یواے ای میں پاکستانیوں کی 500ارب کی جائیدادیں سامنے آگئیں
بہت سے لوگوں نے اپنی اصلیت چھپا رکھی ہے اور کئی اہم شخصیات نے فرنٹ مینز کے ذریعے یہ اثاثے خرید رکھے ہیں، ذرائع
ایف آئی اے کی فراہم کردہ فہرست میں شامل دبئی میں 500 ارب روپے سے زائد مالیت کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں ابتدائی چھان بین کے دوران اہم انکشافات ہوئے ہیں۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق 37 پاکستانیوں کا نان فائلر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 18 سے زائد لوگوں کا ایف بی آر کے ڈیٹا بیس میں ریکارڈ ہی نہیں جبکہ 15 لوگوں کے پاکستان میں دیے گئے پتے غلط نکلے ہیں۔ معلومات کراس میچنگ کیلئے ایف بی آر کے ذیلی ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کو فراہم کردی گئی ہیں۔ پرال کے سینئر افسران ایف بی آر کے پاس موجود ڈیٹا اور ٹیکس دہندگان کے ٹیکس پروفائلز کے ذریعے چیک کررہے ہیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کروارہے تھے اور کتنے نان فائلرز ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے جن لوگوں کے بارے میں معلومات مل رہی ہیں ان کے کیس متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کو بھی بھجوائے جارہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے بہت سے لوگوں نے اپنی اصلیت چھپا رکھی ہے اور کئی اہم شخصیات نے فرنٹ مینز کے ذریعے یہ اثاثے خرید رکھے ہیں۔
ایکسپریس کو دستیاب تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے جن لوگوں کے کوائف فراہم کیے گئے ہیں ان میں گلبرگ لاہور کے رہائشی وقار احمد کی متحدہ عرب امارات میں 22، سیالکوٹ کے رہائشی ملک محمد خان کی 18، لاہور کے ظفر علی، کراچی کے محمد امین، سٹاک مارکیٹ کے بڑے پلر نوشاد ہارون کی 12، 12، لاہور کے شیخ محمد افضل، زبیر معین کی 9،9 سندھ کے شیخ طاہر، اسلام سلیم کی 8،8، بلوچستان کے آغا فیصل کی 7، سندھ کے خالد محمود، محمد علی، عبدالعزیز، لاہور کے ریاض، احمد کمال، نورالٰہی کی 6،6، سندھ کے ارشد عالم، محمد اقبال کی 5،5، سندھ کے محمد عثمان، محمد شہباز، محمد ارشد، عابد عبداللہ، علی رضا، غلام مصطفی اقبال، انور، محمد امین بھوانی، فیصل حسین، رضاکمال حسین،نوید اختر حسین، رضوانہ امین، عثمان صدیقی، پنجاب کے عابد علی، نیئر شیخ، سلمان احمد، اسلام آباد کے کاشف نذیر، عبدالقادر کی 4،4، سندھ کے نوید قریشی، ریحانہ خان، شاہینہ اظہار، عبدالرشید میمن، عبید حسن اختر، محمد علی، محمد سلیم، محمد انیس میاں نور، فیصل عارف مکھتے، ماجد حسن، حسن مصطفیٰ، محمد امین، ابراہیم کمال، یعقوب احمد، خورشید احمدشیخ، محبوب حسین مون، شازدے وکیل، اسلام آباد کے انجم شبیر خان، نعمان سمیع خان، پنجاب کے عامر صدیقی، فوزیہ پروین، خاورہ ارشد، میاں اسلم، میاں نور کی 3،3، سندھ کے عبدالعزیز میمن،ڈاکٹر فرید الدین، کامران شفیق، شیخ محمد سہیل، شیخ محمد علی، ریحان شکیل، شیخ محمدسہیل، محمد علی، شیخ محمد سعید، عبدالمجید چوہدری، ملک عمر منان، شیخ طارق کاپر، طارق سیف اللہ پراچہ، اشفاق عالم خان، عاصم ارشد، محمد نعیم، فواد جہانزیب، عباس سیتھانہ، شیخ آفتاب اعجاز، مصتفین نثار، بصیر حیدر سید، آصف اسماعیل، محمد سعید منہاس، آصف اسماعیل، امتیاز فضل، شجاع گورایہ، ہمایوں فضل داد، عمران احمد فرید، نعیم توفیق چنائے، جمیل احمد، پنجاب کے سردار دلدار احمد، آصف بشیر، عائشہ تجمل، فرید علی بابر، فضل معین، خواجہ محمد رمضان، اسلام آباد کے عبدالجبار، ممتاز خان ملک کی 2،2 جائیدادیں ہیں۔
سندھ کے مہدی حسن، میرعالم خان، سعد طارق، شاہد محمود، فواد انور، صائمہ طارق، شاہد یاسین ملک، مرزا اختیار بیگ، عمران ہارون، شیخ آفتاب، اعجاز شیخ، سید کاشف علی، طٰحہ سلطان علی، اسلام آباد کے مسرور الزمان، محمد ارشد، پنجاب کے سلمان محمد اسلم، طارق محمود، ملک ایم قیوم، وقار احمد کی بھی دو دو جائیدادیں ہیں۔
ایک ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں رکھنے والے پاکستانیوں کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوٹس ان لوگوں کو بھیجے جا رہے ہیںجن کی چھ یا زیادہ جائیدادیں ہیں۔مالکان سے ذرائع آمدن اورجمع کرائے جانے والے ٹیکس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق 37 پاکستانیوں کا نان فائلر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 18 سے زائد لوگوں کا ایف بی آر کے ڈیٹا بیس میں ریکارڈ ہی نہیں جبکہ 15 لوگوں کے پاکستان میں دیے گئے پتے غلط نکلے ہیں۔ معلومات کراس میچنگ کیلئے ایف بی آر کے ذیلی ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کو فراہم کردی گئی ہیں۔ پرال کے سینئر افسران ایف بی آر کے پاس موجود ڈیٹا اور ٹیکس دہندگان کے ٹیکس پروفائلز کے ذریعے چیک کررہے ہیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کروارہے تھے اور کتنے نان فائلرز ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے جن لوگوں کے بارے میں معلومات مل رہی ہیں ان کے کیس متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کو بھی بھجوائے جارہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے بہت سے لوگوں نے اپنی اصلیت چھپا رکھی ہے اور کئی اہم شخصیات نے فرنٹ مینز کے ذریعے یہ اثاثے خرید رکھے ہیں۔
ایکسپریس کو دستیاب تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے جن لوگوں کے کوائف فراہم کیے گئے ہیں ان میں گلبرگ لاہور کے رہائشی وقار احمد کی متحدہ عرب امارات میں 22، سیالکوٹ کے رہائشی ملک محمد خان کی 18، لاہور کے ظفر علی، کراچی کے محمد امین، سٹاک مارکیٹ کے بڑے پلر نوشاد ہارون کی 12، 12، لاہور کے شیخ محمد افضل، زبیر معین کی 9،9 سندھ کے شیخ طاہر، اسلام سلیم کی 8،8، بلوچستان کے آغا فیصل کی 7، سندھ کے خالد محمود، محمد علی، عبدالعزیز، لاہور کے ریاض، احمد کمال، نورالٰہی کی 6،6، سندھ کے ارشد عالم، محمد اقبال کی 5،5، سندھ کے محمد عثمان، محمد شہباز، محمد ارشد، عابد عبداللہ، علی رضا، غلام مصطفی اقبال، انور، محمد امین بھوانی، فیصل حسین، رضاکمال حسین،نوید اختر حسین، رضوانہ امین، عثمان صدیقی، پنجاب کے عابد علی، نیئر شیخ، سلمان احمد، اسلام آباد کے کاشف نذیر، عبدالقادر کی 4،4، سندھ کے نوید قریشی، ریحانہ خان، شاہینہ اظہار، عبدالرشید میمن، عبید حسن اختر، محمد علی، محمد سلیم، محمد انیس میاں نور، فیصل عارف مکھتے، ماجد حسن، حسن مصطفیٰ، محمد امین، ابراہیم کمال، یعقوب احمد، خورشید احمدشیخ، محبوب حسین مون، شازدے وکیل، اسلام آباد کے انجم شبیر خان، نعمان سمیع خان، پنجاب کے عامر صدیقی، فوزیہ پروین، خاورہ ارشد، میاں اسلم، میاں نور کی 3،3، سندھ کے عبدالعزیز میمن،ڈاکٹر فرید الدین، کامران شفیق، شیخ محمد سہیل، شیخ محمد علی، ریحان شکیل، شیخ محمدسہیل، محمد علی، شیخ محمد سعید، عبدالمجید چوہدری، ملک عمر منان، شیخ طارق کاپر، طارق سیف اللہ پراچہ، اشفاق عالم خان، عاصم ارشد، محمد نعیم، فواد جہانزیب، عباس سیتھانہ، شیخ آفتاب اعجاز، مصتفین نثار، بصیر حیدر سید، آصف اسماعیل، محمد سعید منہاس، آصف اسماعیل، امتیاز فضل، شجاع گورایہ، ہمایوں فضل داد، عمران احمد فرید، نعیم توفیق چنائے، جمیل احمد، پنجاب کے سردار دلدار احمد، آصف بشیر، عائشہ تجمل، فرید علی بابر، فضل معین، خواجہ محمد رمضان، اسلام آباد کے عبدالجبار، ممتاز خان ملک کی 2،2 جائیدادیں ہیں۔
سندھ کے مہدی حسن، میرعالم خان، سعد طارق، شاہد محمود، فواد انور، صائمہ طارق، شاہد یاسین ملک، مرزا اختیار بیگ، عمران ہارون، شیخ آفتاب، اعجاز شیخ، سید کاشف علی، طٰحہ سلطان علی، اسلام آباد کے مسرور الزمان، محمد ارشد، پنجاب کے سلمان محمد اسلم، طارق محمود، ملک ایم قیوم، وقار احمد کی بھی دو دو جائیدادیں ہیں۔
ایک ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں رکھنے والے پاکستانیوں کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوٹس ان لوگوں کو بھیجے جا رہے ہیںجن کی چھ یا زیادہ جائیدادیں ہیں۔مالکان سے ذرائع آمدن اورجمع کرائے جانے والے ٹیکس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔