کامیابی مگر کیسے
دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ڈوب کر پھر ابھر آئے، تباہی کے کنارے پہنچ کر پھر سنبھلے۔
ہماری موجودہ حکومت '' تبدیلی کا بگل'' بجاتی ہوئی برسر اقتدار آئی ہے۔ وہ نہ صرف تبدیلی کی خواہاں ہے بلکہ واقعی پورے ملک ومعاشرے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو ناممکن سمجھا جائے، مگر پی ٹی آئی کے بعض مخالفین ابھی تک حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر گامزن ہیں ، لہٰذا وہ حکومت کے جانے کی تاریخیں دے رہے ہیں ۔کسی کا خیال ہے چھ ماہ بھی بمشکل چل سکیں گے توکوئی ایک سال تک نوید سنا رہا ہے۔
ایک دانشورکا فرمانا ہے کہ کسی کو امید نہ تھی کہ یہ حکومت دس دن میں ہی اس قدر پھنس جائے گی لیکن خان صاحب اپنی ہی کہی ہوئی باتوں میں پھنس گئے ہیں، مگر صدارتی انتخاب میں حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں کی کارکردگی بھی ایسے بقراطوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں۔ اگر حالات سے سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں ہے توکیا ذرا دیر کے لیے اپنی ذاتی رنجشیں اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک صدارتی امیدوار پر متفق نہیں ہو سکتے تھے، اگر ہو جاتے تو باآسانی اپنا صدر منتخب کرا سکتے تھے یوں پورا میدان ایک ہی پارٹی کے حوالے نہ ہوتا، مگر وہاں تو اقتدار میں کچھ کارکردگی دکھا سکے نہ اب اچھی حزب اختلاف کا کردار ادا کر پا رہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی '' تبدیلی'' کی، اگرچہ برسوں سے سیاستدانوں کے ڈسے ہوئے عوام ابھی تک مطمئن نہیں ہوئے اور بے اعتباری کی فضا قائم ہے کہ موجودہ حکومت بھی بس زبانی کلامی ہی ''تبدیلی'' کا شور مچا رہی ہے، عملاً یہ بھی کچھ نہیں کر پائے گی ۔ اس کی وجہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت اور موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری ایسے اندیشے پیدا کر رہی ہے، مگر عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی بار مسند اقتدار پر برا جمان ہونے والے بھی بے حد تجربہ کار سیاسی داؤ پیچ سمجھنے اور آزمانے والوں نے کون سا تیر مار لیا۔
ملک کی موجودہ ابتر حالت کے ذمے دار بھی تو وہی ہیں جوکہتے تھے کہ ہمارا فیصلہ تو عوام کی عدالت کرے گی ۔ جب اقتدار میں تھے تو عوام کے وجود ہی کے قائل نہ تھے بقول شخصے عوام کیا کیڑے مکوڑے تھے جن کو اقتدار کے پاؤں تلے کچل دیا جاتا تھا۔ وطن عزیز کو آخر کیا مرض لاحق ہے اس کا کسی کو کسی وقت بھی احساس نہ ہوا اور ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' جب کہ یہی کیڑے مکوڑے جانتے تھے کہ وطن عزیزکوکرپشن کا مرض لاحق ہے جو اندر ہی اندر اس کوگھن کی طرح چاٹ رہا ہے لہٰذا انھوں نے ردعمل ظاہر کر دیا۔
71 برس سے ملک خداداد کو کوئی مسیحا نصیب نہ ہوا کہ وہ مریض کا شافی علاج کرتا، ہر شعبہ زندگی کو زندہ درگور ہونے سے بچاتا اور ازسر نو صحت و تندرستی بحال کرتا، مگر اب جب کہ موجودہ حکمران جماعت ملک کو سنوارنے، کرپشن سے پاک کرنے بلکہ ''نیا پاکستان'' بنانے کا عزم رکھتی ہے تو پھر تمام شعبہ ہائے زندگی سے طرز کہن کو مٹا کر آئین نو رائج کرنا ہو گا۔ جیساکہ پہلے لکھا ہے کہ یہ ناممکن تو نہیں کام کوئی مشکل نہیں ہوتا اگر کرنے کی ہمت و جرأت اور عزم راسخ ہو تو راستے کی تمام رکاوٹیں و مشکلات دور اور آسان ہوتی جاتی ہیں جب کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو شہرکو صاف رکھنا بھی بہت مشکل کام قرار پاتا ہے۔
بہرحال اب اگر کسی کی مرضی کے خلاف کوئی تیسری جماعت برسر اقتدار آگئی ہے، تو اس کو جلد ازجلد ''چلتا کرنے'' کے بجائے تھوڑی سی مزید زحمت کر کے اس کے ساتھ تعاون کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ برسوں سے آنکھوں میں چبھتے ہوئے خواب تعبیر آشنا ہو جائیں۔
دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ڈوب کر پھر ابھر آئے، تباہی کے کنارے پہنچ کر پھر سنبھلے اور اب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں تو کیا ہم بالکل ہی گئے گزرے ہیں کہ اتنے برسوں اور اتنے حادثوں کے بعد بھی سنبھال نہ پائیں۔ یوں تو حکومت وقت اپنے منصوبے بنا رہی ہے، اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر عوام میں اگر کسی کے بھی ذہن میں کوئی ایسی بات ہو جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو تو اس کا اظہارکر دینا چاہیے اگر حکمرانوں کو پسند آ جائے، قابل عمل ہو تو اس کو اختیارکر کے وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے راستے کو ہموار کر سکتی ہے۔
ایسی ہی ایک رائے یہ بھی ہے کہ تمام نااہل، سفارشی، جاگیرداروں، وڈیروں، صاحبان اقتدار اور اعلیٰ مناصب پر فائز عہدہ داروں کے چہیتے ہٹا کر لائق ہنرمند باصلاحیت افراد کو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر چاہیے وہ کسی ٹرک ڈرائیور کا فرزند ہو یا کسی چپراسی کا نور نظر اپنی پارٹی کا ہو یا کسی اور پارٹی کا اگر اس میں اہلیت ہے تو فوراً اس کی لیاقت سے استفادہ کیا جائے اور اس کو اپنی کارکردگی دکھانے اور ہنر آزمانے کا موقعہ دیا جائے ۔
ماضی کی اقربا پروری ، سیاسی، لسانی یا علاقائی تعصب کی بیخ کنی ضروری ہے تمام اداروں کو بحال کرنے کے لیے ملک بھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائق محنتی باصلاحیت افراد کو بلا سفارش و رشوت (کیونکہ رشوت کے خاتمے کے نعرے پر ہی تو آپ برسر اقتدار آئے ہیں) ان کے ہنرولیاقت کے مطابق کام پر لگایا جائے تو چند ماہ نہ سہی سال بھر میں تمام حالات درست ہو سکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے دنیا کی مانی ہوئی ایئرلائن تھی مگر نااہل افراد کی سفارشی بھرتیوں نے آج اس کو تباہی سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے عروج کے زمانے کے عملے کا جائزہ لیا جائے وہی خصوصیات اب بھی تلاش سے مل جائیں گی۔ بہت سے باصلاحیت نوجوان ملک سے باہر جا کر دوسرے ممالک کی ترقی کا حصہ بن رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ہنر صلاحیت تعلیم سب کچھ ہے مگر نہ رشوت دینے کے لیے دولت ہے اور نہ کسی بڑے کی سفارش لہٰذا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے وطن اور عزیز و اقارب سے دور پردیس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اب بھی بہت سے نوجوان تلاش معاش میں سرگرداں ہیں خدارا ان کو دوسرے ممالک کے بجائے اپنے ملک کو سنوارنے، بنانے کے لیے مواقعے فراہم کیجیے۔ایک بار ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا تو آپ کا کام آسان اور اقتدار مستحکم ہو جائے گا اور کروڑوں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا۔
بس ذرا دل بڑا کرنا ہو گا، اہلیت تلاش کیجیے ''اپنے پرائے'' کی فکر چھوڑ کر سندھ میں کوٹہ سسٹم کی مدت کئی بار بڑھ کر بھی ختم ہوئے عرصہ ہو گیا ہے مگر آج بھی شہری نوجوان تعلیم و صلاحیت کے باوجود بیروزگار ہیں جب کہ دیہی علاقوں کے غیر ہنرمند اورکم تعلیم کے باوجود اچھے عہدوں پر براجمان ہیں اور تمام اداروں کو تباہ و ناکارہ بنا رہے ہیں ۔ اس صورتحال کا واحد حل ''میرٹ'' کے سوا کچھ اور نہیں۔
ایک دانشورکا فرمانا ہے کہ کسی کو امید نہ تھی کہ یہ حکومت دس دن میں ہی اس قدر پھنس جائے گی لیکن خان صاحب اپنی ہی کہی ہوئی باتوں میں پھنس گئے ہیں، مگر صدارتی انتخاب میں حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں کی کارکردگی بھی ایسے بقراطوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں۔ اگر حالات سے سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں ہے توکیا ذرا دیر کے لیے اپنی ذاتی رنجشیں اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک صدارتی امیدوار پر متفق نہیں ہو سکتے تھے، اگر ہو جاتے تو باآسانی اپنا صدر منتخب کرا سکتے تھے یوں پورا میدان ایک ہی پارٹی کے حوالے نہ ہوتا، مگر وہاں تو اقتدار میں کچھ کارکردگی دکھا سکے نہ اب اچھی حزب اختلاف کا کردار ادا کر پا رہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی '' تبدیلی'' کی، اگرچہ برسوں سے سیاستدانوں کے ڈسے ہوئے عوام ابھی تک مطمئن نہیں ہوئے اور بے اعتباری کی فضا قائم ہے کہ موجودہ حکومت بھی بس زبانی کلامی ہی ''تبدیلی'' کا شور مچا رہی ہے، عملاً یہ بھی کچھ نہیں کر پائے گی ۔ اس کی وجہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت اور موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری ایسے اندیشے پیدا کر رہی ہے، مگر عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی بار مسند اقتدار پر برا جمان ہونے والے بھی بے حد تجربہ کار سیاسی داؤ پیچ سمجھنے اور آزمانے والوں نے کون سا تیر مار لیا۔
ملک کی موجودہ ابتر حالت کے ذمے دار بھی تو وہی ہیں جوکہتے تھے کہ ہمارا فیصلہ تو عوام کی عدالت کرے گی ۔ جب اقتدار میں تھے تو عوام کے وجود ہی کے قائل نہ تھے بقول شخصے عوام کیا کیڑے مکوڑے تھے جن کو اقتدار کے پاؤں تلے کچل دیا جاتا تھا۔ وطن عزیز کو آخر کیا مرض لاحق ہے اس کا کسی کو کسی وقت بھی احساس نہ ہوا اور ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' جب کہ یہی کیڑے مکوڑے جانتے تھے کہ وطن عزیزکوکرپشن کا مرض لاحق ہے جو اندر ہی اندر اس کوگھن کی طرح چاٹ رہا ہے لہٰذا انھوں نے ردعمل ظاہر کر دیا۔
71 برس سے ملک خداداد کو کوئی مسیحا نصیب نہ ہوا کہ وہ مریض کا شافی علاج کرتا، ہر شعبہ زندگی کو زندہ درگور ہونے سے بچاتا اور ازسر نو صحت و تندرستی بحال کرتا، مگر اب جب کہ موجودہ حکمران جماعت ملک کو سنوارنے، کرپشن سے پاک کرنے بلکہ ''نیا پاکستان'' بنانے کا عزم رکھتی ہے تو پھر تمام شعبہ ہائے زندگی سے طرز کہن کو مٹا کر آئین نو رائج کرنا ہو گا۔ جیساکہ پہلے لکھا ہے کہ یہ ناممکن تو نہیں کام کوئی مشکل نہیں ہوتا اگر کرنے کی ہمت و جرأت اور عزم راسخ ہو تو راستے کی تمام رکاوٹیں و مشکلات دور اور آسان ہوتی جاتی ہیں جب کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو شہرکو صاف رکھنا بھی بہت مشکل کام قرار پاتا ہے۔
بہرحال اب اگر کسی کی مرضی کے خلاف کوئی تیسری جماعت برسر اقتدار آگئی ہے، تو اس کو جلد ازجلد ''چلتا کرنے'' کے بجائے تھوڑی سی مزید زحمت کر کے اس کے ساتھ تعاون کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ برسوں سے آنکھوں میں چبھتے ہوئے خواب تعبیر آشنا ہو جائیں۔
دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ڈوب کر پھر ابھر آئے، تباہی کے کنارے پہنچ کر پھر سنبھلے اور اب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں تو کیا ہم بالکل ہی گئے گزرے ہیں کہ اتنے برسوں اور اتنے حادثوں کے بعد بھی سنبھال نہ پائیں۔ یوں تو حکومت وقت اپنے منصوبے بنا رہی ہے، اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر عوام میں اگر کسی کے بھی ذہن میں کوئی ایسی بات ہو جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو تو اس کا اظہارکر دینا چاہیے اگر حکمرانوں کو پسند آ جائے، قابل عمل ہو تو اس کو اختیارکر کے وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے راستے کو ہموار کر سکتی ہے۔
ایسی ہی ایک رائے یہ بھی ہے کہ تمام نااہل، سفارشی، جاگیرداروں، وڈیروں، صاحبان اقتدار اور اعلیٰ مناصب پر فائز عہدہ داروں کے چہیتے ہٹا کر لائق ہنرمند باصلاحیت افراد کو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر چاہیے وہ کسی ٹرک ڈرائیور کا فرزند ہو یا کسی چپراسی کا نور نظر اپنی پارٹی کا ہو یا کسی اور پارٹی کا اگر اس میں اہلیت ہے تو فوراً اس کی لیاقت سے استفادہ کیا جائے اور اس کو اپنی کارکردگی دکھانے اور ہنر آزمانے کا موقعہ دیا جائے ۔
ماضی کی اقربا پروری ، سیاسی، لسانی یا علاقائی تعصب کی بیخ کنی ضروری ہے تمام اداروں کو بحال کرنے کے لیے ملک بھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائق محنتی باصلاحیت افراد کو بلا سفارش و رشوت (کیونکہ رشوت کے خاتمے کے نعرے پر ہی تو آپ برسر اقتدار آئے ہیں) ان کے ہنرولیاقت کے مطابق کام پر لگایا جائے تو چند ماہ نہ سہی سال بھر میں تمام حالات درست ہو سکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے دنیا کی مانی ہوئی ایئرلائن تھی مگر نااہل افراد کی سفارشی بھرتیوں نے آج اس کو تباہی سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے عروج کے زمانے کے عملے کا جائزہ لیا جائے وہی خصوصیات اب بھی تلاش سے مل جائیں گی۔ بہت سے باصلاحیت نوجوان ملک سے باہر جا کر دوسرے ممالک کی ترقی کا حصہ بن رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ہنر صلاحیت تعلیم سب کچھ ہے مگر نہ رشوت دینے کے لیے دولت ہے اور نہ کسی بڑے کی سفارش لہٰذا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے وطن اور عزیز و اقارب سے دور پردیس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اب بھی بہت سے نوجوان تلاش معاش میں سرگرداں ہیں خدارا ان کو دوسرے ممالک کے بجائے اپنے ملک کو سنوارنے، بنانے کے لیے مواقعے فراہم کیجیے۔ایک بار ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا تو آپ کا کام آسان اور اقتدار مستحکم ہو جائے گا اور کروڑوں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا۔
بس ذرا دل بڑا کرنا ہو گا، اہلیت تلاش کیجیے ''اپنے پرائے'' کی فکر چھوڑ کر سندھ میں کوٹہ سسٹم کی مدت کئی بار بڑھ کر بھی ختم ہوئے عرصہ ہو گیا ہے مگر آج بھی شہری نوجوان تعلیم و صلاحیت کے باوجود بیروزگار ہیں جب کہ دیہی علاقوں کے غیر ہنرمند اورکم تعلیم کے باوجود اچھے عہدوں پر براجمان ہیں اور تمام اداروں کو تباہ و ناکارہ بنا رہے ہیں ۔ اس صورتحال کا واحد حل ''میرٹ'' کے سوا کچھ اور نہیں۔