درست اور مثبت فیصلے
امن و امان سے لے کر ضرریات زندگی کی فراہمی تک کوئی قابلِ ذکر کام سابقہ حکمرانوں کے اعمال نامے میں درج نہ ہو سکا۔
ایک زمانہ گزرا ہے جب قوم نے جمہوریت کے نام پر اربابِ اختیار کے ایسے فیصلے بھی دیکھے تھے جس میں صرف اور صرف ذاتی مفادات کا تحفظ اور اپنی انا کی پرورش اور تسکین کا سامان ہوا کرتا تھا۔ قوم کی بہتری اور آسودگی کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ اپنے اقتدار کی مضبوطی اور اس کے تسلسل کے لیے مفاہمت کے نام پر سیاسی جوڑ توڑ اور گٹھ جوڑ کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں جس نے اس ملک و قوم کو تو کچھ نہ دیا البتہ اس کے قیمتی پانچ سال ضرور برباد کر کے رکھ دیے۔ اس پورے پانچ سالہ دور میں ترقی و خوشحالی کا کوئی منصوبہ حکومتی کرشمہ سازوں نے ترتیب نہیں دیا۔
امن و امان سے لے کر ضرریات زندگی کی فراہمی تک کوئی قابلِ ذکر کام سابقہ حکمرانوں کے اعمال نامے میں درج نہ ہو سکا۔ سارا ملک افراتفری اور بے یقینی کے عالم میں سسکیاں لیتا رہا اور حکمراں قوم کے خزانوں سے اپنا مستقبل اور عاقبت سنوارتے رہے۔ وطنِ عزیز معاشی خوشحالی کے راستوں پر تو کیا گامزن ہوتا الٹا غیر ملکی قرضوں تلے دبتا چلا گیا۔ پاکستان کے 60 برسوں میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے جتنے ان 5 سال میں لیے گئے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ پھر بھی قوم کو کو ئی سہولت اور راحت نصیب نہ ہوئی بلکہ اسے مزید مہنگائی اور بے روزگاری کے سپرد کر دیا گیا۔ بجلی، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ کر دی گئیں اور قومی خزانہ خالی کا خالی رہا۔
خدا کا شکر ہے کہ نئے انتخابات کے بعد ایک ایسی قیادت نے عنانِ اقتدار سنبھالا ہے جس نے شروع دن سے قوم کو درست سمت میں لے جانے کا عہد کیا ہوا ہے۔ اس کے عزائم اور ارادوں میں خلوص اور نیک نیتی دکھائی دیتی ہے۔ جس نے اقتدار مکمل طور ملنے سے پہلے ہی جنگی اور ترجیحی بنیادوں پر دور اندیش فیصلے کرنا شروع کر دیے۔ نئے وزیر ِاعظم نے اپنی پارٹی کے اقتصادی ماہرین اور تھنک ٹینک کو قومی خوشحالی کے منصوبوں پر فوراً کام کرنے کا حکم صادر کر دیا اور جلد سے جلد اس ملک کے غریب اور ستم رسیدہ لوگوں کو راحت اور سکون فراہم کرنے کی تجاویز تیار کرنے اور ان پر عمدرآمد کو یقینی بنانے کا عہد کر لیا ہے۔ میاں صاحب کی نیک نیتی ان کے حالیہ اقدامات سے واضح طور پر عیاں ہونے لگی ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دن رات کام شروع کر دیا ہے۔
وہ جس طرح اس سنگین مسئلے کو فوری بنیاد پر حل کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں اس سے اس کے خاتمے کی امید یقیناً کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ورثے میں ملنے والی مالی مشکلات ان کے پرخلوص ارادوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی ہیں لیکن ان کے فولادی عزائم ان مشکلات کو عبور کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ ان کے ابتدائی فیصلوں کی روشنی میں قوم ان سے بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ وہ بہت جلد ان سب رکاوٹوں کو مسمار کر کے اس مفلوک الحال ملک و قوم کو روشن مستقبل کی راہوں پر گامزن کر دیں گے۔ جس طرح انھوں نے اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے ہی قومی اہمیت کے چند بڑے فیصلے کیے ہیں وہ ان کی نیک نیتی اور عزائم کی پختگی کا پتہ دیتے ہیں۔ بلوچستان میں عددی اکثریت رکھنے کے باوجود کسی دوسری پارٹی کو حقِ حکمرانی عطا کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن انھوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر ایک صوبے میں اپنی پارٹی کے اقتدار کی قربانی دے کر اقدار کی سیاست کی روشن مثال قائم کر دی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک جو نہ جاگیردار ہیں اور نہ سرمایہ دار، وہ نہ کوئی نواب ہیں اور نہ سردار، ان کا تعلق بلوچستان کے ایک غریب اور سادہ گھرانے سے ہے۔ میاں صاحب کے اس جذبہ قربانی کو تمام مکتبہ فکر نے سراہا ہے اور اسے ایک مثبت اور خوش آیند پیش رفت قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم سابقہ حکمرانوں کے طرز عمل اور طرز سیاست کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایسے ایسے غیر مقبول اور غیر مناسب فیصلے کیے جن سے سیاسی اقدار تو کیا قائم ہوتیں بلکہ رہا سہا بھرم اور وقار بھی جاتا رہا۔ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ایک ایسے غیر ذمے دار اور غیر سنجیدہ شخص کو بنایا جسے اپنی کہی ہوئی باتوں کا ہوش نہ تھا۔ جس کو اصلی اور جعلی ڈگری کا کوئی فرق بھی معلوم نہ تھا۔ وہ شخص بلوچستان کے گمبھیر مسائل کیا حل کر تا جو کبھی کبھار ہی یہاں قیام کرتا ہو۔
اسی طرح ملک کا وزیر ِاعظم بھی ایک ایسے شخص کو بنا کر عدالتی فیصلوں کا تمسخر اڑایا گیا جس کے خلاف پہلے سے رینٹل پاور پراجیکٹ کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے نااہل اور نامناسب افراد مختلف محکموں اور اداروں میں لگائے گئے جن سے بہتری اور خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور جن کی مبینہ ہنر مندی اور اعلیٰ کارکردگی کی بدولت ہر محکمہ اور ادارہ مالی خسارے کا شکار ہو کر ملکی خزانے پر بوجھ بن گیا۔ اعلیٰ عدلیہ جن جن افراد کو ہٹانے اور ان کی جگہ قابل، ایماندار اور ذہین افراد کو تعنیات کرنے کا حکم صادر فرماتی، ان پر عملدرآمد بالکل اس کے برعکس کیا جاتا۔ ہر غلط اور کرپٹ آدمی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا بلکہ اسے مزید نواز کر اس کی بھرپور سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کا چیئرمین بھی ایک ایسے متنازعہ شخص کو بنایا گیا جس سے یہ انتہائی اہم اداراہ بھی کرپشن کی بیخ کنی کے بجائے اس کی حفاظت کا سرکاری ادارہ بن کر رہ گیا۔
سابقہ حکمرانوں کے انداز حکمرانی اور انداز فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے ہر فیصلے میں خلوص نیت اور مثبت سوچ کا فقدان موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی اور مفاہمت کے نام پر اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ایک مضبوط بندھن نبھاتے ہوئے بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہ روک سکے۔ اسی طرح پنجاب میں بار بار گورنر بدل کر وہاں کی حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھنے اور گورنر راج نافذ کرنے جیسے اقدامات کسی طور اعلیٰ جمہوری رویوں کی نشاندہی نہیں کرتے۔ یہی وہ واضح فرق ہے جو آج کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سابقہ حکومت سے مختلف اور ممتاز ظاہر کر رہا ہے۔
میاں صاحب اگر چاہتے تو صوبہ پختونخوا میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ساز باز کر کے اپنی حکومت بنا سکتے تھے لیکن تعمیری اور جمہوری رویوں کی بدولت انھوں نے ایسی کسی تجویز کو لائق اعتنا نہیں گردانا اور تحریک انصاف کو اس کے مینڈیٹ کے عین مطابق اپنی حکومت قائم کرنے کا پورا موقع فراہم کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اسی تعمیری سوچ اور طرز فکر کی روشنی میں بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم یقیناً ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے سفر پر رواں دواں ہوں گے اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے برعکس ملکی اور اجتماعی قومی مفاد کو مقدم اور عزیز رکھتے ہوئے صرف اقدار اور وقار کی سیاست کو پروان چڑھائیں گے۔ مثبت اندازِ حکمرانی اور خلوِص نیت سے قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے مصائب و مشکلات کے گرداب سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
امن و امان سے لے کر ضرریات زندگی کی فراہمی تک کوئی قابلِ ذکر کام سابقہ حکمرانوں کے اعمال نامے میں درج نہ ہو سکا۔ سارا ملک افراتفری اور بے یقینی کے عالم میں سسکیاں لیتا رہا اور حکمراں قوم کے خزانوں سے اپنا مستقبل اور عاقبت سنوارتے رہے۔ وطنِ عزیز معاشی خوشحالی کے راستوں پر تو کیا گامزن ہوتا الٹا غیر ملکی قرضوں تلے دبتا چلا گیا۔ پاکستان کے 60 برسوں میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے جتنے ان 5 سال میں لیے گئے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ پھر بھی قوم کو کو ئی سہولت اور راحت نصیب نہ ہوئی بلکہ اسے مزید مہنگائی اور بے روزگاری کے سپرد کر دیا گیا۔ بجلی، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ کر دی گئیں اور قومی خزانہ خالی کا خالی رہا۔
خدا کا شکر ہے کہ نئے انتخابات کے بعد ایک ایسی قیادت نے عنانِ اقتدار سنبھالا ہے جس نے شروع دن سے قوم کو درست سمت میں لے جانے کا عہد کیا ہوا ہے۔ اس کے عزائم اور ارادوں میں خلوص اور نیک نیتی دکھائی دیتی ہے۔ جس نے اقتدار مکمل طور ملنے سے پہلے ہی جنگی اور ترجیحی بنیادوں پر دور اندیش فیصلے کرنا شروع کر دیے۔ نئے وزیر ِاعظم نے اپنی پارٹی کے اقتصادی ماہرین اور تھنک ٹینک کو قومی خوشحالی کے منصوبوں پر فوراً کام کرنے کا حکم صادر کر دیا اور جلد سے جلد اس ملک کے غریب اور ستم رسیدہ لوگوں کو راحت اور سکون فراہم کرنے کی تجاویز تیار کرنے اور ان پر عمدرآمد کو یقینی بنانے کا عہد کر لیا ہے۔ میاں صاحب کی نیک نیتی ان کے حالیہ اقدامات سے واضح طور پر عیاں ہونے لگی ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دن رات کام شروع کر دیا ہے۔
وہ جس طرح اس سنگین مسئلے کو فوری بنیاد پر حل کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں اس سے اس کے خاتمے کی امید یقیناً کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ورثے میں ملنے والی مالی مشکلات ان کے پرخلوص ارادوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی ہیں لیکن ان کے فولادی عزائم ان مشکلات کو عبور کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ ان کے ابتدائی فیصلوں کی روشنی میں قوم ان سے بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ وہ بہت جلد ان سب رکاوٹوں کو مسمار کر کے اس مفلوک الحال ملک و قوم کو روشن مستقبل کی راہوں پر گامزن کر دیں گے۔ جس طرح انھوں نے اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے ہی قومی اہمیت کے چند بڑے فیصلے کیے ہیں وہ ان کی نیک نیتی اور عزائم کی پختگی کا پتہ دیتے ہیں۔ بلوچستان میں عددی اکثریت رکھنے کے باوجود کسی دوسری پارٹی کو حقِ حکمرانی عطا کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن انھوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر ایک صوبے میں اپنی پارٹی کے اقتدار کی قربانی دے کر اقدار کی سیاست کی روشن مثال قائم کر دی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک جو نہ جاگیردار ہیں اور نہ سرمایہ دار، وہ نہ کوئی نواب ہیں اور نہ سردار، ان کا تعلق بلوچستان کے ایک غریب اور سادہ گھرانے سے ہے۔ میاں صاحب کے اس جذبہ قربانی کو تمام مکتبہ فکر نے سراہا ہے اور اسے ایک مثبت اور خوش آیند پیش رفت قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم سابقہ حکمرانوں کے طرز عمل اور طرز سیاست کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایسے ایسے غیر مقبول اور غیر مناسب فیصلے کیے جن سے سیاسی اقدار تو کیا قائم ہوتیں بلکہ رہا سہا بھرم اور وقار بھی جاتا رہا۔ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ایک ایسے غیر ذمے دار اور غیر سنجیدہ شخص کو بنایا جسے اپنی کہی ہوئی باتوں کا ہوش نہ تھا۔ جس کو اصلی اور جعلی ڈگری کا کوئی فرق بھی معلوم نہ تھا۔ وہ شخص بلوچستان کے گمبھیر مسائل کیا حل کر تا جو کبھی کبھار ہی یہاں قیام کرتا ہو۔
اسی طرح ملک کا وزیر ِاعظم بھی ایک ایسے شخص کو بنا کر عدالتی فیصلوں کا تمسخر اڑایا گیا جس کے خلاف پہلے سے رینٹل پاور پراجیکٹ کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے نااہل اور نامناسب افراد مختلف محکموں اور اداروں میں لگائے گئے جن سے بہتری اور خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور جن کی مبینہ ہنر مندی اور اعلیٰ کارکردگی کی بدولت ہر محکمہ اور ادارہ مالی خسارے کا شکار ہو کر ملکی خزانے پر بوجھ بن گیا۔ اعلیٰ عدلیہ جن جن افراد کو ہٹانے اور ان کی جگہ قابل، ایماندار اور ذہین افراد کو تعنیات کرنے کا حکم صادر فرماتی، ان پر عملدرآمد بالکل اس کے برعکس کیا جاتا۔ ہر غلط اور کرپٹ آدمی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا بلکہ اسے مزید نواز کر اس کی بھرپور سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کا چیئرمین بھی ایک ایسے متنازعہ شخص کو بنایا گیا جس سے یہ انتہائی اہم اداراہ بھی کرپشن کی بیخ کنی کے بجائے اس کی حفاظت کا سرکاری ادارہ بن کر رہ گیا۔
سابقہ حکمرانوں کے انداز حکمرانی اور انداز فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے ہر فیصلے میں خلوص نیت اور مثبت سوچ کا فقدان موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی اور مفاہمت کے نام پر اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ایک مضبوط بندھن نبھاتے ہوئے بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہ روک سکے۔ اسی طرح پنجاب میں بار بار گورنر بدل کر وہاں کی حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھنے اور گورنر راج نافذ کرنے جیسے اقدامات کسی طور اعلیٰ جمہوری رویوں کی نشاندہی نہیں کرتے۔ یہی وہ واضح فرق ہے جو آج کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سابقہ حکومت سے مختلف اور ممتاز ظاہر کر رہا ہے۔
میاں صاحب اگر چاہتے تو صوبہ پختونخوا میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ساز باز کر کے اپنی حکومت بنا سکتے تھے لیکن تعمیری اور جمہوری رویوں کی بدولت انھوں نے ایسی کسی تجویز کو لائق اعتنا نہیں گردانا اور تحریک انصاف کو اس کے مینڈیٹ کے عین مطابق اپنی حکومت قائم کرنے کا پورا موقع فراہم کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اسی تعمیری سوچ اور طرز فکر کی روشنی میں بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم یقیناً ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے سفر پر رواں دواں ہوں گے اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے برعکس ملکی اور اجتماعی قومی مفاد کو مقدم اور عزیز رکھتے ہوئے صرف اقدار اور وقار کی سیاست کو پروان چڑھائیں گے۔ مثبت اندازِ حکمرانی اور خلوِص نیت سے قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے مصائب و مشکلات کے گرداب سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے۔