تاج ایڈووکیٹ کی خدمات

ایک روز جلد آنے والا ہے کہ قتل و غارت گری اور جنگ کا خاتمہ ہو گا اور یہ تب ہو گا جب دنیا کی سرحدیں ختم ہو جائیں گی۔

zb0322-2284142@gmail.com

محمد تاج ایڈووکیٹ آج سے 35 سال قبل 3 اکتوبر 1983ء میں جنرل ضیا الحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں شہید ہوئے۔ رجعتی اور سامراجی آلہ کاروں نے دیر میں انھیں کلاشنکوف کی گولیوں سے ایک بس میں سفر کے دوران شہید کیا۔ تاج ایڈووکیٹ ضلع دیر، خیبرپختونخوا میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و روزگار کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فیملی پلاننگ کے محکمے میں ملازمت شروع کر دی۔

وہ اپنی ملازمت کے اوقات کے علاوہ علاقے میں کسی کے بھی بلاوے پر اس کے گھر پہنچ کر مریض کا مفت علاج کرتے تھے۔ اس سماجی خدمت کی وجہ سے وہ اپنے علاقے فرنٹیئر کالونی، پٹھان کالونی، اورنگی ٹائون، پیرآباد اور قصبہ کالونی میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔ بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں سے ملاقات ہوئی ، پھر کمیونسٹ ادب پڑھ کر بہت متاثر ہو کر پارٹی کے کارکن بن گئے۔

کراچی میں ان کے ساتھ ہمہ وقت کام کرنے والوں میں سب سے زیادہ عزیزالرحمن، تاج پشاوری اور عبدالہادی کاتب ہوا کرتے تھے۔ ان کا گھر، جرگہ اور اورنگی ٹائون، قذافی چوک میں تجمل حسین کا گھر ان کی بیٹھک کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون کے شعبہ میں ماسٹرز کیا اور وکالت بھی کی۔ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں اور شعور کی بلندیوں کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کراچی کے سیاسی محاذ کے سربراہ بن گئے۔

پارٹی کے سیاسی محاذ کے سیل میں تاج کے علاوہ عزیزالرحمن، عبدالوحید، راقم اور کراچی کے پارٹی رہنما نواز بٹ اور جاوید شکور ہوا کرتے تھے، جب کہ ہم سب کے رہنما پروفیسر جمال نقوی ہوتے تھے۔ نواز بٹ نے اپنے گھر سے متصل ایک کمرہ شو مارکیٹ میں ہمیں مفت دے رکھا تھا، جو مزدور، طلبا، کسان عوامی رابطہ کمیٹی کا دفتر تھا ، پارٹی کے سیاسی محاذ کے سیل کا اجلاس نواز بٹ کے گھر پر ہوتا تھا۔ ہر چند کہ نواز بٹ کے والد مسلم لیگی اور جوتے کی فیکٹری کے مالک تھے، مگر نواز بٹ اپنے باپ کے بھی باغی بن گئے تھے۔

تاج ایڈووکیٹ لحیم شحیم اور بہت رعب داب والے انسان بظاہر نظر آتے تھے لیکن ساتھیوں اور محنت کشوں سے ان کا برتائو انتہائی انکساری، خوش مزاجی اور خلوص کا ہوتا تھا۔ وقت کے پابند، بہادر اور اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ چونکہ تاج کے ساتھ میں نے برسوں کام کیا اس لیے کچھ قابل ذکر یادیں ہمیشہ ستاتی ہیں۔

فرنٹیئر کالونی میں لوگوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک تنظیم بنائی تھی، جس کا نام تھا ''پختون جرگہ'' تاج بھی اس کے رکن تھے۔ تاج ایڈووکیٹ نے ایک اجلاس میں یہ تجویز رکھی کہ ہم سب مزدور ہیں، ہمارے مسائل بھی ایک ہیں، پھر اس کا نام پختون جرگہ کیوں؟ انھوں نے اس کا نام مزدور جرگہ رکھنے کی تجویز دی، جسے سب نے منظور کر لیا۔ آج بھی یہ ادارہ قائم ہے۔

ایک بار مزدور طلبا کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے تحت بنارس چوک (موجودہ باچا خان چوک) پر مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ایک مظاہرہ تھا۔ مظاہرے کے دوران ایک بھیجا ہوا سرکاری کارندہ مظاہرے کے خلاف چیخ کر کہنے لگا کہ اس مظاہرے میں شریک نہ ہوں، یہ کمیونسٹ ہیں۔ تاج فوراً دوڑے گئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مجمع سے دھکا دے کر نکال دیا۔ اس دوران اس کا چشمہ کہیں گر پڑا۔ پشتو میں کیا بولے، یہ تو سمجھ میں نہیں آیا مگر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ انھوں نے اس سے یہ کہا کہ چشمہ اٹھا کر یہاں سے دفاع ہو جائو۔


کچھ دیر بعد کسی سرکاری ایجنٹ نے کہا کہ اب مظاہرہ ہوا تو ہم آصفہ رضوی ایڈووکیٹ (جو اب اس دنیا میں نہیں رہیں) کو اغوا کر لیں گے۔ اس پر ہمارے مظاہرے میں شریک ایک سینئر مزدور رہنما عبدالمجید نے اعلان کیا کہ کل شام چار بجے اسی جگہ پر پھر مظاہرہ ہو گا اور آصفہ رضوی بھی آئیں گی۔

بعد ازاں اس روز سے بھی زیادہ آب و تاب سے مظاہرہ ہوا اور کسی کی چوں تک کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ان دنوں افغانستان میں حفیظ اللہ امین کی حکومت تھی اور پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت۔ افغانستان سے پشتو میں خلق پارٹی کا ترجمان ''خلق'' نامی اخبار پاکستان میں آیا کرتا تھا۔ ہم اسے مارشل لاء کی سختی کی وجہ سے رات کو پختون بستیوں میں گھروں میں ڈالا کرتے تھے۔

اس پر اسلام آباد میں کونسلوں کی کانفرنس میں اس وقت کے کراچی کے میئر عبدالستار افغانی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ غیر ملکی ایجنٹ کراچی میں رات کے اندھیرے میں چوہے کے بلوں سے غیر ملکی اخبار بانٹتے ہیں۔ گھروں میں خلق اخبار بانٹنے میں تاج ایڈووکیٹ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ میئر کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے سر پر امریکی افغان ڈالر جہاد کس حد تک سوار تھا۔ تاج اور میں نے نیپ، این ڈی پی، این ڈی پی پروگریسو، این پی پی، قومی انقلابی پارٹی اور اے این پی میں ساتھ سرگرمی کی۔ تاج این ڈی پی پروگریسو، این پی پی اور قومی انقلابی پارٹی کراچی کے آرگنائزر بھی رہے۔

بعد ازاں وہ کراچی سے دیر، خیبرپختونخوا منتقل ہوگئے، یعنی اپنے آبائی علاقے میں چلے گئے۔ وہاں بھی جاکر چین سے نہ بیٹھے، لوگوں کا مفت علاج کرتے اور غریب لوگوں کا مفت مقدمہ لڑتے تھے۔ انھوں نے اپنے گائوں سے (جو کہ پہاڑی پر ہے) نیچے تک محلے کے لوگوں کو ساتھ لے کر اپنی مدد آپ کی بنیاد پر سڑک تعمیر کی اور علاقے میں ہر دلعزیز کے طور پر مقبول ہورہے تھے۔ ایسا ماحول بن چکا تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لیتے تو مخالف جماعت کو شکست دے سکتے تھے۔ اس خوفزدگی سے گھبرا کر رجعتی اور سامراجی ٹکڑوں پر پلنے والوں نے تاج ایڈووکیٹ کو سفر کے دوران کلاشنکوف سے متعدد گولیاں برسا کر شہید کر دیا۔ تاج ایڈووکیٹ کی شہادت پر ایک شعر یاد آتا ہے کہ

چھو رہے تھے ظالموں کے سر میرے ان پائوں کے ساتھ

کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد

حکمرانوں نے یہ سمجھا تھا کہ کمیونسٹ رہنمائوں کو مارنے سے اب مزدوروں، کسانوں اور محنت کش عوام کی تحریک ختم ہوجائے گی، یہ ان کی بھول تھی۔ آج برطانیہ لیبر پارٹی کی حزب اختلاف کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کوربون فلسطینیوں کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں اور آیندہ انتخابات میں جیتنے کا قوی امکان ہے۔ اسی طرح 2020ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز مقابلہ کرنے جا رہے ہیں اور ان کا بھی جیتنے کا مکمل امکان ہے۔

بہرحال ایک روز جلد آنے والا ہے کہ قتل و غارت گری اور جنگ کا خاتمہ ہو گا اور یہ تب ہو گا جب دنیا کی سرحدیں ختم ہو جائیں گی، غیر طبقاتی نظام ختم ہو کر ایک کمیونسٹ سماج کا قیام عمل میں آئے گا۔ جہاں کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔
Load Next Story