حِجاب اور عبایا پردہ یا فیشن
اکثر ماڈرن لڑکیاں مذہب سے لگاؤ کے باعث حِجاب اور عبایا کو ترجیح نہیں دے رہیں بلکہ محض فیشن کے طور پر اپنا رہی ہیں
ISLAMABAD:
''حِجاب'' عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں آڑ، وہ پردہ جس کے پیچھے کوئی شے چھپی ہوئی ہو۔ عبایا کا رواج دراصل عرب سے یہاں منتقل ہوا ہے۔ کیونکہ عرب میں عبایا کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لہذا دوسرے ممالک کے روائتی طور طریقوں سے متاثر ہو کر یہاں بھی حجاب اور عبایا کو محض فیشن کے طور استعمال کیا جارہا ہے۔
گزشتہ چند سال سے حِجاب اور عبایا کا رجحان اِتنا عام ہوچکا ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیاں اس کو ضرورت اور فیشن سمجھ رہی ہیں۔ پہلے جہاں خواتین بُرقع میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھی، وہاں آج کل بُرقع سے زیادہ حِجاب کو محض فیشن کی بِنا پر ترجیح دے رہی ہیں۔ اِس کے علاوہ پَردہ کرنے والی خواتین بھی اِس کو فیشن کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
اکثر خواتین حِجاب کو خوبصورتی کے لیے پہنتی ہیں۔ اب تو حجاب اور عبایا کو شادی شدہ خواتین اور گھریلو خواتین ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی شوق کے طور پر پہن رہی ہیں۔ حِجاب اور عبایا کو عورت کا فطری حُسن بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواتین کی اِنہی دلچسپیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں حِجاب اور عبایا کے نِت نئے ڈیزائنز متعارف کرائے جارہے ہیں، جو اِن کی توجہ کا محور بنے ہوئے ہیں۔
اسکول، کالجز اور جامعات کی اکثر ماڈرن لڑکیاں مذہب سے لگاؤ کے باعث حِجاب اور عبایا کو ترجیح نہیں دے رہیں بلکہ محض فیشن کے طور پر اِس کو اپنا شعار بنا رہی ہیں۔ حِجاب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دُوپٹے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ حِجاب اور عبایا کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ پہلے عبایا کا فیشن لڑکیوں اور خواتین میں مقبول ہوا، پھر حِجاب کی اہمیت بڑھی تو یہ پَردے کے ساتھ ساتھ فیشن کا حصہ بن گیا۔
دورِ جاہلیت میں پردے کا تصور تک نہیں تھا، جس کی وجہ سے مسلمان خواتین اور غیر مسلم عورتوں میں فرق کرنا مشکل تھا۔ مسلمان خواتین کے فرق کی جو نِشانی دی گئی ہے، اسلام میں اِسے''حجاب'' کہتے ہیں۔ بعض علماء نے اِسے بُرقعے سے بھی واضح کیا ہے۔
آغاز کائنات میں اِنسان ننگا تھا؛ اور جب شعور ملا تو اِس نے لباس پہننا شروع کر دیا۔ لیکن آج کے اِس دور میں اِنسان پھر اپنی تہذیب و تمدن بھولتا جارہا ہے۔انسان نے پھر سے کپڑے اُتارنا شروع کردیئے ہیں۔
پَردہ اور حِجاب ایک ایسا خوبصورت عمل ہے جو عورت کو ڈھانپ لیتا ہے، بے حیائی کی ساری جڑیں کاٹ دیتا ہے۔ عورت کا مطلب ہی ڈھکی ہوئی چیز ہے، مگر آج کل تو عبایا اِتنے چُست ہوگئے ہیں کہ اِس کو بھی ایک حجاب اور عبایا کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ آپ کی تہذیب اور تربیت کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک مسلمان عورت کی نشانی ہے۔ یہ آپ کو بُری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے، لہذا حِجاب اور عبایا کے تقدس کو پامال نہ کریں؛ اور محض فیشن کی غرض سے نہ پہنیں، ورنہ اس کا شمار حیا و حجاب میں نہیں بلکہ فیشن میں ہی ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''حِجاب'' عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں آڑ، وہ پردہ جس کے پیچھے کوئی شے چھپی ہوئی ہو۔ عبایا کا رواج دراصل عرب سے یہاں منتقل ہوا ہے۔ کیونکہ عرب میں عبایا کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لہذا دوسرے ممالک کے روائتی طور طریقوں سے متاثر ہو کر یہاں بھی حجاب اور عبایا کو محض فیشن کے طور استعمال کیا جارہا ہے۔
گزشتہ چند سال سے حِجاب اور عبایا کا رجحان اِتنا عام ہوچکا ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیاں اس کو ضرورت اور فیشن سمجھ رہی ہیں۔ پہلے جہاں خواتین بُرقع میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھی، وہاں آج کل بُرقع سے زیادہ حِجاب کو محض فیشن کی بِنا پر ترجیح دے رہی ہیں۔ اِس کے علاوہ پَردہ کرنے والی خواتین بھی اِس کو فیشن کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
اکثر خواتین حِجاب کو خوبصورتی کے لیے پہنتی ہیں۔ اب تو حجاب اور عبایا کو شادی شدہ خواتین اور گھریلو خواتین ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی شوق کے طور پر پہن رہی ہیں۔ حِجاب اور عبایا کو عورت کا فطری حُسن بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواتین کی اِنہی دلچسپیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں حِجاب اور عبایا کے نِت نئے ڈیزائنز متعارف کرائے جارہے ہیں، جو اِن کی توجہ کا محور بنے ہوئے ہیں۔
اسکول، کالجز اور جامعات کی اکثر ماڈرن لڑکیاں مذہب سے لگاؤ کے باعث حِجاب اور عبایا کو ترجیح نہیں دے رہیں بلکہ محض فیشن کے طور پر اِس کو اپنا شعار بنا رہی ہیں۔ حِجاب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دُوپٹے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ حِجاب اور عبایا کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ پہلے عبایا کا فیشن لڑکیوں اور خواتین میں مقبول ہوا، پھر حِجاب کی اہمیت بڑھی تو یہ پَردے کے ساتھ ساتھ فیشن کا حصہ بن گیا۔
دورِ جاہلیت میں پردے کا تصور تک نہیں تھا، جس کی وجہ سے مسلمان خواتین اور غیر مسلم عورتوں میں فرق کرنا مشکل تھا۔ مسلمان خواتین کے فرق کی جو نِشانی دی گئی ہے، اسلام میں اِسے''حجاب'' کہتے ہیں۔ بعض علماء نے اِسے بُرقعے سے بھی واضح کیا ہے۔
آغاز کائنات میں اِنسان ننگا تھا؛ اور جب شعور ملا تو اِس نے لباس پہننا شروع کر دیا۔ لیکن آج کے اِس دور میں اِنسان پھر اپنی تہذیب و تمدن بھولتا جارہا ہے۔انسان نے پھر سے کپڑے اُتارنا شروع کردیئے ہیں۔
پَردہ اور حِجاب ایک ایسا خوبصورت عمل ہے جو عورت کو ڈھانپ لیتا ہے، بے حیائی کی ساری جڑیں کاٹ دیتا ہے۔ عورت کا مطلب ہی ڈھکی ہوئی چیز ہے، مگر آج کل تو عبایا اِتنے چُست ہوگئے ہیں کہ اِس کو بھی ایک حجاب اور عبایا کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ آپ کی تہذیب اور تربیت کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک مسلمان عورت کی نشانی ہے۔ یہ آپ کو بُری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے، لہذا حِجاب اور عبایا کے تقدس کو پامال نہ کریں؛ اور محض فیشن کی غرض سے نہ پہنیں، ورنہ اس کا شمار حیا و حجاب میں نہیں بلکہ فیشن میں ہی ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔