اللہ کے فضل وکرم سے
ہم کوئی کام کاج نہیں کرتے، ہمارے کوئی کاروبار نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے ہوں، ہمارے کاروبار ہوں، تو ہم ٹیکس دیں!
سات لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں، 22 کروڑ آبادی میں ، ستر لاکھ انکم ٹیکس دینے والے تو ہونے چاہئیں، مگر صرف 7 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں اور وہ بھی پورا ٹیکس نہیں، ایک انکم ٹیکس وکیل کہہ رہے تھے۔ ''ٹیکس دینے والا کہتا ہے بجلی اور ٹیلی فون پر جو ٹیکس کٹا ہے، اسی میں ٹیکس بنا کر میرا گوشوارہ جمع کروا دو۔''
یہ چھوٹے کاروباری کا بیان ہے بڑے اور بہت بڑے ٹیکس دینے والوں کی کہانی اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ ''یہ بڑے اور بہت بڑے'' بڑے قابل وکیل رکھتے ہیں، بڑے ''ماہر کاریگر'' رکھتے ہیں، جو اپنی کاریگری سے انکم ٹیکس کا گوشوارہ بنا کر داخل دفتر کر دیتے ہیں اور ایک قسم ان بڑوں اور بہت بڑوں سے اوپر بھی رہتی ہے، جو سرے سے ٹیکس ہی نہیں دیتی، انھیں استثنا یعنی چھوٹ حاصل ہے، کہ یہ اربوں کھربوں کے مالک، عالی شان کوٹھی بنگلے کے پورچ میں جدید اور مہنگی ترین کاروں کے مالک، مگر ان سے کوئی مائی کا لال پوچھ سکتا کہ ''بھائی! انکم ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟'' اس اعلیٰ و ارفع مخلوق کا بیان ہے کہ ''ہم اللہ کے پسندیدہ ہیں، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب اللہ کا دیا ہوا ہے، ہمارے محل، ہماری گاڑیاں، ہماری لبالب بھری تجوریاں، یہ سب کچھ اللہ کا فضل وکرم ہے۔''
ہم کوئی کام کاج نہیں کرتے، ہمارے کوئی کاروبار نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے ہوں، ہمارے کاروبار ہوں، تو ہم ٹیکس دیں! ''اللہ کے فضل وکرم '' پر ٹیکس نہیں بنتا۔ یہ جو ہمارے میلوں دور تک پھیلے کھیت کھلیان ہیں، یہ جو ہمارے گائے، بھینسیں، گھوڑے، کتے اور دیگر چرند، پرند ہیں یہ بے زبان جانور، ان کا روٹی رزق بھی اللہ ہمیں دیتا ہے اور ہم ان بے زبانوں کو ان کا دیا ہوا رزق اللہ کے فضل و کرم سے ان تک پہنچا دیتے ہیں اور ہم ہر دم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔''
اللہ تیرا شکر ہے، اللہ تیرے فضل پر تیرے کرم پر ہم تیرے سامنے سجدہ ریز ہیں اور یہ جو باقی اللہ کی مخلوق، جن کے ''برے حال ہیں بونکے دیہاڑے ہیں'' یہ گندی نالیوں کے کیڑے، یہ غریب غربا اللہ کے عذاب کے مارے ہیں۔ ان کے برے اعمالوں پر اللہ ان سے ناراض ہے اور یہ عذاب الٰہی بھگت رہے ہیں، یہ گندی نالیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں مر کھپ جاتے ہیں۔ یہ غریب غربا اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ اللہ بھی ان کے ساتھ نہیں اور زمانہ بھی ان کے ساتھ نہیں، جب کہ ہم اللہ کے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ بھی ہے، اور ''اللہ والے'' بھی ہیں۔
دیکھتے نہیں اللہ کے عبادت گزار سارے مولوی، دین کا علم رکھنے والے، بزرگان دین کے پاک مزارات کے سجادہ نشین، سب ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے ایک ذرا سے اشارے پر چلے آتے ہیں۔ یہ ہم پر اللہ کا فضل و کرم نہیں تو کیا ہے۔ باقی اگر کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ ''یہ سارے فضل و کرم کہاں سے آئے؟'' تو ہمارے پاس اس بے ہودہ سوال کا جواب نہیں ہے، ہمارے پاس کوئی ''منی ٹریل'' نہیں ہے۔ یہ ''منی ٹریل'' لفظ کہاں سے آگیا، یہ اللہ کے کاموں میں مداخلت ہے اور اللہ اپنے کاموں میں مداخلت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھنا ان منی ٹریل پوچھنے والوں پر اللہ کا عذاب کیسے نازل ہوگا۔
رہا سوال ٹیکس دینے کا، تو ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم پر کوئی کسی قسم کا ٹیکس نہیں بنتا، اور یہ امارت، یہ غربت یہ سب اللہ کے کام ہیں، صدیوں پرانے وقتوں سے یہ امارت اور غربت چلے آرہے ہیں اور یہ یوں ہی چلتے رہیں گے۔ یہ اللہ کے نظام سے ٹکرانے والے، ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ بڑے بڑے باغی آئے نظام بدلنے کی باتیں کیں، اور بے نیل و مرام چلے گئے۔
وہ ایک شاعر دیوانہ پاگل آیا تھا اب تو اسے گئے بھی سو سال سے اوپر ہوگئے، دنیا والوں نے اسے شاعر مشرق قرار دیا کہتا تھا ''اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو/کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو/جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی/اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو/سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ/ جو نقش تم کو نظر آئے مٹا دو/۔ تم نے دیکھا ''اللہ کے فضل و کرم'' نہ غریب جاگے، نہ ہمارے در و دیوار ہلے، ہم دہقاں، ہاری کسان کا حق اسے نہیں دیتے، اور ہمارے کھیت کھلیان کو آگ بھی نہیں لگی، سلطانی جمہور ایک مجنوں، دیوانے شاعرکی بڑ ہی رہ گئی اور ہمارے صدیوں پرانے نقش ''اللہ کے فضل و کرم سے'' ویسے ہی چمک دمک رہے ہیں۔
یہ ''اللہ کے فضل وکرم کے انکاری، اللہ کے باغی پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے'' ہم اللہ کے پسندیدہ مقبول بندے یوں ہی دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتے رہیں گے، جنت کی حوریں اور حورٍٍ جنت کے پھل میوے، دودھ، شہد کی نہریں، من پسند بھنے ہوئے پرندے، موتی جواہرات سے بنے ہوئے محل، لہلہاتے ریشمی پردے، مخملیں بستر، اشاروں کی منتظر خواہشات، سدا کی جوانی، دیوانی، نادانی، جنت کے یہ سارے ہی آرام و آسائش ہمیں دنیا میں ہی میسر ہیں۔ ہم اللہ کے پسندیدہ ہیں، ہمارے لیے یہاں بھی جنت، وہاں بھی جنت۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، سو ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔
یہ جو ہم غریب غربا پر اپنے شکاری خونخوار کتے چھوڑ دیتے ہیں، غریبوں کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، ان کو زنجیریں پہنا کر قید رکھتے ہیں، ان سے کھیتوں کھلیانوں میں کام کرواتے ہیں، انھیں بھوکا ننگا رکھتے ہیں، یہ سارے کام اللہ ہم سے کرواتا ہے۔ اللہ ان غریب، نافرمانوں کو سزائیں دیتا ہے، اب اللہ خود ساتویں آسمان سے اتر کر تھوڑی آئے گا، وہ تو ہمارے جیسے اپنے مقبول بندوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ یہ ہم غریبوں کے ہاتھ نہیں کاٹتے، یہ اللہ کاٹتا ہے، یہ ہم زندہ انسانوں کو دہکتے ابلتے بوائلروں میں اور بھٹوں میں نہیں پھینکتے، یہ اللہ پھینکتا ہے۔ یہ بیگار بھی اللہ لیتا ہے، یہ بھوک، ننگ، بے سر و سامانی، سب منجانب اللہ ہے۔ ہمیں کچھ مت کہو، ہمیں مت چھیڑو۔ ہمیں تنگ مت کرو۔ اللہ نے ہمیں بادشاہت دی ہے اور رعایا کو حکم دیا ہے کہ وہ ہماری اطاعت کرے، اللہ اللہ خیر صلا۔
مگر یہ کیسا شور ہے، یہ کیا ہنگامہ ہے، یہ صدائیں کیسی بلند ہو رہی ہیں، اللہ سمیع ہے بصیر ہے۔ ڈھیل دو بھئی ڈھیل دو، اور آخر پتنگ کٹ جاتی ہے، بچے بڑے بھانکڑ اٹھائے کٹی پتنگ کو لوٹنے بھاگ رہے ہیں اب دیکھیں ثابت پتنگ ہاتھ آتی ہے یا پھٹی پتنگ، ٹکڑے ٹکڑے پتنگ۔
یہ چھوٹے کاروباری کا بیان ہے بڑے اور بہت بڑے ٹیکس دینے والوں کی کہانی اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ ''یہ بڑے اور بہت بڑے'' بڑے قابل وکیل رکھتے ہیں، بڑے ''ماہر کاریگر'' رکھتے ہیں، جو اپنی کاریگری سے انکم ٹیکس کا گوشوارہ بنا کر داخل دفتر کر دیتے ہیں اور ایک قسم ان بڑوں اور بہت بڑوں سے اوپر بھی رہتی ہے، جو سرے سے ٹیکس ہی نہیں دیتی، انھیں استثنا یعنی چھوٹ حاصل ہے، کہ یہ اربوں کھربوں کے مالک، عالی شان کوٹھی بنگلے کے پورچ میں جدید اور مہنگی ترین کاروں کے مالک، مگر ان سے کوئی مائی کا لال پوچھ سکتا کہ ''بھائی! انکم ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟'' اس اعلیٰ و ارفع مخلوق کا بیان ہے کہ ''ہم اللہ کے پسندیدہ ہیں، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب اللہ کا دیا ہوا ہے، ہمارے محل، ہماری گاڑیاں، ہماری لبالب بھری تجوریاں، یہ سب کچھ اللہ کا فضل وکرم ہے۔''
ہم کوئی کام کاج نہیں کرتے، ہمارے کوئی کاروبار نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے ہوں، ہمارے کاروبار ہوں، تو ہم ٹیکس دیں! ''اللہ کے فضل وکرم '' پر ٹیکس نہیں بنتا۔ یہ جو ہمارے میلوں دور تک پھیلے کھیت کھلیان ہیں، یہ جو ہمارے گائے، بھینسیں، گھوڑے، کتے اور دیگر چرند، پرند ہیں یہ بے زبان جانور، ان کا روٹی رزق بھی اللہ ہمیں دیتا ہے اور ہم ان بے زبانوں کو ان کا دیا ہوا رزق اللہ کے فضل و کرم سے ان تک پہنچا دیتے ہیں اور ہم ہر دم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔''
اللہ تیرا شکر ہے، اللہ تیرے فضل پر تیرے کرم پر ہم تیرے سامنے سجدہ ریز ہیں اور یہ جو باقی اللہ کی مخلوق، جن کے ''برے حال ہیں بونکے دیہاڑے ہیں'' یہ گندی نالیوں کے کیڑے، یہ غریب غربا اللہ کے عذاب کے مارے ہیں۔ ان کے برے اعمالوں پر اللہ ان سے ناراض ہے اور یہ عذاب الٰہی بھگت رہے ہیں، یہ گندی نالیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں مر کھپ جاتے ہیں۔ یہ غریب غربا اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ اللہ بھی ان کے ساتھ نہیں اور زمانہ بھی ان کے ساتھ نہیں، جب کہ ہم اللہ کے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ بھی ہے، اور ''اللہ والے'' بھی ہیں۔
دیکھتے نہیں اللہ کے عبادت گزار سارے مولوی، دین کا علم رکھنے والے، بزرگان دین کے پاک مزارات کے سجادہ نشین، سب ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے ایک ذرا سے اشارے پر چلے آتے ہیں۔ یہ ہم پر اللہ کا فضل و کرم نہیں تو کیا ہے۔ باقی اگر کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ ''یہ سارے فضل و کرم کہاں سے آئے؟'' تو ہمارے پاس اس بے ہودہ سوال کا جواب نہیں ہے، ہمارے پاس کوئی ''منی ٹریل'' نہیں ہے۔ یہ ''منی ٹریل'' لفظ کہاں سے آگیا، یہ اللہ کے کاموں میں مداخلت ہے اور اللہ اپنے کاموں میں مداخلت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھنا ان منی ٹریل پوچھنے والوں پر اللہ کا عذاب کیسے نازل ہوگا۔
رہا سوال ٹیکس دینے کا، تو ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم پر کوئی کسی قسم کا ٹیکس نہیں بنتا، اور یہ امارت، یہ غربت یہ سب اللہ کے کام ہیں، صدیوں پرانے وقتوں سے یہ امارت اور غربت چلے آرہے ہیں اور یہ یوں ہی چلتے رہیں گے۔ یہ اللہ کے نظام سے ٹکرانے والے، ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ بڑے بڑے باغی آئے نظام بدلنے کی باتیں کیں، اور بے نیل و مرام چلے گئے۔
وہ ایک شاعر دیوانہ پاگل آیا تھا اب تو اسے گئے بھی سو سال سے اوپر ہوگئے، دنیا والوں نے اسے شاعر مشرق قرار دیا کہتا تھا ''اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو/کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو/جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی/اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو/سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ/ جو نقش تم کو نظر آئے مٹا دو/۔ تم نے دیکھا ''اللہ کے فضل و کرم'' نہ غریب جاگے، نہ ہمارے در و دیوار ہلے، ہم دہقاں، ہاری کسان کا حق اسے نہیں دیتے، اور ہمارے کھیت کھلیان کو آگ بھی نہیں لگی، سلطانی جمہور ایک مجنوں، دیوانے شاعرکی بڑ ہی رہ گئی اور ہمارے صدیوں پرانے نقش ''اللہ کے فضل و کرم سے'' ویسے ہی چمک دمک رہے ہیں۔
یہ ''اللہ کے فضل وکرم کے انکاری، اللہ کے باغی پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے'' ہم اللہ کے پسندیدہ مقبول بندے یوں ہی دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتے رہیں گے، جنت کی حوریں اور حورٍٍ جنت کے پھل میوے، دودھ، شہد کی نہریں، من پسند بھنے ہوئے پرندے، موتی جواہرات سے بنے ہوئے محل، لہلہاتے ریشمی پردے، مخملیں بستر، اشاروں کی منتظر خواہشات، سدا کی جوانی، دیوانی، نادانی، جنت کے یہ سارے ہی آرام و آسائش ہمیں دنیا میں ہی میسر ہیں۔ ہم اللہ کے پسندیدہ ہیں، ہمارے لیے یہاں بھی جنت، وہاں بھی جنت۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، سو ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔
یہ جو ہم غریب غربا پر اپنے شکاری خونخوار کتے چھوڑ دیتے ہیں، غریبوں کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، ان کو زنجیریں پہنا کر قید رکھتے ہیں، ان سے کھیتوں کھلیانوں میں کام کرواتے ہیں، انھیں بھوکا ننگا رکھتے ہیں، یہ سارے کام اللہ ہم سے کرواتا ہے۔ اللہ ان غریب، نافرمانوں کو سزائیں دیتا ہے، اب اللہ خود ساتویں آسمان سے اتر کر تھوڑی آئے گا، وہ تو ہمارے جیسے اپنے مقبول بندوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ یہ ہم غریبوں کے ہاتھ نہیں کاٹتے، یہ اللہ کاٹتا ہے، یہ ہم زندہ انسانوں کو دہکتے ابلتے بوائلروں میں اور بھٹوں میں نہیں پھینکتے، یہ اللہ پھینکتا ہے۔ یہ بیگار بھی اللہ لیتا ہے، یہ بھوک، ننگ، بے سر و سامانی، سب منجانب اللہ ہے۔ ہمیں کچھ مت کہو، ہمیں مت چھیڑو۔ ہمیں تنگ مت کرو۔ اللہ نے ہمیں بادشاہت دی ہے اور رعایا کو حکم دیا ہے کہ وہ ہماری اطاعت کرے، اللہ اللہ خیر صلا۔
مگر یہ کیسا شور ہے، یہ کیا ہنگامہ ہے، یہ صدائیں کیسی بلند ہو رہی ہیں، اللہ سمیع ہے بصیر ہے۔ ڈھیل دو بھئی ڈھیل دو، اور آخر پتنگ کٹ جاتی ہے، بچے بڑے بھانکڑ اٹھائے کٹی پتنگ کو لوٹنے بھاگ رہے ہیں اب دیکھیں ثابت پتنگ ہاتھ آتی ہے یا پھٹی پتنگ، ٹکڑے ٹکڑے پتنگ۔