پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنے آرہی ہےچیف جسٹس
حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا لیکن اس کا نتیجہ نہیں نکلا، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنے آرہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد ٹیکسز کیس کی سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے طلبی پر وفاقی وزیر غلام سرور خان پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نے ہی احتساب کا نعرہ لگایا لیکن اس کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، میں تو آج تک احتساب کے حوالے سے کوئی نتائج نہیں دے سکا، عدالت معاملہ نیب کو بھجواتی ہے جو تفتیش میں بہت وقت لیتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنے آرہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنا عدالت کا کام نہیں، عدالت کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لینا ہے، حکومت کو مہنگائی کا جواب عوام کو دینا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پی ایس او میں بہت بندر بانٹ ہوئی، پی ایس او کا پیٹرول کی قیمت پر کوئی کنٹرول ہی نہیں، پی ایس او افسران بھی کوئی تکنیکی کام نہیں کر رہے، پی ایس او میں غیر ترقیاتی اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں، سارا کام مارکیٹ فورسز کا ہے تو افسران کو بھاری تنخواہ کیوں ملتی ہیں؟۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد ٹیکسز کیس کی سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے طلبی پر وفاقی وزیر غلام سرور خان پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نے ہی احتساب کا نعرہ لگایا لیکن اس کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، میں تو آج تک احتساب کے حوالے سے کوئی نتائج نہیں دے سکا، عدالت معاملہ نیب کو بھجواتی ہے جو تفتیش میں بہت وقت لیتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنے آرہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنا عدالت کا کام نہیں، عدالت کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لینا ہے، حکومت کو مہنگائی کا جواب عوام کو دینا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پی ایس او میں بہت بندر بانٹ ہوئی، پی ایس او کا پیٹرول کی قیمت پر کوئی کنٹرول ہی نہیں، پی ایس او افسران بھی کوئی تکنیکی کام نہیں کر رہے، پی ایس او میں غیر ترقیاتی اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں، سارا کام مارکیٹ فورسز کا ہے تو افسران کو بھاری تنخواہ کیوں ملتی ہیں؟۔