’اسپرگرز‘ بچے بڑوں سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں

کیا یہ ایک سنگین بیماری ہے ؟ اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟

کیا یہ ایک سنگین بیماری ہے ؟ اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟

FAISALABAD:
''میں نے بچپن میں جو فقرہ سب سے زیادہ سنا وہ یہ تھا:'' میری طرف دیکھو۔''

سارا بچپن ماں باپ یہ کہتے رہے کہ ادھر دیکھ کر بات کرو، پھر سکول جانا ہوا تو استاد دن میں کئی دفعہ کہتے:'' ادھر میری طرف دیکھ کر جواب دو'' جب میں نہ دیکھ پاتا تو لائن لگانے والا پیمانہ مارا جاتا یا پنسل کا سکّہ چبھویا جاتا کہ 'اوپر دیکھ کر کیوں نہیں بات کرتے؟' لیکن جونہی میں کسی کی آنکھوں یا چہرے کی طرف دیکھتا میں بات کرنا بھول جاتا اور لفظ میرے ذہن سے غائب ہوجاتے۔ میرے باپ کو میرے اِدھر اُدھر دیکھنے پر اتنا غصہ آتا کہ میرے پیچھے بھاگتا اور میں اُس سے چھپتا پھرتا اور اکثر میری ماں مجھے اس سے بچاتی کیونکہ میرے باپ کو یہ یقین تھا کہ آنکھیں صرف وہ لوگ چراتے ہیں جو کچھ بُرا کرکے چھپاتے ہیں، ایک سچا اور صاف انسان آنکھ ملا کر بات کرتا ہے لیکن جب میں چالیس سال کا ہوا تب مجھے پتا چلا کہ مجھے ایک بیماری ہے جس کا نام 'اسپرگرز' ہے اور اس میں مبتلا افراد دوسروں کی طرف دیکھ کر بات نہیں کر سکتے۔''

یہ الفاظ ہیں اسپرگرز کے مریض 'جان ایلڈر' کے، یہ اُن کی بہت بکنے والی کتاب '' میری آنکھوں میں دیکھو'' سے لیے گئے ہیں۔ یہ وہ فقرہ ہے جو انہوں نے زندگی میں سب سے زیادہ سنااور یہ سچ ہے کہ 'اسپرگرز' کے مریض کسی سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کر سکتے۔ آنکھیں نہ ملانے کی وجہ صرف نفسیاتی نہیں ہوتی بلکہ اسپرگرز لوگوں کے دماغ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ وہ چند سیکنڈ سے زیادہ دوسروں کی طرف نہیں دیکھ سکتے، کچھ اسپرگرز لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا دماغ پھٹنے کو کرتا ہے اور چکرانے لگتا ہے جب وہ کسی سے نظر ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسپرگرز کا اردو میں کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی وجہ سے اسے 'اسپرگرز' ہی کہا جائے گا، کچھ ممالک میں اس کا تلفظ'' اسپرجر'' بھی ہے۔ اسپرگرز کو پہلی دفعہ آسٹریا کے ڈاکٹر ''ہینس اسپرگرز'' نے آٹزم سے الگ بیماری کے طور پر دریافت کیا اس لئے اسی ڈاکٹر کے نام پر اسے 'اسپرگرز' کہا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین اور اسپرگرز کے مریض اسے مرض نہیں مانتے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اسپرگرز کے حامل افراد ذہین ہوتے ہیں، صرف کچھ حسیات کے زیادہ شدید ہونے کی وجہ سے انہیں مختلف سمجھا جائے نا کہ مریض۔ یہ سچ ہے کہ اسپرگرز کے حامل افراد اپنے دماغ کی مختلف بناوٹ کی وجہ سے بہت فائدہ اٹھا لیتے ہیں، جیسے کہ نابینا افراد کی دیکھنے کی حس نا ہونے کے باعث ان کے اندر محسوس کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ ابتدائی زندگی میں دوسروں سے مختلف ہونا انہیں بھونچکا رکھتا ہے مثلاً ہر وقت شور محسوس کرنا، منہ سے ہر بات اونچی نکل جانا، اپنے آپ میں اتنا مگن رہنا کہ ارد گرد بم پھٹنے کا بھی نوٹس نہ لینا، کوئی مر بھی جائے تو اپنی رو ٹین نہ چھوڑ سکنا۔ مثلاً اگر ٹی وی دیکھنے کا ٹائم ہے تو اسکو ضرور دیکھنا ہے خواہ کیسی ہی ایمرجنسی ہو جائے یعنی تبدیلی کے ساتھ فوراً تبدیل ہونے کی صلاحیت جو انسانی فطرت کا حصہ ہے اس میں کمی ہونا لیکن ارد گرد سے لا تعلقی ان کے اندر کسی ایک چیز کی دلچسپی کو اتنا اجاگر کردیتی ہے کہ وہ اس میں نامور ہوجاتے ہیں۔ ایک مفروضے کے مطابق بہت سارے موجدوں میں اسپرگرز لوگوں کی خصوصیات ہوتی ہیں اور اگرچہ ان کی طبی تشخیص ہو پائے یا نہ لیکن ان کے اسپرگرز ہونے یا نہ ہونے پر بحث جاری رہتی ہے۔

آٹزم اور اسپرگرز میں فرق

اسپرگرز کو آٹزم کی کزن بیماری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسپرگرز آٹزم کی ایک شکل ہے سوائے چند علامات کے فرق کے۔ مثلاً اسپرگرز کو لکھنے پڑھنے میں اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اکثر وہ اپنی عمر سے پہلے لکھنے پڑھنے میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں جبکہ آٹزم کے حامل بچے لکھنے پڑھنے اور بولنے میں پیچھے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال سوفٹ وئیر انجنیئر بل گیٹس ہے۔ بل گیٹس جو کچھ عجیب عادات رکھتا ہے مثلاً آواز کا ناہموار ہونا، اپنی ہائجینک ضرورتوں کی پروا نہ کرنا۔ اس کے متعلق وقتاً فوقتاً یہ بحث اٹھتی رہتی ہے کہ وہ اسپرگرز یا آٹزم کا مریض ہے لیکن ابھی تک کوئی ڈاکٹری تشخیص سامنے نہیں آئی اس لئے یہ کوئی حتمی بات نہیں، اس کے باوجود بہت سارے اسپرگرز افراد بل گیٹس کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر صرف اس لئے کیاگیا ہے کہ اسپرگرز بہت ذہین ہوتے ہیں۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ وڈیو گیمز کے تخلیق کاروں خاص کار'' پوکے مان ''میں بھی اسپرگرز کی عادات پائی گئی ہیں۔ جب اسپرگرز اپنا اور دوسروں کا فرق سمجھ لیتے ہیں تو خود کو ایک حد تک معاشرتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسپرگرز کا علم اکثر تب ہوتا ہے جب بچہ سکول جانے لگتا ہے جبکہ آٹسٹک بچہ دو اڑھائی سال میں ہی اپنی عمر سے پیچھے ہونے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اسپرگرز کے لئے آٹسٹک لوگوں کی نسبت گہری اور پیچیدہ باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔

اسپرگرز کی بڑی علامتیں درج ذیل ہیں:

(1) حواس خمسہ کا زیادہ حساس ہونا، (2) سماجی طور پر نہ گھل مل سکنا، (3) مخصوص عادات کو بار بار دہرانا، (4) کچھ خاص چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی لینا۔

حواس خمسہ کے زیادہ حساس یا ضرورت سے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے اسپرگرز کے حامل افراد کو ایک معمولی سی آواز بھی بہت تیز اور تیز آواز کان پھاڑنے والی لگتی ہے۔ بد بو اور خوشبوکو عام لوگوں سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، خوراک کے معاملے میں بھی وہ ذائقے ،رنگ اور خوشبو کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ روشنی سے الرجی ہونا یعنی تیز روشنی کو سہہ نہ پانا، کیمرے یا سورج کی چمک سے سر میں درد محسوس کرنا۔ جلد کی حساسیت بھی اسپرگرز کو پریشان رکھتی ہے۔ کپڑوں پر ابھری ہوئی لکھائی، بنیان یا قمیض کا لیبل ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے رف اور کھردرا کپڑا جو عام لوگ ساری ساری زندگی پہنتے ہیں اسپرگرز چند منٹ بھی نہیں پہن سکتے۔ کاموں کو دہرانا اسپرگرز کی خاص عادت ہوتی ہے۔ انگلیاں چٹخاتے جانا، کسی عضو کو جھٹکنا، ایک ہی کام بار بار کرنا، ا یک ہی کھیل بلا ناغہ کھیلنا، ایک ہی فلم یا ڈرامہ بار بار دیکھنا اور برسہا برس ایسا کرنا۔ اگر کسی وجہ سے معمول کا کام نہ کر سکیں تو بہت زیادہ ڈپریشن میں چلے جانا۔

اسپرگرز بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ وہ قدم قدم پر دوسروں کی بے رخی، سرد مہری اور اکثر ذلت آمیز رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد باوجود ذہین ہونے کے انہیں ملازمت حاصل کرنے اور پھر اس پر دیر تک ٹکے رہنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بڑی تعداد میں اسپرگرز کی بے روزگاری کی وجہ ان کی کام نہ کرنے کی صلاحیت نہیں بلکہ اپنے ساتھی ورکرز کی توقعات پر پورا نہ اترسکنا ہوتی ہے۔ روز مرہ گفتگو میں ہم بولنے سے پہلے قدرتی طور پر سامنے والے کے احساسات کو ذہن میں رکھ کر بولتے ہیں۔ قدرت نے ہما رے دماغ میں ایک فلٹر یا چھلنی نصب کی ہوئی ہے، ہما ری اولین سوچ اس چھلنی میں جا کر مناسب الفاظ کا لباس پہن کر منہ سے نکلتی ہے لیکن اسپرگرز کی وہ چھلنی نہیں ہوتی، ان کی سو چ جوں کی توں اپنی اصلی حالت میں باہر آجاتی ہے جو دوسرے لوگوں کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپرگرز دوست نہیں بنا پاتے۔ اسپرگرز دوسرے کی جگہ پر جا کر سوچنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔

ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہوتی ہے، اگر کوئی شخص موٹا ہے تو وہ اسے موٹا ہی کہیں گے، اچھی صحت والا نہیں کہیں گے۔ لطیفہ، مذاق، یا طنز اسپرگرز کے سر پر سے گزر جاتا ہے بلکہ وہ جواب میں کچھ ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو سننے والے کو ناگوار گزرے کیونکہ ایسے لوگ دوسرے کا چہرہ اور دماغ پڑھنے سے قاصر ہوتے ہیں، والدین کو اکثر اسپرگرز بچے کی وجہ سے دوسروں کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ لفٹ میں جاتے ہوئے بارہ سالہ لڑکا ہمسائیوں کے کتے کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے کتنی بد بو آتی ہے! کچھ تو کتے میں بد بو تھی لیکن چونکہ اسپرگرز کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اس لئے اسے وہ کئی گنا زیادہ ہوکر محسوس ہوئی اور اوپر سے وہ اپنے دل میں گزرنے والے خیالات کو کنٹرول نہیں کرپاتے۔ ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ اسپرگرز کے دل میں وہ مطلب نہیں ہوتا جو اس کے لفظوں سے نکلتا ہے، اس کی مثال جان ایلڈر اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں: ''میری ماں نے اپنی سہیلی بیٹسی کو دعوت دی، وہ ہما رے گھر آئی،وہ دونوں بیٹھی چائے پی رہی تھیں اور ساتھ گپ شپ کر رہی تھیں، میں کچھ فاصلے پر بیٹھا کھیل رہا تھا، بیٹسی نے میری والدہ سے کہا:' تم نے ایک بری خبر سنی؟' میری والدہ نے کہا:' نہیں تو' اس نے بتایا کہ مسٹر اور مسز پارکر کا بیٹا ٹرین کے نیچے آکر مرگیا، وہ پٹری پرکھیل رہا تھا کہ اچانک ٹرین آ گئی اور وہ موقع پر ہی مر گیا۔''


میں اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔ بیٹسی نے مڑ کر شدید حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی:' تمہارے خیال میں یہ کوئی ہنسنے کی بات تھی؟' مجھے کچھ شرمندگی اور اپنی بے عزتی محسوس ہوئی یا نہیں؟ ''میرا خیال ہے کہ 'نہیں'' میں نے کافی خفت سے کہا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کہوں لیکن اتنا احساس تھا کہ میرا مسکرانا ان کو اور میری والدہ کو بہت برا لگا ہے۔ میں نے سنا بیٹسی میری والدہ سے کہہ رہی تھی کہ تمہارے بیٹے کو کیا مسئلہ ہے؟بعد میں مجھے ماں سے بھی ڈانٹ پڑی جو اکثر ایسے مواقع پر لازمی پڑا کرتی تھی۔ بہت برسوں بعد جب مجھے شعور آیا تو میں نے اپنے دماغ کو ٹٹولا کہ میں کیوں اس وقت لڑکے کی فوتگی کا سن کر اتنا کھل کر مسکرایا تھا تو مجھے پتا چلا کہ میرے دماغ کی سوچ کا عمل بہت مختلف تھا میرا ذہن اس لڑکے کی طرف تھا ہی نہیں، میں کئی سوچوں میں گھرا ہوا تھا مثلاً شکر ہے کہ وہ لڑکا میں نہیں تھا، اچھا ہے کہ میں پٹڑی پر نہیں کھیلتا، میں خوش ہوں کہ میرے سارے دوست ٹھیک ہیں، میرا بھائی بھی ٹھیک اور سلامت ہے۔ ان ساری سوچوں کے بعد میں ایک احساس طمانیت سے کھل کر مسکرایا کہ جن سے میرا تعلق ہے وہ خیریت ہیں۔ آج بھی میں اپنے چاہنے والوں کی خیریت پر ایسے ہی اطمینان محسوس کروں گا لیکن اب فرق یہ ہے کہ مجھے اندرونی محسوسات کو کنٹرول کرنا آگیا ہے۔

علاج

سب سے پہلے والدین کا بچے کے مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ آگاہی آدھا علاج ہے۔ جس قدر کم عمری میں علاج شروع کردیا جائے اتنا ہی بچے کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے، والدین اگر تھرا پیز نہ بھی کرا سکیں تو بچے کے محسوسات اور مخصوص ضروریات کو سمجھتے ہوئے کافی حد تک اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو ہر بچے کی علامات ، اور مزاج مختلف ہوتا ہے اس لئے ایک کا علاج دوسرے کے لئے مفید نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ڈاکٹرز کو بچے کی تفصیلی تشخیص کرنی پڑتی ہے۔

٭سماجی رویے کی تھرا پی

اس میں لوگوں سے میل جول کے مروجہ طریقوں کی مختصر فلموں ، خاکوں اور باتوں کے ذریعے بچوں کو نارمل اور ابنارمل رویے کا فرق سمجھایا جاتا ہے تاکہ اسے دوست بنانے اور تعلق نبھانے آسکیں۔

٭زبان اور الفاظ کے چناؤ کی تھرا پی

اسپرگرز اپنے ذہن میں دوڑنے والے خیالات کو کسی بھی سوال کے جواب کے طور پر بیان کردیتے ہیں۔ زبان کی تھرا پی کے دوران انہیں حقیقی دنیا کے سوالات کے جوابات دینے کی پریکٹس کروائی جاتی ہے کہ ملاقات کے آغاز میں سلام کرتے ہیں ،کوئی سلام کرے تو 'وعلیکم السلام' کہنا ہے۔ کوئی حال پوچھے تو شاپنگ کی لسٹ نہیں بتانی بلکہ یہ کہنا ہے کہ میں ٹھیک ہوں۔ گفتگو شروع کیسے کرنی ہے اور دوسرے کی بات ختم ہونے کے بعد اپنی بات کی جائے اور گفتگو کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ اس کے علاوہ اونچی اور زیادہ نیچی آواز کا کنٹرول کرتے ہوئے آواز کو یکساں ٹون میں کیسے رکھنا ہے۔

٭ذہنی اور دماغی تربیت

اس میں اسپرگرز کو جذباتی ٹھہراؤ کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ اپنے غصے، دکھ اور جوش کی حالت کو قابو میں رکھنا سیکھیں اور دہرائی ہوئی باتوں اور کاموں کو نہ دہرائیں۔

٭والدین کی تربیت

اسپرگرز بچوں کے والدین کی تربیت بہت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ بچے کی اضافی ضروریات پر نظر رکھ سکیں۔ بچے کے دماغ کی بناوٹ اور مرض کو پوری طرح سمجھیں بغیر والدین بچوں کی مدد نہیں کر سکتے۔ بچے سے اس کے محسوسات پوچھیں اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تین سال کے بچے کو اسپرگرز کے طور پر تشخیص کر لیا جاتا ہے۔ اسپرگرز کوئی بیماری نہیں بلکہ دماغ کا مختلف ہونا ہے جس کا کوئی علاج نہیں صرف معاشرے کو اس کا شعور ہی اس کا علاج ہے۔
Load Next Story