ہر مشکل کے بعد آسانی

حکومت کو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے کڑوے گھونٹ بھرنے پڑیں گے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

عام انتخابات میں ہمارے بڑے لیڈر جو کہ ایک سے زائد نشستوں سے منتخب ہوئے تھے اب ان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کا مرحلہ ضمنی الیکشن کی صورت میں اسی ماہ منعقد ہو رہا ہے۔ ضمنی انتخابات سے قبل ہی ایک سابق وزیر اپنے پارٹی لیڈر کی خواہش زبان پر لے آیا کہ ان کے معاملات طے ہو چکے ہیں اور دو ماہ بعد پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہو گی ۔

اس بیان کے بعد سابق وزیر موصوف دوسرے سیاستدانوں کی طرح اس سے مکر گئے مگر اس بیان سے ان کو لینے کے دینے پڑ گئے یعنی وہی ہوا جو اقتدار کے ایوانوں کا دستور ہے کہ استعمال کرو اور پھینک دو ۔ اس سابقہ وزیر موصوف نے بھی اپنی خواہش کو بیان کیا اور پھر اس بیان کے سیاق و سباق سے مکر بھی گیا لیکن اس کی پارٹی مسلم لیگ نواز بھی اس سے لاتعلق ہوگئی جب کہ فوجی ترجمان کو بھی یہ کہنا پڑ گیا کہ لیگی رہنماء کا بیان ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔

فوجی ترجمان نے دراصل ملک میںلیگی رہنماء کے بیان سے افواہوں کے گرم ہونے والے بازار پر مٹی ڈال دی ہے اور خواہشوں کے اسیروں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اپنی باری کا انتظار کریں حکومت اور اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے سے گریز کریں۔

ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جس کا اپنے ہی قومی اداروں پر غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا اور وہ موقع کی تلاش میں ہی رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ حملہ کر گزریں، ایسے کئی حملے وہ پہلے بھی کر چکے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اداروں میں ابھی تک ذی شعور لوگ موجود ہیں جو اس ملک دشمن طبقے کے ارشادات اورخواہشات کوخاطر میں لائے بغیر اپنا کام کیے جارہے ہیں انھی لوگوں کی وجہ سے ملک چل رہا ہے اور ہم ایک آزاد ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے تو ملک کو اکٹھا رکھنے کے بجائے اس کو دولخت کرنے میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کیا جس کی سزا کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔

کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے معاملات ویسے نہیں چل رہے اور یہ کچھ لوگ وہی ہیں جن کو حکومت کی شدید خواہش ہے ان کے خیال اور توقعات کے مطابق پنجاب کے معاملات ایسے ہی چلنا چاہیے تھے جیسے گزشتہ ایک دہائی سے چل رہے تھے دراصل ہم ایک ہی طرح کی طرز حکمرانی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے آپ کو اس خول سے نکالنا ہی نہیں چاہ رہے اس لیے تنقید بھی جاری ہے اور حکومت کی نوزائیدگی کا ذکر بھی ہوتا رہتا ہے ۔


عوام تو عوام ہیں جن کا کام ہی حکومت کے احکام کو برداشت کرنا ہے اور وہ ان احکام کو بجا لانے میں ہمیشہ تعاون کرتے آئے ہیں لیکن ایک طبقہ اشرافیہ کا بھی ہے جس کا کام آرام دہ ڈرائنگ روموں کے دبیز صوفوں پر بیٹھ کر صرف اور صرف تنقیدکرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی دانشوری جھاڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے ۔ ہر نیا حکمران اور حکومت ان کے نشانے پر رہتی ہے اور ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ حکومت کو ایسے چلنا چاہیے جیسا یہ اشرافی طبقہ چاہتا ہے اگر اس کے برخلاف حکومت کی سمت ہو تو وہ حکومت ناکامی کی سمت جا رہی ہوتی ہے بہر حال ان دانشوروں کی دانشورانہ باتیں بھی جاری رہتی ہیں اور حکومت کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔

حکومت کی تبدیلی کی اطلاع عوام کو تب ہی ملتی ہے جب نیا آنے والا حکمران ان کے لیے کچھ سہولت پیدا کرتا ہے فی الحال اگر دیکھاجائے تو تحریک انصاف کی حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے اور یہ دباؤ عوامی ہے، حکومت کو اپوزیشن سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ اپوزیشن میں وہی لوگ موجود ہیں جو گزشتہ ستر سالوں سے اس ملک کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے تھے لیکن انھوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا اس لیے ان کا دباؤ موجودہ حکومت خاطر میں نہیں لاتی۔

ہاں عوامی دباؤ کی اگر بات کی جائے تو وہ بہت زیادہ ہے اسی لیے ابھی تک حکومت چاہنے کے باوجود عوامی استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کر رہی ہے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ یہ گریز وقتی ہے حکومت طویل مدت کے لیے اس اہم معاملے کو ٹال نہیں سکتی کیونکہ حکومت کے زیادہ تر محاصل کا دارومدار بلوں کی وصولی سے ہی ہوتا ہے اور ان اشیا کے بین الاقوامی منڈی میں نرخ بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کا بوجھ ملکی خزانے پر پڑ رہا ہے بہرحال دیکھتے ہیں کہ حکومت عوام کی کب تک سنتی ہے اور ان کا خیال رکھتی ہے ۔

حکومت کی تبدیلی کی اطلاع تو عوام کو مل چکی ہے حکومت کے کارندے یعنی وزیر وغیرہ ملک کی صورتحال سے پریشان ہیں لگتا یہ ہے کہ ان کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملک کے معاشی حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں اور قرضوں کی مصنوعی مے کے سہارے ملکی معیشت سانس لے رہی ہے جیسے ہی حکومت تبدیل ہوئی تو نئی حکومت نے قرضے نہ لینے کا اعلان تو کر دیا لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ اعلان ان کے گلے پڑ چکا ہے اوراب ملک چلانے کے لیے دیرینہ دوستوں پر بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے سعودی عرب اور چین پاکستان کی مدد کو ضرور آئیں گے ۔

فی الحال تو چین نے سی پیک کے منصوبوں پر نظر ثانی پر آمادگی ظاہر کی ہے اس نظر ثانی سے بھی ملک کو خاصی بچت ہو گی، ٹھیکیدار اور حکومت کے معاملات کا تو سب کو علم ہی ہے اور سی پیک کے یہ ٹھیکے گزشتہ دور میں دئے گئے تھے اگر ان پر نظر ثانی سے بچت ہو سکتی ہے تو ضرور کرنی چاہیے ۔

حکومت کو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے کڑوے گھونٹ بھرنے پڑیں گے اور ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کے یہ کڑوے گھونٹ عوام کو بھی بھرنے پڑیں، حکومت اور عوام ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن اگر حکمران کی نیت ٹھیک ہو تو یہ کڑوے گھونٹ شہد کے چمچوں میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن شہد کے چمچے پینے کے لیے ہمیں پہلے کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے ۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور اس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔
Load Next Story