بچوں کی بے جا طرفداری مت کریں
والدین بہترین تربیت کے اصولوں کو اپنائیں۔
بچے ہر والدین کو پیارے ہوتے ہیں۔ خاص طورپر والدین تو بچوں پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی وہ خاص خیال رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مستقبل میں ان کا بچہ ایک اچھا اور کامیاب انسان بنے۔
ماں اور باپ دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کبھی پیار تو کبھی سختی اور ڈانٹ سے بھی بچوں کی غلطیاں سدھارتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے مگر کبھی کبھی اپنی فطری محبت کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی کربیٹھتے ہیں جیسے کچھ لوگ فطرتاً نرم دل واقع ہوتے ہیں اور بچوں سے صرف لاڈ ہی کرتے ہیں۔ ان کی کوتاہیاں اور غلطیاں بھی انہیں محسوس نہیں ہوتیں۔
اکثر ان کی نقصان دہ عادتوں کو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں۔ یہاں تک توٹھیک ہے مگر وہ ان کی غلطیوں پر بھی آنکھیں بند رکھنے پر بضد ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی منوانے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب بچہ تھوڑا بڑا ہوجاتاہے اور گھر سے باہر اور سکول میں دوسرے بچوں سے اس کا ملناجلنا ہوتاہے۔
بچوں میں اکثر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں جن کی شکایت سکول میں ٹیچر اور گھر میں ماں باپ کے سامنے آتی ہے۔ ٹیچر کو چاہئے کہ محبت اور غیرجانبداری سے اس کے مسئلے سلجھائیں۔ ماں باپ کے سامنے جب بچے کی شکایت آتی ہے تو عقل مند والدین دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملہ رفع دفع کردیتے ہیں مگر وہ والدین جو اپنے بچوں کی غلط باتوں کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں ، وہ اپنے بچے پر کسی بھی الزام کو برداشت نہیں کرتے اور دوسرے بچوں ہی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
اس طرح کے معاملات اکثر خواتین کے سامنے آتے ہیں کیونکہ گھر میں بچے کے ساتھ ماں ہی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسی خواتین سے بھی جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ ہرماں اپنے بچے کی طرف داری کرتی ہے اور اگر اس کی غلطی ہوبھی تو وہ ماننے سے انکار کرتی ہے۔ نتیجتاً بڑوں میں تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا جھگڑا جاری رہتاہے جب کہ بچوں کی وجہ سے جھگڑا ہواتھا ، وہ پھر ایک ساتھ کھیلنے میں لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے بچوں میں لاشعوری طورپر یہ خیال جڑ پکڑ جاتاہے کہ انھیں چوں کہ کوئی سزا نہیں ملی اس لئے انھوں نے جو کچھ کیاتھا وہ صحیح تھا۔ اسی غلط فکر کے ساتھ وہ بڑے ہوتے ہیں۔
اکثر مائیں اپنے بچوں کی طرف داری کو اپنی محبت ہی کا حصہ سمجھتی ہیں۔ بچوں کو خود تو روکتی ٹوکتی نہیں اور اگر دوسرا کوئی ذرا سا بھی اشارہ کردے تو نہ صرف یہ کہ برا مان جاتی ہیں بلکہ لڑنے جھگڑنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اگر بچے کے قریبی رشتے دار جیسے چچا، خالہ یا پھوپھی بھی بچے کی غلطی بتاتے ہیں تو ماں ان سے بھی بحث کرتی ہے اور بچے کی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔
اس طرح بچوں پر ماں کی اس گہری محبت جو کہ ان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے کی چھاپ پڑجاتی ہے چنانچہ بچہ ایک طرف تو سمجھتاہے کہ اس کی ماں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے اور دوسری طرف دوسرے رشتہ داروں کو وہ برا سمجھنے لگتاہے، ان کی عزت اس کے دل سے نکل جاتی ہے اور پھر وہ زبان درازی سے بھی نہیں چوکتا۔
اگربچیوں کی عادات ایسی ہوجائیں تو یہ اور طرح سے پریشانی کا باعث بنتاہے۔ بچیاں گھریلو کام کاج میں بالکل دل چسپی نہیں لیتیں۔ مائیں بھی ان کو بالکل نہیں ٹوکتیں بلکہ ان کی خامیوں کو بھی خوبیاں بنا کر پیش کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دوسرے بھی ان ہی کے اندازمیں سوچیں۔ بعض لڑکیاں خریداری وغیرہ کے کاموں میں بڑی ماہر ہوتی ہیں، بے شک یہ ایک اضافی خوبی ہے مگر اس کی آڑ میں امور خانہ داری کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ والدین کا بے جا اور حد سے زیادہ لاڈ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
ہمارے سماج میں حسب روایت لڑکوں کے عیب چھپ جاتے ہیں بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا مگر لڑکیوں کو بہرحال ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے، لہذا والدین اور خاص طورپر مائوں کو چاہئے کہ بچوں کی بے جا طرف داری سے گریز کریں بصورت دیگر ان کی تربیت میں ہمیشہ کے لئے ایک سقم رہ جائے گا۔
ماں اور باپ دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کبھی پیار تو کبھی سختی اور ڈانٹ سے بھی بچوں کی غلطیاں سدھارتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے مگر کبھی کبھی اپنی فطری محبت کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی کربیٹھتے ہیں جیسے کچھ لوگ فطرتاً نرم دل واقع ہوتے ہیں اور بچوں سے صرف لاڈ ہی کرتے ہیں۔ ان کی کوتاہیاں اور غلطیاں بھی انہیں محسوس نہیں ہوتیں۔
اکثر ان کی نقصان دہ عادتوں کو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں۔ یہاں تک توٹھیک ہے مگر وہ ان کی غلطیوں پر بھی آنکھیں بند رکھنے پر بضد ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی منوانے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب بچہ تھوڑا بڑا ہوجاتاہے اور گھر سے باہر اور سکول میں دوسرے بچوں سے اس کا ملناجلنا ہوتاہے۔
بچوں میں اکثر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں جن کی شکایت سکول میں ٹیچر اور گھر میں ماں باپ کے سامنے آتی ہے۔ ٹیچر کو چاہئے کہ محبت اور غیرجانبداری سے اس کے مسئلے سلجھائیں۔ ماں باپ کے سامنے جب بچے کی شکایت آتی ہے تو عقل مند والدین دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملہ رفع دفع کردیتے ہیں مگر وہ والدین جو اپنے بچوں کی غلط باتوں کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں ، وہ اپنے بچے پر کسی بھی الزام کو برداشت نہیں کرتے اور دوسرے بچوں ہی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
اس طرح کے معاملات اکثر خواتین کے سامنے آتے ہیں کیونکہ گھر میں بچے کے ساتھ ماں ہی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسی خواتین سے بھی جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ ہرماں اپنے بچے کی طرف داری کرتی ہے اور اگر اس کی غلطی ہوبھی تو وہ ماننے سے انکار کرتی ہے۔ نتیجتاً بڑوں میں تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا جھگڑا جاری رہتاہے جب کہ بچوں کی وجہ سے جھگڑا ہواتھا ، وہ پھر ایک ساتھ کھیلنے میں لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے بچوں میں لاشعوری طورپر یہ خیال جڑ پکڑ جاتاہے کہ انھیں چوں کہ کوئی سزا نہیں ملی اس لئے انھوں نے جو کچھ کیاتھا وہ صحیح تھا۔ اسی غلط فکر کے ساتھ وہ بڑے ہوتے ہیں۔
اکثر مائیں اپنے بچوں کی طرف داری کو اپنی محبت ہی کا حصہ سمجھتی ہیں۔ بچوں کو خود تو روکتی ٹوکتی نہیں اور اگر دوسرا کوئی ذرا سا بھی اشارہ کردے تو نہ صرف یہ کہ برا مان جاتی ہیں بلکہ لڑنے جھگڑنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اگر بچے کے قریبی رشتے دار جیسے چچا، خالہ یا پھوپھی بھی بچے کی غلطی بتاتے ہیں تو ماں ان سے بھی بحث کرتی ہے اور بچے کی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔
اس طرح بچوں پر ماں کی اس گہری محبت جو کہ ان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے کی چھاپ پڑجاتی ہے چنانچہ بچہ ایک طرف تو سمجھتاہے کہ اس کی ماں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے اور دوسری طرف دوسرے رشتہ داروں کو وہ برا سمجھنے لگتاہے، ان کی عزت اس کے دل سے نکل جاتی ہے اور پھر وہ زبان درازی سے بھی نہیں چوکتا۔
اگربچیوں کی عادات ایسی ہوجائیں تو یہ اور طرح سے پریشانی کا باعث بنتاہے۔ بچیاں گھریلو کام کاج میں بالکل دل چسپی نہیں لیتیں۔ مائیں بھی ان کو بالکل نہیں ٹوکتیں بلکہ ان کی خامیوں کو بھی خوبیاں بنا کر پیش کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دوسرے بھی ان ہی کے اندازمیں سوچیں۔ بعض لڑکیاں خریداری وغیرہ کے کاموں میں بڑی ماہر ہوتی ہیں، بے شک یہ ایک اضافی خوبی ہے مگر اس کی آڑ میں امور خانہ داری کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ والدین کا بے جا اور حد سے زیادہ لاڈ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
ہمارے سماج میں حسب روایت لڑکوں کے عیب چھپ جاتے ہیں بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا مگر لڑکیوں کو بہرحال ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے، لہذا والدین اور خاص طورپر مائوں کو چاہئے کہ بچوں کی بے جا طرف داری سے گریز کریں بصورت دیگر ان کی تربیت میں ہمیشہ کے لئے ایک سقم رہ جائے گا۔