تمنا کا آخری پتا

یہ تو علمائے کرام ‘ مشائخ عظام اور ججائے علام ہی طے کر سکتے ہیں کہ ناموں کی یہ مشابہت و مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔

barq@email.com

اب یاد نہیں کہ کونسا منُہ تھا چھوٹا یا بڑا' نالے والا یا ہمارے جیسا بے نوا اور بے نوالا۔ لیکن جو بات اس سے نکلی تھی وہ بہت بڑی بات تھی' اس لیے کہ حیرت انگیز طور پر وہ پوری بھی ہوگئی' پوری نہ سہی کچھ آدھی ادھوری ہی سہی لیکن کسی حد تک تو پوری ہوگئی ۔ کم از کم ہمیں تو ایسا لگتا ہے۔

گزشتہ انتخابات میں یہ بات بلکہ ''دعا'' ہم نے اخبار میں پڑھی تھی اور یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آج کل دعائیں بھی ڈائریکٹ یعنی بلا واسطہ نہیں۔ بلکہ بالواسطہ مانگی جاتی ہیں اس کا فائدہ یہ ہے کہ اوروں کو بھی اس پر امین ثم آمین کہنے کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے ۔

آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم کچھ زیادہ بلکہ کم بھی لائق فائق نہیں ہیں اس لیے سوچے سمجھے بغیر کبھی کبھی منہ سے ایسی بات ''نکل'' جاتی ہے جو نکلنے کی نہیں ہوتی اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے منہ میں وہ ترازو بھی نہیں جس کے ذریعے تولا جاتا ہے پھر بولا جاتا ہے۔

وہ ہمارے ایک بزرگ تھے جو ہمیشہ اپنا قصیدہ نمازیہ پڑھتے رہتے تھے۔ مثلاً آج جب میں نماز با جماعت پڑھ کر مسجد سے نکلا یا کل جب میں نماز پڑھنے جا رہا تھا یا نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو مسجد میں۔۔۔۔۔ کل نماز پڑھنے کے بعد راستے میں فلاں سے ملاقات ہوئی ۔ آج صبح کی نماز پڑھ کر ۔ یا ظہر کی نماز کے بعد' یا شام کی نماز سے پہلے ۔ رات کو میں نے عشاء ۔

ایسی بات ہم نے اس کے منہ سے کبھی نہیں سنی جس میں نماز کا حوالہ نہ ہوا ۔ لیکن ایک دن ہمارے اس ناہنجار منہ سے نکلا کہ نمازوں کا یوں چرچا کرنا نمائش اور ریا میں آتا ہے۔ اس پر انھوں نے جو جواب دیا۔ وہ آب اور آب زر دونوں سے لکھنے کے قابل ہے بولے اچھے کاموں کا تذکرہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ملے ۔ ایسا ہی سلسلہ شاید دعاؤں کا بھی ہے کہ اگر اخبار ریڈیو یا ٹی وی کے ذریعے مانگی جائیں تو دوسروں کو بھی یاد آجاتا ہے یا کم از کم امین تو کہہ دیتے ہیں ۔

ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان پر صبح کے پروگراموں کے اختتام پر ایک دعا مانگی جاتی تھی جو پورے آدھے گھنٹے پر مشتمل ہوتی تھی شاید اب بھی ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک گھنٹے کی ہو چکی ہو اتنے عرصے میں ۔

ایک تو ان صاحب کی آواز بڑی دبنگ تھی اوپر ش قاف عین غین بھی اچھے خاصے گاڑھے ہوتے تھے۔ اس دعا میں کوئی ایسی چیز کائنات میں ایسی نہ تھی جو نہ مانگی جاتی ہو بلکہ ایک طرح خدا کو ایک فہرست دی جاتی تھی ان کاموں کی جو کرنے کے ہوتے تھے اور ان پر لوگ یقیناً آمین کہتے بھی ہوں گے گویا انفرادی سے اجتماعی دعا بن جاتی ہے ویسے بھی سنا ہے کہ مائیک سے جو آواز نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔


ہم معذرت خواہ ہیں کہ جس خاص بلکہ خاص الخاص''دعا'' کا ہم ذکر کرنا چاہ رہے ہیں وہ ہم فوری طور پر آپ تک نہیں پہنچا سکے۔ بہر حال اب سہی ... دعاان الفاظ پر مشتمل تھی کہ خدا قوم کو حضرت عمر (رض) جیسی قیادت عطا فرمائے ۔ہم نے اس پر نہایت خلوص سے بلکہ زور سے آمین کہا تھا لیکن اب یہ یاد نہیں ہے کہ ''ثم امین'' بھی کہا تھا یا نہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر اب انتہائی خوشی ہورہی ہے کہ اس دعا کا کچھ حصہ تو پورا ہوچکا ہے آپ اسے ہماری خوش فہمی کہیے، حماقت کہیے، جہالت بلکہ توہم بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہمیں اس سے کیا ۔ ہم پکا پکا یقین کرچکے ہیں کہ ناموں کی یہ مماثلت بلا وجہ نہیں ہے ۔

عمر اور عمران میں نہایت ہی مشابہت محض اتفاق تو نہیں ہو سکتی بلکہ ہم نے تو مزید غور کیا تو خیال اور بھی پختہ ہوگیا کہ حضرت عمر کے اسم مبارک کے ساتھ یہ ''رض'' کو تھوڑا بڑا کیا جائے تو ''ان''کے بہت قریب لگتا ہے اگر ''رض'' کو تو تھوڑا بڑا اور ''ان'' کو ذراچھوٹا کر دیا جائے ۔

ہم اس پراصرار نہیں کر رہے ہیں اور اسے اپنی غلط فہمی یا خوش فہمی بھی مان سکتے ہیں لیکن ''دل''کے بارے میں تو احمد فرازؔ بھی کہہ چکے ہیں کہ ''دل تو ہے ناداں جاناں۔ اور پیرو مرشد بھی ''دل ناداں'' کے ہاتھوںہمیشہ نالاں رہتے تھے بلکہ اگر پڑوسی ملک کی ''علمی'' یونیورسٹی بالی ووڈ کے نظریات کو نظر میں رکھیں تو ''دل'' اور بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے دل کی نادانی ہو لیکن کیا کیجیے دل چیز ہی ایسی ہے کہ

ہر بگولے میں نظر آتا ہے تیرا محمل

یہ تو علمائے کرام ' مشائخ عظام اور ججائے علام ہی طے کر سکتے ہیں کہ ناموں کی یہ مشابہت و مماثلت محض اتفاقیہ ہے اور ہم یونہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں یا ہماری تمناؤں اور خاص طور پر اس ''دعا'' کے پورا ہونے کا اشارہ ہے اور پھر تو سچ ہے کہ ہر کسی کو خوش ہونے کا حق ہے چاہے وہ وہم ہی کیوں نہ ہو۔ قطرہ میں دجلہ اور جزو میں کل بھی دکھائی دے سکتا ہے اور پھر ہم کونسا کسی اور سے بھی اپنی بات منوا رہے ہیں کوئی اور نہ مانے تو نہ مانے ہم تو مان چکے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو ہے ۔

ایک کہانی یاد آرہی ہے کہ ایک مریض اپنی کھڑکی سے سامنے والی عمارت پر ایک انگور کی بیل دیکھ کر یہ وہم قائم کرچکا تھا کہ اس انگور کی بیل کو لگے ہوئے پتے اگر سارے گر جائیں گے تو میں مر جاؤں گا۔ خزاں کے موسم میں انگور کی بیل پر پتے سرخ اور پھر زرد ہونے لگے اور پھر ایک ایک کرکے گرنے لگے ہر پتے کے گرنے پر اس کی حالت خراب ہونے لگی آخر کار صرف چند پتے رہ گئے اور پھر ان میں سے بھی صرف ایک پتہ رہ گیا جس کا گرنا وہ شخص اپنی موت سمجھنے لگا۔

لیکن وہ پتہ نہیں گر رہا تھا یہ اس امید میں تھا کہ اب گرا اور تب گرا لیکن وہ پتہ نہیں گر رہا تھا یہاں تک کہ پھر بہار آئی اور انگور کی بیل پتوں سے لد گئی حیرت انگیز طور پر وہ مریض بھی بھلا چنگا ہوگیا۔ اصل بات یہ ہوتی تھی کہ اس کے ایک پڑوسی آرٹسٹ کو اس کے وہم کا علم ہو گیا تو اس نے راتوں رات جاکر دیوار پر ایک پتا بنا دیا جو دور سے بیل ہی کا پتا لگتا تھا، انگور کے اپنے سارے پتے گر چکے تھے لیکن آرٹسٹ کے بنائے ہوئے آخری پتے کے سہارے وہ مریض زندہ رہا تھا ، شاید ہم بھی وہ مریض ہوں خدا آرٹسٹ کا بھلا کرے۔
Load Next Story