موجودہ ترکی صرف اورصرف کمال اتاترک کی بدولت ہے
ویسے انسان سوچے تو اب تک دنیامیں کتنی کتنی عظیم سلطنتیں، بادشاہ، شہنشاہ، سلطان اورخلفاء حکومت کرتے رہے ہیں۔
باسفورس کے کنارے پراَن گنت کیفے ہیں۔ مہنگے سے مہنگے اوراوسط سے اوسط۔بتایاگیاکہ سمندر سے بالکل متصل ایک قدیم ساریسٹورنٹ ہے جو صرف اورصرف مچھلی پیش کرتاہے۔ہم سب نے فیصلہ کیاکہ رات کاکھانااسی ریسٹورنٹ میں کھائیں گے۔بتاناضروری ہے کہ ہم سب میں کون کون شامل تھے۔
راناصاحب اوران کی اہلیہ،فرخ گویندی صاحب اوران کی بیگم صاحبہ اوریہ طالبعلم۔ پانچوں کاباہمی فیصلہ بالکل ٹھیک نکلا۔ہئیت کے حساب سے یہ بے حددلچسپ کیفے تھا۔سبزیوں کے بڑے بڑے حقیقی ماڈل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ پیاز اوردیگرسبزیوں کے محیرالعقول نمونے ایستادہ تھے۔ پوری دنیا سے سیاح یہاں مچھلی کھانے آتے ہیں۔یہ ہوٹل سے تقریباًچالیس منٹ دورتھا۔بہرحال اتنی اعلیٰ ذائقہ والی مچھلی بہت کم ملتی ہے۔
پچھلاہفتہ استنبول میں گزرا۔سرکاری طور پر متعدد بار ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ مگر ذاتی حیثیت میں پہلی بارگیا تھا۔سرکاری وفدمیں ترکی یا کسی بھی ملک جانا یا نہ جانا،بالکل یکساں ہوتاہے۔ گھسی پٹی بریفنگز،موجودہ حکومت کی تعریفیں اور تقریباًایک جیسے معاملات۔تھوڑی دیرمیں،بلکہ چند لمحوں کے بعدانسان کی توجہ بوجھل سی ہوجاتی ہے۔ میں سوچنا شروع کردیتاتھاکہ کب یہ قیمتی لغوباتیں ختم ہونگی اورکب اگلی جگہ جائیں گے۔
قدیم عمارات بھی تقریباًایک ہی طریقے سے دکھائی جاتی ہیں۔ایک فالتوقسم کاگائڈجوکسی بھی عمارت کو انسانی تہذیب کے لیے ناگزیر ثابت کرسکتا ہے۔ذہنی ہتھوڑے مار مار کر معلومات فراہم کرتاہے۔ایسی معلومات جو آپ فوری طورپربھول جاتے ہیں۔سرکاری وفد میں بیرون ملک جانا حددرجہ بوریت،نہیںیہ لفظ مناسب نہیں، مگر ایک جیسی اُکتاہٹ کاباعث بن جاتا ہے۔ تازہ ہواکے جھونکوں کے بغیرایک ایساسفرجس میں انسان کئی بارشہروں کے نام تک بھول جاتا ہے۔ مگر اس بارمیرے پاس ایک فکری اورذاتی آزادی تھی۔ فکری آزادی کواب بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔
کیونکہ سرکارکی گھٹی گھٹی نوکری میں ذہن کو کھلا رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ جو سرکاری ملازمین اپنے ذہن کو آزادی سے استعمال کرنے کی جسارت کرتے ہیں، انھیں بہت جلد ناپسندیدگی کاشکار ہونا پڑتا ہے۔ دراصل سرکارکی ملازمت میں سوچناایک ایساجرم ہے جسکی سزاآپکوفوراًمل جاتی ہے۔ پوری دنیامیں ملازمت کے"غلامی"والے وہی اُصول ہیں جو ہمارے ہاں مروجہ ہیں۔شائدانیس بیس کافرق ہو۔
ترکی کے سیاسی،معاشی اورمعاشرتی حالات بے حداضطراب میں ہیں۔بہت سے لوگوں سے ذاتی سطح پر سچائی کے ساتھ بات کرنے اورسننے کا موقعہ ملا۔ترکی اس وقت طیب اُردگان کی مکمل گرفت میں ہے۔ وزیراعظم ہو یا صدرہو،حکومتی اختیارات صرف اورصرف اُردگان کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ترکی پراس آہنی گرفت کے فوائداور نقصانات برابرکے ہیں۔اُردگان نے اپنے اقتدارمیں صرف ایک گُر آزمایاہے۔وہ ہے کہ عوامی فلاح کے لیے وہ منصوبے بنائو، جو عام لوگوں کو نظرآتے ہیں۔یعنی اُردگان نے Optics کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے۔
اسی وجہ سے بہترین سڑکیں، پُل، شاہرائیں، ہوٹل اورجدیدترین انفرااسٹرکچر وجود میں آیا ہے۔ قطعاً نہیں کہہ سکتا،کہ یہ بین الاقوامی معیارکا ہے۔ کیونکہ بہرحال ترکی،ابھی مغربی ممالک سے ہرطرح کافی پیچھے ہے۔بہترین انفرااسٹرکچربنانے کی ترکیب محترم شہباز شریف بھی ترکی سے ہی لے کر آئے تھے۔مگرایک بنیادی فرق بھول گئے یا نظر اندازکرگئے۔اُردگان نے وفاداری،اہلیت اور کرپشن پرمبنی فارمولاترتیب دیا۔کرپشن کے الزامات ترکی کی "حکومتی فیملی"پرثبوتوں کے ساتھ لگائے گئے ہیں۔
اس کے ردِعمل میں میڈیا، پریس، اخبارات، آزاد سوچ والے صحافی اورادارے،تمام کے تمام زیرعتاب لائے گئے۔ گرفتاریاں، پھانسیاں،تکالیف پہنچاپہنچاکرترکی کے حکومتی گروہ نے ہر طرح کی مخالف آوازکوختم کردیا ہے۔ پولیس اورفوج میں یہ عمل آج بھی جاری وساری ہے۔ خیر، اس پرمزیدبات کرنا بیکارہے۔کیونکہ وہاں کے حالات تبدیل نہیں ہونگے۔
تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے حالات خراب کے خراب رہیں گے۔ مگر محترم شہبازشریف،اس درآمدی اُصول میں ایک چیزمنہاکرگئے اوروہ تھی اہلیت۔ پنجاب ماڈل میں وفاداری، کرپشن اورنااہلی کو بنیاد بنادیا گیا۔اسی وجہ سے ملکی خزانے کو حددرجہ نقصان ہوااوریہ نقصان آج تک جاری ہے۔ صرف اورصرف پروپیگنڈے کے زورپرنااہلی کواہلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہرحال زمینی حقائق سے کوسوں دورہے۔
بات ترکی کی ہورہی تھی۔ایک دن کچھ فرصت تھی۔ گویندی صاحب کی سربراہی میں ہیگیہ صوفیا جانے کا خوبصورت اتفاق ہوا۔راناصاحب کیونکہ کئی بارنادرجگہ دیکھ چکے تھے۔اس لیے اس تاریخی عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ہم دوہی صحرا نوردتھے۔537ء میں بننے والاچرچ،ایک ہزارسال تک کرہِ اَرض پرسب سے بڑی عبادت گاہ رہی۔اسے جسٹین اول نے بنوایاتھا۔"صوفیا"بنیادی طورپرقدیم یونانی زبان میں"عقل ودانش"کوکہتے ہیں۔اسے دراصل Wisdom of Godیعنی خداکی دانش سے منسلک کیا گیا تھا۔ اس کی تاریخی اہمیت بے انتہا ہے۔
1453میں مسلمان حاکم،فاتح محمدنے قسطنطنیہ پرحملہ کیا۔ہزاروں برس سے شکست سے ناآشنا دنیا کا عظیم شہر،مسلمان فوجوں کے سامنے ڈھیرہوگیا۔ ماضی کے مسلمان حکمرانوں کی طرزِ حکومت کے تدبر کو دیکھیے۔اس عظیم اثاثے کوکوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا گیا۔ صرف اورصرف اس کے چاروں طرف فن تعمیر کے بہترین نمونے یعنی مینارتعمیرکیے گئے۔کسی ابتری کے بغیراسے مسجد بنادیا گیا۔کیتھیڈل کے اندرتمام نوادرات کو اصل حالت میں محفوظ رکھاگیا۔
چرچ کو دینی یکجہتی کی ایک ایسی مثال بنادیا گیاجس میں دنیا کے دوعظیم مذاہب نے ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہناسیکھا۔1935میں ترک قائد، کمال اتاترک نے اس عظیم عمارت کومیوزیم بنادیا۔یہ فیصلہ انتہائی دوررس اور زبردست تھا۔ترکی کواس سے بے حد سماجی اورمعاشی فائدہ ہوا۔اوسط لگائی جائے توصوفیہ کودیکھنے کے لیے بیس سے تیس لاکھ سیاح سالانہ آتے ہیں اوراس شہکار کو دیکھنے کے بعد ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔کیتھیڈل میں اوپر جانے کے لیے جس طرح کاقدیم طریقہ اپنایا گیا تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔
دراصل یہ سیڑھیاں ہیں ہی نہیں۔ چھوٹے اور بڑے پتھروں کواس طرح جوڑاگیاہے کہ آہستہ آہستہ انسان اوپرکی طرف جاناشروع ہو جاتا ہے۔ اوپرچڑھتے وقت ذہن میں خیال اُبھراکہ ان پتھروں کو اگر زبان مل جائے،تویہ کیا کیا زرخیز اوراُچھوتے راز بتائینگے۔ کون کون سی شخصیات،ان پتھروں پرچلتی رہی ہیں،ان ناموں سے یہی پتھر واقف ہیں اورکوئی بھی تاریخ دان نہیں۔ ویسے تاریخ صرف اورصرف فاتح لکھواتے ہیں۔شکست کھانے والے فریق کاسچ تو ویسے ہی مٹا دیا جاتا ہے۔ ہاں، صوفیہ کی بالائی منزل سے اُترنے والے راستے میں پرانی سیڑھیاں موجود ہیں۔
دیواروں پر بازنطینی بادشاہوں نے سونے سے مزین نقش ونگار بنوائے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں نے تمام اسلامی مقدس نام، بڑی بڑی گول پلیٹوں پر لکھوا کر دیواروں پرمزین کردیے ہیں۔ صوفیہ،واقعی بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک اُچھوتی مثال ہے۔سیاحوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔عمارت کے باہر، یونانی زبان سے مزین، مینار، پرانی عمارتوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اور جانوروں کی تصاویرسے مزین پتھروں کے مہیب تودے ہر طرف موجود ہیں۔
ویسے انسان سوچے تو اب تک دنیامیں کتنی کتنی عظیم سلطنتیں، بادشاہ، شہنشاہ، سلطان اورخلفاء حکومت کرتے رہے ہیں۔ان بڑے لوگوں کا ذکر تو پھربھی مل جاتا ہے۔ مگر عوام کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ قدیم ترین زمانے سے اب تک عام آدمی کاوالی وارث کوئی نہیں ہے۔صنعتی اور یورپ کے فکری انقلاب کے بعد، مغربی ممالک کی حد تک اچھی سہولتوں کوعوام تک کامیابی سے پہنچایا گیا ہے۔مگرتاریخ اور حال صرف اور صرف حکمرانوں ہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ترکی کے معاشی حالات کافی حدتک دبائومیں ہیں۔ ڈالرکے مقابلے میں ان کی کرنسی بہت زیادہ گراوٹ کا شکار ہے۔شرح ترقی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔مگرآج بھی ترک حکمران حد درجہ عمدہ طریقے سے معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہدکررہے ہیں۔ مستقبل میںیہ مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ سیاحت نے ترکی کومعاشی استحکام دے رکھا ہے۔تقریباًتیس سے پینتیس بلین ڈالرصرف اور صرف سیاح ترکی کی معیشت کوسالانہ دیتے ہیں۔ سیاحت مقامی معیشت کاایک مضبوط ترین ستون ہے۔اب عرب سے سیاح زیادہ آتے ہیں۔امریکا اوریورپ کے شہری اس جگہ آنے سے کتراتے ہیں ۔
سماجی طورپرترکی بے حدمستحکم ہے۔دس سے بیس فیصدخواتین سرکواسلامی طریقے سے ڈھانپتی ہیں۔ سرپر اسکارف مذہبی ہے کہ نہیں۔اس پر مسلمان علماء کااجماع نہیں ہے۔لیکن مسلمان ملک ہونے کے باوجودترکی مکمل طورپر آزادروش پرچل رہاہے۔نائٹ کلب،شراب اورمغربی طرز کی تفریح ہرجگہ موجودہے۔کسی بھی چیزپرکوئی پابندی نہیں۔ آپ نمازپڑھناچاہتے ہیں تومسجدچلے جائیے۔ اگر شام کو رنگین بناناچاہتے ہیں توکسی بھی بارمیں بیٹھ جائیے۔مذہب اورجدیدطرزِزندگی کایہ توازن ہمارے ملک میں موجودنہیں ہے۔1977کے بعد تو خیر،ہمارے ملک میں ریاستی سطح پر شدت پسندی کو عروج دلوایاگیاہے۔نتیجہ سامنے ہے۔
پوری دنیامیں کوئی بھی ہمارادوست نہیں ہے۔ایک دو ممالک ذاتی وجوہات کی بناپرہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ترکی کوقدامت سے نکالنے والاصرف اورصرف ایک لیڈرہے اوروہ ہے کمال اتاترک۔وہی عظیم آدمی، جسکی یومِ وفات پرقائداعظم نے برصغیرمیں ایک دن کے سوگ کااعلان کیاتھا۔ ترکی، صرف اورصرف مصطفی کمال کی بدولت تبدیل ہواہے اور اسے فکری آزادی اور برتری حاصل ہوئی ہے۔ہمارے جیسے مشکل معاشروں میں کمال اتاترک جیساعظیم لیڈر پیدا ہونا ناممکن ہے! یقین نہیں آتاتوتمام مسلمان معاشروں کوکھنگال کر دیکھ لیجیے۔شائدیقین آجائے!
راناصاحب اوران کی اہلیہ،فرخ گویندی صاحب اوران کی بیگم صاحبہ اوریہ طالبعلم۔ پانچوں کاباہمی فیصلہ بالکل ٹھیک نکلا۔ہئیت کے حساب سے یہ بے حددلچسپ کیفے تھا۔سبزیوں کے بڑے بڑے حقیقی ماڈل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ پیاز اوردیگرسبزیوں کے محیرالعقول نمونے ایستادہ تھے۔ پوری دنیا سے سیاح یہاں مچھلی کھانے آتے ہیں۔یہ ہوٹل سے تقریباًچالیس منٹ دورتھا۔بہرحال اتنی اعلیٰ ذائقہ والی مچھلی بہت کم ملتی ہے۔
پچھلاہفتہ استنبول میں گزرا۔سرکاری طور پر متعدد بار ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ مگر ذاتی حیثیت میں پہلی بارگیا تھا۔سرکاری وفدمیں ترکی یا کسی بھی ملک جانا یا نہ جانا،بالکل یکساں ہوتاہے۔ گھسی پٹی بریفنگز،موجودہ حکومت کی تعریفیں اور تقریباًایک جیسے معاملات۔تھوڑی دیرمیں،بلکہ چند لمحوں کے بعدانسان کی توجہ بوجھل سی ہوجاتی ہے۔ میں سوچنا شروع کردیتاتھاکہ کب یہ قیمتی لغوباتیں ختم ہونگی اورکب اگلی جگہ جائیں گے۔
قدیم عمارات بھی تقریباًایک ہی طریقے سے دکھائی جاتی ہیں۔ایک فالتوقسم کاگائڈجوکسی بھی عمارت کو انسانی تہذیب کے لیے ناگزیر ثابت کرسکتا ہے۔ذہنی ہتھوڑے مار مار کر معلومات فراہم کرتاہے۔ایسی معلومات جو آپ فوری طورپربھول جاتے ہیں۔سرکاری وفد میں بیرون ملک جانا حددرجہ بوریت،نہیںیہ لفظ مناسب نہیں، مگر ایک جیسی اُکتاہٹ کاباعث بن جاتا ہے۔ تازہ ہواکے جھونکوں کے بغیرایک ایساسفرجس میں انسان کئی بارشہروں کے نام تک بھول جاتا ہے۔ مگر اس بارمیرے پاس ایک فکری اورذاتی آزادی تھی۔ فکری آزادی کواب بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔
کیونکہ سرکارکی گھٹی گھٹی نوکری میں ذہن کو کھلا رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ جو سرکاری ملازمین اپنے ذہن کو آزادی سے استعمال کرنے کی جسارت کرتے ہیں، انھیں بہت جلد ناپسندیدگی کاشکار ہونا پڑتا ہے۔ دراصل سرکارکی ملازمت میں سوچناایک ایساجرم ہے جسکی سزاآپکوفوراًمل جاتی ہے۔ پوری دنیامیں ملازمت کے"غلامی"والے وہی اُصول ہیں جو ہمارے ہاں مروجہ ہیں۔شائدانیس بیس کافرق ہو۔
ترکی کے سیاسی،معاشی اورمعاشرتی حالات بے حداضطراب میں ہیں۔بہت سے لوگوں سے ذاتی سطح پر سچائی کے ساتھ بات کرنے اورسننے کا موقعہ ملا۔ترکی اس وقت طیب اُردگان کی مکمل گرفت میں ہے۔ وزیراعظم ہو یا صدرہو،حکومتی اختیارات صرف اورصرف اُردگان کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ترکی پراس آہنی گرفت کے فوائداور نقصانات برابرکے ہیں۔اُردگان نے اپنے اقتدارمیں صرف ایک گُر آزمایاہے۔وہ ہے کہ عوامی فلاح کے لیے وہ منصوبے بنائو، جو عام لوگوں کو نظرآتے ہیں۔یعنی اُردگان نے Optics کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے۔
اسی وجہ سے بہترین سڑکیں، پُل، شاہرائیں، ہوٹل اورجدیدترین انفرااسٹرکچر وجود میں آیا ہے۔ قطعاً نہیں کہہ سکتا،کہ یہ بین الاقوامی معیارکا ہے۔ کیونکہ بہرحال ترکی،ابھی مغربی ممالک سے ہرطرح کافی پیچھے ہے۔بہترین انفرااسٹرکچربنانے کی ترکیب محترم شہباز شریف بھی ترکی سے ہی لے کر آئے تھے۔مگرایک بنیادی فرق بھول گئے یا نظر اندازکرگئے۔اُردگان نے وفاداری،اہلیت اور کرپشن پرمبنی فارمولاترتیب دیا۔کرپشن کے الزامات ترکی کی "حکومتی فیملی"پرثبوتوں کے ساتھ لگائے گئے ہیں۔
اس کے ردِعمل میں میڈیا، پریس، اخبارات، آزاد سوچ والے صحافی اورادارے،تمام کے تمام زیرعتاب لائے گئے۔ گرفتاریاں، پھانسیاں،تکالیف پہنچاپہنچاکرترکی کے حکومتی گروہ نے ہر طرح کی مخالف آوازکوختم کردیا ہے۔ پولیس اورفوج میں یہ عمل آج بھی جاری وساری ہے۔ خیر، اس پرمزیدبات کرنا بیکارہے۔کیونکہ وہاں کے حالات تبدیل نہیں ہونگے۔
تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے حالات خراب کے خراب رہیں گے۔ مگر محترم شہبازشریف،اس درآمدی اُصول میں ایک چیزمنہاکرگئے اوروہ تھی اہلیت۔ پنجاب ماڈل میں وفاداری، کرپشن اورنااہلی کو بنیاد بنادیا گیا۔اسی وجہ سے ملکی خزانے کو حددرجہ نقصان ہوااوریہ نقصان آج تک جاری ہے۔ صرف اورصرف پروپیگنڈے کے زورپرنااہلی کواہلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہرحال زمینی حقائق سے کوسوں دورہے۔
بات ترکی کی ہورہی تھی۔ایک دن کچھ فرصت تھی۔ گویندی صاحب کی سربراہی میں ہیگیہ صوفیا جانے کا خوبصورت اتفاق ہوا۔راناصاحب کیونکہ کئی بارنادرجگہ دیکھ چکے تھے۔اس لیے اس تاریخی عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ہم دوہی صحرا نوردتھے۔537ء میں بننے والاچرچ،ایک ہزارسال تک کرہِ اَرض پرسب سے بڑی عبادت گاہ رہی۔اسے جسٹین اول نے بنوایاتھا۔"صوفیا"بنیادی طورپرقدیم یونانی زبان میں"عقل ودانش"کوکہتے ہیں۔اسے دراصل Wisdom of Godیعنی خداکی دانش سے منسلک کیا گیا تھا۔ اس کی تاریخی اہمیت بے انتہا ہے۔
1453میں مسلمان حاکم،فاتح محمدنے قسطنطنیہ پرحملہ کیا۔ہزاروں برس سے شکست سے ناآشنا دنیا کا عظیم شہر،مسلمان فوجوں کے سامنے ڈھیرہوگیا۔ ماضی کے مسلمان حکمرانوں کی طرزِ حکومت کے تدبر کو دیکھیے۔اس عظیم اثاثے کوکوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا گیا۔ صرف اورصرف اس کے چاروں طرف فن تعمیر کے بہترین نمونے یعنی مینارتعمیرکیے گئے۔کسی ابتری کے بغیراسے مسجد بنادیا گیا۔کیتھیڈل کے اندرتمام نوادرات کو اصل حالت میں محفوظ رکھاگیا۔
چرچ کو دینی یکجہتی کی ایک ایسی مثال بنادیا گیاجس میں دنیا کے دوعظیم مذاہب نے ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہناسیکھا۔1935میں ترک قائد، کمال اتاترک نے اس عظیم عمارت کومیوزیم بنادیا۔یہ فیصلہ انتہائی دوررس اور زبردست تھا۔ترکی کواس سے بے حد سماجی اورمعاشی فائدہ ہوا۔اوسط لگائی جائے توصوفیہ کودیکھنے کے لیے بیس سے تیس لاکھ سیاح سالانہ آتے ہیں اوراس شہکار کو دیکھنے کے بعد ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔کیتھیڈل میں اوپر جانے کے لیے جس طرح کاقدیم طریقہ اپنایا گیا تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔
دراصل یہ سیڑھیاں ہیں ہی نہیں۔ چھوٹے اور بڑے پتھروں کواس طرح جوڑاگیاہے کہ آہستہ آہستہ انسان اوپرکی طرف جاناشروع ہو جاتا ہے۔ اوپرچڑھتے وقت ذہن میں خیال اُبھراکہ ان پتھروں کو اگر زبان مل جائے،تویہ کیا کیا زرخیز اوراُچھوتے راز بتائینگے۔ کون کون سی شخصیات،ان پتھروں پرچلتی رہی ہیں،ان ناموں سے یہی پتھر واقف ہیں اورکوئی بھی تاریخ دان نہیں۔ ویسے تاریخ صرف اورصرف فاتح لکھواتے ہیں۔شکست کھانے والے فریق کاسچ تو ویسے ہی مٹا دیا جاتا ہے۔ ہاں، صوفیہ کی بالائی منزل سے اُترنے والے راستے میں پرانی سیڑھیاں موجود ہیں۔
دیواروں پر بازنطینی بادشاہوں نے سونے سے مزین نقش ونگار بنوائے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں نے تمام اسلامی مقدس نام، بڑی بڑی گول پلیٹوں پر لکھوا کر دیواروں پرمزین کردیے ہیں۔ صوفیہ،واقعی بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک اُچھوتی مثال ہے۔سیاحوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔عمارت کے باہر، یونانی زبان سے مزین، مینار، پرانی عمارتوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اور جانوروں کی تصاویرسے مزین پتھروں کے مہیب تودے ہر طرف موجود ہیں۔
ویسے انسان سوچے تو اب تک دنیامیں کتنی کتنی عظیم سلطنتیں، بادشاہ، شہنشاہ، سلطان اورخلفاء حکومت کرتے رہے ہیں۔ان بڑے لوگوں کا ذکر تو پھربھی مل جاتا ہے۔ مگر عوام کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ قدیم ترین زمانے سے اب تک عام آدمی کاوالی وارث کوئی نہیں ہے۔صنعتی اور یورپ کے فکری انقلاب کے بعد، مغربی ممالک کی حد تک اچھی سہولتوں کوعوام تک کامیابی سے پہنچایا گیا ہے۔مگرتاریخ اور حال صرف اور صرف حکمرانوں ہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ترکی کے معاشی حالات کافی حدتک دبائومیں ہیں۔ ڈالرکے مقابلے میں ان کی کرنسی بہت زیادہ گراوٹ کا شکار ہے۔شرح ترقی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔مگرآج بھی ترک حکمران حد درجہ عمدہ طریقے سے معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہدکررہے ہیں۔ مستقبل میںیہ مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ سیاحت نے ترکی کومعاشی استحکام دے رکھا ہے۔تقریباًتیس سے پینتیس بلین ڈالرصرف اور صرف سیاح ترکی کی معیشت کوسالانہ دیتے ہیں۔ سیاحت مقامی معیشت کاایک مضبوط ترین ستون ہے۔اب عرب سے سیاح زیادہ آتے ہیں۔امریکا اوریورپ کے شہری اس جگہ آنے سے کتراتے ہیں ۔
سماجی طورپرترکی بے حدمستحکم ہے۔دس سے بیس فیصدخواتین سرکواسلامی طریقے سے ڈھانپتی ہیں۔ سرپر اسکارف مذہبی ہے کہ نہیں۔اس پر مسلمان علماء کااجماع نہیں ہے۔لیکن مسلمان ملک ہونے کے باوجودترکی مکمل طورپر آزادروش پرچل رہاہے۔نائٹ کلب،شراب اورمغربی طرز کی تفریح ہرجگہ موجودہے۔کسی بھی چیزپرکوئی پابندی نہیں۔ آپ نمازپڑھناچاہتے ہیں تومسجدچلے جائیے۔ اگر شام کو رنگین بناناچاہتے ہیں توکسی بھی بارمیں بیٹھ جائیے۔مذہب اورجدیدطرزِزندگی کایہ توازن ہمارے ملک میں موجودنہیں ہے۔1977کے بعد تو خیر،ہمارے ملک میں ریاستی سطح پر شدت پسندی کو عروج دلوایاگیاہے۔نتیجہ سامنے ہے۔
پوری دنیامیں کوئی بھی ہمارادوست نہیں ہے۔ایک دو ممالک ذاتی وجوہات کی بناپرہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ترکی کوقدامت سے نکالنے والاصرف اورصرف ایک لیڈرہے اوروہ ہے کمال اتاترک۔وہی عظیم آدمی، جسکی یومِ وفات پرقائداعظم نے برصغیرمیں ایک دن کے سوگ کااعلان کیاتھا۔ ترکی، صرف اورصرف مصطفی کمال کی بدولت تبدیل ہواہے اور اسے فکری آزادی اور برتری حاصل ہوئی ہے۔ہمارے جیسے مشکل معاشروں میں کمال اتاترک جیساعظیم لیڈر پیدا ہونا ناممکن ہے! یقین نہیں آتاتوتمام مسلمان معاشروں کوکھنگال کر دیکھ لیجیے۔شائدیقین آجائے!