غیر اعلانیہ جنگ

تحریک انصاف اور افتخار چوہدری کے درمیان ایک سیاسی جنگ موجود ہے۔

msuherwardy@gmail.com

نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی ملک میں کام رک گئے تھے۔ جب سے سول بیوروکریسی بلکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران پر ہاتھ ڈالا گیا ہے تب سے ملک کا پہیہ رک گیا ہے۔

احتساب کے خوف کا بہانہ بنا کر افسران نے کام چھوڑ دیا ہے۔ اسی وجہ سے نئی حکومت آنے کے ساتھ ہی ناکام ہونے کا تاثر بن آتا ہے۔ کسی کا کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ناجائز تو ایک طرف بلکہ جائز کام بھی رک گئے ہیں۔ کوئی افسر بھی کسی بھی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔سب احتساب کا بہانہ بنا دیتے ہیں۔

اسی صورتحال کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان نے خود پہلے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور دیگر محکموں کے سنئیر افسران سے خطاب کیا۔ جس میں انھیں برملا یہ کہنا پڑ گیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔ نیب سے بات ہو گئی ہے۔اب کوئی افسران کو تنگ نہیں کرے گا۔ اس کے بعد پنجاب میںبھی افسران سے خطاب کیا گیا۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دونوں خطابات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ حالات جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ سول بیوروکریسی کے اندر نہ تو احتساب کا خوف کم ہوا ہے اور نہ ہی انھوں نے کوئی کام کرنا شروع کیا ہے۔ اسی لیے ایک غیر اعلانیہ قلم چھوڑ ہڑتال جاری ہے۔


یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سول بیوروکریسی کی یہ قلم چھوڑ ہڑتال پنجاب میں احد چیمہ کی گرفتاری سے شروع ہوئی۔اس سے پہلے سندھ میں بھی افسران گرفتار ہوئے لیکن تب ردعمل اتنا شدید نہیں تھا۔ لیکن پنجاب میں طوفان آگیا۔ اس موقع پر اعلانیہ ہڑتال کی گئی۔اس وقت شہباز شریف کی حکومت تھی وہ بھی سول بیوروکریسی کے ساتھ مل گئے۔

اس ہڑتال کی حکومت کی جانب سے بالواسطہ حمائت بھی کی گئی۔ لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ بیوروکریسی کے شدید دبائو کے باوجودکارروائیاں جاری رکھی گئیں۔مزید گرفتاریوں کو سول بیوروکریٹس نے اپنے اوپر ایٹم بم کا حملہ سمجھ لیا۔ اسے افسر شاہی نے اپنے لیے ایسا ہی سمجھ لیا جیسے امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دئے تھے۔تب سے جو قلم چھوڑ ہڑتال شروع ہوئی ہے وہ ابھی تک جاری ہے۔

دوسری طرف ان سارے حالات میں کارروائیاں جاری رہیں اور کسی کو کوئی رعائت نہیں ملی۔ اسی طرح کمپنیوں کے معاملے میں بھی سول سرونٹس کو کوئی رعائت نہیں ہے۔ میں کمپنیوں کے معاملے میں سول سرونٹس سے اس حد تک متفق ہوں کہ ان سے تنخواہوں کی وصولی جائز نہیں ہے۔ سول سرونٹس کے اس موقف میں جان لگتی ہے کہ حکومت نے ایک پالیسی بنائی جس کے تحت انھوں نے تنخواہیں وصول کیں لیکن کوئی کرپشن تو نہیں کی ہے۔ تنخواہوں کی وصولی کو کرپشن نہیں سمجھا جا سکتا۔


اگر تنخواہیں واپس وصول بھی کرنی ہیں توحکومت سے لی جائیں۔ بیچارے ملازمین سے تنخواہوں کی وصولی ان سے زیادتی ہے۔ تاہم تنخواہوں کی وصولی نے بھی افسر شاہی کی پریشانی اور تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ایسے میں کمپنیوں کے آڈٹ نے بھی مزید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔

اب سول سرونٹس کو مقدس گائے نہیں سمجھا جا رہا ہے جب کہ ستر سال سے افسر شاہی کو مقدس گائے کی جو حیثیت حاصل تھی وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔ یہ لڑائی کافی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ ایک طرف حکومت کے کام رک گئے ہیں دوسری طرف یہ سول افسران جو ہر اہم سیٹ پر بیٹھے ہیں وہ اپنی مرضی سے کام کر رہے ہیں۔ ایک غیر علانیہ جنگ جاری ہے۔ ہر محکمے اور ہر ادارے میں موجود یہ افسران اس وقت اپنے بچاؤ کے لیے متحد ہیں۔ یہ افسران حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔یہ افسران دیگر اداروں میں بھی اپنی آواز پہنچا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ خود کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

اس محاذ آرائی کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب نیب کے اختیارات کم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے دانت ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ سیاستدان تو پہلے ہی نیب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غلط نہیں ہے کہ تحریک انصاف میں ایک بہت بڑی لابی نیب کے خلاف ہے۔ ان کی انکوائریاں بھی نیب میں چل رہی ہیں۔ وہ تو شکر ادا کرتے ہیں کہ عدلیہ نے نیب کو انکوائریوں کی تفصیلات اور پیشیوں کی تفصیلات پبلک کرنے سے روک دیا ہے ورنہ قوم کو روز پتہ چل رہا تھا کہ کس کے خلاف کونسے کیس میں کیا انکوائری ہورہی ہے۔ اب ایک خاموشی ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کس کے خلاف کونسی انکوائری ہو رہی ہے۔ اس سکوت اور خاموشی کا کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔

آپ دیکھیں آج کل ایڈن ہائوسنگ سکینڈل کا بھی بہت شور ہے۔ اس ضمن میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے داماد کی لندن میں گرفتاری کی بھی خبریں آئی ہیں۔ سب لوگ اس کو ایف آئی اے کا کارنامہ سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ ان ملزمان کے ریڈ وارنٹس بھی نیب نے جاری کیے تھے۔ اور انھی ریڈ وارنٹس پر انٹرپول نے ملزم کو گرفتار کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انٹر پول گرفتاری کے بعد پاکستان میں اطلاع وزرات داخلہ میں قائم ایک ایف آئی اے کے سیل کو دی جاتی ہے۔ اس لیے ایف آئی اے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تعلق بھی اعلیٰ عدلیہ سے رہا ہے۔ انھوں نے افتخار چوہدری کے ساتھ کام کیا ہے۔ لیکن جاوید اقبال نے فوراً ملزمان کے ریڈ وارنٹس جا ری کر دیے۔ اس ضمن چیئرمین نیب کا یہ فقرہ سب بتاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں سب رشتے ناطے تعلق واسطے نیب کے دفتر کے باہر چھوڑ کر آتا ہوں۔ حکومت نے اس گرفتاری کا غیر ضروری کریڈٹ لینے کے چکر میں ایک سیدھے سادھے معاملہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر حکومت کے بجائے اس گرفتاری کا اعلان نیب کو کرنے دیا جاتا تو شائد افتخار چوہدری صاحب کو یہ کہنے کو موقع نہ ملتا کہ ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف اور افتخار چوہدری کے درمیان ایک سیاسی جنگ موجود ہے۔ شائد اسی جنگ کی وجہ سے حکومت نے ان کے داماد کی گرفتاری کا سیاسی کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ افتخار چوہدری ایک ماہر قانون دان ہیں۔ وہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف لینا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح نیب کا سارا کام بھی زیرو ہو جائے گا اور کرپشن کا معاملہ سیاسی معاملہ بن جائے گا۔ اس لیے نیب کے کام کو سیاسی رنگ دینے سے نہ صرف نیب کو نقصان ہوتا ہے بلکہ کرپشن کے خلاف جنگ کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ آج نیب کو پاکستان کے عوام کی مکمل حمائت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر سطح پر نیب کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
Load Next Story