گورکھ دھندہ…

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کہ جب وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔

میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم گئے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کا دن انھیں خوب یاد ہو گا، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دن وہ کہہ رہے تھے کہ 16 کروڑ عوام کے مینڈیٹ پر شب خوں مارا گیا، عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آئین کو پامال کیا گیا، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ان کی نظر میں ملک اور قوم کا وفادار نہ تھا، ان کی خواہش تھی کہ ساری قوم مشرف کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، مگر قوم نے اسی کام کے لیے انھیں منتخب کیا تو سب سے پہلے انھوں نے مشرف کو معاف کر دیا کہ جس پر شب خوں مارا گیا وہ مینڈیٹ قوم کا نہیں بلکہ ان کا ذاتی تھا۔

پاکستان کی تاریخ اتفاقات سے بھری پڑی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کہ جب وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے، عوام کے پیروں سے غلامی کی بیڑیاں کھول کر اسے آزادی کے خواب دکھا رہے تھے، اسلامی بینک کے قیام کے سپنوں سے امریکا کو چڑا کر آنکھیں دکھا رہے تھے، ''اتفاق'' کچھ یوں ہوا کہ امریکا کی نظریں افغانستان پر پڑیں، روس کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے امریکا کو ایک غیر جمہوری حکومت کا سہارا چاہیے تھا، ایک عشرے پر محیط امریکی منصوبے کی تکمیل کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خوں مارا اور بھٹو کو ان کے ناکردہ جرم کی سزا دے ڈالی، اور پھر جنرل صاحب بھی مکافات عمل کا شکار ہوئے اور جنرل مرزا اسلم بیگ نے انھیں اسی سلیوٹ کے ساتھ ایک جہاز پر بٹھا کر رخصت کیا جو سلیوٹ وہ بھٹو صاحب کو کیا کرتے تھے۔پھر جمہوری عمل کا آغاز ہوا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی، پھر نواز شریف کی، اس کے بعد پھر محترمہ اور بعد ازاں نوازشریف! جمہوریت کا یہ عشرہ ابھی رواں تھا، اب پھر وہی صورت حال تھی، میاں صاحب بھی ''باغی'' ہوتے جارہے تھے، کبھی نفاذ شریعت، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو، تو کبھی ایٹمی طاقت بننے کے خواب، میاں صاحب بھی ، عوام کو خودداری اور آزادی کے خواب دکھا رہے تھے، یعنی امریکا کو آنکھیں دکھا رہے تھے، تو ''اتفاق'' سے اس وقت امریکا کی نظریں افغانستان پر پڑیں، کچھ کام رہ گیا تھا، جس کے لیے ایک عشرہ مزید درکار تھا، مذموم مقصد کی تکمیل جو ضیاء الحق نے ادھوری چھوڑ دی تھی، کے لیے آج پھر ایک غیر جمہوری حکومت کی ضرورت تھی، افغانستان میں اس مشن کو پورا کرنے کے لیے وہی طالبان آج بھی دستیاب تھے، مگر حالات کچھ مختلف تھے، سائنسی دور میں اعلیٰ پلاننگ کی ضرورت تھی، حالات پیدا کیے گئے، جس کا اقرار لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب ''دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کی بقا'' میں کیا ہے۔

نوازشریف کے سابقہ دور میں افغانستان میں طالبان کی حکومت نے گوتم بدھ کے بت کو توڑنے کا حکم دیا تھا، چونکہ جنوبی ایشیاء و مشرق بعید میں جن کی ایک بڑی آبادی بت پرست ہے، بتوں کو توڑنے سے اسلام، مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے متنفر ہو سکے اور امریکا کا منصوبہ، افغانستان پر قبضہ، پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی آزادی کو محدود کرنا وغیرہ کے لیے راہ ہموار کی جا سکے اور امریکا میں نائن الیون کے واقعات اور پھر القاعدہ کو مورد الزام ٹھہرا کر جب امریکا اپنے ہی ایک تنخواہ دار کو ڈھونڈنے کا بہانہ بنا کر اتحادیوں کو ساتھ لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اردگرد کے بت پرست ممالک مزاحمت اور مخالفت کے بجائے خوشی کا اظہار کریں اور کام آسان ہو جائے۔


چونکہ یہ سب کچھ پاکستان کی حمایت کے بغیر ناممکن تھا، کسی جمہوری حکومت کے لیے ساتھ دینا بھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے پاکستان میں ایک فوجی حکومت کا قیام امریکی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ناگزیر تھا جس کے قیام کے مراحل کا ذکر بھی لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب میں کر چکے ہیں۔ امریکا کے اس مذموم مقصد کی کامیابی کے لیے دینی جماعتوں کا ساتھ ہونا بھی ضروری تھا ورنہ مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہو سکتا تھا۔ ایک دوسرے کی جان کے دشمن، ایک دوسرے کو کافر کے القاب بخشنے والے علمائے کرام ''ملک کے وسیع تر مفاد میں'' ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے، کاش دینی جماعتوں کا یہ فیصلہ امریکا کے بجائے ''پاکستان کے وسیع تر مفاد میں'' ہوتا۔

اس پوری کہانی کا اسکرپٹ تیار کرنے والوں نے میاں صاحب کے دور میں ہی منصوبے کا آغاز کر دیا تھا، جب مسلمانوں کو بنیاد پرست کا نام دیا گیا جو رفتہ رفتہ انتہا پسند اور پھر دہشتگرد کا نام اختیار کر گیا۔ بنیاد پرستی تو کسی بھی دین کا حصہ ہو سکتی ہے، انتہا پسندی بھی بری نہیں بشرطیکہ تشدد کے بغیر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہو، یعنی سب سے پہلے خود اپنے آپ پر لاگو کی جائے، بجائے اس کے کہ مساجد، مزارات اور اسکولوں میں بم دھماکے کروا کر معصوم لوگوں کی جان لی جائے، جس حرکت کی اسلام کسی کافر کے لیے کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے لیے بھلا کوئی بھی مسلمان کیسے کر سکتا ہے۔

بظاہر تو غلطی اس وقت کے وزیر اعظم کی تھی، مگر لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کا اپنی کتاب میں کہنا کہ ریٹائرڈ مشرف نواز شریف کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے، متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گارگل جنگ اسی اسکرپٹ کا حصہ تھی، پرویز مشرف کو ایک عشرے پر محیط مشن کی تکمیل کے لیے اقتدار میں آنا ہی تھا۔ان سب حالات و واقعات کے نتیجے میں ساری دنیا کو ایک مشکل سے دوچار کر دیا گیا، خام تیل اور سونے کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے کے باعث ہر شے کی قیمتیں بڑھ گئیں، پاکستان کو امریکا کا اتحادی ہونے کے ناتے امریکی امداد ملتی رہی، ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کا پیسہ بھی خزانے میں بھرا پڑا تھا، مشرف حکومت نے دل کھول کر سبسڈیاں دیں، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں ان ہی سبسڈیوں کے سہارے روک کر رکھی گئیں، ترقیاتی کام خوب ہوئے، سڑکیں پختہ کی گئیں، پل تعمیر کیے گئے، دل کھول کر مال لٹایا گیا۔

امریکا کا مشن پورا ہو گیا، امریکا نے امداد دینا بند کر دی، قرض اتارو ملک سنوارو کا پیسہ بھی خزانے میں نہ رہا، اب پرویز مشرف کا مزید وقت حکومت کرنا فوج کی بدنامی کا باعث بن سکتا تھا اور اگلے اتفاقات، ایبٹ آباد آپریشن، سلالہ چیک پوسٹ حملے بھی جو اس ''اسکرپٹ'' کا حصہ تھے، ایک فوجی حکمران کے دور میں فوج کی مزید بدنامی کا باعث بن سکتے تھے، جس کے لیے ایک ''جمہوری'' حکومت کی ضرورت تھی، مشرف صاحب کا بستر گول کر دیا گیا، اس وقت آصف علی زرداری سے بہتر مفاہمت پسند کون شخص تھا جو ملک کی باگ ڈور سنبھالتا، کون سہہ سکتا تھا ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسے سانحات، یہ زخم زرداری صاحب ہی ہنس کر سہہ گئے تھے، محترمہ اگر ہوتیں تو اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش میں لگی رہتیں، شاید اسی لیے ان کا قصہ پہلے ہی تمام کر دیا گیا۔

اب جب نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن چکے ہیں، اشفاق پرویز کیانی بھی ملک و قوم کے لیے کسی حد تک نرم گوشہ رکھتے ہیں، افتخار چوہدری جیسا چیف جسٹس ہمیں میسر ہے، اپوزیشن لیڈر بھی عمران خان جیسا باکمال شخص موجود ہے، زرداری صاحب بھی ذاتی عیوب سے ہٹ کر اپنی مجبوریوں سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں، شاید اب وہ کفارے کے طور پر ملک کے لیے کچھ کرنا بھی چاہیں، یہ وقت مناسب ہے کہ ملک کے مسائل کو یہ پانچوں رہنما مل بیٹھ کر سوچیں اور حل نکال لیں۔ یہی وقت ہے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات بہت کم ہیں، اب قوم کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا ہو گی، خود غرضی اور مطلب پرستی سے باہر نکلنا ہو گا، دھوکا خود سے بھی ہو تو دھوکا ہی رہتا ہے، بس یہ سوچ لیا جائے کہ ایک روز ہم سب کو اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے، کاش ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے۔
Load Next Story