بشریٰ بی بی کا انٹرویو اور ’’ذمہ دارانہ‘‘ صحافت پر سوالیہ نشان

بشریٰ بی بی کے انٹرویو نے جہاں بہت سی غلط فہمیاں دور کیں وہاں ذمہ دارانہ صحافت پر بھی کئی سوالات اٹھادیئے ہیں

بشریٰ بی بی کے خصوصی انٹرویو نے جہاں بہت سی غلط فہمیاں دور کی وہاں ذمہ دارانہ صحافت پر بھی کئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میڈیا میں آج کل کس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے اور کتنی غلط بیانی کی جارہی ہے؟ اسے سمجھنے کےلیے بشریٰ بی بی کا گزشتہ روز ایک نیوز چینل پر نشر ہونے والا انٹرویو ہی کافی ہے۔

بشریٰ بی بی کے انٹرویو نے پاکستان کے تین بڑے صحافیوں کی خبروں اور کالموں پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے حوالے سے ہم جن صحافیوں کی باتوں کو سچ سمجھتے رہے، اور جن کی تحریروں اور خبروں پر یقین کرتے رہے، ان کی خبریں اور تحریریں جھوٹ ثابت ہوئی ہیں۔

مثلاً، نامور صحافی عمر چیمہ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی سے متعلق ''انکشاف'' کرتے ہوئے خبر دی تھی کہ بشریٰ بی بی نے اپنے پہلے شوہر، خاور مانیکا سے طلاق لینے کے بعد عدت پوری کیے بغیر ہی عمران خان سے نکاح پڑھوا لیا تھا۔ اس خبر کے نتیجے میں مین اسٹریم میڈیا پر، اور اس سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا پر ایسی ایسی باتیں کی گئیں اور اس قدر غلاظت انڈیلی گئی کہ اخلاقیات کا پاس رکھنے والے ہر فرد کا سر، شرم سے جھک جائے۔

لیکن بشریٰ بی بی نے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے عدت پوری ہونے کے پانچ مہینے بعد عمران خان سے شادی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے سابق شوہر مذہبی رجحان رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے اسلامی طریقے سے میری عدت اپنے ہی گھر میں پوری کروائی اور عدت پوری ہونے کے بعد میں ان کے گھر سے باہر آئی۔

اب ایک نظر روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب سہیل وڑائچ پر بھی ڈال لیتے ہیں۔

جناب سہیل وڑائچ نے چند روز قبل ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے ذکر کیا کہ حسن جمیل گجر، علاج کی غرض سے بیرون ملک تھے۔ سرجری کےلیے انہیں وقت نہیں مل رہا تھا اور وہ شدید تکلیف میں تھے۔ انہوں نے بشریٰ بی بی سے رابطہ کیا اور کہا کہ دعا کریں۔ بشریٰ بی بی نے کہا کہ میری بی بی فاطمہ سے بات ہوگئی ہے، کل آپ کا کام ہوجائے گا۔ اگلے دن حسن جمیل کو کسی فاطمہ نامی خاتون نے اسپتال سے فون کرکے کہا کہ آج آپ کی سرجری ہے۔ آپ فوراً اسپتال آجائیے۔

بشریٰ بی بی نے اپنے مذکورہ انٹریو میں کہا کہ میں نے جب یہ خبر پڑھی تو میں شیشے کی سامنے کھڑی ہوکر خود سے سوال کرنے لگی کہ کیا میری اتنی حیثیت ہے کہ بی بی فاطمہ مجھ سے بات کریں؟ انہوں نے کہا کہ یہ خبر جھوٹ ہے، نہ میں نے کبھی کسی سے ایسا کہا اور نہ ہی اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جاوید چوہدری کا کالم پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ لیکن انہوں نے کیا لکھا، ایک نظر ذرا اس پر بھی ڈال لیتے ہیں۔

جناب جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ نبی پاک حضرت محمدﷺ، بشریٰ بی بی کے خواب میں آئے اور انہوں نے خاور مانیکا سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کرنے کا حکم دیا۔

بشریٰ بی بی نے ندیم ملک کو دیئے گئے مذکورہ انٹرویو میں کہا کہ مجھ سے منسوب کیا گیا یہ بیان جھوٹ ہے۔ مجھے کبھی نبی پاکﷺ نے خواب میں آکر اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا۔


اب آتے ہیں شیرو یا موٹو کی طرف۔

پورے میڈیا میں کئی مہینوں تک یہ بھونچال آیا رہا کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کے پالتو کتے شیرو/ موٹو کو گھر سے نکال دیا ہے۔

بشریٰ بی بی نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، انٹرویو میں بشریٰ بی بی کا کہنا کچھ یوں تھا:

''ایک دن میں جائے نماز پر بیٹھی تھی کہ شیرو میرے قریب آگیا۔ میں نے سوچا کہ یہ کہیں میری جائے نماز پر آکر نہ بیٹھ جائے۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کر دیا۔ وہ خاموشی سے صوفے کے پیچھے بیٹھ گیا۔ جب میں نے اٹھ کر اسے دیکھا تو وہ صوفے کے پیچھے چھپ کر رو رہا تھا۔ مجھے اس دن احساس ہوا کہ یہ بھی ہمارے جیسا ہے، اس کے بھی جذبات اور احساسات ہیں۔ اس دن سے میں شیرو کا خیال رکھتی ہوں۔ اب میں جہاں جاتی ہوں وہ میرے ساتھ جاتا ہے۔''

آپ میڈیا پر چلتی ہوئی خبروں اور حقیقت کا موازنہ کیجیے تو اُن میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس میڈیا پر اربوں روپے ہمیں سچی خبر دینے کےلیے خرچ کیے جاتے ہیں، وہی میڈیا ہمیں جھوٹی خبریں دے رہا ہے۔

آپ صرف یہ سوچیے کہ اگر بشریٰ بی بی انٹرویو میں یہ حقائق نہ بتاتیں تو ہم مرتے دم تک ان جھوٹی خبروں کو سچ سمجھتے رہتے؛ اور بشریٰ بی بی اور عمران خان کو بغیر عدت پوری کیے شادی کرنے کو زنا کے زمرے میں لکھتے رہتے۔

میری اِن تمام عظیم صحافیوں سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور خبروں میں کی گئی غلط بیانیوں اور جھوٹ پر معافی مانگیں یا ام کی وضاحت پیش کریں تاکہ پاکستان کی صحافتی برادری کی عزت و وقار برقرار رہ سکیں؛ ورنہ لوگ آپ کو جھوٹا کہنے لگیں گے اور آپ کے کالموں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے لگیں گے۔

اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور ذمہ داران سے بھی درخواست ہے کہ وہ تب تک کوئی خبر نہ چلائیں کہ جب تک دونوں فریقوں کی رائے آپ کے پاس نہ آجائے تاکہ عوام آپ کو ن لیگ یا تحریک انصاف کا چینل کہنے کے بجائے معتدل، قابلِ بھروسہ اور حق گو چینل/ میڈیا ہاؤس کے طور پر یاد رکھیں اور آپ بھی سبکی سے بچ سکیں۔

آخر میں اپنے ہم وطنوں سے، پاکستانی عوام سے کہنا چاہوں گا کہ جب تک وہ بھی دونوں پارٹیوں کا مؤقف نہ جان لیں، تب تک کسی ایک کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم نہ کریں کیونکہ یک طرفہ سوچ ہمیشہ غلط تصور کو پروان چڑھاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story