احفاظ الرحمن کی کمی محسوس ہو رہی ہے
احفاظ الرحمن نے پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا کی قیادت میں اخبارات پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا۔
احفاظ الرحمن کی آج زیادہ ضرورت ہے۔احفاظ الرحمن ترقی پسند تحریک کے وہ سپاہی ہیں، جنہوں نے مارکسزم کی سائنس کو غور وفکر کے بعد قبول کیا اور پھرساری زندگی مظلوم طبقات کی جدوجہد سے خود کو منسلک کر دیا۔
احفاظ اردو کالج کے زمانے سے بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ آمر ایوب خان کو عروج حاصل تھا۔ آمریت کے خلاف آواز اٹھانا سنگین جرم تھا مگر احفاظ این ایس ایف کے ان رہنماؤں کے ساتھ تھے جو تعلیم کو عام کرنے، فیسوں میں اضافے کو روکنے، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، احفاظ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی میں وائس چانسلر اشفاق حسین قریشی کا راج تھا جو اپنے معاون میجر آفتاب کے ساتھ ملکر ایک دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف تھے اور ترقی پسند طلبہ کو نشانہ بنانا ، اپنے عقیدے کا لازمی جز سمجھتے تھے۔ احفاظ الرحمن نے نہ صرف این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ لیا بلکہ نثر اور نظم کے میڈیم کے ذریعے ترقی پسند خیالات کو عام کرنے کی کوشش کی۔ احفاظ نے کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے فرائض انجام دیے اور صحافت سے وابستہ ہوگئے۔
پاکستان کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس صحافیوں کے حالات کار اور آزادئ صحافت کی جدوجہد میں مصروف تھی ۔ اسرار احمد ، کے جی مصطفی، منہاج برنا، اسلم شیخ اور آئی اے رحمن وغیرہ پی ایف یوجے کے قائدین میں شامل تھے ۔ احفاظ الرحمن ایک ہفت روزہ کے ابتدائی دورکے صحافیوں میں شامل تھے جوکراچی یونین آف جرنلسٹس کے فعال رکن تھے۔
سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر احفاظ الرحمن کراچی یونین آف جرنلسٹس سے لاتعلقی اختیارکرتے اور تین صحافیوں کی برطرفیوں پر احتجاج نہ کرتے تو وہ اس ہفت روزہ کے سب سے نوجوان ایڈیٹر بن جاتے۔ یہ شاید 67ء کی بات ہوگی، ہفت روزہ کے مالک ، احفاظ الرحمن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں تھے مگر احفاظ کے نظریات انھیں گوارہ نہیں تھے اور احفاظ اپنے نظریات پر سمجھوتے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ احفاظ الرحمن چین چلے گئے۔
ہم لوگوں نے ہفت روزہ الفتح میں چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کے بارے میں مضامین پڑھے، یوں ماؤکے علاوہ چواین لائی اور لیو شاؤ چی سے واقفیت ہوئی،1973ء میں جب کراچی سے ایک اردو روزنامہ شایع ہوا تو احفاظ اس روزنامہ کی ٹیم میں شامل تھے۔ اب احفاظ الرحمن نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو منظم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا شروع کیا ۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں 1963ء کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کی منسوخی ، نیشنل پریس ٹرسٹ کے خاتمے، پریس ایڈوائس کے نظام کو ختم کرنے اور نیوز پرنٹ کا کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے وعدے درج تھے۔ پی ایف یو جے صحافیوں اور غیر صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے اور آزادئ صحافت کے حق کو منوانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ احفاظ برسر اقتدار جماعت کے ترجمان اخبارکے ملازم تھے مگر وہ پی ایف یو جے کی جدوجہد کو ہی درست راستہ جانتے تھے ۔
احفاظ الرحمن نے پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا کی قیادت میں اخبارات پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار روزنامہ جسارت، ہفت روزہ رسائل زندگی اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ کے خلاف کارروائی کی تھی اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو پابند سلاسل کیا تھا۔ یہ اخبارات پی ایف یو جے کے خلاف مواد شایع کرتے تھے مگر احفاظ الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے اخبارات پر پابندیوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہارکیا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس کے تحت ہونے والے اجلاسوں اور جلسوں میں آزادئ صحافت پر لگنے والی پابندیوں کی مذمت میں قرار دادیں شایع ہوئیں ۔ احفاظ الرحمن اور کے یو جے کے دیگر ارکان نے احتجاجی کیمپ لگائے اور پھرکراچی یونین آف جرنلسٹ اور پی ایف یو جے کے فیصلوں کے تحت سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں اخبارات کے ایڈیٹر رہا ہوئے ۔ جولائی 1972ء میں روزنامہ سن کو بند کیا گیا تو پی ایف یو جے نے 24 جولائی کو اخبارکی بحالی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی۔
1973ء میں روزنامہ جسارت، حریت اور مہران پر بھٹو حکومت نے پابندی لگائی تو پی ایف یو جے نے 19 ستمبر کو پھر ملک گیر ہڑتال کی ۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات سے 18صحافیوں کو بر طرف کیا گیا۔ منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاریوں کی تحریک شروع کی ۔ یہ تحریک 21 مئی 1974ء سے 8 جولائی 1974ء تک جاری رہی۔ یوں حکومت کو مجبور ہونا پڑا اور صحافیوں کو ملازمتوں پر بحال کیا گیا ۔
اس تحریک کے دوران برنا صاحب، احفاظ الرحمن اور کئی سینئر صحافیوں کو تھانوں اور پنجاب کی مختلف جیلوں میں دن رات گزارنے پڑے۔ منہاج برنا نے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی مشترکہ تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا تو احفاظ الرحمن سب سے پہلے اس خیال کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے ۔ برنا صاحب کا کہنا تھا کہ اخباری اداروں کی یونینوں کی ایک کنفیڈریشن ہونی چاہیے، یوں پی ایف یو جے آزادئ صحافت ، صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرے۔
پی ایف یو جے اور ایپنک نے جنرل ضیاء الحق کے آزادئ صحافت کو کچلنے کی پالیسی کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ 1978ء میں روزنامہ مساوات لاہور اور روزنامہ مساوات کراچی، روزنامہ ہلال پاکستان پر پابندیوں کے خلاف پی ایف یو جے اور ایپنک نے تاریخی جدوجہد کی ، اس کی ایک درخشاں مثال ہے۔ یہ جدوجہد 6 ماہ کے عرصے پر محیط تھی اورکئی سو صحافی ان تحریکوں میں جیلوں میں گئے اور صحافیوں کوکوڑے مارے گئے۔
یہ تحریک پہلے روزنامہ مساوات کراچی پر پابندی اور پھر روزنامہ مساوات لاہور پر پابندی اور روزنامہ کراچی پر پابندی کے خلاف چلائی گئی ۔ صحافیوں کی اس طرح کی تحریک کی آزادئ صحافت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس تحریک کے قائد منہاج برنا اور نثار عثمانی تھے مگر ان تحریکوں کو منظم کرنے میں احفاظ الرحمن نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ وہ روزنامہ مساوات لاہورکی تحریک کے پہلے دستے میں لاہور سے گرفتار ہوئے اور لاہور بدر ہوئے مگر کراچی سے اس تحریک میں گرفتاریوں کے لیے صحافیوں کو روانہ کرتے رہے۔
پی ایف یو جے کے سابق رہنما اور سینئر صحافی غلام نبی مغل کا کہنا ہے کہ جب لاہور میں صحافیوں کوکوڑے مارنے کی خبر آئی تو وہ روزنامہ مساوات کراچی کے دفتر میں احفاظ کے ساتھ تھے۔ احفاظ اس خبرکو سن کر تڑپ رہے تھے اور بار بار کہتے تھے کہ انھیں بھی ان صحافیوں کے ساتھ کوڑے لگانے چاہیے تھے۔کراچی میں روزنامہ مساوات کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی تو احفاظ الرحمن اس تحریک کو منظم کرنے کی کمیٹی کے آرگنائزر تھے ۔
پولیس احفاظ کوگرفتار کرنا چاہتی تھی مگر وہ زیرِ زمین چلے گئے۔ وہ صحافیوں ، مزدوروں، ہاریوں اور طلبہ کے گروپوں کو منظم کرتے تھے۔ پولیس کے چھاپوں سے بچنے کی تدبیریں کرتے ۔ پولیس ان کے گھر پر چھاپے مارتی رہی اور ان کی اہلیہ مہناز اور بچوں کو مشکلات در پیش رہیں۔ مالک مکان خالی کرنے کا مطالبہ کرتا ۔ احفاظ کو اپنے دوستوں کے ذریعے اطلاعات ملیں مگر احفاظ کا عزم ہمیشہ مستحکم رہا ، یوں جنرل ضیاء الحق کو پی ایف یو جے سے سمجھوتہ کرنا پڑا ۔
احفاظ الرحمن کئی برس کے لیے چین چلے گئے اور واپس آکر ایک اردو روزنامہ کے میگزین ایڈیٹر مقرر ہوئے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دوستوں نے احفاظ الرحمن کو پی ایف یو جے کا صدر منتخب کیا۔ اب پھر ویج بورڈ کے نفاذ کی تحریک زور پکڑگئی۔ جب احفاظ الرحمن پی ایف یو جے کے صدر تھے تو الیکٹرونک میڈیا کا نیا دور شروع ہوا ۔
کسی بھی ادارے سے کسی بھی صحافی کی برطرفی کے خلاف انھوں نے آواز اٹھائی، احفاظ الرحمن کے لیے ٹی وی چینل کے لیے راہیں کھلی ہوئی تھیں مگر احفاظ نے ایک صحافی کی برطرفی کو پوری صحافی برادری کی تذلیل جانا ، یوں احفاظ نے انتظامیہ کے اس اقدام کی مذمت کی۔ احفاظ کچھ عرصے بعد اپنی ملازمت سے رخصت کردیے گئے۔ احفاظ الرحمن نے کینسرکو شکست دیدی اور صحافت کی سب سے بڑی جنگ تخلیق کی ۔
آج اخباری صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف آزادئ صحافت کو محدود کرنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف میڈیا کو معاشی طور پرکمزورکیا جا رہا ہے ۔ اخبارات میں شایع ہونے اور میڈیا پر نشر ہونے والے مواد کو روکنے اور انھیں مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میڈیا ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ آج احفاظ الرحمن اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتے تو وہ صحافیوں کی قیادت کر رہے ہوتے اور ایک مضبوط مہم منظم ہوتی ۔اس مہم کا مقصد پاکستانی میڈیا کو بچانا ہوتا ، اب احفاظ کی کمی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔
احفاظ اردو کالج کے زمانے سے بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ آمر ایوب خان کو عروج حاصل تھا۔ آمریت کے خلاف آواز اٹھانا سنگین جرم تھا مگر احفاظ این ایس ایف کے ان رہنماؤں کے ساتھ تھے جو تعلیم کو عام کرنے، فیسوں میں اضافے کو روکنے، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، احفاظ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی میں وائس چانسلر اشفاق حسین قریشی کا راج تھا جو اپنے معاون میجر آفتاب کے ساتھ ملکر ایک دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف تھے اور ترقی پسند طلبہ کو نشانہ بنانا ، اپنے عقیدے کا لازمی جز سمجھتے تھے۔ احفاظ الرحمن نے نہ صرف این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ لیا بلکہ نثر اور نظم کے میڈیم کے ذریعے ترقی پسند خیالات کو عام کرنے کی کوشش کی۔ احفاظ نے کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے فرائض انجام دیے اور صحافت سے وابستہ ہوگئے۔
پاکستان کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس صحافیوں کے حالات کار اور آزادئ صحافت کی جدوجہد میں مصروف تھی ۔ اسرار احمد ، کے جی مصطفی، منہاج برنا، اسلم شیخ اور آئی اے رحمن وغیرہ پی ایف یوجے کے قائدین میں شامل تھے ۔ احفاظ الرحمن ایک ہفت روزہ کے ابتدائی دورکے صحافیوں میں شامل تھے جوکراچی یونین آف جرنلسٹس کے فعال رکن تھے۔
سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر احفاظ الرحمن کراچی یونین آف جرنلسٹس سے لاتعلقی اختیارکرتے اور تین صحافیوں کی برطرفیوں پر احتجاج نہ کرتے تو وہ اس ہفت روزہ کے سب سے نوجوان ایڈیٹر بن جاتے۔ یہ شاید 67ء کی بات ہوگی، ہفت روزہ کے مالک ، احفاظ الرحمن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں تھے مگر احفاظ کے نظریات انھیں گوارہ نہیں تھے اور احفاظ اپنے نظریات پر سمجھوتے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ احفاظ الرحمن چین چلے گئے۔
ہم لوگوں نے ہفت روزہ الفتح میں چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کے بارے میں مضامین پڑھے، یوں ماؤکے علاوہ چواین لائی اور لیو شاؤ چی سے واقفیت ہوئی،1973ء میں جب کراچی سے ایک اردو روزنامہ شایع ہوا تو احفاظ اس روزنامہ کی ٹیم میں شامل تھے۔ اب احفاظ الرحمن نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو منظم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا شروع کیا ۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں 1963ء کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کی منسوخی ، نیشنل پریس ٹرسٹ کے خاتمے، پریس ایڈوائس کے نظام کو ختم کرنے اور نیوز پرنٹ کا کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے وعدے درج تھے۔ پی ایف یو جے صحافیوں اور غیر صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے اور آزادئ صحافت کے حق کو منوانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ احفاظ برسر اقتدار جماعت کے ترجمان اخبارکے ملازم تھے مگر وہ پی ایف یو جے کی جدوجہد کو ہی درست راستہ جانتے تھے ۔
احفاظ الرحمن نے پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا کی قیادت میں اخبارات پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار روزنامہ جسارت، ہفت روزہ رسائل زندگی اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ کے خلاف کارروائی کی تھی اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو پابند سلاسل کیا تھا۔ یہ اخبارات پی ایف یو جے کے خلاف مواد شایع کرتے تھے مگر احفاظ الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے اخبارات پر پابندیوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہارکیا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس کے تحت ہونے والے اجلاسوں اور جلسوں میں آزادئ صحافت پر لگنے والی پابندیوں کی مذمت میں قرار دادیں شایع ہوئیں ۔ احفاظ الرحمن اور کے یو جے کے دیگر ارکان نے احتجاجی کیمپ لگائے اور پھرکراچی یونین آف جرنلسٹ اور پی ایف یو جے کے فیصلوں کے تحت سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں اخبارات کے ایڈیٹر رہا ہوئے ۔ جولائی 1972ء میں روزنامہ سن کو بند کیا گیا تو پی ایف یو جے نے 24 جولائی کو اخبارکی بحالی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی۔
1973ء میں روزنامہ جسارت، حریت اور مہران پر بھٹو حکومت نے پابندی لگائی تو پی ایف یو جے نے 19 ستمبر کو پھر ملک گیر ہڑتال کی ۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات سے 18صحافیوں کو بر طرف کیا گیا۔ منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاریوں کی تحریک شروع کی ۔ یہ تحریک 21 مئی 1974ء سے 8 جولائی 1974ء تک جاری رہی۔ یوں حکومت کو مجبور ہونا پڑا اور صحافیوں کو ملازمتوں پر بحال کیا گیا ۔
اس تحریک کے دوران برنا صاحب، احفاظ الرحمن اور کئی سینئر صحافیوں کو تھانوں اور پنجاب کی مختلف جیلوں میں دن رات گزارنے پڑے۔ منہاج برنا نے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی مشترکہ تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا تو احفاظ الرحمن سب سے پہلے اس خیال کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے ۔ برنا صاحب کا کہنا تھا کہ اخباری اداروں کی یونینوں کی ایک کنفیڈریشن ہونی چاہیے، یوں پی ایف یو جے آزادئ صحافت ، صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرے۔
پی ایف یو جے اور ایپنک نے جنرل ضیاء الحق کے آزادئ صحافت کو کچلنے کی پالیسی کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ 1978ء میں روزنامہ مساوات لاہور اور روزنامہ مساوات کراچی، روزنامہ ہلال پاکستان پر پابندیوں کے خلاف پی ایف یو جے اور ایپنک نے تاریخی جدوجہد کی ، اس کی ایک درخشاں مثال ہے۔ یہ جدوجہد 6 ماہ کے عرصے پر محیط تھی اورکئی سو صحافی ان تحریکوں میں جیلوں میں گئے اور صحافیوں کوکوڑے مارے گئے۔
یہ تحریک پہلے روزنامہ مساوات کراچی پر پابندی اور پھر روزنامہ مساوات لاہور پر پابندی اور روزنامہ کراچی پر پابندی کے خلاف چلائی گئی ۔ صحافیوں کی اس طرح کی تحریک کی آزادئ صحافت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس تحریک کے قائد منہاج برنا اور نثار عثمانی تھے مگر ان تحریکوں کو منظم کرنے میں احفاظ الرحمن نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ وہ روزنامہ مساوات لاہورکی تحریک کے پہلے دستے میں لاہور سے گرفتار ہوئے اور لاہور بدر ہوئے مگر کراچی سے اس تحریک میں گرفتاریوں کے لیے صحافیوں کو روانہ کرتے رہے۔
پی ایف یو جے کے سابق رہنما اور سینئر صحافی غلام نبی مغل کا کہنا ہے کہ جب لاہور میں صحافیوں کوکوڑے مارنے کی خبر آئی تو وہ روزنامہ مساوات کراچی کے دفتر میں احفاظ کے ساتھ تھے۔ احفاظ اس خبرکو سن کر تڑپ رہے تھے اور بار بار کہتے تھے کہ انھیں بھی ان صحافیوں کے ساتھ کوڑے لگانے چاہیے تھے۔کراچی میں روزنامہ مساوات کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی تو احفاظ الرحمن اس تحریک کو منظم کرنے کی کمیٹی کے آرگنائزر تھے ۔
پولیس احفاظ کوگرفتار کرنا چاہتی تھی مگر وہ زیرِ زمین چلے گئے۔ وہ صحافیوں ، مزدوروں، ہاریوں اور طلبہ کے گروپوں کو منظم کرتے تھے۔ پولیس کے چھاپوں سے بچنے کی تدبیریں کرتے ۔ پولیس ان کے گھر پر چھاپے مارتی رہی اور ان کی اہلیہ مہناز اور بچوں کو مشکلات در پیش رہیں۔ مالک مکان خالی کرنے کا مطالبہ کرتا ۔ احفاظ کو اپنے دوستوں کے ذریعے اطلاعات ملیں مگر احفاظ کا عزم ہمیشہ مستحکم رہا ، یوں جنرل ضیاء الحق کو پی ایف یو جے سے سمجھوتہ کرنا پڑا ۔
احفاظ الرحمن کئی برس کے لیے چین چلے گئے اور واپس آکر ایک اردو روزنامہ کے میگزین ایڈیٹر مقرر ہوئے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دوستوں نے احفاظ الرحمن کو پی ایف یو جے کا صدر منتخب کیا۔ اب پھر ویج بورڈ کے نفاذ کی تحریک زور پکڑگئی۔ جب احفاظ الرحمن پی ایف یو جے کے صدر تھے تو الیکٹرونک میڈیا کا نیا دور شروع ہوا ۔
کسی بھی ادارے سے کسی بھی صحافی کی برطرفی کے خلاف انھوں نے آواز اٹھائی، احفاظ الرحمن کے لیے ٹی وی چینل کے لیے راہیں کھلی ہوئی تھیں مگر احفاظ نے ایک صحافی کی برطرفی کو پوری صحافی برادری کی تذلیل جانا ، یوں احفاظ نے انتظامیہ کے اس اقدام کی مذمت کی۔ احفاظ کچھ عرصے بعد اپنی ملازمت سے رخصت کردیے گئے۔ احفاظ الرحمن نے کینسرکو شکست دیدی اور صحافت کی سب سے بڑی جنگ تخلیق کی ۔
آج اخباری صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف آزادئ صحافت کو محدود کرنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف میڈیا کو معاشی طور پرکمزورکیا جا رہا ہے ۔ اخبارات میں شایع ہونے اور میڈیا پر نشر ہونے والے مواد کو روکنے اور انھیں مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میڈیا ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ آج احفاظ الرحمن اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتے تو وہ صحافیوں کی قیادت کر رہے ہوتے اور ایک مضبوط مہم منظم ہوتی ۔اس مہم کا مقصد پاکستانی میڈیا کو بچانا ہوتا ، اب احفاظ کی کمی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔