پل صراط
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھنا متحدہ کا ذاتی فیصلہ ہے۔
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعد 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وفاقی و صوبائی سطح پر انتقال اقتدار کے مراحل احسن طریقے سے طے ہو رہے ہیں جو نہ صرف ملک میں جمہوری اقدار کے استحکام کی علامت ہے بلکہ سیاستدانوں اور عوام کے سیاسی شعور میں اضافے اور پختگی کا اظہار بھی ہے۔
حکومتوں کی تشکیل نو کے بعد عوام الناس یہ توقع کرنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے اپنی پارٹیوں کے منشور اور انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق ملک و قوم کے درپیش گوناگوں مسائل و مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کریں گے دہشت گردی، انتہا پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور پسماندگی جیسے گھمبیر اور سنگین چیلنجوں سے 18 کروڑ عوام کو نجات دلانے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سنجیدہ کوششیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کریں گے جیسا کہ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے تمام جماعتوں کو متحد ہوکر کام کرنا ہو گا تا کہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا جا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف، تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال رہے ہیں، ان کے برادر خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے کے مشتاق میاں شہباز شریف بھی تیسری مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال رہے ہیں، اسی طرح ملک کے تاریخی صوبے سندھ میں پیپلز پارٹی کے کہنہ مشق اور بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ نے تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ مذکورہ تینوں شخصیات اپنے منصب کے حوالے سے معتبر اور تجربہ کار ہیں اور تینوں کو تیسری مرتبہ عوام کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں، صدر آصف علی زرداری نے بحیثیت پارٹی قائد ان پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے لگا تار دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنایا۔ شاہ صاحب نہایت تجربہ کار، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک اور نرم مزاج سیاستدان ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق معاون خصوصی شمشاد قریشی نے راقم کو بتایا کہ قائم علی شاہ صاحب ایک برد بار، زیرک، معاملہ فہم اور دوسروں کی بات توجہ سے سننے والے سنجیدہ سیاستدان ہیں، وہ پیپلز پارٹی کا اثاثہ اور سندھ کی پہچان ہیں۔ قریشی صاحب کے بقول انھیں شاہ صاحب کے معاون خصوصی کی حیثیت سے کام کرنے کا خوشگوار تجربہ رہا اور چونکہ وہ صوبے کے مفاد اور سندھ کی عوام کے مسائل کے حل میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اسی باعث قیادت نے انھیں تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنایا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی قیادت اور سندھ کے عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ نئی کابینہ کے سربراہ مزار قائد پر حاضری کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان اولین ترجیح ہے، دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے، سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے، وہ بے نظیر بھٹو کے منشور کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھنا متحدہ کا ذاتی فیصلہ ہے، ان پر اپنے دروازے بند نہیں کیے، سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کا قیام بڑا چیلنج ہے، کراچی کی نمایندہ سیاسی قوت ایم کیو ایم گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی ہے۔ آج وہ سندھ اور وفاق میں بوجوہ اپوزیشن میں بیٹھی ہے تاہم دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اعتماد کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ متحدہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان ابھی ورکنگ ریلیشن شپ سے کراچی میں قیام امن کی کوششیں ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں، متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
پنجاب میں میاں شہباز شریف اپنے تجربوں اور انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہتر کارکردگی دکھانے کے عزم کا برملا اظہار کر رہے ہیں اور بلاشبہ پنجاب کے عوام ان سے بڑی توقعات رکھتے ہیں، وہاں کے لوگ لوڈ شیڈنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، میاں صاحب گزشتہ 5 سال میں لوڈ شیڈنگ میں خاتمے یا اس میں نمایاں کمی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام اٹھانے میں ناکام رہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب انتخابی مہم کے دوران اور دیگر مختلف مواقعوں پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے، کبھی 6 ماہ میں، کبھی ایک سال، کبھی دو سال اور کبھی ڈھائی سال میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات اور وعدے ریکارڈ پر موجود ہیں تاہم میاں نوازشریف نے حلف اٹھانے سے قبل ہی واضح کر دیا کہ میاں شہباز شریف تو جذبات میں ٹائم فریم دے دیتے ہیں لیکن صورت حال گمبھیر ہے، اس لیے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔
ہاں اس میں کمی لانے کے لیے ممکنہ حد تک کوششیں کریں گے حالانکہ پورا میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ میاں برادران نے پوری انتخابی مہم لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کے خاتمے کو بنیاد بنا کر چلائی اور اب حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنے دعوؤں اور وعدوں کے ایفا سے معذوری ظاہر کر دی، تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنا یقیناً ایک تاریخی موقع ہے اور اسی لمحے میاں صاحب کی خوشی بھی دیدنی ہے لیکن انھیں جن گمبھیر، سنگین اور ہمالیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ حلف اٹھانے سے قبل ہی امریکی ڈرون حملے نے انھیں کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
میاں صاحب تحریک طالبان سے مذاکرات کے خواہاں تھے لیکن حکیم اﷲ محسود کے نائب ولی الرحمٰن کی تازہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو دی گئی مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے اس ہلاکت کا بدلہ لیں گے اور امریکا کو بھی سبق سکھائیں گے۔ ماہرین اور تجزیہ کار اس صورت حال کو ناخوشگوار قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آ سکتی ہے اور دفاعی تنصیبات و اہم سرکاری شخصیات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ میاں نواز شریف نے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یک طرفہ کارروائی سے گریز کرے تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ امریکا حالت جنگ میں ہے اور ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف اپنے دفاع میں اور آخری آپشن کے طور پر استعمال کرتا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنی پالیسی جاری رکھے گا۔ میاں صاحب کے لیے امریکی تکبر کو زیر پا کرنا ''پل صراط'' سے گزرنے کے مترادف ہو گا۔
حکومتوں کی تشکیل نو کے بعد عوام الناس یہ توقع کرنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے اپنی پارٹیوں کے منشور اور انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق ملک و قوم کے درپیش گوناگوں مسائل و مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کریں گے دہشت گردی، انتہا پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور پسماندگی جیسے گھمبیر اور سنگین چیلنجوں سے 18 کروڑ عوام کو نجات دلانے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سنجیدہ کوششیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کریں گے جیسا کہ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے تمام جماعتوں کو متحد ہوکر کام کرنا ہو گا تا کہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا جا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف، تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال رہے ہیں، ان کے برادر خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے کے مشتاق میاں شہباز شریف بھی تیسری مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال رہے ہیں، اسی طرح ملک کے تاریخی صوبے سندھ میں پیپلز پارٹی کے کہنہ مشق اور بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ نے تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ مذکورہ تینوں شخصیات اپنے منصب کے حوالے سے معتبر اور تجربہ کار ہیں اور تینوں کو تیسری مرتبہ عوام کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں، صدر آصف علی زرداری نے بحیثیت پارٹی قائد ان پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے لگا تار دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنایا۔ شاہ صاحب نہایت تجربہ کار، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک اور نرم مزاج سیاستدان ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق معاون خصوصی شمشاد قریشی نے راقم کو بتایا کہ قائم علی شاہ صاحب ایک برد بار، زیرک، معاملہ فہم اور دوسروں کی بات توجہ سے سننے والے سنجیدہ سیاستدان ہیں، وہ پیپلز پارٹی کا اثاثہ اور سندھ کی پہچان ہیں۔ قریشی صاحب کے بقول انھیں شاہ صاحب کے معاون خصوصی کی حیثیت سے کام کرنے کا خوشگوار تجربہ رہا اور چونکہ وہ صوبے کے مفاد اور سندھ کی عوام کے مسائل کے حل میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اسی باعث قیادت نے انھیں تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنایا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی قیادت اور سندھ کے عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ نئی کابینہ کے سربراہ مزار قائد پر حاضری کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان اولین ترجیح ہے، دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے، سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے، وہ بے نظیر بھٹو کے منشور کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھنا متحدہ کا ذاتی فیصلہ ہے، ان پر اپنے دروازے بند نہیں کیے، سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کا قیام بڑا چیلنج ہے، کراچی کی نمایندہ سیاسی قوت ایم کیو ایم گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی ہے۔ آج وہ سندھ اور وفاق میں بوجوہ اپوزیشن میں بیٹھی ہے تاہم دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اعتماد کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ متحدہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان ابھی ورکنگ ریلیشن شپ سے کراچی میں قیام امن کی کوششیں ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں، متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
پنجاب میں میاں شہباز شریف اپنے تجربوں اور انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہتر کارکردگی دکھانے کے عزم کا برملا اظہار کر رہے ہیں اور بلاشبہ پنجاب کے عوام ان سے بڑی توقعات رکھتے ہیں، وہاں کے لوگ لوڈ شیڈنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، میاں صاحب گزشتہ 5 سال میں لوڈ شیڈنگ میں خاتمے یا اس میں نمایاں کمی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام اٹھانے میں ناکام رہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب انتخابی مہم کے دوران اور دیگر مختلف مواقعوں پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے، کبھی 6 ماہ میں، کبھی ایک سال، کبھی دو سال اور کبھی ڈھائی سال میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات اور وعدے ریکارڈ پر موجود ہیں تاہم میاں نوازشریف نے حلف اٹھانے سے قبل ہی واضح کر دیا کہ میاں شہباز شریف تو جذبات میں ٹائم فریم دے دیتے ہیں لیکن صورت حال گمبھیر ہے، اس لیے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔
ہاں اس میں کمی لانے کے لیے ممکنہ حد تک کوششیں کریں گے حالانکہ پورا میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ میاں برادران نے پوری انتخابی مہم لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کے خاتمے کو بنیاد بنا کر چلائی اور اب حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنے دعوؤں اور وعدوں کے ایفا سے معذوری ظاہر کر دی، تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنا یقیناً ایک تاریخی موقع ہے اور اسی لمحے میاں صاحب کی خوشی بھی دیدنی ہے لیکن انھیں جن گمبھیر، سنگین اور ہمالیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ حلف اٹھانے سے قبل ہی امریکی ڈرون حملے نے انھیں کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
میاں صاحب تحریک طالبان سے مذاکرات کے خواہاں تھے لیکن حکیم اﷲ محسود کے نائب ولی الرحمٰن کی تازہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو دی گئی مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے اس ہلاکت کا بدلہ لیں گے اور امریکا کو بھی سبق سکھائیں گے۔ ماہرین اور تجزیہ کار اس صورت حال کو ناخوشگوار قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آ سکتی ہے اور دفاعی تنصیبات و اہم سرکاری شخصیات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ میاں نواز شریف نے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یک طرفہ کارروائی سے گریز کرے تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ امریکا حالت جنگ میں ہے اور ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف اپنے دفاع میں اور آخری آپشن کے طور پر استعمال کرتا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنی پالیسی جاری رکھے گا۔ میاں صاحب کے لیے امریکی تکبر کو زیر پا کرنا ''پل صراط'' سے گزرنے کے مترادف ہو گا۔