قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔
کراچی اور سندھ کے حساس لسانی پس منظر کو نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے افغان اور بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا عندیہ دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اِن کے پہلے دورۂ کراچی پر کہاں تو یہ توقع تھی کہ وہ کوئی ترقیاتی پیکیج دیں گے، اور کہاں انہوں نے اپنے تئیں مسائل کا یہ حل تجویز کر دیا کہ بعض مبصرین اسے الٹا مسائل میں اضافے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
عمران خان کا خیال ہے کہ کراچی میں جرائم کی وجہ بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ملنے کی صورت میں بے روزگار رہتے ہیں اور پھر جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
گزشتہ سال وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں تارکین وطن کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا، جن میں ظاہر ہے سب سے بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ رجسٹرڈ اور سات لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالی افراد کی تعداد 15 لاکھ ہے، جب کہ بنگالی باشندوں کے نمائندے خواجہ سلمان اپنی برادری کی تعداد 25 لاکھ تک بتاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن نئے شہریوں کے اس حق کی بنیاد دیگر مقامی شہریوں کے بنیادی حق تلفی پر ہرگز نہیں رکھی جانی چاہیے۔ عمران خان کے اس اعلان پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ کہ صرف کراچی میں موجود افغانوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔
کراچی اور سندھ لسانی اعتبار سے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت مقامی آبادی کے تحفظات کو نظرانداز کرنا بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے حکم رانوں سے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اب تک واپس اپنے ملک کیوں نہیں بھیجا گیا۔ بالخصوص کراچی جیسے مصائب زدہ شہر کب تک بن بلائے مہمانوں کی تواضع کر کر کے ہلکان ہوتا رہے گا۔ اگر ان تارکین وطن کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیںِ، تو حکومت کا فرض ہے کہ بطور غیر ملکی ان کی رجسٹریشن یقینی بنائے۔ اس کے بعد باضابطہ طریقے سے انہیں روانہ کیا جائے۔
بدترین گنجانیت کے شکار کراچی میں بنیادی سہولیات سے لے کر ہنگامی امداد تک شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس گنجانیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا ہے، جس کے سبب ملک کے کونے کونے سے یہاں مسلسل نقل مکانی جاری ہے۔ سرکاری سطح پر بھی یہ سلسلہ رہا، جب 1960ء کی دہائی میں یہاں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو لاکر بسایا گیا۔۔۔ 1980ء کی بدنصیب دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کا سیلاب بھی داخل کردیا گیا، جس سے شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اِن افغان پناہ گزینوں نے اِس شہر کو منشیات اور اسلحے و بارود کا وہ ''تحفہ'' دیا کہ جس کے ثمرات کا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں۔ اس کے بعد 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے شکار افراد کی بھی یہاں آمد ہوئی۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے متاثرین کو بھی ہزاروں کلو میٹر دور یہاں لاکر بسایا گیا۔
یہ وہ صورت حال ہے کہ اب اہل کراچی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں اجنبی بنایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے آباو اجداد نے ہجرت کی، لیکن اب اُن کا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے، جب کہ یہاں آنے والی دیگر لسانی اکائیوں کے اپنے آبائی علاقے بھی موجود ہیں، اس لیے اس شہر اور اِس کے وسائل پر پہلا حق ہمارا تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم یہاں سے کما کر یہیں خرچ کرتے ہیں، جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگر افراد یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی زیادہ تر آمدنی اپنے علاقوں میں صرف کرتے ہیں۔
جب کوئی سہولت پہلے گھر کے افراد کے بہ جائے باہر والوں کو ملے، تو ایسے سماج میں ہم آہنگی کے بہ جائے شدید تناؤ جنم لیتا ہے، اور ہماری تاریخ میں اس کے خوف ناک نتائج بھی رقم ہیں۔ آج بھی کراچی میں مسافر بسوںِ، سڑکوں، بازاروں اور گلی محلوں میں معمولی تنازع لسانی تکرار اختیار کر جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس شہر کے وسائل نہایت کم اور مسائل بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ لاکھ جتن کرلیں نہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ لسانی سیاست کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔
اگر تارکین وطن کو شہریت دے دی گئی تو پھر لامحالہ یہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کریں گے۔ یہ امر جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے موافق ہوگا اور وہیں بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے غیرموافق بھی ثابت ہوگا۔ ایسی صورت حال میں کراچی میں خدانخواستہ دوبارہ نفرتوں کا الاؤ دہکنے کے خدشات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ اس شہر نے پہلے ہی 1965ء سے اب تک لسانی عصبیتوں کو بہت جھیلا ہے، درمیان میں لسانیت کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوتے ہی 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کو بنیاد بنا کر شہر میں دوبارہ لسانی نفرتیں پھیلائی گئیں، آج تک نہیں پتا چلا کہ آخر ایک سیاسی اختلاف کو اس شہر میں لسانی رنگ کس طرح دے دیا گیا؟
25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار تحریک انصاف نے کراچی میں بھی اکثریت حاصل کی ہے۔۔۔ انتخابات سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جب کراچی کے دورے کے دوران یہ کہا کہ ''میں پان کھانے والوں کے کراچی کو لاہور بناؤں گا!'' تو پہلی بار ایسا ہوا کہ تحریک انصاف کراچی کے راہ نماؤں نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کراچی کے دفاع کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے اس دوران 'بانیان پاکستان' جیسی اصطلاحیں بھی استعمال کیں، جو اس سے پہلے صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔ آج تحریک انصاف ملک بھر کی طرح کراچی کی بھی ایک اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے کراچی کے نمائندوں کی حیثیت سے اِن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یہاں کی سماجیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کریں۔ کسی تجزیے، خدشے یا شکایت کو آنکھ بند کرکے فقط تعصب یا تنگ نظری کے چابک سے نہ ہانک دیں، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، کیوں کہ یہ شہر اب مزید کسی سماجی اور سیاسی اشتعال انگیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭کیا بنگالی باشندوں کا موازنہ افغان مہاجرین سے کیا جا سکتا ہے؟
عمران خان نے بنگالی اور افغان افراد کو شہریت دینے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں دونوں قوموں کا مقدمہ یک ساں نوعیت کا ہے، یا اس میں کوئی فرق ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہمارے بیش تر تجزیہ کار دو الگ الگ مسئلوں کو خلط ملط کر رہے ہیں، جس سے کافی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
جغرافیائی طور پر دیکھیے تو ریاستِ پاکستان برصغیر کے ایک مخصوص حصے میں قائم ہوئی، لیکن یہ ریاست پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ 1971ء میں مشرقی بنگال، بنگلا دیش بن گیا، لیکن نظریاتی طور پر پاکستان میں بنگالیوں کے رہنے کی نفی نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بنگال کا مغربی ٹکڑا بنگلا دیش کا حصہ نہیں، جس طرح برصغیر کے دیگر علاقے نے اس ریاست میں رہنے کے حق کو استعمال کیا، اسی طرح مغربی بنگال کی نسبت سے بھی اِن کے لیے گنجائش نکلتی ہے۔
یہی نہیں مسلم لیگ کے قیام (1906ء) سے قیام پاکستان (1947ء) تک اہل بنگال کی جدوجہد سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، بنگال کا شمار برصغیر کے اُن تین صوبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے (کل 30میں سے) سب سے زیادہ یعنی چھے، چھے نشستیں دے کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ان صوبوں میں 'یوپی' تو کبھی اس ملک کا حصہ ہی نہ بن سکا، جب کہ پنجاب کی مسلم لیگ میں شمولیت بٹوارے سے کچھ ہی پہلے کا واقعہ ہے، دوسری طرف صوبہ بنگال کی تحریک پاکستان میں شمولیت بالکل آغاز سے ہے۔
افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ 1980ء میں روسی حملے کے بعد پیدا ہوا، اِن افغان باشندوں کی یہاں آمد عارضی بنیادوں پر تھی، لیکن عملاً یہ کراچی کے وسائل پر دھڑلے سے قابض ہوتے گئے، جس کی وجہ سے شہر میں امن وامان کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے، انہیں واپس بھیجنے کے خاطرخواہ اقدام تو کیا ہوتے، الٹا ان کے یہاں قیام کی مدت میں بار بار توسیع کی جاتی رہی۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی 45 فی صد سے زائد آبادی تاجک، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی نسلوں پر مشتمل ہے، یوں بلاواسطہ وسطی ایشیا کے باشندے بھی یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے راستے اختیار کرنے لگیں گے، اس امر پر بھی بہت اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بنگلادیش کی کوئی سرحد نہیں ملتی، اس لیے جغرافیائی طور پر بنگالی باشندوں کی یہاں مزید نقل مکانی ممکن نہیں۔ یوں بنگالیوں کے حوالے سے تو شہریت کے مسئلے کو ہم حل ہونا کہہ سکتے ہیں، افغان باشندوں پر انہیں جغرافیائی اور تاریخی طور پر بھی برتری حاصل ہے، جب کہ نسلی طور پر ریاست میں افغانیوں کے مماثل لسانی اکائیاں اور موافق سیاسی آوازیں موجود ہیں، پھر فطری طور پر اپنا ناتا وہاں سے جوڑ لیں گے، جب کہ بنگالیوں کی یہاں کراچی ہی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ امر سماجی ہی نہیں سیاسی طور پر کراچی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
ریاست پہلے ہی تین عشروں سے افغان باشندوں کی تباہ کن مہمان نوازی اٹھا رہی ہے، ہماری افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد بھی موجود ہے، جہاں سے آمدورفت کا سلسلہ بھی مستقل جاری رہتا ہے۔ کراچی میں ان کے لیے شہریت کے دروازے کھلنے کے بعد یہ سلسلہ مزید دراز ہونے کے خدشات ہیں، پھر کیا ہمارے کم زور نظام میں کسی بھی طرح یہاں کی پیدائش ثابت کرنا کون سا دشوار امر رہ جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ناکافی وسائل پر مزید بار بڑھ جائے گا۔
٭غیرملکیوں کی شہریت اور اپنے شہریوں کی بے گھری!
اِن دنوں کراچی میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے کئی عشروں پرانی آبادیاں خالی کرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ مارٹن کوارٹر اور گارڈن وغیرہ میں بہت سے کوارٹرز میں سابق سرکاری ملازمین کے اہل خانہ 40، 40 برسوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں اپنے تئیں مالکانہ حقوق کی کارروائی بھی نمٹائی ہے، اس کے باوجود چار ہزار سے زائد کواٹروں میں رہنے والے لاکھوں مکینوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی نام لیوا 'متحدہ قومی موومنٹ' سے لے کر حب الوطنی اور مذہبی بنیادوں پر استوار کوئی بھی سیاسی جماعت اس سنگین انسانی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔! ایسے ماحول میں اسی کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو قانونی تسلیم کرنا اِن افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جو ریاست کے قیام کے وقت سے یہاں کے شہری ہیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں جن تارکین وطن کی باقاعدہ پوری آبادیاں غیرقانونی ہیں، بلکہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر بھی وہ قبضہ جمائے ہیں اور ان کے اصل مالکان بے بس ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ ان کے قبضے چھڑائے۔ الٹا نہیں یہاں کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہے، جب کہ دو، دو کمرے کے گھروں میں گزر بسر کرنے والے ان سرکاری خادمین کے اہل خانہ کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، جن کے بڑوں کی محنت سے اُس زمانے میں امور ریاست چل پائے۔
٭شہریت دینے سے پہلے
پاکستان جیسے کثیر الا قومی ملک میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے کسی بھی فیصلے سے قبل مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جانا ضروری ہیں، تاکہ انہیں اپنے سماجی اور سیاسی حق کی تلفی کا کوئی خدشہ نہ ہو، انہیں کسی بھی طرح اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے، نئے شہریوں کی رہائش اور زندگی گزارنے کے لیے براہ راست متعلقہ ضلع کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، نہ کہ اُسی وسائل میں نئے شہریوں کو بھی حصے دار بنا دیا جائے۔ نئے وسائل میں پانی، بجلی اور گیس سے اسپتالوں تک کی ہنگامی ضروریات کا احاطہ ہونا چاہیے.
شہریت دینے کے بعد انہیں بہ جائے کسی مخصوص جگہ بسانے کے، انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لیے بھی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں، غیر ملکی باشندوں کو مکمل شہری حقوق بہ تدریج اور مشروط طور پر دیے جائیں، جس میں باقاعدہ طور پر حق رائے دہی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ایک مدت کا تعین کیا جائے، وغیرہ۔ اگر ان بنیادی امور کو سامنے رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہ قدم کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی طرف بڑھا ہوا محسوس ہوگا، ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔
عمران خان کا خیال ہے کہ کراچی میں جرائم کی وجہ بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ملنے کی صورت میں بے روزگار رہتے ہیں اور پھر جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
گزشتہ سال وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں تارکین وطن کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا، جن میں ظاہر ہے سب سے بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ رجسٹرڈ اور سات لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالی افراد کی تعداد 15 لاکھ ہے، جب کہ بنگالی باشندوں کے نمائندے خواجہ سلمان اپنی برادری کی تعداد 25 لاکھ تک بتاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن نئے شہریوں کے اس حق کی بنیاد دیگر مقامی شہریوں کے بنیادی حق تلفی پر ہرگز نہیں رکھی جانی چاہیے۔ عمران خان کے اس اعلان پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ کہ صرف کراچی میں موجود افغانوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔
کراچی اور سندھ لسانی اعتبار سے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت مقامی آبادی کے تحفظات کو نظرانداز کرنا بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے حکم رانوں سے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اب تک واپس اپنے ملک کیوں نہیں بھیجا گیا۔ بالخصوص کراچی جیسے مصائب زدہ شہر کب تک بن بلائے مہمانوں کی تواضع کر کر کے ہلکان ہوتا رہے گا۔ اگر ان تارکین وطن کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیںِ، تو حکومت کا فرض ہے کہ بطور غیر ملکی ان کی رجسٹریشن یقینی بنائے۔ اس کے بعد باضابطہ طریقے سے انہیں روانہ کیا جائے۔
بدترین گنجانیت کے شکار کراچی میں بنیادی سہولیات سے لے کر ہنگامی امداد تک شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس گنجانیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا ہے، جس کے سبب ملک کے کونے کونے سے یہاں مسلسل نقل مکانی جاری ہے۔ سرکاری سطح پر بھی یہ سلسلہ رہا، جب 1960ء کی دہائی میں یہاں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو لاکر بسایا گیا۔۔۔ 1980ء کی بدنصیب دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کا سیلاب بھی داخل کردیا گیا، جس سے شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اِن افغان پناہ گزینوں نے اِس شہر کو منشیات اور اسلحے و بارود کا وہ ''تحفہ'' دیا کہ جس کے ثمرات کا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں۔ اس کے بعد 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے شکار افراد کی بھی یہاں آمد ہوئی۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے متاثرین کو بھی ہزاروں کلو میٹر دور یہاں لاکر بسایا گیا۔
یہ وہ صورت حال ہے کہ اب اہل کراچی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں اجنبی بنایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے آباو اجداد نے ہجرت کی، لیکن اب اُن کا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے، جب کہ یہاں آنے والی دیگر لسانی اکائیوں کے اپنے آبائی علاقے بھی موجود ہیں، اس لیے اس شہر اور اِس کے وسائل پر پہلا حق ہمارا تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم یہاں سے کما کر یہیں خرچ کرتے ہیں، جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگر افراد یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی زیادہ تر آمدنی اپنے علاقوں میں صرف کرتے ہیں۔
جب کوئی سہولت پہلے گھر کے افراد کے بہ جائے باہر والوں کو ملے، تو ایسے سماج میں ہم آہنگی کے بہ جائے شدید تناؤ جنم لیتا ہے، اور ہماری تاریخ میں اس کے خوف ناک نتائج بھی رقم ہیں۔ آج بھی کراچی میں مسافر بسوںِ، سڑکوں، بازاروں اور گلی محلوں میں معمولی تنازع لسانی تکرار اختیار کر جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس شہر کے وسائل نہایت کم اور مسائل بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ لاکھ جتن کرلیں نہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ لسانی سیاست کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔
اگر تارکین وطن کو شہریت دے دی گئی تو پھر لامحالہ یہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کریں گے۔ یہ امر جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے موافق ہوگا اور وہیں بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے غیرموافق بھی ثابت ہوگا۔ ایسی صورت حال میں کراچی میں خدانخواستہ دوبارہ نفرتوں کا الاؤ دہکنے کے خدشات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ اس شہر نے پہلے ہی 1965ء سے اب تک لسانی عصبیتوں کو بہت جھیلا ہے، درمیان میں لسانیت کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوتے ہی 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کو بنیاد بنا کر شہر میں دوبارہ لسانی نفرتیں پھیلائی گئیں، آج تک نہیں پتا چلا کہ آخر ایک سیاسی اختلاف کو اس شہر میں لسانی رنگ کس طرح دے دیا گیا؟
25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار تحریک انصاف نے کراچی میں بھی اکثریت حاصل کی ہے۔۔۔ انتخابات سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جب کراچی کے دورے کے دوران یہ کہا کہ ''میں پان کھانے والوں کے کراچی کو لاہور بناؤں گا!'' تو پہلی بار ایسا ہوا کہ تحریک انصاف کراچی کے راہ نماؤں نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کراچی کے دفاع کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے اس دوران 'بانیان پاکستان' جیسی اصطلاحیں بھی استعمال کیں، جو اس سے پہلے صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔ آج تحریک انصاف ملک بھر کی طرح کراچی کی بھی ایک اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے کراچی کے نمائندوں کی حیثیت سے اِن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یہاں کی سماجیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کریں۔ کسی تجزیے، خدشے یا شکایت کو آنکھ بند کرکے فقط تعصب یا تنگ نظری کے چابک سے نہ ہانک دیں، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، کیوں کہ یہ شہر اب مزید کسی سماجی اور سیاسی اشتعال انگیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭کیا بنگالی باشندوں کا موازنہ افغان مہاجرین سے کیا جا سکتا ہے؟
عمران خان نے بنگالی اور افغان افراد کو شہریت دینے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں دونوں قوموں کا مقدمہ یک ساں نوعیت کا ہے، یا اس میں کوئی فرق ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہمارے بیش تر تجزیہ کار دو الگ الگ مسئلوں کو خلط ملط کر رہے ہیں، جس سے کافی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
جغرافیائی طور پر دیکھیے تو ریاستِ پاکستان برصغیر کے ایک مخصوص حصے میں قائم ہوئی، لیکن یہ ریاست پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ 1971ء میں مشرقی بنگال، بنگلا دیش بن گیا، لیکن نظریاتی طور پر پاکستان میں بنگالیوں کے رہنے کی نفی نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بنگال کا مغربی ٹکڑا بنگلا دیش کا حصہ نہیں، جس طرح برصغیر کے دیگر علاقے نے اس ریاست میں رہنے کے حق کو استعمال کیا، اسی طرح مغربی بنگال کی نسبت سے بھی اِن کے لیے گنجائش نکلتی ہے۔
یہی نہیں مسلم لیگ کے قیام (1906ء) سے قیام پاکستان (1947ء) تک اہل بنگال کی جدوجہد سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، بنگال کا شمار برصغیر کے اُن تین صوبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے (کل 30میں سے) سب سے زیادہ یعنی چھے، چھے نشستیں دے کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ان صوبوں میں 'یوپی' تو کبھی اس ملک کا حصہ ہی نہ بن سکا، جب کہ پنجاب کی مسلم لیگ میں شمولیت بٹوارے سے کچھ ہی پہلے کا واقعہ ہے، دوسری طرف صوبہ بنگال کی تحریک پاکستان میں شمولیت بالکل آغاز سے ہے۔
افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ 1980ء میں روسی حملے کے بعد پیدا ہوا، اِن افغان باشندوں کی یہاں آمد عارضی بنیادوں پر تھی، لیکن عملاً یہ کراچی کے وسائل پر دھڑلے سے قابض ہوتے گئے، جس کی وجہ سے شہر میں امن وامان کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے، انہیں واپس بھیجنے کے خاطرخواہ اقدام تو کیا ہوتے، الٹا ان کے یہاں قیام کی مدت میں بار بار توسیع کی جاتی رہی۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی 45 فی صد سے زائد آبادی تاجک، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی نسلوں پر مشتمل ہے، یوں بلاواسطہ وسطی ایشیا کے باشندے بھی یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے راستے اختیار کرنے لگیں گے، اس امر پر بھی بہت اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بنگلادیش کی کوئی سرحد نہیں ملتی، اس لیے جغرافیائی طور پر بنگالی باشندوں کی یہاں مزید نقل مکانی ممکن نہیں۔ یوں بنگالیوں کے حوالے سے تو شہریت کے مسئلے کو ہم حل ہونا کہہ سکتے ہیں، افغان باشندوں پر انہیں جغرافیائی اور تاریخی طور پر بھی برتری حاصل ہے، جب کہ نسلی طور پر ریاست میں افغانیوں کے مماثل لسانی اکائیاں اور موافق سیاسی آوازیں موجود ہیں، پھر فطری طور پر اپنا ناتا وہاں سے جوڑ لیں گے، جب کہ بنگالیوں کی یہاں کراچی ہی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ امر سماجی ہی نہیں سیاسی طور پر کراچی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
ریاست پہلے ہی تین عشروں سے افغان باشندوں کی تباہ کن مہمان نوازی اٹھا رہی ہے، ہماری افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد بھی موجود ہے، جہاں سے آمدورفت کا سلسلہ بھی مستقل جاری رہتا ہے۔ کراچی میں ان کے لیے شہریت کے دروازے کھلنے کے بعد یہ سلسلہ مزید دراز ہونے کے خدشات ہیں، پھر کیا ہمارے کم زور نظام میں کسی بھی طرح یہاں کی پیدائش ثابت کرنا کون سا دشوار امر رہ جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ناکافی وسائل پر مزید بار بڑھ جائے گا۔
٭غیرملکیوں کی شہریت اور اپنے شہریوں کی بے گھری!
اِن دنوں کراچی میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے کئی عشروں پرانی آبادیاں خالی کرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ مارٹن کوارٹر اور گارڈن وغیرہ میں بہت سے کوارٹرز میں سابق سرکاری ملازمین کے اہل خانہ 40، 40 برسوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں اپنے تئیں مالکانہ حقوق کی کارروائی بھی نمٹائی ہے، اس کے باوجود چار ہزار سے زائد کواٹروں میں رہنے والے لاکھوں مکینوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی نام لیوا 'متحدہ قومی موومنٹ' سے لے کر حب الوطنی اور مذہبی بنیادوں پر استوار کوئی بھی سیاسی جماعت اس سنگین انسانی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔! ایسے ماحول میں اسی کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو قانونی تسلیم کرنا اِن افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جو ریاست کے قیام کے وقت سے یہاں کے شہری ہیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں جن تارکین وطن کی باقاعدہ پوری آبادیاں غیرقانونی ہیں، بلکہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر بھی وہ قبضہ جمائے ہیں اور ان کے اصل مالکان بے بس ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ ان کے قبضے چھڑائے۔ الٹا نہیں یہاں کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہے، جب کہ دو، دو کمرے کے گھروں میں گزر بسر کرنے والے ان سرکاری خادمین کے اہل خانہ کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، جن کے بڑوں کی محنت سے اُس زمانے میں امور ریاست چل پائے۔
٭شہریت دینے سے پہلے
پاکستان جیسے کثیر الا قومی ملک میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے کسی بھی فیصلے سے قبل مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جانا ضروری ہیں، تاکہ انہیں اپنے سماجی اور سیاسی حق کی تلفی کا کوئی خدشہ نہ ہو، انہیں کسی بھی طرح اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے، نئے شہریوں کی رہائش اور زندگی گزارنے کے لیے براہ راست متعلقہ ضلع کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، نہ کہ اُسی وسائل میں نئے شہریوں کو بھی حصے دار بنا دیا جائے۔ نئے وسائل میں پانی، بجلی اور گیس سے اسپتالوں تک کی ہنگامی ضروریات کا احاطہ ہونا چاہیے.
شہریت دینے کے بعد انہیں بہ جائے کسی مخصوص جگہ بسانے کے، انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لیے بھی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں، غیر ملکی باشندوں کو مکمل شہری حقوق بہ تدریج اور مشروط طور پر دیے جائیں، جس میں باقاعدہ طور پر حق رائے دہی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ایک مدت کا تعین کیا جائے، وغیرہ۔ اگر ان بنیادی امور کو سامنے رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہ قدم کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی طرف بڑھا ہوا محسوس ہوگا، ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔