پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
اب تو امن کمیٹی اور گینگ وار کارندوں کے خلاف کارروائی ہونی ہی چاہیے تاکہ شہر میں امن بحال ہو۔
کراچی میں دہشت گردی کی لہر نے ایک بار پھر شدت اختیار کرلی۔ یوں تو بلوچستان اور فاٹا کی صورتحال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں تاہم ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، سیاسی کشیدگی اور اسلحہ کے بے دریغ استعمال اور اسٹریٹ کرائم نے منی پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور اس پرامن شہر کی اقتصادیات اور معمول کی زندگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے تاہم اس راز پر سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھ سکا کہ قاتلوں کی شناخت ہوجانے کے باوجود ارباب اختیار ان کو کیفرکردار تک پہنچانے سے اپنی معذوری کب ختم کریں گے اور کب قتل وغارت میں ملوث کالعدم تنظیموں اور دندناتے پھرتے ٹارگٹ کلرز کے خلاف قانون کا آہنی ہاتھ حرکت میں آئیگا۔
گزشتہ روز ملیر میں قومی متحدہ موومنٹ کے 4 ہمدردوں کی بہیمانہ ہلاکت نے شہریوں کو سخت خوف وہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ اب تو امن کمیٹی اور گینگ وار کارندوں کے خلاف کارروائی ہونی ہی چاہیے تاکہ شہر میں امن بحال ہو۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے ملیر میں ایم کیوایم کے ہمدردوں کے اغوا اور قتل کے المناک واقعے پر جمعرات کو سندھ بھر میں یوم سوگ منایا ۔ مغوی کارکنوں کی لاشوں کے ساتھ لواحقین نے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ رابطہ کمیٹی اپیل کے جواب میں اسکول ،کاروبار اور ٹرانسپورٹ بطوراحتجاج بند رکھا گیا ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔ میٹرک انٹربورڈ اور سندھ ٹیکنیکل بورڈ نے جمعرات کے پرچے ملتوی کردیے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مطالبہ کیا کہ متحدہ کے شہید کارکنوں کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔
ادھر رابطہ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متحدہ کے ہمدردوں کے اغوا و بہیمانہ قتل کرنے میں ملوث پیپلز امن کمیٹی کے دہشت گردوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے، رابطہ کمیٹی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اپیل کی کہ کارکنان و ہمدردوں کے قتل کے واقعات پر از خود نوٹس لیں ۔اسی روز کراچی میں فائرنگ کے مختلف وارداتوں میں 4 مزید افراد جاں بحق ہوگئے۔سندھ کی منتخب نئی حکومت کو کراچی کے حالات کی درستگی کے لیے اقدامات میں دیر نہیں لگانی چاہیے، لیاری میںکچھی ، بلوچ خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔شہرکراچی ہی نہیں ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ کا استعمال بہت سی خرابیوں کی جڑ بن چکا ہے۔غیر قانونی اسلحہ جس کے ہاتھ میں آجائے تو وہ ویسے بھی خود کو ریمبو اور ہرکولیس سے بڑا جانباز سمجھتا ہے اور اس بے رحمی کا مظاہرہ وطن عزیز میں ہم شب و روز دیکھتے رہتے ہیں۔
دہشت گردی کا ناسور بھی خاصا پرانا ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ قتل وغارت اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی کا مقصد منی پاکستان کا معاشی قتل ہے تاکہ شہر کو مہنگائی،غربت، بیروزگاری اور جرائم کے حصار میں جکڑا جائے جب کہ مافیاز سے منسلک مسلح افراد کے خلاف کارروائی سے گریز اور سیاسی مصلحتوںکے باعث پولیس اور رینجرز کے بارے میں عوام شکوک و اندیشوں میں مبتلا ہیں ۔اس عدم اعتماد سے مجرمانہ عناصر کو خوب شہ مل رہی ہے۔انتہا پسند متوازی حکومت قائم کرتے ہوئے ریاستی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔اس ساری اندوہناک صورتحال کا ایک ہی علاج ہے کہ گربہ کشتن روز اول کے فارمولے کے تحت قانون شکن ، مجرمانہ عناصر اور گینگز کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے تاکہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن قائم ہو، عوام کو غیر قانونی اسلحہ، نو گو ایریاز ، برادرکشی اور ہر قسم کے کرمنلز سے نجات مل سکے ۔
گزشتہ روز ملیر میں قومی متحدہ موومنٹ کے 4 ہمدردوں کی بہیمانہ ہلاکت نے شہریوں کو سخت خوف وہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ اب تو امن کمیٹی اور گینگ وار کارندوں کے خلاف کارروائی ہونی ہی چاہیے تاکہ شہر میں امن بحال ہو۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے ملیر میں ایم کیوایم کے ہمدردوں کے اغوا اور قتل کے المناک واقعے پر جمعرات کو سندھ بھر میں یوم سوگ منایا ۔ مغوی کارکنوں کی لاشوں کے ساتھ لواحقین نے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ رابطہ کمیٹی اپیل کے جواب میں اسکول ،کاروبار اور ٹرانسپورٹ بطوراحتجاج بند رکھا گیا ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔ میٹرک انٹربورڈ اور سندھ ٹیکنیکل بورڈ نے جمعرات کے پرچے ملتوی کردیے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مطالبہ کیا کہ متحدہ کے شہید کارکنوں کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔
ادھر رابطہ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متحدہ کے ہمدردوں کے اغوا و بہیمانہ قتل کرنے میں ملوث پیپلز امن کمیٹی کے دہشت گردوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے، رابطہ کمیٹی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اپیل کی کہ کارکنان و ہمدردوں کے قتل کے واقعات پر از خود نوٹس لیں ۔اسی روز کراچی میں فائرنگ کے مختلف وارداتوں میں 4 مزید افراد جاں بحق ہوگئے۔سندھ کی منتخب نئی حکومت کو کراچی کے حالات کی درستگی کے لیے اقدامات میں دیر نہیں لگانی چاہیے، لیاری میںکچھی ، بلوچ خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔شہرکراچی ہی نہیں ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ کا استعمال بہت سی خرابیوں کی جڑ بن چکا ہے۔غیر قانونی اسلحہ جس کے ہاتھ میں آجائے تو وہ ویسے بھی خود کو ریمبو اور ہرکولیس سے بڑا جانباز سمجھتا ہے اور اس بے رحمی کا مظاہرہ وطن عزیز میں ہم شب و روز دیکھتے رہتے ہیں۔
دہشت گردی کا ناسور بھی خاصا پرانا ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ قتل وغارت اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی کا مقصد منی پاکستان کا معاشی قتل ہے تاکہ شہر کو مہنگائی،غربت، بیروزگاری اور جرائم کے حصار میں جکڑا جائے جب کہ مافیاز سے منسلک مسلح افراد کے خلاف کارروائی سے گریز اور سیاسی مصلحتوںکے باعث پولیس اور رینجرز کے بارے میں عوام شکوک و اندیشوں میں مبتلا ہیں ۔اس عدم اعتماد سے مجرمانہ عناصر کو خوب شہ مل رہی ہے۔انتہا پسند متوازی حکومت قائم کرتے ہوئے ریاستی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔اس ساری اندوہناک صورتحال کا ایک ہی علاج ہے کہ گربہ کشتن روز اول کے فارمولے کے تحت قانون شکن ، مجرمانہ عناصر اور گینگز کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے تاکہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن قائم ہو، عوام کو غیر قانونی اسلحہ، نو گو ایریاز ، برادرکشی اور ہر قسم کے کرمنلز سے نجات مل سکے ۔