ایک جعل ساز جس نے ایفل ٹاور بیچ ڈالا
کرنسی نوٹ ’’اُگلتی‘‘ مشین بھی وکٹر لسٹنگ کا ’’کارنامہ‘‘ تھی۔
تاریخ کے چند صفحات وکٹر لسٹنگ نے بھی اپنے نام کیے ہیں، مگر اس کا تذکرہ جعل سازوں اور دھوکے بازوں کی فہرست میں ملے گا۔
اس کے 'کارنامے' پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اصل نام تو اس کا رابرٹ ملر تھا، مگر دھوکا دہی کی وارداتوں کے لیے اس نے مختلف نام اپنائے اور سوانگ بھرے۔ ان میں وکٹر لسٹنگ وہ نام ہے جو زیادہ مشہور ہے۔
اس کی تاریخِ پیدائش 1890ء اور وطن چیکو سلواکیا تھا۔ کہتے ہیں وہ ذہین اور پُراعتماد تھا اور بَروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ متعدد زبانوں پر عبور رکھنا اس کی ایک زبردست قابلیت تھی۔ لوگ اس کی لچھے دار باتوں میں آسانی سے آجاتے۔ وہ اپنی جادو بیانی سے ان کا بھروسا اور مان حاصل کرنے کے بعد موقع پاتے ہی انہیں نقدی اور قیمتی اشیا سے محروم کردیتا۔ اس دھوکے باز نے تو مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور تک بیچ دیا تھا۔
سچ ہے لالچ بُری بلا ہے، مگر راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں انسان اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ رابرٹ نے اسی انسانی کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور خوب مال اکٹھا کیا۔ اس کا پہلا 'منظم کارنامہ' کرنسی نوٹ چھاپنے والی مشین تھی۔
یہ قصّہ کچھ یوں ہے کہ وکٹر لسٹنگ (جعلی نام) کے شیطانی ذہن نے ایک ایسی مشین تیار کی جس سے کرنسی نوٹ کی نقل حاصل کی جاسکتی تھی۔ یعنی اس میں مخصوص طریقے سے کرنسی نوٹ داخل کر کے دگنی رقم ہاتھ لگ سکتی تھی۔ یوں کوئی بھی گویا راتوں رات امیر بن سکتا تھا۔ اس نے چند لوگوں کو اس 'ایجاد' سے آگاہ کیا اور مشین کی قیمت تیس ہزار ڈالر بتائی۔ یہی نہیں بلکہ خواہش مندوں کے سامنے اس کا مشین کا عملی مظاہرہ کیا۔ پہلی بار مخصوص طریقۂ استعمال سے مشین نے سو ڈالر اگل دیے۔ وکٹر نے بتایا کہ اگلی بار یہ اس سے دگنی رقم دے گی اور اس نے ایسا کر کے دکھایا بھی۔
وہ ایک کرنسی نوٹ مخصوص حصّے سے داخل کرتا اور دوسرے سے دگنی رقم باہر نکلنے لگتی۔ چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد دوبارہ مشین استعمال کی جاتی تو مزید دو سو ڈالر نہایت آسانی سے ہاتھ آجاتے۔ جانچ کروانے پر وہ تمام کرنسی نوٹ اصلی ثابت ہوئے۔ یوں لوگ لالچ میں آگئے، مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس مشین سے دو مرتبہ ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور تین سو ڈالر اگلنے کے بعد یہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ یوں بھی سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس مشین سے نکلنے والے کرنسی نوٹوں نے ختم کردی تھی۔ وکٹر لسٹنگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ایسا الجھایا کہ کسی نے مشین کے بارے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اسے خریدنے کے چکر میں پڑ گئے۔ دھوکے باز وکٹر اپنے مقصد میں کام یاب رہا اور تیس ہزار ڈالر کے عوض مشین فروخت کرتا رہا۔ دراصل اس مشین کے مخصوص خانے میں اصل کرنسی نوٹ خود اس دھوکے باز نے رکھے تھے تاکہ لوگوں کا بھروسا حاصل کر سکے۔ جب مشین کو مخصوص طریقے سے استعمال کیا جاتا تو اس میں موجود کرنسی نوٹ باہر نکل آتے۔
یہ دو مرتبہ تو ممکن ہوتا، مگر تیسری بار صارف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، کیوں کہ نوٹوں کا خانہ خالی ہو جاتا تھا۔ تب ان پر اس کی حقیقت بھی کُھل جاتی، مگر اس وقت تک یہ جعل ساز ایک دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ اس طرح مشین کی ادا کردہ قیمت تک لوگوں کی جیب میں نہیں آسکی اور وہ اپنے لُٹنے کا ماتم کرتے رہ گئے۔ تیسری مرتبہ مشین میں سے سادہ کاغذ برآمد ہوتا اور صارف جھنجھلاہٹ کے عالم میں پھر کوشش کرتا، اس کی متعدد کوششوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا۔ یعنی ہر کوشش میں کورا کاغذ ہی ہاتھ لگتا اور تب وہ یہ ماننے پر مجبور ہوتے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ اس وقت تک وکٹر لسٹنگ ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔ وہ فراڈ کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر منتقل ہوجاتا تھا۔
اس دھوکے باز کا اصل نام رابرٹ تھا۔ اساتذہ اسے ایک ذہین طالبِ علم کے طور پر شناخت کرتے تھے۔ نت نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا جس کا جرم کی دنیا میں اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسے فرانسیسی، چیک، انگریزی، جرمن، اطالوی اور دیگر بولیوں پر عبور حاصل تھا۔ 19 برس کی عمر میں رابرٹ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا اور وقت گزاری کے لیے جوا کھیلنے لگا۔ اسی زمانے میں اس پر دولت سمیٹنے کا جنون سوار ہوا اور اس نے دھوکے بازی اور جعل سازی کا راستہ اپنایا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے ان تاجروں کو لوٹنا شروع کیا جو سمندری راستے امریکا اور فرانس آتے جاتے تھے۔ کبھی وہ میوزک پروڈیوسر بن کر ان سے ہاتھ کر جاتا تو کہیں نواب وکٹر کا روپ دھار کر اپنے جال میں پھنسا لیتا۔
وہ سرمایہ دار بن کر اپنے کاروباری منصوبے تاجروں کے سامنے رکھتا اور ملاقاتوں کے دوران ان کا اعتبار اور بھروسا حاصل کرلیتا اور پھر ان کے ساتھ ہاتھ کرجاتا۔ یوں تاجر قیمتی اشیا اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے۔ ایسی چند کارروائیوں کے بعد اس نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مالیاتی ادارہ سے بڑا فراڈ کیا۔ یہ1922 کی بات ہے جب فرانس کا ایک بینک اس کی جعل سازی کا نشانہ بنا۔ یہ پراپرٹی اور بانڈز سے متعلق فراڈ تھا جس پر پولیس اور خفیہ ادارے متحرک ہوگئے، لیکن یہ دھوکے باز اب امریکا میں تھا۔ اس نے پیرس اور امریکا میں معمولی فراڈ اور جعل سازیوں کے ذریعے خاصی رقم اور جائیداد بنا لی تھی اور اب کوئی بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ امریکا میں قیام کے دوران وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا رہا۔ کہتے ہیں وہ صرف امریکا اور فرانس ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک میں بھی مختلف معمولی نوعیت کے فراڈ کرتا رہا اور اس عرصے میں درجنوں بار گرفتار ہوا، لیکن زیادہ دن سلاخوں کے پیچھے نہیں رہا۔
یہ سن کر آپ حیران ہوں گے کہ رابرٹ نے مشہورِزمانہ ایفل ٹاور بھی بیچ دیا تھا۔ فرانس کی یہ تاریخی یادگار اس ملک کی ایک پہچان بھی ہے۔ لوہے کا یہ مینار فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ 1889ء میں انقلابِ فرانس کا صد سالہ جشن مناتے ہوئے اس مینار کی رونمائی کی گئی تھی اور ارادہ تھا کہ دو دہائی بعد اسے منہدم کردیا جائے گا، لیکن بعد میں انتظامیہ نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ایفل ٹاور کی تعمیر میں لوہا اور اسٹیل استعمال کیا گیا ہے جن کا مجموعی وزن 7,300 ٹن ہے۔ یہ مینار جہاں ایک تاریخی حوالہ رکھتا تھا اور اب شہر کی ایک شناخت بھی تھا، وہیں اسکریپ کا کاروبار کرنے والوں کے لیے اس کی فروخت کا اعلان بھی قابلِ ذکر بات تھی۔ شہر کے اہم کباڑیوں تک ایک سرکاری کاغذ پر دعوت پہنچی کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کی شکل میں فروخت کرنا چاہتی ہے، دل چسپی رکھنے والے رابطہ کریں۔ کسی کو گمان تک نہ گزرا کہ یہ سب فراڈ ہے۔ اس کے پیچھے رابرٹ کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا جو 1925ء میں امریکا سے فرانس آیا تھا اور اس بار پیرس اس کا ٹھکانہ تھا۔
وہ موسمِ بہار کی ایک صبح تھی جب اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے رابرٹ کی نظر ایک مضمون پر پڑی جس میں ایفل ٹاور کی وجہ سے شہر میں انتظامی مسائل کا ذکر تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ ٹاور کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش انتظامیہ کے لیے دردِ سَر بنتی جارہی ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر رابرٹ کا شیطانی ذہن متحرک ہو گیا۔ اس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس کے لیے سرکاری عہدے دار کا روپ دھار لیا۔ اس نے دھاتوں اور خام لوہے کی خریدوفروخت سے منسلک چھے بڑے تاجروں کے پتے حاصل کیے اور ایک جعلی سرکاری لیٹر پر دعوت نامہ بھیجا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کرنا چاہتی ہے، اگر وہ اس میں دل چسپی رکھتے ہیں تو رابطہ کریں۔ یہ ہدایت بھی کی کہ انتظامیہ اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جائے۔ اسے حوصلہ افزا جواب موصول ہوا۔ رابرٹ نے خود کو ایک محکمے کا ڈپٹی ڈائریکٹر ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں خواہش مند کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
وہ سرکاری عہدے دار کی حیثیت سے انہیں بتاتا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کی مرمت اور اس کی تزئین و آرائش کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور اسے فروخت کرنا چاہتی ہے، لیکن عوام کی جانب سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے فی الوقت اس معاملے کو خفیہ رکھنا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق جب مالک ٹاور کو اکھاڑے گا تو انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جائے گا کہ اس کی مرمت اور جگہ کی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہے۔ یوں تاجر کو اسکریپ لے جانے پر کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جائے گا۔ آخر اس سودے پر اس نے ایک تاجر کو رضامند کر ہی لیا۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد تاجر نے سرکاری کاغذات پر ایفل ٹاور کی خریداری کے لیے دستخط کردیا اور بھاری رقم رابرٹ کے حوالے کردی جو ٹرین کے ذریعے آسٹریا روانہ ہوگیا۔ بعد میں اس تاجر پر کھلا کہ وہ بیوقوف بن گیا ہے اور وہ دعوت نامہ ہی نہیں معاہدے کی تمام دستاویز جعلی ہیں۔
وہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے رابطہ کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔ اسے اپنی کاروباری ساکھ متاثر ہونے کا ڈر تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ راز کھلا تو اس کے معاصر بزنس مین اس پر ہنسیں گے۔ تاجر نے کھوج لگایا تو انکشاف ہوا کہ خفیہ یا اعلانیہ کسی بھی طور انتظامیہ ایفل ٹاور کی فروخت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اور کبھی ایسی کوئی تجویز تک انتظامیہ میں زیرِغور نہیں رہی۔ ادھر رابرٹ فرانس کے تمام بڑے اخبارات کا مطالعہ کررہا تھا۔ چند ماہ تک اس کے فراڈ سے متعلق کوئی بھی خبر کسی اخبار کی زینت نہ بنی تو اس نے دوبارہ فرانس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ایفل ٹاور 'فروخت' کرے اور اسی طرز پر کاروباری شخصیات سے رابطہ کرے۔ اس نے پیرس پہنچ کر یہی کیا، مگر اس بار قسمت اس کے ساتھ نہ تھی اور ایک تاجر نے شک ہونے پر اس معاملے کو پولیس کے سامنے رکھ دیا۔ پولیس نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور یوں فراڈ کا پردہ چاک ہو گیا، لیکن رابرٹ پولیس کے ہاتھ نہ آیا اور امریکا پہنچ گیا۔
1930ء میں امریکا نے بدترین کساد بازاری دیکھی۔ ان حالات میں رابرٹ جس نے جعلی نام وکٹر لسٹنگ اپنا لیا تھا، ایک نئے فراڈ کا منصوبہ ترتیب دیا۔ تاہم اس بار وہ تنہا نہیں تھا بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل دو کاروباری افراد اس کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل بھی وکٹر لسٹنگ بدنامِ زمانہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل کر بڑے فراڈ کرچکا تھا۔ ان میں لوگوں کو کسی اسکیم کے ذریعے راتوں رات امیر بنانے کے ساتھ دوسرے بڑے مالیاتی فراڈ شامل ہیں۔
ولیم واٹس اور ٹام شا نامی دوا ساز اور کیماگر کے ساتھ مل کر اس نے جعلی کرنسی چھاپنے اور اسے ملک بھر میں پھیلانے کا کام شروع کردیا جو پانچ سال تک جاری رہا۔ 1935ء میں اس جرم کا پردہ چاک ہوگیا اور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ امریکا میں ٹرائل سے چند روز قبل اس ملزم نے فرار کا منصوبہ بنایا اور کسی طرح بھاگنے میں کام یاب ہوگیا، مگر27 روز بعد ہی دوبارہ پکڑا گیا۔ اسے15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 1947ء میں دورانِ قید بیماری کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
اس کے 'کارنامے' پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اصل نام تو اس کا رابرٹ ملر تھا، مگر دھوکا دہی کی وارداتوں کے لیے اس نے مختلف نام اپنائے اور سوانگ بھرے۔ ان میں وکٹر لسٹنگ وہ نام ہے جو زیادہ مشہور ہے۔
اس کی تاریخِ پیدائش 1890ء اور وطن چیکو سلواکیا تھا۔ کہتے ہیں وہ ذہین اور پُراعتماد تھا اور بَروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ متعدد زبانوں پر عبور رکھنا اس کی ایک زبردست قابلیت تھی۔ لوگ اس کی لچھے دار باتوں میں آسانی سے آجاتے۔ وہ اپنی جادو بیانی سے ان کا بھروسا اور مان حاصل کرنے کے بعد موقع پاتے ہی انہیں نقدی اور قیمتی اشیا سے محروم کردیتا۔ اس دھوکے باز نے تو مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور تک بیچ دیا تھا۔
سچ ہے لالچ بُری بلا ہے، مگر راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں انسان اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ رابرٹ نے اسی انسانی کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور خوب مال اکٹھا کیا۔ اس کا پہلا 'منظم کارنامہ' کرنسی نوٹ چھاپنے والی مشین تھی۔
یہ قصّہ کچھ یوں ہے کہ وکٹر لسٹنگ (جعلی نام) کے شیطانی ذہن نے ایک ایسی مشین تیار کی جس سے کرنسی نوٹ کی نقل حاصل کی جاسکتی تھی۔ یعنی اس میں مخصوص طریقے سے کرنسی نوٹ داخل کر کے دگنی رقم ہاتھ لگ سکتی تھی۔ یوں کوئی بھی گویا راتوں رات امیر بن سکتا تھا۔ اس نے چند لوگوں کو اس 'ایجاد' سے آگاہ کیا اور مشین کی قیمت تیس ہزار ڈالر بتائی۔ یہی نہیں بلکہ خواہش مندوں کے سامنے اس کا مشین کا عملی مظاہرہ کیا۔ پہلی بار مخصوص طریقۂ استعمال سے مشین نے سو ڈالر اگل دیے۔ وکٹر نے بتایا کہ اگلی بار یہ اس سے دگنی رقم دے گی اور اس نے ایسا کر کے دکھایا بھی۔
وہ ایک کرنسی نوٹ مخصوص حصّے سے داخل کرتا اور دوسرے سے دگنی رقم باہر نکلنے لگتی۔ چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد دوبارہ مشین استعمال کی جاتی تو مزید دو سو ڈالر نہایت آسانی سے ہاتھ آجاتے۔ جانچ کروانے پر وہ تمام کرنسی نوٹ اصلی ثابت ہوئے۔ یوں لوگ لالچ میں آگئے، مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس مشین سے دو مرتبہ ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور تین سو ڈالر اگلنے کے بعد یہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ یوں بھی سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس مشین سے نکلنے والے کرنسی نوٹوں نے ختم کردی تھی۔ وکٹر لسٹنگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ایسا الجھایا کہ کسی نے مشین کے بارے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اسے خریدنے کے چکر میں پڑ گئے۔ دھوکے باز وکٹر اپنے مقصد میں کام یاب رہا اور تیس ہزار ڈالر کے عوض مشین فروخت کرتا رہا۔ دراصل اس مشین کے مخصوص خانے میں اصل کرنسی نوٹ خود اس دھوکے باز نے رکھے تھے تاکہ لوگوں کا بھروسا حاصل کر سکے۔ جب مشین کو مخصوص طریقے سے استعمال کیا جاتا تو اس میں موجود کرنسی نوٹ باہر نکل آتے۔
یہ دو مرتبہ تو ممکن ہوتا، مگر تیسری بار صارف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، کیوں کہ نوٹوں کا خانہ خالی ہو جاتا تھا۔ تب ان پر اس کی حقیقت بھی کُھل جاتی، مگر اس وقت تک یہ جعل ساز ایک دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ اس طرح مشین کی ادا کردہ قیمت تک لوگوں کی جیب میں نہیں آسکی اور وہ اپنے لُٹنے کا ماتم کرتے رہ گئے۔ تیسری مرتبہ مشین میں سے سادہ کاغذ برآمد ہوتا اور صارف جھنجھلاہٹ کے عالم میں پھر کوشش کرتا، اس کی متعدد کوششوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا۔ یعنی ہر کوشش میں کورا کاغذ ہی ہاتھ لگتا اور تب وہ یہ ماننے پر مجبور ہوتے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ اس وقت تک وکٹر لسٹنگ ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔ وہ فراڈ کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر منتقل ہوجاتا تھا۔
اس دھوکے باز کا اصل نام رابرٹ تھا۔ اساتذہ اسے ایک ذہین طالبِ علم کے طور پر شناخت کرتے تھے۔ نت نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا جس کا جرم کی دنیا میں اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسے فرانسیسی، چیک، انگریزی، جرمن، اطالوی اور دیگر بولیوں پر عبور حاصل تھا۔ 19 برس کی عمر میں رابرٹ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا اور وقت گزاری کے لیے جوا کھیلنے لگا۔ اسی زمانے میں اس پر دولت سمیٹنے کا جنون سوار ہوا اور اس نے دھوکے بازی اور جعل سازی کا راستہ اپنایا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے ان تاجروں کو لوٹنا شروع کیا جو سمندری راستے امریکا اور فرانس آتے جاتے تھے۔ کبھی وہ میوزک پروڈیوسر بن کر ان سے ہاتھ کر جاتا تو کہیں نواب وکٹر کا روپ دھار کر اپنے جال میں پھنسا لیتا۔
وہ سرمایہ دار بن کر اپنے کاروباری منصوبے تاجروں کے سامنے رکھتا اور ملاقاتوں کے دوران ان کا اعتبار اور بھروسا حاصل کرلیتا اور پھر ان کے ساتھ ہاتھ کرجاتا۔ یوں تاجر قیمتی اشیا اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے۔ ایسی چند کارروائیوں کے بعد اس نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مالیاتی ادارہ سے بڑا فراڈ کیا۔ یہ1922 کی بات ہے جب فرانس کا ایک بینک اس کی جعل سازی کا نشانہ بنا۔ یہ پراپرٹی اور بانڈز سے متعلق فراڈ تھا جس پر پولیس اور خفیہ ادارے متحرک ہوگئے، لیکن یہ دھوکے باز اب امریکا میں تھا۔ اس نے پیرس اور امریکا میں معمولی فراڈ اور جعل سازیوں کے ذریعے خاصی رقم اور جائیداد بنا لی تھی اور اب کوئی بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ امریکا میں قیام کے دوران وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا رہا۔ کہتے ہیں وہ صرف امریکا اور فرانس ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک میں بھی مختلف معمولی نوعیت کے فراڈ کرتا رہا اور اس عرصے میں درجنوں بار گرفتار ہوا، لیکن زیادہ دن سلاخوں کے پیچھے نہیں رہا۔
یہ سن کر آپ حیران ہوں گے کہ رابرٹ نے مشہورِزمانہ ایفل ٹاور بھی بیچ دیا تھا۔ فرانس کی یہ تاریخی یادگار اس ملک کی ایک پہچان بھی ہے۔ لوہے کا یہ مینار فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ 1889ء میں انقلابِ فرانس کا صد سالہ جشن مناتے ہوئے اس مینار کی رونمائی کی گئی تھی اور ارادہ تھا کہ دو دہائی بعد اسے منہدم کردیا جائے گا، لیکن بعد میں انتظامیہ نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ایفل ٹاور کی تعمیر میں لوہا اور اسٹیل استعمال کیا گیا ہے جن کا مجموعی وزن 7,300 ٹن ہے۔ یہ مینار جہاں ایک تاریخی حوالہ رکھتا تھا اور اب شہر کی ایک شناخت بھی تھا، وہیں اسکریپ کا کاروبار کرنے والوں کے لیے اس کی فروخت کا اعلان بھی قابلِ ذکر بات تھی۔ شہر کے اہم کباڑیوں تک ایک سرکاری کاغذ پر دعوت پہنچی کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کی شکل میں فروخت کرنا چاہتی ہے، دل چسپی رکھنے والے رابطہ کریں۔ کسی کو گمان تک نہ گزرا کہ یہ سب فراڈ ہے۔ اس کے پیچھے رابرٹ کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا جو 1925ء میں امریکا سے فرانس آیا تھا اور اس بار پیرس اس کا ٹھکانہ تھا۔
وہ موسمِ بہار کی ایک صبح تھی جب اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے رابرٹ کی نظر ایک مضمون پر پڑی جس میں ایفل ٹاور کی وجہ سے شہر میں انتظامی مسائل کا ذکر تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ ٹاور کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش انتظامیہ کے لیے دردِ سَر بنتی جارہی ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر رابرٹ کا شیطانی ذہن متحرک ہو گیا۔ اس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس کے لیے سرکاری عہدے دار کا روپ دھار لیا۔ اس نے دھاتوں اور خام لوہے کی خریدوفروخت سے منسلک چھے بڑے تاجروں کے پتے حاصل کیے اور ایک جعلی سرکاری لیٹر پر دعوت نامہ بھیجا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کرنا چاہتی ہے، اگر وہ اس میں دل چسپی رکھتے ہیں تو رابطہ کریں۔ یہ ہدایت بھی کی کہ انتظامیہ اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جائے۔ اسے حوصلہ افزا جواب موصول ہوا۔ رابرٹ نے خود کو ایک محکمے کا ڈپٹی ڈائریکٹر ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں خواہش مند کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
وہ سرکاری عہدے دار کی حیثیت سے انہیں بتاتا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کی مرمت اور اس کی تزئین و آرائش کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور اسے فروخت کرنا چاہتی ہے، لیکن عوام کی جانب سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے فی الوقت اس معاملے کو خفیہ رکھنا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق جب مالک ٹاور کو اکھاڑے گا تو انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جائے گا کہ اس کی مرمت اور جگہ کی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہے۔ یوں تاجر کو اسکریپ لے جانے پر کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جائے گا۔ آخر اس سودے پر اس نے ایک تاجر کو رضامند کر ہی لیا۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد تاجر نے سرکاری کاغذات پر ایفل ٹاور کی خریداری کے لیے دستخط کردیا اور بھاری رقم رابرٹ کے حوالے کردی جو ٹرین کے ذریعے آسٹریا روانہ ہوگیا۔ بعد میں اس تاجر پر کھلا کہ وہ بیوقوف بن گیا ہے اور وہ دعوت نامہ ہی نہیں معاہدے کی تمام دستاویز جعلی ہیں۔
وہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے رابطہ کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔ اسے اپنی کاروباری ساکھ متاثر ہونے کا ڈر تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ راز کھلا تو اس کے معاصر بزنس مین اس پر ہنسیں گے۔ تاجر نے کھوج لگایا تو انکشاف ہوا کہ خفیہ یا اعلانیہ کسی بھی طور انتظامیہ ایفل ٹاور کی فروخت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اور کبھی ایسی کوئی تجویز تک انتظامیہ میں زیرِغور نہیں رہی۔ ادھر رابرٹ فرانس کے تمام بڑے اخبارات کا مطالعہ کررہا تھا۔ چند ماہ تک اس کے فراڈ سے متعلق کوئی بھی خبر کسی اخبار کی زینت نہ بنی تو اس نے دوبارہ فرانس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ایفل ٹاور 'فروخت' کرے اور اسی طرز پر کاروباری شخصیات سے رابطہ کرے۔ اس نے پیرس پہنچ کر یہی کیا، مگر اس بار قسمت اس کے ساتھ نہ تھی اور ایک تاجر نے شک ہونے پر اس معاملے کو پولیس کے سامنے رکھ دیا۔ پولیس نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور یوں فراڈ کا پردہ چاک ہو گیا، لیکن رابرٹ پولیس کے ہاتھ نہ آیا اور امریکا پہنچ گیا۔
1930ء میں امریکا نے بدترین کساد بازاری دیکھی۔ ان حالات میں رابرٹ جس نے جعلی نام وکٹر لسٹنگ اپنا لیا تھا، ایک نئے فراڈ کا منصوبہ ترتیب دیا۔ تاہم اس بار وہ تنہا نہیں تھا بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل دو کاروباری افراد اس کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل بھی وکٹر لسٹنگ بدنامِ زمانہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل کر بڑے فراڈ کرچکا تھا۔ ان میں لوگوں کو کسی اسکیم کے ذریعے راتوں رات امیر بنانے کے ساتھ دوسرے بڑے مالیاتی فراڈ شامل ہیں۔
ولیم واٹس اور ٹام شا نامی دوا ساز اور کیماگر کے ساتھ مل کر اس نے جعلی کرنسی چھاپنے اور اسے ملک بھر میں پھیلانے کا کام شروع کردیا جو پانچ سال تک جاری رہا۔ 1935ء میں اس جرم کا پردہ چاک ہوگیا اور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ امریکا میں ٹرائل سے چند روز قبل اس ملزم نے فرار کا منصوبہ بنایا اور کسی طرح بھاگنے میں کام یاب ہوگیا، مگر27 روز بعد ہی دوبارہ پکڑا گیا۔ اسے15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 1947ء میں دورانِ قید بیماری کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔