پی پی پی کے لیے مشورہ
میرے ان دوستوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نام نہاد دائیں بازو کی جماعتیں ہیں.
لاہور:
اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے مجھے اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے کی بیماری سے بچائے رکھا۔ جب بھی اپنے سے کم عمر خاص کر ان نوجوانوں سے جن کا دور دور تک سیاست یا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ملاقاتیں ہوتی ہیں تو میں اپنی دانش جھاڑنے سے اجتناب برتتا ہوں۔ ان کے خیالات بڑے غور سے سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنی اس عادت کے سبب غیر صحافی یا سیاسی نوجوانوں سے جب بھی گفتگو ہوئی اس کی روشنی میں ہمیشہ ذہن میں کوئی نیا نکتہ کوندا جس کی وجہ سے بہت ساری ناقابلِ تفہیم نظر آنے والی چیزوں کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کے راستے بنے۔
11 مئی کے انتخابات سے کئی دن پہلے میں نے اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف نواز شریف کی مسلم لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچائے گی۔ پیپلز پارٹی کے بے شمار دوست میرے اس کالم پر بہت ناراض ہوئے۔ ٹیلی فون اور براہِ راست ملاقاتوں کے ذریعے یہ بات ثابت کرنے پر بضد رہے کہ ان کی جماعت کے ووٹر ''نظریاتی'' ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت سے ناراض ہو جائیں تو پولنگ کے دن گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔
میرے ان دوستوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نام نہاد دائیں بازو کی جماعتیں ہیں جو طالبان کے آگے سرنگوں ہونا چاہتی ہیں، اس لیے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے شہروں میں عمران خان کا عروج نواز شریف کے ووٹ ''خراب'' کرے گا۔ پیپلز پارٹی کو شاید اس کا شہروں میں کوئی زیادہ فائدہ نہ ہو۔ مگر دیہاتی حلقوں میں تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سہ طرفی مقابلے تیر کے نشان والوں کے کام آسکتے ہیں۔
بھٹو کا نام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پیپلز پارٹی کی ''کاشتکار نواز پالیسیاں'' اس جماعت کے برادریوں کے حوالے سے تگڑے امیدواروں کو قومی اسمبلی تک پہنچا دیں گی۔ ان دوستوں نے یہ بھی طے کر رکھا تھا کہ 11 مئی کے انتخابات ایک معلق قومی اسمبلی کو جنم دیں گے۔ پیپلز پارٹی اس تناظر میں اگر 60 سے 80کے درمیان نشستیں حاصل کر لے تو اتحادی جماعتوں کے تعاون اور آزاد امیدواروں کو ''خریدنے'' کے بعد ''اگلی باری پھر زرداری'' ہو سکتا ہے۔
پولنگ سے تین ہفتے قبل چنیوٹ، جھنگ، کمالیہ اور چیچہ وطنی سے ساہیوال پہنچتے ہوئے میں نے پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست دیواروں پر لکھی دیکھ لی تھی۔ اس کے ایک ہفتے بعد میں نے پانچ گھنٹے پشاور کے ایک علاقے گلبہار میں گزارے۔ وہاں میری 150 سے زیادہ نوجوانوں سے بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ ان کی بے تحاشہ اکثریت کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جو 1970ء سے پیپلز پارٹی کے شیدائی رہے تھے۔ مگر ان نوجوانوں کا سارا جنون اب تحریک انصاف کے لیے وقف ہو چکا تھا۔
12 مئی کی صبح تک جب انتخابات کے بعد کا منظر نامہ واضح ہونا شروع ہو گیا تو میں نے جان لیا کہ 1997ء کی طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ ان دنوں مگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ تھیں۔ اسی بہادر عورت کو ڈوب کر اُبھرنے کے سارے ڈھنگ آتے تھے۔ ششدر کر دینے والی سیاسی چالوں کے علاوہ انھیں دیوانہ وار محنت کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کے حوصلے جواں رکھنے کا ہنر بھی بہت خوب آتا تھا۔ اقتدار کے کھیل کی حرکیات کو آصف علی زرداری شاید محترمہ سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔
وہ یاروں کے یار بھی ہیں اور ایک بہادر آدمی بھی۔ مگر ان میں وہ، جسے Charismaکہتے ہیں، موجود نہیں ہے۔ جیالوں کی اکثریت نے انھیں ہمیشہ ''غیر'' ہی سمجھا۔ ان کی عزت کرتے رہے مگر ان کی ذات سے والہانہ عشق کبھی نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی نظر میں رکھنا ہو گی کہ محترمہ کی دونوں حکومتوں کو اپنی معیادِ حکومت پوری نہیں کرنے دی گئی تھی۔ صرف اس نقطے کی بنیاد پر وہ اپوزیشن میں سازشیوں کے ہاتھوں ایک زخم خوردہ لیڈر بن کر جایا کرتی تھیں۔ اس بار پیپلز پارٹی نے اقتدار میں پانچ سال مکمل کیے ہیں۔ اس کو اپنی ناکامیوں کے جواز ڈھونڈنے اور لوگوں کو ان کے بارے میں قائل کرنے کے لیے بہت وقت اور محنت درکار ہے اور یہ کام محض آصف علی زرداری کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے تازہ ذہن لوگوں کی ایک پوری ٹیم درکار ہے جس کے ممکنہ ارکان مجھے خال خال نظر آ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بارے میں مندرجہ بالا خدشات کے پسِ منظر میں گزشتہ رات میری کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو اشتہاری دُنیا کے امور کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں وہ لوگ Brand Activation کی اصطلاع کا بہت ذکر کرتے رہے۔ میں نے اس کے بارے میں کریدا تو انھوں نے بتایا کہ بڑے اور مشہور ناموں والی اشیائے صرف کو بنانے اور انھیں مارکیٹ میں فروخت کرنے والے Brand Activation کی ضرورت صارفین کو اپنے مال سے بدستور وفادار اور وابستہ رکھنے کے لیے محسوس کیا کرتے ہیں۔
ایک معروف مشروب ساز ادارے نے ایک اسٹوڈیوز کے ذریعے میشا شفیع سے ریشماں کا ایک معروف گانا مارکیٹ میں پھیلاتے ہوئے دراصل یہی کچھ کیا تھا چونکہ 11 مئی کے انتخاب کے لیے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بھرپور اشتہاری مہم چلائی تھی۔ اس لیے میں ان دوستوں سے یہ پوچھنے پر مجبور ہو گیا کہ ان کی رائے میں پیپلز پارٹی کی مہم کیسی تھی۔ ان سب نے ترنت جواب دیا کہ اپنے اشتہاروں میں اس جماعت نے Brand Activation کے بجائے Brand Hammering سے کام لیا۔
ایسا کرتے ہوئے وہ لوگ بھول گئے کہ 2013ء میں 25 سے 30 سال کی عمر کے درمیان والے نوجوانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کون تھے۔ ضیاء الحق نے ان پر اور اس قوم پر کیا کیا ظلم توڑے تھے۔ محترمہ کی شہادت سے چند ہفتے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی ان کی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل پائی تھی۔ ان کی المناک شہادت کو پانچ سال بعد ٹی وی اشتہاروں کے ذریعے یاد کرتے ہوئے 2013ء میں اکثریت کیسے ملتی؟ خلاصہ کلام یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو Brand Activation کرے۔ اپنے ماضی کی مسلسل Hammering نہیں۔
اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے مجھے اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے کی بیماری سے بچائے رکھا۔ جب بھی اپنے سے کم عمر خاص کر ان نوجوانوں سے جن کا دور دور تک سیاست یا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ملاقاتیں ہوتی ہیں تو میں اپنی دانش جھاڑنے سے اجتناب برتتا ہوں۔ ان کے خیالات بڑے غور سے سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنی اس عادت کے سبب غیر صحافی یا سیاسی نوجوانوں سے جب بھی گفتگو ہوئی اس کی روشنی میں ہمیشہ ذہن میں کوئی نیا نکتہ کوندا جس کی وجہ سے بہت ساری ناقابلِ تفہیم نظر آنے والی چیزوں کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کے راستے بنے۔
11 مئی کے انتخابات سے کئی دن پہلے میں نے اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف نواز شریف کی مسلم لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچائے گی۔ پیپلز پارٹی کے بے شمار دوست میرے اس کالم پر بہت ناراض ہوئے۔ ٹیلی فون اور براہِ راست ملاقاتوں کے ذریعے یہ بات ثابت کرنے پر بضد رہے کہ ان کی جماعت کے ووٹر ''نظریاتی'' ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت سے ناراض ہو جائیں تو پولنگ کے دن گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔
میرے ان دوستوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نام نہاد دائیں بازو کی جماعتیں ہیں جو طالبان کے آگے سرنگوں ہونا چاہتی ہیں، اس لیے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے شہروں میں عمران خان کا عروج نواز شریف کے ووٹ ''خراب'' کرے گا۔ پیپلز پارٹی کو شاید اس کا شہروں میں کوئی زیادہ فائدہ نہ ہو۔ مگر دیہاتی حلقوں میں تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سہ طرفی مقابلے تیر کے نشان والوں کے کام آسکتے ہیں۔
بھٹو کا نام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پیپلز پارٹی کی ''کاشتکار نواز پالیسیاں'' اس جماعت کے برادریوں کے حوالے سے تگڑے امیدواروں کو قومی اسمبلی تک پہنچا دیں گی۔ ان دوستوں نے یہ بھی طے کر رکھا تھا کہ 11 مئی کے انتخابات ایک معلق قومی اسمبلی کو جنم دیں گے۔ پیپلز پارٹی اس تناظر میں اگر 60 سے 80کے درمیان نشستیں حاصل کر لے تو اتحادی جماعتوں کے تعاون اور آزاد امیدواروں کو ''خریدنے'' کے بعد ''اگلی باری پھر زرداری'' ہو سکتا ہے۔
پولنگ سے تین ہفتے قبل چنیوٹ، جھنگ، کمالیہ اور چیچہ وطنی سے ساہیوال پہنچتے ہوئے میں نے پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست دیواروں پر لکھی دیکھ لی تھی۔ اس کے ایک ہفتے بعد میں نے پانچ گھنٹے پشاور کے ایک علاقے گلبہار میں گزارے۔ وہاں میری 150 سے زیادہ نوجوانوں سے بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ ان کی بے تحاشہ اکثریت کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جو 1970ء سے پیپلز پارٹی کے شیدائی رہے تھے۔ مگر ان نوجوانوں کا سارا جنون اب تحریک انصاف کے لیے وقف ہو چکا تھا۔
12 مئی کی صبح تک جب انتخابات کے بعد کا منظر نامہ واضح ہونا شروع ہو گیا تو میں نے جان لیا کہ 1997ء کی طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ ان دنوں مگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ تھیں۔ اسی بہادر عورت کو ڈوب کر اُبھرنے کے سارے ڈھنگ آتے تھے۔ ششدر کر دینے والی سیاسی چالوں کے علاوہ انھیں دیوانہ وار محنت کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کے حوصلے جواں رکھنے کا ہنر بھی بہت خوب آتا تھا۔ اقتدار کے کھیل کی حرکیات کو آصف علی زرداری شاید محترمہ سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔
وہ یاروں کے یار بھی ہیں اور ایک بہادر آدمی بھی۔ مگر ان میں وہ، جسے Charismaکہتے ہیں، موجود نہیں ہے۔ جیالوں کی اکثریت نے انھیں ہمیشہ ''غیر'' ہی سمجھا۔ ان کی عزت کرتے رہے مگر ان کی ذات سے والہانہ عشق کبھی نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی نظر میں رکھنا ہو گی کہ محترمہ کی دونوں حکومتوں کو اپنی معیادِ حکومت پوری نہیں کرنے دی گئی تھی۔ صرف اس نقطے کی بنیاد پر وہ اپوزیشن میں سازشیوں کے ہاتھوں ایک زخم خوردہ لیڈر بن کر جایا کرتی تھیں۔ اس بار پیپلز پارٹی نے اقتدار میں پانچ سال مکمل کیے ہیں۔ اس کو اپنی ناکامیوں کے جواز ڈھونڈنے اور لوگوں کو ان کے بارے میں قائل کرنے کے لیے بہت وقت اور محنت درکار ہے اور یہ کام محض آصف علی زرداری کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے تازہ ذہن لوگوں کی ایک پوری ٹیم درکار ہے جس کے ممکنہ ارکان مجھے خال خال نظر آ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بارے میں مندرجہ بالا خدشات کے پسِ منظر میں گزشتہ رات میری کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو اشتہاری دُنیا کے امور کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں وہ لوگ Brand Activation کی اصطلاع کا بہت ذکر کرتے رہے۔ میں نے اس کے بارے میں کریدا تو انھوں نے بتایا کہ بڑے اور مشہور ناموں والی اشیائے صرف کو بنانے اور انھیں مارکیٹ میں فروخت کرنے والے Brand Activation کی ضرورت صارفین کو اپنے مال سے بدستور وفادار اور وابستہ رکھنے کے لیے محسوس کیا کرتے ہیں۔
ایک معروف مشروب ساز ادارے نے ایک اسٹوڈیوز کے ذریعے میشا شفیع سے ریشماں کا ایک معروف گانا مارکیٹ میں پھیلاتے ہوئے دراصل یہی کچھ کیا تھا چونکہ 11 مئی کے انتخاب کے لیے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بھرپور اشتہاری مہم چلائی تھی۔ اس لیے میں ان دوستوں سے یہ پوچھنے پر مجبور ہو گیا کہ ان کی رائے میں پیپلز پارٹی کی مہم کیسی تھی۔ ان سب نے ترنت جواب دیا کہ اپنے اشتہاروں میں اس جماعت نے Brand Activation کے بجائے Brand Hammering سے کام لیا۔
ایسا کرتے ہوئے وہ لوگ بھول گئے کہ 2013ء میں 25 سے 30 سال کی عمر کے درمیان والے نوجوانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کون تھے۔ ضیاء الحق نے ان پر اور اس قوم پر کیا کیا ظلم توڑے تھے۔ محترمہ کی شہادت سے چند ہفتے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی ان کی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل پائی تھی۔ ان کی المناک شہادت کو پانچ سال بعد ٹی وی اشتہاروں کے ذریعے یاد کرتے ہوئے 2013ء میں اکثریت کیسے ملتی؟ خلاصہ کلام یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو Brand Activation کرے۔ اپنے ماضی کی مسلسل Hammering نہیں۔