم میری اتنی کتابیں خریدوگے تو میں تمہاری تحریر شائع کروںگی اور اتنی خریدوگے تو تمھیں تسلسل کے ساتھ اس پرچے میں جگہ دوںگی بصورت دیگر معذرت۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں برسوں پہلے منعقد کی گئی ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب یاد آرہی ہے ان دنوں ہم کالج میں زیر تعلیم تھے، ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری تھا، قلمی حوالے سے تعلق کی بنا پر ایک مصنفہ صاحبہ نے جو ہم سے کافی سینئر تھیں۔ انھوںنے ہمیں بھی اپنی کتاب کی رونمائی میں شرکت کے لیے کہا جس پر ہم بے حد مسرور ہوئے کہ اس موقعے پر انھوں نے ہمیں بھی یاد رکھا۔
لہٰذا مقررہ دن پر صحیح وقت پر مقامی ہوٹل پہنچے جہاں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ تقریب کے آغاز سے قبل صاحب کتاب سے علیک سلیک کے بعد ہم اپنی نشست پر جا بیٹھے اور جب اس تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا تو یقین جانیے زندگی میں پہلی بار ہمیں شدید حیرانگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہم آج تک دیکھتے، سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ جب بھی کہیں کسی کتاب کی رونمائی کی تقریب سجائی جاتی ہے تو اس محفل میں صاحب کتاب کی اتنی تعریفیں کی جاتی ہیں کہ جو حقیقتاً اس میں ذاتی طورپر موجود بھی نہیں ہوتیں لیکن یہاں الٹا حساب یوں لگ رہاتھا جیسے سارے مقررین ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا جو مائیک پر آرہاتھا مصنفہ اور ان کی فیملی (کتاب کے اجراء میں بقول مصنفہ کی خالہ، بہنوئی، ماموں، چچا اور نہ جانے کس کس کا ہاتھ تھا) کو بے بھائو کی سنا رہا تھا طنز کے تیر پہ تیر چلارہاتھا بلکہ باتوں باتوں میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ محترمہ (مصنفہ) کوئی کام قرضہ لیے بغیر نہیں کرتیں، لیکن کیونکہ اتنا سب کچھ ہنستے مسکراتے کہاجارہاتھا لہٰذا مصنفہ و ان کے اہل خانہ کو اتنا گراں بھی نہیں گزررہا تھا مگر بہر حال یہ سب انھیں اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا لیکن لحاظ مروت کے باعث وہ ان تلخ وترش باتوں کو مسکراتے ہوئے سہہ رہے تھے۔
ایک مقرر نے تو حد ہی کردی یہ کہہ کر کہ اﷲ خیر کرے کہ آج کی اس ساری تقریب کا بار نہ جانے کس کے نازک کندھوں پر ہوگا جس پر حاضرین دیر تک ہنستے رہے۔گرچہ ہم بھی یہ سب دوسروں کی طرح ہنستے مسکراتے ہوئے سن رہے تھے ۔ پر سچ پوچھیے یہ سب سننا ہمیں اچھا نہیں لگ رہاتھا تو دوسری جانب اسٹیج پر بیٹھی مصنفہ کے چہرے پر جو بظاہر بے دلی سے مسکرائے جارہی تھیں ایک رنگ آرہاتھا ایک رنگ جارہاتھا۔ تقریب کے اختتام پر ہم مصنفہ صاحبہ کے اترے چہرے کو دیکھتے ہوئے سرسری طورپر ان سے مل کر فوراً ہوٹل سے باہر نکل آئے۔ یوں تھوڑے دنوں تک اس ناخوشگوار تقریب کا اثر ہمارے دل ودماغ پر رہا پھر رفتہ رفتہ ہم بھی سب کچھ بھول گئے کہ کچھ عرصے بعد ایک دن پھر ان ہی مصنفہ کا فون آیا وہ اس بار ایک پرچے کا اجرا کرنے جارہی تھیں جو خواتین کا تھا۔
لہٰذا اس سلسلے میں وہ اس کی افتتاحی تقریب منعقد کررہی تھیں جس میں ان کے مطابق دوسری خواتین، قلم کار دوستوں کے ساتھ ہمیں بھی اس میں لازماً شریک ہونا ہے۔ تقریب میں تو ہم نے شرکت نہیں کی کہ اس حوالے سے ہمارا پہلا تجربہ کچھ اتنا خوش گوار نہیں تھا اسی بنا پر اس دوسری تقریب میں جانے کی ہمت نہ ہوسکی۔ یہ تو چند ایک دنیا دار خاتون تھیں جن مصنفہ کی بات ہم آپ کو بتارہے تھے جو ہر کام بلا معاوضہ کروانے کے فن سے بخوبی آشنا تھیں لیکن ہم نے بہت عرصے پہلے ایک نامور مصنفہ کے حوالے سے پڑھاتھا جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوجاتاتھا کہ وہ کس قدر سادہ مزاج اور سنجیدہ خاتون تھیں کہ جنھیں بلاشبہ شوخ بھی دیکھ کر سنجیدہ ہوجائے وہ ادبی دنیا کا بڑا نام ہیں تو ان کی کتاب کی رونمائی کا احوال پڑھ کر ہمیں حقیقتاً بے حد افسوس ہوا جس میں بقول ان کے اس وقت کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے شرکت کی تھی اور حاضرین کے سامنے یہ اعلان کیاتھا کہ مصنفہ کی چند سو کتابیں( جس کتاب کی رونمائی تھی اس کی کاپیاں) گراں قدر معاوضے کے ساتھ تقریب کے اختتام پر لے جائیںگی۔ جس کے بعد تقریب کے اختتام پر وہ وزیر موصوف اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا... اور وہ سینئر سادہ سی خاتون مصنفہ جو ان کے چند لمحے پہلے کیے گئے اعلان پر دل ہی دل میں نہال ہوئے جارہی تھیں۔ انھیں یوں بیگانوں کی طرح جاتا دیکھ کر مارے صدمے کے گنگ ہوکر رہ گئیں تھیں۔
لہٰذا آج کل مارکیٹ میں دستیاب لگاتار اور مسلسل چھپنے والی کتابوں میں زیادہ تر تعداد شاعری پر مبنی کتب کی ہے۔ جسے پہلے کبھی ایک وقت تھا کہ ہمیں گلی گلی میں ڈاکٹر نظر آتے تھے کہ ہر کوئی اپنی اولاد کو ڈاکٹر کے سوا کچھ اور بنانا ہی نہیں چاہتا تھا، جنھیں اﷲ کے فضل وکرم سے آگے چل کر ''دکھی انسانیت کی خدمت'' کرنا ہوتی تھی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں ڈاکٹروں کی فوج کے باوجود کل بھی مریض علاج معالجے کے لیے در بدر ہورہے تھے اور آج بھی علاج کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، مگر ان مفلس وبد نصیب لوگوں کو آج بھی نہ ڈاکٹر میسر ہے اور نہ ہی اسپتال ودواخانے۔
بات ہورہی تھی ادیب وشاعروں کی تو اس حوالے سے ہمیں کئی برس پہلے کے گزرے واقعات یاد آنے لگے تو سوچا انھیں آپ سے بھی شیئر کریں۔ بہت سال پہلے ہماری ایک دیرینہ واقف کار نے اپنی شاعری کی کتاب چھپوائی تھی اور بڑے فخر سے ہم سمیت اپنے تمام دوستوں وعزیزوں میں باقاعدہ تقسیم بھی کروائی ، جس پر سب سے پہلے تو یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس دیدہ زیب کتاب میں بخدا سب کچھ تھا پر دور دور تک کہیں شاعری نہیں تھی تو دوسرے ان موصوفہ کی کتاب پر شائع شدہ ان کی تر وتازہ سی تصویر دیکھ کر ہمیں دوسرا شدید دھچکا لگا تھا کہ ہم نے کبھی عام زندگی میں انھیں اتنا حسین وجمیل نہیں پایاتھا جتنا وہ بیوٹی پارلر سے کرائے گئے کمال مہارت سے میک اپ کی بدولت اس تصویر میں لگ رہی تھیں۔
بات لکھنے لکھانے کی ہورہی ہے تو اس سلسلے میں ہمیں ایک ایڈیٹر صاحبہ یاد آرہی ہیں جن کے پرچے میں ہم زمانہ طالب علمی میں لکھا کرتے تھے تو ان محترمہ کو اس پرچے سے زیادہ اپنی تصنیف کردہ کتابوں کی زیادہ فکر لاحق رہتی تھی اور وہ اکثر اپنے قارئین ورائٹرز کو یہ لالچ دے دے کر اپنی تصانیف فروخت کیا کرتی تھیں کہ تم میری اتنی کتابیں خریدوگے تو میں تمہاری تحریر شائع کروںگی اور اتنی خریدوگے تو تمھیں تسلسل کے ساتھ اس پرچے میں جگہ دوںگی بصورت دیگر معذرت۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں برسوں پہلے منعقد کی گئی ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب یاد آرہی ہے ان دنوں ہم کالج میں زیر تعلیم تھے، ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری تھا، قلمی حوالے سے تعلق کی بنا پر ایک مصنفہ صاحبہ نے جو ہم سے کافی سینئر تھیں۔ انھوںنے ہمیں بھی اپنی کتاب کی رونمائی میں شرکت کے لیے کہا جس پر ہم بے حد مسرور ہوئے کہ اس موقعے پر انھوں نے ہمیں بھی یاد رکھا۔
لہٰذا مقررہ دن پر صحیح وقت پر مقامی ہوٹل پہنچے جہاں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ تقریب کے آغاز سے قبل صاحب کتاب سے علیک سلیک کے بعد ہم اپنی نشست پر جا بیٹھے اور جب اس تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا تو یقین جانیے زندگی میں پہلی بار ہمیں شدید حیرانگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہم آج تک دیکھتے، سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ جب بھی کہیں کسی کتاب کی رونمائی کی تقریب سجائی جاتی ہے تو اس محفل میں صاحب کتاب کی اتنی تعریفیں کی جاتی ہیں کہ جو حقیقتاً اس میں ذاتی طورپر موجود بھی نہیں ہوتیں لیکن یہاں الٹا حساب یوں لگ رہاتھا جیسے سارے مقررین ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا جو مائیک پر آرہاتھا مصنفہ اور ان کی فیملی (کتاب کے اجراء میں بقول مصنفہ کی خالہ، بہنوئی، ماموں، چچا اور نہ جانے کس کس کا ہاتھ تھا) کو بے بھائو کی سنا رہا تھا طنز کے تیر پہ تیر چلارہاتھا بلکہ باتوں باتوں میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ محترمہ (مصنفہ) کوئی کام قرضہ لیے بغیر نہیں کرتیں، لیکن کیونکہ اتنا سب کچھ ہنستے مسکراتے کہاجارہاتھا لہٰذا مصنفہ و ان کے اہل خانہ کو اتنا گراں بھی نہیں گزررہا تھا مگر بہر حال یہ سب انھیں اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا لیکن لحاظ مروت کے باعث وہ ان تلخ وترش باتوں کو مسکراتے ہوئے سہہ رہے تھے۔
ایک مقرر نے تو حد ہی کردی یہ کہہ کر کہ اﷲ خیر کرے کہ آج کی اس ساری تقریب کا بار نہ جانے کس کے نازک کندھوں پر ہوگا جس پر حاضرین دیر تک ہنستے رہے۔گرچہ ہم بھی یہ سب دوسروں کی طرح ہنستے مسکراتے ہوئے سن رہے تھے ۔ پر سچ پوچھیے یہ سب سننا ہمیں اچھا نہیں لگ رہاتھا تو دوسری جانب اسٹیج پر بیٹھی مصنفہ کے چہرے پر جو بظاہر بے دلی سے مسکرائے جارہی تھیں ایک رنگ آرہاتھا ایک رنگ جارہاتھا۔ تقریب کے اختتام پر ہم مصنفہ صاحبہ کے اترے چہرے کو دیکھتے ہوئے سرسری طورپر ان سے مل کر فوراً ہوٹل سے باہر نکل آئے۔ یوں تھوڑے دنوں تک اس ناخوشگوار تقریب کا اثر ہمارے دل ودماغ پر رہا پھر رفتہ رفتہ ہم بھی سب کچھ بھول گئے کہ کچھ عرصے بعد ایک دن پھر ان ہی مصنفہ کا فون آیا وہ اس بار ایک پرچے کا اجرا کرنے جارہی تھیں جو خواتین کا تھا۔
لہٰذا اس سلسلے میں وہ اس کی افتتاحی تقریب منعقد کررہی تھیں جس میں ان کے مطابق دوسری خواتین، قلم کار دوستوں کے ساتھ ہمیں بھی اس میں لازماً شریک ہونا ہے۔ تقریب میں تو ہم نے شرکت نہیں کی کہ اس حوالے سے ہمارا پہلا تجربہ کچھ اتنا خوش گوار نہیں تھا اسی بنا پر اس دوسری تقریب میں جانے کی ہمت نہ ہوسکی۔ یہ تو چند ایک دنیا دار خاتون تھیں جن مصنفہ کی بات ہم آپ کو بتارہے تھے جو ہر کام بلا معاوضہ کروانے کے فن سے بخوبی آشنا تھیں لیکن ہم نے بہت عرصے پہلے ایک نامور مصنفہ کے حوالے سے پڑھاتھا جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوجاتاتھا کہ وہ کس قدر سادہ مزاج اور سنجیدہ خاتون تھیں کہ جنھیں بلاشبہ شوخ بھی دیکھ کر سنجیدہ ہوجائے وہ ادبی دنیا کا بڑا نام ہیں تو ان کی کتاب کی رونمائی کا احوال پڑھ کر ہمیں حقیقتاً بے حد افسوس ہوا جس میں بقول ان کے اس وقت کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے شرکت کی تھی اور حاضرین کے سامنے یہ اعلان کیاتھا کہ مصنفہ کی چند سو کتابیں( جس کتاب کی رونمائی تھی اس کی کاپیاں) گراں قدر معاوضے کے ساتھ تقریب کے اختتام پر لے جائیںگی۔ جس کے بعد تقریب کے اختتام پر وہ وزیر موصوف اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا... اور وہ سینئر سادہ سی خاتون مصنفہ جو ان کے چند لمحے پہلے کیے گئے اعلان پر دل ہی دل میں نہال ہوئے جارہی تھیں۔ انھیں یوں بیگانوں کی طرح جاتا دیکھ کر مارے صدمے کے گنگ ہوکر رہ گئیں تھیں۔