’’جبران سے ملیے‘‘ ایک اہم کتاب
پروفیسر جبران انصاری عرصہ دراز سے دشت علم و ادب کی سیاحی کر رہے ہیں۔
ان دنوں کئی کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں، انھی میں ایک بے حد ضخیم کتاب ''جبران سے ملیے'' بھی شامل ہے، یہ کتاب عزیز جبران انصاری کے فن، شخصیت اور کلام پر مبنی ہے۔ چھ سو چالیس صفحات مصنف کے انٹرویوز، مضامین، شاعری، کالم نگاری اور خطوط سے مرصع ہیں۔
کتاب آٹھ حصوں پر مشتمل ہے۔ ''یادیں باقی ہیں''، ''وہ اور میں'' ان دونوں کتابوں کے تخلیق کار معین کمالی ہیں، ''وہ اور میں'' میں طبع زاد اور ترجمہ کہانیاں ہیں، کہانیوں کا انتخاب بھی لاجواب اور کمالی صاحب کی اپنی تحریریں بھی دل کش ہیں۔ محمد معین الدین کمالی کی کتاب ''یادیں باقی ہیں'' جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ معین کمالی نے اپنے دوستوں کی یادوں اور ان کے اوصاف کو قلم بند کیا ہے اور بڑی اہم اور مصروف شخصیات کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے، انھی میں جنرل حمید گل، محمد صلاح الدین شہید (تین مضامین)، ڈاکٹر اسرار احمد، قابل اجمیری، معین اختر جیسی نابغہ روزگار ہستیوں پر ایسے فکر انگیز مضامین لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر تسکین روح کے ساتھ ساتھ معلومات کے در بھی وا ہوتے ہیں۔
آئیے تو پھر اب جبران انصاری سے ملتے ہیں، انھوں نے خود ہی ملاقات کا اہتمام بڑے خلوص اور محنت کے ساتھ کیا ہے اور کتاب کا نام ہی ''جبران سے ملیے'' رکھ کر قارئین کے پڑھنے کے شوق اور تجسس کو ہوا دی ہے۔ قاری اپنے پسندیدہ لکھاری کو پڑھنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جبران انصاری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اردو اور صحافت میں ماسٹرز کیا ہے، چوبیس کتابیں مختلف اصناف کے حوالے سے شایع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ادب و صحافت کے امور بھی قابل تحسین ہیں، کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ عزیز جبران انصاری کو علم و سخن ورثے میں ملا ہے، اپنی صبح و مسا کی مساعی نے انھیں ایک بہترین ادبی شخصیت بنادیا، یقیناً لگن، محنت اور صلاحیت انسان کو کامیابی کی منزل پر پہنچا دیتی ہے۔ جبران انصاری کو بھی بہت ساری کامیابیوں اور کتابوں کی اشاعت کی مسرت سے مالا مال ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید ان کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ''ان کی خوش بختی دیکھیے کہ اس دور میں انھیں رئیس امروہوی کے سامنے تکیہ تلمذ تہہ کرنے کا موقع مل گیا، رئیس امروہوی نے انھیں نہ صرف رموز فن سے آشنا کیا بلکہ شاعری کے ریاض میں زمانے کی نظری سیاحت کے ساتھ باطن کے روحانی موسموں کو بھی نظر میں رکھنے کی عادت ڈالی، انھوں نے نظم اور غزل میں ایسی شاعری کی جس میں ان کے تجربے کا عکس موجود تھا، میں عزیز جبران انصاری کی شاعری میں ضرب المثل بننے والے اشعار پڑھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جبران اردو زبان میں ہماری دستگیری کر رہے ہیں۔''
عزیز انصاری کے قریبی دوست انور احمد علوی کی تحریر کا یہ خاصا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو خطوط غالبؔ میں بڑی مہارت اور نفاست کے ساتھ ڈھال دیتے ہیں، اسی انداز میں ان کا مضمون عزیز جبران انصاری کی تشخیص (غالبؔ کا ایک تازہ مکتوب) کتاب میں شامل ہے، مضمون کیا ہے، شخصی خاکہ معلوم ہوتا ہے، ان کی عادات و اطوار کی عکاسی اور سراپے کا جائزہ دلچسپ انداز میں کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے نہ کہ ان کی غذا سادہ ہے بلکہ ناشتے میں دودھ روٹی کھاتے ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور جو غالبؔ کے خطوط کے رنگ میں رنگ دی گئی ہیں۔
''شہر کی بابت تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی امر نیا واقعہ نہیں ہوا، وہی حالات و اطوار ہیں، قانون موجود، انصاف موقوف، لوگ مرتے ہیں پر غم میں وہ پہلی سی شدت نہیں، یہ اضافہ اور کرلو استاد ذوقؔ کی موٹر قلعے کے باہر سے اٹھ گئی، کنجی ان کے ہاتھ میں رہ گئی، تفتہؔ کی آٹو سائیکل بھرے بازار میں چھن گئی، میر مہدی کا گھر دن دہاڑے لٹ گیا، یہ شخص مجھ کو اور میرے بھائی یوسف کو بھی لوٹ چکا ہے، بندہ خدا، ہمارا فیملی ڈاکو بنتا جا رہا ہے''۔
ظہیر خان کی تحریر میں مزاح کی پھلجڑیاں چل رہی ہیں، قاری اس سے محظوظ ہوئے بنا نہیں رہتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک قلمکار اپنی تحریروں کے ذریعے کتاب کو حرارت اور توانائی بخش رہے ہیں اور مصنف کے بارے میں ان باتوں کو طشت از بام کر رہے ہیں جنھیں بتانے کی شاید ان کی منشا نہ ہو، لیکن کوئی راز و نیاز بھی نہیں ہے، وہی دنیا داری اور اس میں رہنے بسنے کے ڈھنگ، لیکن منفرد انداز ہیں کہ علم کا دیا جلتا رہے اور کارروان ادب چلتا رہے۔جبران انصاری کا اصل نام عبدالستار بن حسیب احمد انصاری ہے، شجاع الدین غوری نے اپنے مضمون میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ ان کی زندگی کا احوال بیان کیا ہے اور سکھر میں ہونے والی مہمان نوازی کو سراہا ہے، چونکہ عزیز جبران انصاری نے تقسیم کے بعد سکھر میں ہی سکونت اختیار کی تھی اور کراچی میں 2006ء میں اپنا آشیانہ بنایا اور پھر ادھر ہی کے ہو رہے۔
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ایک بہترین انسان اور نقاد تھے، بے حد سادہ اور منکسر المزاج، جنھیں مرحوم کہتے ہوئے دل دکھتا ہے، ان کی تنقید کی کئی کتابیں میرے مطالعے میں رہیں، ایک دفعہ کوئی ان سے مل لیتا پھر انھیں بھلانا ناممکنات میں سے ہوجاتا۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی عزیز جبران کے افسانوں کا فنی تجزیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ''جبران کے ہاں تنوع ہے، موضوعات میں رنگا رنگی ہے، دلچسپی ہے، پھر انداز بیاں سیدھا سادہ ہے، ان کے بیانیے اور مکالماتی افسانے انفرادیت کے حامل ہیں، ان میں زندگی کی گہماگہمی ہے، جبران نے حقائق سے ان میں رنگ بھرا اور انھیں دل نشیں بنادیا ہے۔''
ممتاز اور معتبر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی رائے کے مطابق پروفیسر جبران انصاری عرصہ دراز سے دشت علم و ادب کی سیاحی کر رہے ہیں، ان کا قلم توانائی اور تنوع کی خوبیوں سے متصف ہے، کبھی کبھار تو گمان ہوتا ہے کہ انھوں نے ادب کا کوئی ڈپارٹمنٹ اسٹور کھول رکھا ہے، جس میں ہر ذوق کی تسکین کا مال موجود ہے۔ شاعری میں ایک طرف ان کا سنجیدہ کام ہے تو دوسری طرف مزاحیہ، دونوں میں وہ سمجھوتہ کرتے نظر نہیں آتے، نثر کے میدان میں بھی وہ چومکھی گھماتے ہیں، مضامین، انشائیے، افسانے، خاکے، اداریے اور کالم ان کی نثری جہتوں کے مظہر ہیں، ادبی رسائل میں ان کے خطوط دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں، خصوصاً وہ خطوط جن میں وہ کسی شاعر کے کلام کی تقطیع کرکے اس غریب کا تختہ کردیتے ہیں۔
پروفیسر علی حیدر ملک مرحوم نے ان کے کالموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ عزیز جبران انصاری نے کسی مصلحت یا مفاد سے بے نیاز اور ذاتی تعلقات سے بلند ہوکر لکھا ہے، ان کے کالموں میں ادب اور ادیبوں پر کی گئی، تنقید مصروفیت کی مظہر ہے، ان کے کالم واقعی بے لاگ ہیں، انھوں نے ہر جگہ غیر جانبداری سے کام لیا ہے۔ ''موسموں کی رم جھم'' پروفیسر جبران کا چوتھا مجموعہ غزلیات ہے۔ ان کی شاعری پر محسن بھوپالی، پروفیسر آفاق صدیقی اور سلمیٰ لطیف نے مضامین لکھے ہیں۔
سلمیٰ لطیف اپنے مضمون ''جبران اور موسموں کی رم جھم'' میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ جبران بلاجھجک سچ کہنے اور حوصلہ مندی کے ساتھ اس پر ڈٹ جانے کا عادی ہے۔سید معراج جامی کی تحریر ''عزیز جبران کی چھیڑ چھاڑ'' یہی نام شاعر کے دوسرے مجموعے کا ہے، یعنی ''چھیڑ چھاڑ''۔ معراج جامی نے اطلاع دی ہے کہ عزیز جبران کی مزاحیہ شاعری پر مشتمل یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے اور ''چھیڑ چھاڑ'' کی پہلی غزل کا عنوان ہے انگوٹھا چھاپ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انگوٹھا چھاپوں کی تو ایسے ملک میں چاندی ہے۔ ایک شعر اسی حوالے سے:
نہ دل گرفتہ ہو دولت اگر ہے پاس تو پھر
کہ بک رہی ہیں سبھی ڈگریاں انگوٹھا چھاپ
کتاب آٹھ حصوں پر مشتمل ہے۔ ''یادیں باقی ہیں''، ''وہ اور میں'' ان دونوں کتابوں کے تخلیق کار معین کمالی ہیں، ''وہ اور میں'' میں طبع زاد اور ترجمہ کہانیاں ہیں، کہانیوں کا انتخاب بھی لاجواب اور کمالی صاحب کی اپنی تحریریں بھی دل کش ہیں۔ محمد معین الدین کمالی کی کتاب ''یادیں باقی ہیں'' جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ معین کمالی نے اپنے دوستوں کی یادوں اور ان کے اوصاف کو قلم بند کیا ہے اور بڑی اہم اور مصروف شخصیات کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے، انھی میں جنرل حمید گل، محمد صلاح الدین شہید (تین مضامین)، ڈاکٹر اسرار احمد، قابل اجمیری، معین اختر جیسی نابغہ روزگار ہستیوں پر ایسے فکر انگیز مضامین لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر تسکین روح کے ساتھ ساتھ معلومات کے در بھی وا ہوتے ہیں۔
آئیے تو پھر اب جبران انصاری سے ملتے ہیں، انھوں نے خود ہی ملاقات کا اہتمام بڑے خلوص اور محنت کے ساتھ کیا ہے اور کتاب کا نام ہی ''جبران سے ملیے'' رکھ کر قارئین کے پڑھنے کے شوق اور تجسس کو ہوا دی ہے۔ قاری اپنے پسندیدہ لکھاری کو پڑھنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جبران انصاری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اردو اور صحافت میں ماسٹرز کیا ہے، چوبیس کتابیں مختلف اصناف کے حوالے سے شایع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ادب و صحافت کے امور بھی قابل تحسین ہیں، کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ عزیز جبران انصاری کو علم و سخن ورثے میں ملا ہے، اپنی صبح و مسا کی مساعی نے انھیں ایک بہترین ادبی شخصیت بنادیا، یقیناً لگن، محنت اور صلاحیت انسان کو کامیابی کی منزل پر پہنچا دیتی ہے۔ جبران انصاری کو بھی بہت ساری کامیابیوں اور کتابوں کی اشاعت کی مسرت سے مالا مال ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید ان کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ''ان کی خوش بختی دیکھیے کہ اس دور میں انھیں رئیس امروہوی کے سامنے تکیہ تلمذ تہہ کرنے کا موقع مل گیا، رئیس امروہوی نے انھیں نہ صرف رموز فن سے آشنا کیا بلکہ شاعری کے ریاض میں زمانے کی نظری سیاحت کے ساتھ باطن کے روحانی موسموں کو بھی نظر میں رکھنے کی عادت ڈالی، انھوں نے نظم اور غزل میں ایسی شاعری کی جس میں ان کے تجربے کا عکس موجود تھا، میں عزیز جبران انصاری کی شاعری میں ضرب المثل بننے والے اشعار پڑھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جبران اردو زبان میں ہماری دستگیری کر رہے ہیں۔''
عزیز انصاری کے قریبی دوست انور احمد علوی کی تحریر کا یہ خاصا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو خطوط غالبؔ میں بڑی مہارت اور نفاست کے ساتھ ڈھال دیتے ہیں، اسی انداز میں ان کا مضمون عزیز جبران انصاری کی تشخیص (غالبؔ کا ایک تازہ مکتوب) کتاب میں شامل ہے، مضمون کیا ہے، شخصی خاکہ معلوم ہوتا ہے، ان کی عادات و اطوار کی عکاسی اور سراپے کا جائزہ دلچسپ انداز میں کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے نہ کہ ان کی غذا سادہ ہے بلکہ ناشتے میں دودھ روٹی کھاتے ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور جو غالبؔ کے خطوط کے رنگ میں رنگ دی گئی ہیں۔
''شہر کی بابت تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی امر نیا واقعہ نہیں ہوا، وہی حالات و اطوار ہیں، قانون موجود، انصاف موقوف، لوگ مرتے ہیں پر غم میں وہ پہلی سی شدت نہیں، یہ اضافہ اور کرلو استاد ذوقؔ کی موٹر قلعے کے باہر سے اٹھ گئی، کنجی ان کے ہاتھ میں رہ گئی، تفتہؔ کی آٹو سائیکل بھرے بازار میں چھن گئی، میر مہدی کا گھر دن دہاڑے لٹ گیا، یہ شخص مجھ کو اور میرے بھائی یوسف کو بھی لوٹ چکا ہے، بندہ خدا، ہمارا فیملی ڈاکو بنتا جا رہا ہے''۔
ظہیر خان کی تحریر میں مزاح کی پھلجڑیاں چل رہی ہیں، قاری اس سے محظوظ ہوئے بنا نہیں رہتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک قلمکار اپنی تحریروں کے ذریعے کتاب کو حرارت اور توانائی بخش رہے ہیں اور مصنف کے بارے میں ان باتوں کو طشت از بام کر رہے ہیں جنھیں بتانے کی شاید ان کی منشا نہ ہو، لیکن کوئی راز و نیاز بھی نہیں ہے، وہی دنیا داری اور اس میں رہنے بسنے کے ڈھنگ، لیکن منفرد انداز ہیں کہ علم کا دیا جلتا رہے اور کارروان ادب چلتا رہے۔جبران انصاری کا اصل نام عبدالستار بن حسیب احمد انصاری ہے، شجاع الدین غوری نے اپنے مضمون میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ ان کی زندگی کا احوال بیان کیا ہے اور سکھر میں ہونے والی مہمان نوازی کو سراہا ہے، چونکہ عزیز جبران انصاری نے تقسیم کے بعد سکھر میں ہی سکونت اختیار کی تھی اور کراچی میں 2006ء میں اپنا آشیانہ بنایا اور پھر ادھر ہی کے ہو رہے۔
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ایک بہترین انسان اور نقاد تھے، بے حد سادہ اور منکسر المزاج، جنھیں مرحوم کہتے ہوئے دل دکھتا ہے، ان کی تنقید کی کئی کتابیں میرے مطالعے میں رہیں، ایک دفعہ کوئی ان سے مل لیتا پھر انھیں بھلانا ناممکنات میں سے ہوجاتا۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی عزیز جبران کے افسانوں کا فنی تجزیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ''جبران کے ہاں تنوع ہے، موضوعات میں رنگا رنگی ہے، دلچسپی ہے، پھر انداز بیاں سیدھا سادہ ہے، ان کے بیانیے اور مکالماتی افسانے انفرادیت کے حامل ہیں، ان میں زندگی کی گہماگہمی ہے، جبران نے حقائق سے ان میں رنگ بھرا اور انھیں دل نشیں بنادیا ہے۔''
ممتاز اور معتبر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی رائے کے مطابق پروفیسر جبران انصاری عرصہ دراز سے دشت علم و ادب کی سیاحی کر رہے ہیں، ان کا قلم توانائی اور تنوع کی خوبیوں سے متصف ہے، کبھی کبھار تو گمان ہوتا ہے کہ انھوں نے ادب کا کوئی ڈپارٹمنٹ اسٹور کھول رکھا ہے، جس میں ہر ذوق کی تسکین کا مال موجود ہے۔ شاعری میں ایک طرف ان کا سنجیدہ کام ہے تو دوسری طرف مزاحیہ، دونوں میں وہ سمجھوتہ کرتے نظر نہیں آتے، نثر کے میدان میں بھی وہ چومکھی گھماتے ہیں، مضامین، انشائیے، افسانے، خاکے، اداریے اور کالم ان کی نثری جہتوں کے مظہر ہیں، ادبی رسائل میں ان کے خطوط دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں، خصوصاً وہ خطوط جن میں وہ کسی شاعر کے کلام کی تقطیع کرکے اس غریب کا تختہ کردیتے ہیں۔
پروفیسر علی حیدر ملک مرحوم نے ان کے کالموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ عزیز جبران انصاری نے کسی مصلحت یا مفاد سے بے نیاز اور ذاتی تعلقات سے بلند ہوکر لکھا ہے، ان کے کالموں میں ادب اور ادیبوں پر کی گئی، تنقید مصروفیت کی مظہر ہے، ان کے کالم واقعی بے لاگ ہیں، انھوں نے ہر جگہ غیر جانبداری سے کام لیا ہے۔ ''موسموں کی رم جھم'' پروفیسر جبران کا چوتھا مجموعہ غزلیات ہے۔ ان کی شاعری پر محسن بھوپالی، پروفیسر آفاق صدیقی اور سلمیٰ لطیف نے مضامین لکھے ہیں۔
سلمیٰ لطیف اپنے مضمون ''جبران اور موسموں کی رم جھم'' میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ جبران بلاجھجک سچ کہنے اور حوصلہ مندی کے ساتھ اس پر ڈٹ جانے کا عادی ہے۔سید معراج جامی کی تحریر ''عزیز جبران کی چھیڑ چھاڑ'' یہی نام شاعر کے دوسرے مجموعے کا ہے، یعنی ''چھیڑ چھاڑ''۔ معراج جامی نے اطلاع دی ہے کہ عزیز جبران کی مزاحیہ شاعری پر مشتمل یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے اور ''چھیڑ چھاڑ'' کی پہلی غزل کا عنوان ہے انگوٹھا چھاپ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انگوٹھا چھاپوں کی تو ایسے ملک میں چاندی ہے۔ ایک شعر اسی حوالے سے:
نہ دل گرفتہ ہو دولت اگر ہے پاس تو پھر
کہ بک رہی ہیں سبھی ڈگریاں انگوٹھا چھاپ