وہ نظریہ اصول اور ویژن کی باتیں کیا ہوئیں
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کے ماہرین معاشیات گزشتہ دس سال میں کیا کرتے رہے۔
ہمارا میڈیا روزانہ پرانے ویڈیو کلپس چلاچلا کر خان صاحب کو یاد دلاتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے آپ کیا کچھ کہاکرتے تھے ۔ وہ باتیں تری وہ فسانے ترے۔ کیسے کیسے اصول اور ویژن کی باتیں کیاکرتے تھے۔ اقتدار ملتے ہی سب بھول گئے۔
حکومت بنانے کے لیے آزاد ارکان کی خریداری سے لے کر معاش اور معیشت اورعوام الناس کی تکالیف سے متعلق اب تک کیے گئے، سارے فیصلے ماضی میں کہی گئی اُن کی ساری باتوں پر منہ چڑا رہی ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے عوام دشمن فیصلے کیے جا رہے ہیں ۔ گندم ،گیس اور بجلی مہنگی کرکے یہ کہا جا رہا ہے کہ اِن سے غریب عوام پرکوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا ۔
معاش اور معیشت کی تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے کو کم ازکم اتنا تو ضرور پتہ ہوتا ہے کہ یہی چیزیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں ۔ اِنہیں مہنگاکرکے اُن سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی جارہی ہے ۔ امیر اورصاحب حیثیت افراد پر تو اِن کا کوئی اثر نہیں ہونے والا لیکن غریب آدمی یقینا مارا جائے گا ۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کے ماہرین معاشیات گزشتہ دس سال میں کیا کرتے رہے۔ وہ سارے منصوبے کہاں چلے گئے ، جن کو بیان کرکے وہ سابق حکمرانوں پر بڑی تنقید کیاکرتے تھے ۔ آج جب خود کا وقت آیا تو پھر وہی طرز عمل اپنانے لگے جس کی مخالفت میں تووہ ساتوں آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے۔
خان صاحب ملکی قرضوں کے خلاف بہت بولتے رہے اور شاید آج بھی بولتے ہیں کہ یہ قرضے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں 6ارب ڈالر سے 28ارب ڈالر ہوچکے ہیں ۔عوام سمجھ رہے تھے کہ یہ اگر برسر اقتدار آگئے تو نئے قرضے نہیں لیں گے ۔ ظاہری طور پر یہی تاثر ابھی بھی ہمارے لوگوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
حکومت ابھی تک یہی کہہ رہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لے رہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اِس بات سے انکار بھی نہیں کر رہی کہ پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد سے سرکاری سطح پرکچھ خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں ۔ حکمرانوں کے مطابق یہ مذاکرات کسی اور ایشو پر ہورہے ہیں قرضوں کے لیے نہیں۔اب بھلااِن کی اِس توجیح کو کون تسلیم کرے گا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے سے ہمارے حکمراں اُن سے کسی اور معاملے پر مذاکرات کرکے خوامخواہ اپنا وقت ضایع کررہے ہیں۔
قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ معاملہ کیا ہے اور وہ کس کی دعوت پر یہاں تشریف لائے ہیں ۔ ایسا تو ہونہیں سکتا کہ وہ خود ہی اپنی مرضی سے ڈالروں سے بھرا بریف کیس اُٹھاکر ہمیں زبر دستی لون دینے آگئے ہوں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کام سارے وہی ہو رہے ہیں جو پہلے ادوار میں ہوتے رہے لیکن اب طریقہ واردات بدل چکا ہے ۔ پہلے ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جایا کرتے تھے اب وہ بے چارے خود ہی چل کرآ گئے ہیں۔
پہلے اُن کی سخت شرائط پر قرضے حاصل کرنے کے جواب میں ہمارے یہاں مہنگائی کی جاتی تھی مگر اب یہ کام ہم نے پہلے ہی کردکھایا ہے۔گیس ، بجلی اورگندم کے نرخ بڑھا کر اُن کی متوقع شرائط پرہم نے پہلے ہی عملدرآمد کرلیا ہے۔ لہذا ب ہم اپنے عوام کو یہ خوشخبری سنا سکیں گے کہ آئی ایم ایف نے کسی شرط کے بغیر ہمیں بیل آؤٹ پیکیج دے دیا ہے۔
نئی حکومت نے اپنے لیے خود ہی سو دنوں کی پابندی لگائی ہے۔اُسے ایسا کرنے کوکسی نے نہیں کہا تھا۔اُن سو دنوں میں سے 40دن توگزر چکے ہیں اوروہ اب تک کوئی کارکردگی دکھا نہیں پائی ہے ۔ اِن مقررہ سو دنوں میں سب سے بڑا کام جو مکمل کامیابی سے اب تک ہوپایا ہے وہ وزیر اعظم ہاؤس میں کھڑی آٹھ بھینسوں کا نیلام ہے۔ جن سے 23لاکھ روپے کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع ہو پائی ہے۔
اِس کے علاوہ حکومت کے نامہ اعمال میں ابھی تک قابل ذکر کارنامہ ابھی درج نہیں ہو پایا ہے۔کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرکے خان صاحب نے خود ہی اپنے سابقہ بیان سے مکمل انحراف کیاہے کہ یہ کام وزیراعظموں کے کرنے کا نہیں ہوتا ۔ وہ جوش و جذبات میں یہ کہہ چکے تھے کہ دنیا میں کوئی وزیراعظم ایسا نہیں ہے جوکرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرے ، لیکن اقتدار سنبھالتے ہی نجم سیٹھی کو ہٹا کر اور احسان مانی کو نیا چیئرمین نامزد کرکے اپنے قول و فعل کا مذاق بنا دیا ۔
خان صاحب کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ وہ ماضی قریب میںکیا کچھ کہہ چکے ہیں ۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے حکومت وقت کے ہرکام میں اتنے کیڑے نکالے ہیں کہ اب وہی کیڑے اُن کے کاموں میں بھی حائل ہو رہے ہیں ۔ سابقہ حکومت کی نجکاری پالیسی پر وہ بہت بڑے مخالف اور نقاد رہے ہیں ۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملزکی نجکاری کا ایشو جب بھی سامنے آیا انھوں نے ببانگ دہل اُس کی مخالفت کی ۔اب یہ دونوں ادارے اُن کے کسی فوری فیصلے کے منتظر ہیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی قابل فخر مایہ ناز ٹیم سودنوں میں اِن دونوں اداروں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے یونہی حکمرانوں کی عدم توجہ کاشکار رہیں گے یا پھرکوئی مثبت اور ٹھوس تجویز اِن کی بہتری کا باعث بنے گی ۔
حکومت کی اب تک کی کارکردگی صفر ہی رہی ہے۔ اُس نے صرف باتوں سے اور سہانے خوابوں ہی سے قوم کو تسلیوں کے گھونٹ پلائے ہیں۔کسی بھی ملکی اور غیر ملکی محاذ پرکوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے پر ساری عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے دس ارب ڈالرزکی امداد کا وعدہ کردیا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ہماری بندکی ہوئی امداد پھر سے بحال کرنے کاعندیہ دے دیا ہے، مگر پھر فوراً ہی ساری باتیں ہواؤں میں تحلیل ہو جاتی ہیں ۔
وزیرخزانہ بہت جلد یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ سب ایک مفروضہ ہے ۔ اِسی طرح قرضوں کے لیے آئی ایم یف کے پاس نہ جانے کا فولادی عزم ظاہرکرنے والے آج ایک بار پھر اُن سے خفیہ مذاکرات پر آمادہ اور مجبور ہیں ۔ منی بجٹ پیش کرکے قوم سے ساری مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔سارے ترقیاتی کاموں پر پابندی لگادی گئی ہے۔صحت ، تعلیم اور بہبود پر خرچ ہونے والی ساری مختص رقوم پرکٹوتی کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ کر حکومتی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں ۔
ایک مصنوعی معاشی اوراقتصادی بحران پیدا کرکے قوم کو مشکل اور ابتلا میں ڈالا جا رہا ہے ۔ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی پیدا کی جا رہی ہے۔حکومت کے ایسے اقدامات سے معاشی بہتری توکجا اُلٹا ایک خطرناک بحرانی صورتحال ضرور پیدا ہوسکتی ہے۔ روپے کی قدر میں اچانک ایک بار پھر سے گراوٹ حکمرانوں کی ایسی ہی پالیسیوں کانتیجہ ہے۔
حکومت کو اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کاایک بار پھر جائزہ لینا ہوگا اور ہنگامی بنیاد پر اُس کی اصلاح کرنا ہوگی ۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور ضد اور انا کو چھوڑ کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔ایسا نہ ہوکہ پھر دیر ہو جائے اور ہمارے پاس اپنی غلطیوں کے تدارک کا راستہ بھی معدوم ہوکر رہ جائے اور ملک کنگال اوردیوالیہ ہوکر ''سی پیک '' رول بیک کرنے کے ملک دشمن معاہدوں پر مجبور اور رضا مند ہو جائے ۔
حکومت بنانے کے لیے آزاد ارکان کی خریداری سے لے کر معاش اور معیشت اورعوام الناس کی تکالیف سے متعلق اب تک کیے گئے، سارے فیصلے ماضی میں کہی گئی اُن کی ساری باتوں پر منہ چڑا رہی ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے عوام دشمن فیصلے کیے جا رہے ہیں ۔ گندم ،گیس اور بجلی مہنگی کرکے یہ کہا جا رہا ہے کہ اِن سے غریب عوام پرکوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا ۔
معاش اور معیشت کی تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے کو کم ازکم اتنا تو ضرور پتہ ہوتا ہے کہ یہی چیزیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں ۔ اِنہیں مہنگاکرکے اُن سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی جارہی ہے ۔ امیر اورصاحب حیثیت افراد پر تو اِن کا کوئی اثر نہیں ہونے والا لیکن غریب آدمی یقینا مارا جائے گا ۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کے ماہرین معاشیات گزشتہ دس سال میں کیا کرتے رہے۔ وہ سارے منصوبے کہاں چلے گئے ، جن کو بیان کرکے وہ سابق حکمرانوں پر بڑی تنقید کیاکرتے تھے ۔ آج جب خود کا وقت آیا تو پھر وہی طرز عمل اپنانے لگے جس کی مخالفت میں تووہ ساتوں آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے۔
خان صاحب ملکی قرضوں کے خلاف بہت بولتے رہے اور شاید آج بھی بولتے ہیں کہ یہ قرضے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں 6ارب ڈالر سے 28ارب ڈالر ہوچکے ہیں ۔عوام سمجھ رہے تھے کہ یہ اگر برسر اقتدار آگئے تو نئے قرضے نہیں لیں گے ۔ ظاہری طور پر یہی تاثر ابھی بھی ہمارے لوگوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
حکومت ابھی تک یہی کہہ رہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لے رہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اِس بات سے انکار بھی نہیں کر رہی کہ پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد سے سرکاری سطح پرکچھ خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں ۔ حکمرانوں کے مطابق یہ مذاکرات کسی اور ایشو پر ہورہے ہیں قرضوں کے لیے نہیں۔اب بھلااِن کی اِس توجیح کو کون تسلیم کرے گا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے سے ہمارے حکمراں اُن سے کسی اور معاملے پر مذاکرات کرکے خوامخواہ اپنا وقت ضایع کررہے ہیں۔
قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ معاملہ کیا ہے اور وہ کس کی دعوت پر یہاں تشریف لائے ہیں ۔ ایسا تو ہونہیں سکتا کہ وہ خود ہی اپنی مرضی سے ڈالروں سے بھرا بریف کیس اُٹھاکر ہمیں زبر دستی لون دینے آگئے ہوں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کام سارے وہی ہو رہے ہیں جو پہلے ادوار میں ہوتے رہے لیکن اب طریقہ واردات بدل چکا ہے ۔ پہلے ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جایا کرتے تھے اب وہ بے چارے خود ہی چل کرآ گئے ہیں۔
پہلے اُن کی سخت شرائط پر قرضے حاصل کرنے کے جواب میں ہمارے یہاں مہنگائی کی جاتی تھی مگر اب یہ کام ہم نے پہلے ہی کردکھایا ہے۔گیس ، بجلی اورگندم کے نرخ بڑھا کر اُن کی متوقع شرائط پرہم نے پہلے ہی عملدرآمد کرلیا ہے۔ لہذا ب ہم اپنے عوام کو یہ خوشخبری سنا سکیں گے کہ آئی ایم ایف نے کسی شرط کے بغیر ہمیں بیل آؤٹ پیکیج دے دیا ہے۔
نئی حکومت نے اپنے لیے خود ہی سو دنوں کی پابندی لگائی ہے۔اُسے ایسا کرنے کوکسی نے نہیں کہا تھا۔اُن سو دنوں میں سے 40دن توگزر چکے ہیں اوروہ اب تک کوئی کارکردگی دکھا نہیں پائی ہے ۔ اِن مقررہ سو دنوں میں سب سے بڑا کام جو مکمل کامیابی سے اب تک ہوپایا ہے وہ وزیر اعظم ہاؤس میں کھڑی آٹھ بھینسوں کا نیلام ہے۔ جن سے 23لاکھ روپے کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع ہو پائی ہے۔
اِس کے علاوہ حکومت کے نامہ اعمال میں ابھی تک قابل ذکر کارنامہ ابھی درج نہیں ہو پایا ہے۔کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرکے خان صاحب نے خود ہی اپنے سابقہ بیان سے مکمل انحراف کیاہے کہ یہ کام وزیراعظموں کے کرنے کا نہیں ہوتا ۔ وہ جوش و جذبات میں یہ کہہ چکے تھے کہ دنیا میں کوئی وزیراعظم ایسا نہیں ہے جوکرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرے ، لیکن اقتدار سنبھالتے ہی نجم سیٹھی کو ہٹا کر اور احسان مانی کو نیا چیئرمین نامزد کرکے اپنے قول و فعل کا مذاق بنا دیا ۔
خان صاحب کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ وہ ماضی قریب میںکیا کچھ کہہ چکے ہیں ۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے حکومت وقت کے ہرکام میں اتنے کیڑے نکالے ہیں کہ اب وہی کیڑے اُن کے کاموں میں بھی حائل ہو رہے ہیں ۔ سابقہ حکومت کی نجکاری پالیسی پر وہ بہت بڑے مخالف اور نقاد رہے ہیں ۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملزکی نجکاری کا ایشو جب بھی سامنے آیا انھوں نے ببانگ دہل اُس کی مخالفت کی ۔اب یہ دونوں ادارے اُن کے کسی فوری فیصلے کے منتظر ہیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی قابل فخر مایہ ناز ٹیم سودنوں میں اِن دونوں اداروں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے یونہی حکمرانوں کی عدم توجہ کاشکار رہیں گے یا پھرکوئی مثبت اور ٹھوس تجویز اِن کی بہتری کا باعث بنے گی ۔
حکومت کی اب تک کی کارکردگی صفر ہی رہی ہے۔ اُس نے صرف باتوں سے اور سہانے خوابوں ہی سے قوم کو تسلیوں کے گھونٹ پلائے ہیں۔کسی بھی ملکی اور غیر ملکی محاذ پرکوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے پر ساری عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے دس ارب ڈالرزکی امداد کا وعدہ کردیا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ہماری بندکی ہوئی امداد پھر سے بحال کرنے کاعندیہ دے دیا ہے، مگر پھر فوراً ہی ساری باتیں ہواؤں میں تحلیل ہو جاتی ہیں ۔
وزیرخزانہ بہت جلد یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ سب ایک مفروضہ ہے ۔ اِسی طرح قرضوں کے لیے آئی ایم یف کے پاس نہ جانے کا فولادی عزم ظاہرکرنے والے آج ایک بار پھر اُن سے خفیہ مذاکرات پر آمادہ اور مجبور ہیں ۔ منی بجٹ پیش کرکے قوم سے ساری مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔سارے ترقیاتی کاموں پر پابندی لگادی گئی ہے۔صحت ، تعلیم اور بہبود پر خرچ ہونے والی ساری مختص رقوم پرکٹوتی کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ کر حکومتی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں ۔
ایک مصنوعی معاشی اوراقتصادی بحران پیدا کرکے قوم کو مشکل اور ابتلا میں ڈالا جا رہا ہے ۔ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی پیدا کی جا رہی ہے۔حکومت کے ایسے اقدامات سے معاشی بہتری توکجا اُلٹا ایک خطرناک بحرانی صورتحال ضرور پیدا ہوسکتی ہے۔ روپے کی قدر میں اچانک ایک بار پھر سے گراوٹ حکمرانوں کی ایسی ہی پالیسیوں کانتیجہ ہے۔
حکومت کو اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کاایک بار پھر جائزہ لینا ہوگا اور ہنگامی بنیاد پر اُس کی اصلاح کرنا ہوگی ۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور ضد اور انا کو چھوڑ کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔ایسا نہ ہوکہ پھر دیر ہو جائے اور ہمارے پاس اپنی غلطیوں کے تدارک کا راستہ بھی معدوم ہوکر رہ جائے اور ملک کنگال اوردیوالیہ ہوکر ''سی پیک '' رول بیک کرنے کے ملک دشمن معاہدوں پر مجبور اور رضا مند ہو جائے ۔