پارٹی یا جمہوری اقدار
کتاب کو فروغ علم و ادب کی روایت کو فروغ دینا ہے اور نیشنل بک کونسل کو سچ مچ نیشنل بک کونسل بنا کر دم لینا ہے
ISLAMABAD:
زمانہ کتنا ہی برا ہو، جابر ڈکٹیٹروں کا ہو یا کرپٹ سیاستدانوں کا، اچھے لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ارد گرد کی خرابیوں سے بے تعلق اپنی اپنی ٹھیک پہ بیٹھے جو کام ان کے کرنے کا ہے اسے یکسوئی کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔
ہم یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔ جانے والوں کو تو جانا ہی تھا؎
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے
مگر جب ہم نے سنا کہ مظہر الاسلام نے استعفا داغ دیا ہے تب ہمیں ہوش آیا کہ ارے ایسے لوگ بھی رخصت ہو رہے ہیں جنہوں نے کتنے اچھے کام کرنے کی ٹھانی تھی۔ اب ان منصوبوں کی قدر و قیمت کو کون جانے گا اور کون انھیں مکمل کرنے میں دلچسپی لے گا۔
نیشنل بک فائونڈیشن نام کا ادارہ کب سے چلا آ رہا تھا بس ایسے ہی چل رہا تھا جیسے ہمارے ملک میں ادارے چلتے رہتے ہیں۔ مگر ابھی چند برس پہلے جب مظہر الاسلام نے اس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصے میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ ادارے کی جیسے کایا کلپ ہو گئی ہو۔ مظہر الاسلام کو ہم تو خالی افسانہ نگار سمجھ رہے تھے۔ اب احساس ہوا کہ اچھا ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
کتاب کو فروغ علم و ادب کی روایت کو فروغ دینا ہے اور نیشنل بک کونسل کو سچ مچ نیشنل بک کونسل بنا کر دم لینا ہے۔ بس یہ دھن اس کے سر پہ سوار تھی۔ یا کہہ لیجیے کہ اس نے اس خیال کو اپنے لیے ایک مشن بنا لیا۔ کتابوں کے فروغ کے سلسلہ میں اس نے جن میلوں کا اہتمام کیا اور بڑوں سے لے کر بچوں تک کو ان میں شامل کر کے کتاب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قومی زندگی سے اس کا رشتہ جوڑا وہ تو ہم سب نے دیکھا۔ قابل قدر علمی اور ادبی کاموں کو کس اہتمام سے شایع کیا اور ثابت کیا کہ یہ کتابیں گودام میں رکھنے کے لیے نہیں ہیں اور نہ افسروں کے بک شیلف کی زینت بننا ان کی تقدیر ہے۔ یہ کتابیں بازار میں پہنچیں گی اور اپنے خریدار پیدا کریں گی۔
اس کے سوا بھی مظہر الاسلام نے کچھ منصوبے بنا رکھے تھے۔ ابھی ہم نے جب اس سے اس ادارے کے کاموں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تو اس نے بتایا کہ وہ جو چند گیلریاں قائم کرنے کا منصوبہ تھا ان میں پہلی گیلری کا نقشہ تو مکمل ہو چکا ہے۔ یہ کتاب گیلری ہو گی۔ اول کتاب اللہ۔ دوم چند قیمتی مذہبی کتابیں از قسم احادیث۔ پھر علامہ اقبال' غالب۔ آگے خود قیاس کر لیجیے کہ یہ گیلری کس شان کی ہو گی۔
ایسے علمی ادبی اور آرٹ کے سرکاری اداروں میں ہم نے ڈکٹیٹروں کے زمانے میں بھی یاروں کو آتے جاتے دیکھا ہے اور سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں کے زمانوں میں بھی یاروں کو پارٹی کے نام پر گلچھرے اڑاتے دیکھا ہے۔ پارٹی کے نمایندے ہیں اس لیے فنڈ وافر۔ گئے تو اس طرح کہ ادارے میں جیسے جھاڑو دل گئی ہو اور روزانہ کے دفتری اخراجات کے لیے بھی پیسے نبڑ گئے ہوں۔
مگر پارٹی والوں میں بھی تو ہر قسم کی مخلوق ہوتی ہے۔ مظہر الاسلام ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کام کے دھنی جتنے عرصے رہے جتنا کر سکتے تھے کیا۔ جب دیکھا کہ اب ہمارا جانا ٹھہر گیا ہے تو وہ وقت آنے سے پہلے ہی دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
مظہر الاسلام نے استعفا دے کر ایک مثال قائم کی کہ اگر آپ پارٹی کے واسطے سے آئے ہیں تو اصولاً پارٹی کی رخصتی کے ساتھ آپ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔
مگر کچھ اصول اقتدار سنبھالنے والی پارٹی کے بھی تو ہونے چاہئیں۔ اصل میں یہ وبا ہمارے یہاں سوشلسٹ ملکوں سے آئی ہے مگر سوشلسٹ نظام میں اس عمل کا ایک جواز ہے۔ وہ تو اس تصور کے ساتھ زمام اقتدار سنبھالتے ہیں کہ انھیں پورے معاشرے کو اس نظریے کے سانچے میں ڈھالنا ہے جس کے وہ علمبردار ہیں۔ اس لیے ہر ادارے میں وہ لوگ ہونے چاہئیں جو اس نظریے کے علم بردار ہوں۔ تو ہر ادارے میں ہر رکن سے پارٹی لائن کی تابعداری کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
مگر جمہوری نظام میں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس نظام میں تو مختلف سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر اپنا اپنا منشور ہوتا ہے۔ تو جب ایک پارٹی الیکشن جیت کر اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ پوری قوم پر کوئی ایک نقطہ نظر کوئی ایک نظریہ تو مسلط نہیں کر سکتی۔ رہو اور رہنے دو کی پالیسی چلتی ہے۔ اپنی جماعت کے ساتھ رعایت برحق مگر مختلف قومی شعبوں اور محکموں میں معیار لیاقت اور اہلیت کا ہوتا ہے۔ اور ہونا چاہیے۔ سو اگر ایک جماعت الیکشن جیت کر برسر اقتدار آتی ہے تو اس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لیاقت اور اہلیت کے معیار کو فراموش کر کے مختلف شعبوں سے پارٹی کی بنیاد پر پہلوں کو اندھا دھند نکال باہر کرے اور اپنی پارٹی کی مخلوق کو بھرتی کرتی چلی جائے۔ اگر ہم جمہوریت کے قائل ہیں تو ہمیں جمہوری روایات کی تھوڑی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ اگر کسی شعبہ میں کوئی ایسا کام کا دھنی ہے جو اپنے کام میں بھی طاق ہے اور با اصول بھی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
علمی ادبی اداروں کے کام کو سیاستدان زیادہ نہیں سمجھتے۔ اگر ان کے مشیروں میں ان کاموں کو سمجھ رکھنے والے موجود ہیں' مثلاً پروفیسر' دانشور' ادیب تو وہ انھیں بہتر طور پر مشورہ دے سکتے ہیں اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مشوروں سے اپنے حکمرانوں کو نوازیں۔ یہ اپنی پارٹی کی حکومت کی بھی خدمت ہو گی اور قوم کی بھی۔
اور اس وقت ان دانشور مشیروں کو، جن میں ہمارے کچھ دوست بھی ہیں، ہمارے ساتھ مل کر یہ سوچنا ہے کہ نیشنل بک کونسل نے جو ایک نیا جنم لیا اور جو صحیح معنوں میں ایک قومی ادارہ بننا چاہتا ہے اسے کیسے بچایا جائے۔
زمانہ کتنا ہی برا ہو، جابر ڈکٹیٹروں کا ہو یا کرپٹ سیاستدانوں کا، اچھے لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ارد گرد کی خرابیوں سے بے تعلق اپنی اپنی ٹھیک پہ بیٹھے جو کام ان کے کرنے کا ہے اسے یکسوئی کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔
ہم یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔ جانے والوں کو تو جانا ہی تھا؎
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے
مگر جب ہم نے سنا کہ مظہر الاسلام نے استعفا داغ دیا ہے تب ہمیں ہوش آیا کہ ارے ایسے لوگ بھی رخصت ہو رہے ہیں جنہوں نے کتنے اچھے کام کرنے کی ٹھانی تھی۔ اب ان منصوبوں کی قدر و قیمت کو کون جانے گا اور کون انھیں مکمل کرنے میں دلچسپی لے گا۔
نیشنل بک فائونڈیشن نام کا ادارہ کب سے چلا آ رہا تھا بس ایسے ہی چل رہا تھا جیسے ہمارے ملک میں ادارے چلتے رہتے ہیں۔ مگر ابھی چند برس پہلے جب مظہر الاسلام نے اس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصے میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ ادارے کی جیسے کایا کلپ ہو گئی ہو۔ مظہر الاسلام کو ہم تو خالی افسانہ نگار سمجھ رہے تھے۔ اب احساس ہوا کہ اچھا ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
کتاب کو فروغ علم و ادب کی روایت کو فروغ دینا ہے اور نیشنل بک کونسل کو سچ مچ نیشنل بک کونسل بنا کر دم لینا ہے۔ بس یہ دھن اس کے سر پہ سوار تھی۔ یا کہہ لیجیے کہ اس نے اس خیال کو اپنے لیے ایک مشن بنا لیا۔ کتابوں کے فروغ کے سلسلہ میں اس نے جن میلوں کا اہتمام کیا اور بڑوں سے لے کر بچوں تک کو ان میں شامل کر کے کتاب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قومی زندگی سے اس کا رشتہ جوڑا وہ تو ہم سب نے دیکھا۔ قابل قدر علمی اور ادبی کاموں کو کس اہتمام سے شایع کیا اور ثابت کیا کہ یہ کتابیں گودام میں رکھنے کے لیے نہیں ہیں اور نہ افسروں کے بک شیلف کی زینت بننا ان کی تقدیر ہے۔ یہ کتابیں بازار میں پہنچیں گی اور اپنے خریدار پیدا کریں گی۔
اس کے سوا بھی مظہر الاسلام نے کچھ منصوبے بنا رکھے تھے۔ ابھی ہم نے جب اس سے اس ادارے کے کاموں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تو اس نے بتایا کہ وہ جو چند گیلریاں قائم کرنے کا منصوبہ تھا ان میں پہلی گیلری کا نقشہ تو مکمل ہو چکا ہے۔ یہ کتاب گیلری ہو گی۔ اول کتاب اللہ۔ دوم چند قیمتی مذہبی کتابیں از قسم احادیث۔ پھر علامہ اقبال' غالب۔ آگے خود قیاس کر لیجیے کہ یہ گیلری کس شان کی ہو گی۔
ایسے علمی ادبی اور آرٹ کے سرکاری اداروں میں ہم نے ڈکٹیٹروں کے زمانے میں بھی یاروں کو آتے جاتے دیکھا ہے اور سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں کے زمانوں میں بھی یاروں کو پارٹی کے نام پر گلچھرے اڑاتے دیکھا ہے۔ پارٹی کے نمایندے ہیں اس لیے فنڈ وافر۔ گئے تو اس طرح کہ ادارے میں جیسے جھاڑو دل گئی ہو اور روزانہ کے دفتری اخراجات کے لیے بھی پیسے نبڑ گئے ہوں۔
مگر پارٹی والوں میں بھی تو ہر قسم کی مخلوق ہوتی ہے۔ مظہر الاسلام ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کام کے دھنی جتنے عرصے رہے جتنا کر سکتے تھے کیا۔ جب دیکھا کہ اب ہمارا جانا ٹھہر گیا ہے تو وہ وقت آنے سے پہلے ہی دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
مظہر الاسلام نے استعفا دے کر ایک مثال قائم کی کہ اگر آپ پارٹی کے واسطے سے آئے ہیں تو اصولاً پارٹی کی رخصتی کے ساتھ آپ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔
مگر کچھ اصول اقتدار سنبھالنے والی پارٹی کے بھی تو ہونے چاہئیں۔ اصل میں یہ وبا ہمارے یہاں سوشلسٹ ملکوں سے آئی ہے مگر سوشلسٹ نظام میں اس عمل کا ایک جواز ہے۔ وہ تو اس تصور کے ساتھ زمام اقتدار سنبھالتے ہیں کہ انھیں پورے معاشرے کو اس نظریے کے سانچے میں ڈھالنا ہے جس کے وہ علمبردار ہیں۔ اس لیے ہر ادارے میں وہ لوگ ہونے چاہئیں جو اس نظریے کے علم بردار ہوں۔ تو ہر ادارے میں ہر رکن سے پارٹی لائن کی تابعداری کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
مگر جمہوری نظام میں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس نظام میں تو مختلف سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر اپنا اپنا منشور ہوتا ہے۔ تو جب ایک پارٹی الیکشن جیت کر اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ پوری قوم پر کوئی ایک نقطہ نظر کوئی ایک نظریہ تو مسلط نہیں کر سکتی۔ رہو اور رہنے دو کی پالیسی چلتی ہے۔ اپنی جماعت کے ساتھ رعایت برحق مگر مختلف قومی شعبوں اور محکموں میں معیار لیاقت اور اہلیت کا ہوتا ہے۔ اور ہونا چاہیے۔ سو اگر ایک جماعت الیکشن جیت کر برسر اقتدار آتی ہے تو اس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لیاقت اور اہلیت کے معیار کو فراموش کر کے مختلف شعبوں سے پارٹی کی بنیاد پر پہلوں کو اندھا دھند نکال باہر کرے اور اپنی پارٹی کی مخلوق کو بھرتی کرتی چلی جائے۔ اگر ہم جمہوریت کے قائل ہیں تو ہمیں جمہوری روایات کی تھوڑی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ اگر کسی شعبہ میں کوئی ایسا کام کا دھنی ہے جو اپنے کام میں بھی طاق ہے اور با اصول بھی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
علمی ادبی اداروں کے کام کو سیاستدان زیادہ نہیں سمجھتے۔ اگر ان کے مشیروں میں ان کاموں کو سمجھ رکھنے والے موجود ہیں' مثلاً پروفیسر' دانشور' ادیب تو وہ انھیں بہتر طور پر مشورہ دے سکتے ہیں اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مشوروں سے اپنے حکمرانوں کو نوازیں۔ یہ اپنی پارٹی کی حکومت کی بھی خدمت ہو گی اور قوم کی بھی۔
اور اس وقت ان دانشور مشیروں کو، جن میں ہمارے کچھ دوست بھی ہیں، ہمارے ساتھ مل کر یہ سوچنا ہے کہ نیشنل بک کونسل نے جو ایک نیا جنم لیا اور جو صحیح معنوں میں ایک قومی ادارہ بننا چاہتا ہے اسے کیسے بچایا جائے۔