معیشت آئی سی یو میں توقعات و خدشات
تبدیلی آنے کی امید، سو روزہ پلان ، توقعات ، خدشات، ابہام اور مایوسی یہ سب ایک ساتھ چلے رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت آئی سی یو میں پڑی ہے، اس کا بائی پاس ہو رہا ہے۔ بائی پاس کامیاب ہونے کے بعد معیشت ٹریک پر آجائے گی اور دوڑے گی ۔ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اسلام آباد میں چیمبرآف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
درحقیقت تحریک انصاف کی حکومت '' نیا پاکستان '' کے نعرے پر انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے ۔ دوسری جانب مختلف افواہیں اورخدشات بھی زیرگردش ہیں ۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے موقف اختیارکرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معمول کے جائزہ مشن کے مذاکرات ہو رہے ہیں، مالیاتی ادارے سے نئے قرض لینے کا کوئی پروگرام نہیں، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا زیادہ مشکل اور رسکی ہوگا، رواں سال پاکستان کو27 ارب ڈالرکی بیرونی فنانسنگ ہوگی۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ آئندہ 6 ماہ میں افراط زر میں اضافہ اور اشیا کی مارکیٹ میں عدم استحکام صورتحال سمیت کئی عوامل مالی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے ہیں ، بڑھتا ہوا قرضہ مشکلات پیدا کر رہا ہے۔حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
وفاقی وزیرخزانہ کے بیان کو دیکھیں تو معیشت میں بہتری کے لیے کاوشیں نظر آتی ہیں اور وہ آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے سے بھی انکاری ہیں ۔کشکول کی بات نہیں کرتے، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی ڈوبتی معیشت کی نائو بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی ہرصورت میں مدد لینی ہوگی ۔ عوام بلند توقعات کے ساتھ اس وقت پاکستان کی معیشت کے حوالے سے فکرمند ہیں ۔
عوام تو چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت اپنے پائوں پرکھڑی ہو اور اسے بیرونی قرضوں سے نجات ملے، بیرونی سرمایہ کار پاکستان آئیں اورروزگار کے بہتر مواقعے پیدا ہوں لیکن ابھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی بلکہ پے درپے ایسی خبریں آرہی ہیں جو تشویش میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہی ہیں ۔
اسی تناظر میں تشویشناک خبر آئی ہے کہ نجی بینکوں نے نئی حکومت کو قرض دینے سے انکارکر دیا ہے ، 8 بینکوں کے کنسورشیم نے کہا کہ پہلے ہی حکومت کو تقریباً 600 ارب روپے قرض دیا ہوا ہے، مزید قرض نہیں دے سکتے۔ بینکوں کے انکار پر وزارت خزانہ نے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اس بار قرض دے دیں، اگلی بار پچھلی ادائیگیوں کے بغیر نیا قرض نہیں مانگیں گے۔
وزارت خزانہ کی سفارش کے بعد بینکوں نے حکومت کی درخواست پر اگلے ہفتے پھرغورکرنے کا وعدہ کرلیا ۔ تبدیلی آنے کی امید، سو روزہ پلان ، توقعات ، خدشات، ابہام اور مایوسی یہ سب ایک ساتھ چلے رہے ہیں ۔ عوام گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔ حکومت کی معاشی ماہرین پر مشتمل ٹیم، ملکی معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لیے جنگی بنیادوں پر مربوط، منظم پروگرام کا اعلان کرے تاکہ ابہام کی کیفیت سے مستقل طور پر نجات ملے ۔
درحقیقت تحریک انصاف کی حکومت '' نیا پاکستان '' کے نعرے پر انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے ۔ دوسری جانب مختلف افواہیں اورخدشات بھی زیرگردش ہیں ۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے موقف اختیارکرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معمول کے جائزہ مشن کے مذاکرات ہو رہے ہیں، مالیاتی ادارے سے نئے قرض لینے کا کوئی پروگرام نہیں، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا زیادہ مشکل اور رسکی ہوگا، رواں سال پاکستان کو27 ارب ڈالرکی بیرونی فنانسنگ ہوگی۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ آئندہ 6 ماہ میں افراط زر میں اضافہ اور اشیا کی مارکیٹ میں عدم استحکام صورتحال سمیت کئی عوامل مالی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے ہیں ، بڑھتا ہوا قرضہ مشکلات پیدا کر رہا ہے۔حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
وفاقی وزیرخزانہ کے بیان کو دیکھیں تو معیشت میں بہتری کے لیے کاوشیں نظر آتی ہیں اور وہ آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے سے بھی انکاری ہیں ۔کشکول کی بات نہیں کرتے، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی ڈوبتی معیشت کی نائو بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی ہرصورت میں مدد لینی ہوگی ۔ عوام بلند توقعات کے ساتھ اس وقت پاکستان کی معیشت کے حوالے سے فکرمند ہیں ۔
عوام تو چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت اپنے پائوں پرکھڑی ہو اور اسے بیرونی قرضوں سے نجات ملے، بیرونی سرمایہ کار پاکستان آئیں اورروزگار کے بہتر مواقعے پیدا ہوں لیکن ابھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی بلکہ پے درپے ایسی خبریں آرہی ہیں جو تشویش میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہی ہیں ۔
اسی تناظر میں تشویشناک خبر آئی ہے کہ نجی بینکوں نے نئی حکومت کو قرض دینے سے انکارکر دیا ہے ، 8 بینکوں کے کنسورشیم نے کہا کہ پہلے ہی حکومت کو تقریباً 600 ارب روپے قرض دیا ہوا ہے، مزید قرض نہیں دے سکتے۔ بینکوں کے انکار پر وزارت خزانہ نے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اس بار قرض دے دیں، اگلی بار پچھلی ادائیگیوں کے بغیر نیا قرض نہیں مانگیں گے۔
وزارت خزانہ کی سفارش کے بعد بینکوں نے حکومت کی درخواست پر اگلے ہفتے پھرغورکرنے کا وعدہ کرلیا ۔ تبدیلی آنے کی امید، سو روزہ پلان ، توقعات ، خدشات، ابہام اور مایوسی یہ سب ایک ساتھ چلے رہے ہیں ۔ عوام گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔ حکومت کی معاشی ماہرین پر مشتمل ٹیم، ملکی معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لیے جنگی بنیادوں پر مربوط، منظم پروگرام کا اعلان کرے تاکہ ابہام کی کیفیت سے مستقل طور پر نجات ملے ۔