سائبیریا سے مہمان موسمی پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع

پنجاب وائلڈ لائف نے مہمان پرندوں کے شکارکی بھی محدود پیمانے پراجازت دے دی، اعلامیہ جاری

پنجاب میں سب سے زیادہ مہمان پرندے چشمہ ،تونسہ ، پنجند،تریموں اور رسول بیراج کا رخ کرتے ہیں فوٹو: فائل

سائبیریا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے مہمان موسمی پرندوں کونج، شاہین، تلور، بٹیر اور مرغابیوں کی پنجاب کے مختلف علاقوں میں آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جواکتوبرکے کے آخرتک جاری رہے گا۔

ڈپٹی ڈائریکٹروائلڈلائف پنجاب نعیم بھٹی نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ مہمان پرندے چشمہ ،تونسہ ، پنجند،تریموں اور رسول بیراج کا رخ کرتے ہیں ، اسی طرح پنجاب میں مختلف ہیڈورکس جن میں پیڈبلوکی ، خانکی، سدھنائی ، سلیمانیکی ، قادرآباد اورمرالہ شامل ہے یہاں بھی ہزاروں کی تعدادمیں مہمان پرندے قیام کرتے ہیں ، اسی طرح پانی کی جھیلیوں پربھی ان پرندوں کی اچھی خاصی تعداد ڈیرے ڈالتی ہے۔



انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے ایک سروے کے مطابق یہاں ہرسال ایک ملین کے لگ بھگ مہمان پرندے 4500 کلومیٹر کی طویل مسافت کے بعد پاکستانی علاقوں واٹربیسن ، نوشہرہ ، ٹانڈہ ڈیم ، کوہاٹ ، سوات ، چترال،تربیلااورمنگلا ڈیم ، صوبہ پنجاب کے مختلف مقامات چشمہ بیراج ، تونسہ بیراج ، اچھالی کمپلیکس، ہیڈمرالہ، قادرآباد رسول،راجباہوں اورچھوٹی بڑ ی جھیلوں پر بسیرا کرتے ہیں۔

نعیم بھٹی نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر کئے گئے سروے کے مطابق مہمان مہاجر پرندے سات مختلف راستوں پرسفرکرتے ہوئے مختلف ممالک میں ڈیے لگاتے ہیں ، افغانستان ،پاکستان اور بھارت میں جو پرندے آتے ہیں اس روٹ کو انڈس فلائی وے کہلاتا ہے ، سائبیریا کے برفانی صحرا سے اُڑنے والی مرغابیاں اور بہت سے دوسرے پرندے قازقستان سے پرواز کرتے ہوئے افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اس روٹ کو گرین روٹ بھی کہا جاتا ہے ، مشرقی سائیبیریا کے وسیع میدانوں سے شروع ہونے والے اِس روٹ کے پرندے تبت اور لداخ سے ہوتے ہوئے انڈیا میں داخل ہوتے ہیں


ماہرین کا کہنا ہے کہ پرندے اپنے سفر میں دن میں سورج اور رات میں ستاروں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ انڈس فلائی وے پر پرندوں کی آمد کا سلسلہ ستمبر سے نومبر تک جاری رہتا ہے جبکہ واپسی فروری سے مارچ تک اختتام پزیر ہوتی ہے۔ ہجرت کا یہ سفر بہت طویل، پیچیدہ، مشکلات سے پُر اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ اِس سفر میں کمزور اور بیمار پرندے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور صرف تندرست پرندے ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔

ماہرین کےمطابق ہجرت کرنے والے پرندوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان کی آب گاہوں پر اترتی تھی۔ اِن میں عالمی طور پر خطرات سے دوچار سائیبیرین کونج، سفید سر بطخ، راج ہنس، حواصل، لق لق، چمچہ بزا، سرخاب، سیخ پا، پھاراؤ، لال سر، نیل سر، چارو بطخ، پن ڈبی، جل مرغی، گدھ ، باز اور تلور وغیرہ شامل ہیں۔ اِن پرندوں کی 70 فیصد تعداد پاکستان میں دریائے سندھ اور اِس کے اطراف پھیلی ہوئی جھیلیں، ندی نالے، ڈیموں اور انڈس ڈیلٹا پر پڑاؤ ڈالتی تھی لیکن آج بہت کم تعداد میں یہ پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف نے مہمان پرندوں کی آمد کی وجہ سے ان کے شکارکی بھی محدود پیمانے پراجازت دے دی ہے، اعلامیے کے مطابق مرغابی کا شکار یومیہ ایک گن کے ساتھ وائلڈلائف ایکٹ کے جدول اول میں درج مقررہ تعدادکے مطابق کھیلا جا سکتا ہے نیز وائلڈ لائف سینگچوریز اور نیشنل پارکس میں تمام قسم کے شکار کی ممانعت ہے تاہم گیم ریزرو میں ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات و پارکس پنجاب کے جاری کردہ خصوصی اجازت نامہ کے ساتھ شکار کھیلا جا سکتا ہے ۔شکاری حضرات یکم اکتوبر 2018ء سے 31 مارچ 2019 تک مرغابی کا شکار کھیل سکیں گے ۔



محکمہ وائلڈلائف اینڈ پارکس پنجاب نے مرغابی کے موسم شکار کے حوالے سے غیر قانونی شکارکی روک تھام اور مقررہ بیگ لمٹ کی پابندی کو سختی سے مانیٹر کرنے کے لئے تمام فیلڈ سٹاف اور پروٹیکشن فورس کوالرٹ جاری کردیا ہے ۔ یادر ہے کہ وائلڈلائف ایکٹ کی خلاف ورزی پر غیر قانونی شکار کے مرتکب افراد کو ایک سے 5سال تک قید،20 تا30 ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں جبکہ دوران شکار استعمال ہونے والی گاڑی اور اسلحہ بھی ضبط ہو سکتاہے۔
Load Next Story