بابا جی نے جیتے جی ہی مجھے قبر میں اتار دیا
’’وہ وہاں بھی نہ ملے تو کیا تم مجھے چھوڑ کے چلے جاؤگے۔۔۔ ؟‘‘
قسط15
بابا جی حضور انتہائی باکمال انسان تھے، انہوں نے مجھ جیسے غبی کو جو کچھ عنایت کیا اس کا تذکرہ محال ہے اور کیا بھی جائے تو اس سے کسی اور کا کیا لینا دینا، سو اسے رہنے دیتے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے زمین کی پشت سے اٹھا کر جیتے جی ہی زمین کے پیٹ میں اتار دیا تھا، انہوں نے ہی مجھے بتایا اور مشاہدہ بھی کرایا کہ یہ ہے زمین، دیالو زمین اور سب کے عیوب چھپا لینے والی زمین اور جب ہاں اپنے عزیز ترین رشتے ناتے والے بھی ہمیں قبول کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے انکاری ہوجائیں اور اصرار کریں کہ بس اب اسے جلد لے چلو اور سپرد خاک کردو، تو یہی دیالو زمین ہمیں اپنے اندر ہمارے عیوب سمیت پناہ دیتی ہے، ایسی سخی اور پردہ پوش زمین، اسی لیے تو خالق کائنات نے اس پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے۔
میں تو سدا کا لاابالی، آوارہ اور گم راہ ہوں، کل کیا ہوگا میں جانتا نہیں اور نہ ہی اس کا اشتیاق رہا کہ میرے لیے لمحۂ موجود ہی زندگی ہے، بس لمحۂ موجود۔ ایک دن میں کام پر چلا گیا، جب مغرب سے ذرا پہلے میں واپس ان کے پاس قبرستان پہنچا، کھانے پینے کا سامان میں روز لے کر آتا تھا، بابا جی اکیلے بیٹھے تھے۔ تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی تو میں نے پوچھا، کیا ہُوا بابا جی آج تو آپ اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی آیا نہیں کیا اور تھکے ہوئے بھی لگ رہے ہیں، تو مسکرائے اور کہا آئے تھے کچھ لوگ لیکن میں کہا آج نہیں کل ملوں گا۔ میں نے پوچھا خیریت تو تھی ناں، کیا طبیعت ناساز ہے آپ کی۔ تو کہنے لگے نہیں پگلے میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ مجھے پیار سے ہمیشہ پگلے ہی کہتے ہیں۔
تو پھر آخر سارا دن کیا کرتے رہے آپ؟ میں نے پوچھا۔ بس قبر کھود رہا تھا ناں، انہوں نے کہا۔ یہ کام کب سے شروع کردیا آپ نے، کس کی قبر اور گورکن کہاں چلا گیا، میں نے بے چینی سے پوچھا۔ تُو پگلا ہی رہے گا، گورکن تو مُردوں کی قبریں کھودتا ہے مجھے تو زندہ کی قبر کھودنا تھی ناں۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے تو میں ان کے سَر ہوگیا، کیا کہے جارہے ہیں، کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا مجھے، کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ۔ بہت عجلت میں ہے تُو پگلے! اب سُن! میں تیری قبر کھود رہا تھا بل کہ کھود کر تیار بھی کردی ہے اب اس میں بس تیری کمی ہے اور اسے تیرا انتظار، پکار رہی ہے تجھے کہ میرا انتظار ختم کردے اور آجا مجھے بھر دے۔
مجھے حیرت تو ہوئی اور حیرت کا تو میں عادی ہوگیا تھا، روز ہی کوئی ایسی بات ہوتی جو مجھے حیرت کے سمندر میں غوطے دیتی اور میں تھک ہار کر خاموش ہوجاتا۔ مجھے خاموش دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا: کیا ہوا پگلے، کیوں خاموش ہوگیا۔ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تو بس خاموشی ہی بھلی بابا جی حضور۔ اوہو اتنی جلدی ہے تجھے، تو چل بتاتا ہوں تجھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے، ہمارے ٹھکانے سے بس چند قدم پر ایک نئی قبر بنی ہوئی تھی، بالکل تازہ قبر کی طرح، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، پھر ارشاد فرمایا، لے پگلے دیکھ لے یہ ہے تیری قبر، اب تجھے یہیں رہنا ہوگا، زمین کی پشت پر تو بہت رہ لیا اب ذرا اس کے پیٹ میں بھی رہنا سیکھ۔ میں کبھی قبر اور کبھی انہیں دیکھنے لگا، کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا مجھے، آخر وہ بولے۔ چل کھانا کھائیں اور پھر تجھے دفنائیں۔ ہم نے کھانا کھایا اور پھر انہوں نے میرے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ کر کچھ پڑھنا شروع کیا اس کے بعد کھڑے ہوئے اور ایک ٹہنی سے میرے گرد دائرہ کھینچ دیا۔
اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑا اور اس تازہ قبر کے ساتھ ہی جو بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، اس میں داخل ہونے کا حکم صادر کیا، میں بغیر کوئی سوال کیے اس سوراخ سے قبر میں داخل ہوگیا۔ بابا جی کی آواز شفیق آواز گونجی، دیکھ جب تک میں نہ کہوں باہر مت نکلنا، آرام سے سوجانا، یہی تو ہے اصل ٹھکانا۔ میں قبر میں جاکر لیٹ گیا اس سوراخ سے ہوا اور تھوڑی سی روشنی اندر آرہی تھی، میں سوچنے لگا یہ اچانک ہی بابا جی کو کیا سوجی کہ مجھے جیتے جی ہی قبر میں اتار دیا، تھوڑی دیر بعد میں اندر کے ماحول سے ہم آہنگ ہوگیا تھا کچھ ہی دیر میں نیند کی آغوش میں تھا، ایسی گہری نیند مجھے اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، فجر کی اذان سے خاصا پہلے مجھے کہیں دُور سے بابا جی کی شفیق آواز سنائی دی، اب باہر بھی آجا، کب تک سویا رہے گا پگلے اور میں اس سوراخ سے باہر نکل آیا، بابا جی نے مجھے گلے لگا کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور ہم نماز کی تیاری کرنے لگے۔ پھر تو یہ معمول بن گیا بابا جی قبر کے پاس اور میں قبر کے اندر سونے لگا۔ کئی ماہ ایسے ہی گزر گئے، بابا جی کی بنائی ہوئی قبر آج بھی موجود ہے اور اس پر میرے نام کا کتبہ بھی نصب ہے، میں اب بھی وہاں جاتا اور قیام کرتا ہوں، اس دوران جو کچھ ہوتا رہا اسے میں بتانے سے معذور ہوں، اجازت ملی تو بتاؤں گا۔
دن گزرتے چلے گئے، جنہیں گزرنا ہی ہے، وقت کبھی نہیں رکا کہ اس کی فطرت ہے گزرنا، اور سچ پوچھیں تو یہاں کسی کو ثبات نہیں بس فنا ہے ، ہر شے نے بس گزر ہی جانا ہے۔ اور پھر ایک دن بابا جی حضور نے مجھے سفر کا حکم دیا۔ کہاں جاؤں میں نے پوچھا، تو جواب ملا وہاں جہاں تجھے کوئی نہیں جانتا ہو۔ اور واپس کب آؤں میں نے دریافت کیا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب واپس بلانا ہوگا تو بلا لیں گے کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ اور میں حکم کی تعمیل میں لگ گیا۔ سچ ہے سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ پھر میری روانگی کا دن آپہنچا، بابا جی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا اور پھر میں کینٹ اسٹیشن پر راول پنڈی جانے والی ٹرین کا انتظار کررہا تھا۔
یہ اسٹیشن بھی کیسی جگہ ہے جہاں لوگ ملتے ہیں اور بچھڑتے ہیں، جہاں قہقہے بھی ہیں اور اداسی بھی۔ جہاں ملاپ بھی ہے اور جدائی بھی اور ہُوک بھی۔ اس اسٹیشن سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ جب میں اپنے امی ابو کو تلاش کرتا تھا کہ شاید کوئی مجھے پہچان لے اور گھر پہنچ کر مار کھاتا تھا ہاں یہ اسٹیشن مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور قُلی بھی جو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ''قُلی'' کے نام سے ہمارے بچوں جیسے معصوم اور پیارے یحیٰی بابا نے ایک مختصر ناولٹ بھی لکھا ہے، کبھی کار جہاں سے فرصت ملے تو ضرور پڑھیے گا اور سر دھنیے گا کہ کیا کمال کیا ہے بابا محمد یحیٰی خان نے، بابا یحییٰ بہ ذات خود اک کائنات ہیں، لوگ ابھی انہیں جانتے ہی کب ہیں، وہ تو بس ان کا ایک رخ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا باکمال اور شدھ لکھاری ہیں، انہوں نے اجازت دی تو یہ ان کا بگڑا ہوا بچہ ضرور ان کے کئی رخ آپ کے سامنے رکھ دے گا۔
میں اکثر سوچتا ہوں یہ ریل کی پٹری بھی کیا ہے۔ ساتھ بھی اور جدا بھی۔ پھر ٹرین آگئی اور میں اﷲ جی کا نام لے کر اس میں سوار ہوگیا۔ راول پنڈی کا ٹکٹ میں نے خرید لیا تھا لیکن میری منزل کون سی تھی یہ میں نہیں جانتا تھا۔ بس بابا جی کا حکم تھا اور میں تعمیل میں لگ گیا تھا۔ جی جاننے سے زیادہ ماننا اہم ہوتا ہے۔ یہ ٹرین بھی بہت کمال کی ہوتی ہے۔ ایک انجن اتنے سارے ڈبوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے اس میں مختلف مذاہب، عمر، رنگ و نسل کے انسان سوار ہوتے ہیں۔ جو ایک ساتھ سفر شروع کرتے ہیں لیکن ان کی منزلیں جدا ہوتی ہیں۔ یہ بابا لوگ بھی ٹرین کا انجن ہوتے ہیں، وہ اکیلے اور تنہا اتنے سارے لوگوں کو بلا تفریق و مذہب و ملت رنگ و نسل کے اپنی منزلوں پر پہنچاتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے بھی نہیں۔
اس لیے تو لوگ انہیں مرنے کے بعد بھی نہیں بھولتے، انھیں یاد رکھتے ہیں، وہ بہ ظاہر مرجاتے ہیں۔ مرتے کہاں ہیں وہ۔ مجھے کھڑکی کے ساتھ علیحدہ ایک سیٹ مل گئی تھی اور میرے سامنے والی دوسری سیٹ پر ایک سانولی سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر وسل بچی اور ٹرین نے اسٹیشن چھوڑنا شروع کیا۔ بہت سارے ہاتھ بلند تھے اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، کچھ چہرے شاداں تھے اور کچھ اداس، ایسی ہی ہے دنیا کبھی خوشی کبھی غم، انہی کے درمیان میں ہے زندگی، تھوڑی دیر خاموشی چھائے رہی، ٹرین اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی اور منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ پھر کھسر پھسر ہونے لگی اور تعارف شروع ہوا۔ انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔ اسے اک ہم سفر کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وقتی ہی ہو، میں خاموشی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا اتنے میں میرے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنا بیگ کھولا اور پھر بالوں کو کھول کر کنگا کرنے لگی۔ سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور وہ سب سے بے نیاز تھی۔ اس وقت سماج اتنا کھلا نہیں تھا۔ کسی لڑکی کا سر عام اس طرح بالوں کو کھول کر کنگا کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
لیکن وہ خود میں مگن تھی۔ کیا نام ہے تمہارا کہاں جارہے ہو تم؟ اچانک ہی اس نے مجھ سے پوچھ لیا، نام تو میرا سلطان ہے، جا کہاں رہا ہوں یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیا مطلب تمہیں نہیں معلوم کہ تم کہاں جارہے، کیا کرتے ہو۔ مزدوری۔ پڑھتے نہیں ہو کیا؟ نہیں تم کہاں جارہی ہو؟ میں بمبئی میں رہتی ہوں اور وہاں میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں۔ میرا نام کنول ہے۔ اچھا اچھا وہی کنول جو کیچڑ میں کِھلتا ہے۔ ہاں وہی، وہ مسکرائی تو یہاں کیا کررہی ہو؟ اپنے ابو سے ملنے آئی تھی وہ ایبٹ آباد چلے گئے اب میں وہاں جارہی ہوں، میں نے اب تک اپنے ابو کو دیکھا نہیں۔ کیوں نہیں دیکھا؟ میں نے پوچھا۔ بس نہیں دیکھا۔ میرے ابو پاکستانی ہیں، بہت عرصے پہلے وہ انڈیا گئے تھے تو انھوں نے وہاں میری امی سے شادی کرلی، پھر وہ امی کو چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں شادی کرلی۔ ان کے پاکستان آنے کے بعد میں پیدا ہوئی، ہمارا سارا خاندان امی سے ناراض ہوگیا پھر نانا نے انھیں گھر سے نکال دیا۔ میں نے جب تھوڑا ہوش سنبھالا تو امی ایک دفتر میں کام کرتی تھیں ہم ایک بہت چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے، بس میں اور امی، بہت مشکل دور دیکھا ہم نے، ہم دونوں اک دوسرے کے دوست ہیں، مشکلات تو بہت آئیں لیکن وہ زندگی کے دن کٹ ہی گئے۔ میں نے انٹر کے بعد ابو کو ڈھونڈنا شروع کیا جس دوست نے ان کی شادی کرائی تھی وہ انڈین ہیں۔ انھوں نے میری بہت مدد کی امی نے تو بہت منع کیا تھا لیکن میں انہیں دیکھنے کراچی پہنچ ہی گئی۔
ان کے گھر پہنچی تو ان کے بچوں نے کہا کہ وہ تو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں اب وہاں جارہی ہوں۔ عجیب سی کہانی تھی اس کی۔ تم کیوں دیکھنا چاہتی ہو اپنے ابو کو اور ایسے ابو کو جو تمہاری امی اور تمہیں چھوڑ آئے۔ میرا سوال سن کر وہ خاموش ہوگئی، اسے بہت مشکل ہورہی تھی پھر بھی اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ وہ مسکرائی، کبھی آپ نے آنسوؤں بھری مسکراہٹ دیکھی ہے ایسی مسکراہٹ کا درد بھی وہی جانتا ہے جو خود اس سے گزرا ہو۔ تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ بولی میں انھیں دیکھنا چاہتی ہوں وہ کیسے انسان ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔ وہ کیا مجبوری تھی اور اگر وہ واقعی مجبوری تھی تو میں انھیں معاف کرکے ان کے گلے لگ کر رونا چاہتی ہوں، بس اور کچھ نہیں۔ کیا وہ تمہیں سب کچھ سچ سچ بتادیں گے، میں نے ایک اور سوال اس کے سامنے رکھ دیا۔ اگر وہ جھوٹ بھی بولیں گے تب بھی میں اس پر یقین کرلوں گی وہ آخر میرے ابو ہیں۔ عجیب سی بات کی تھی اس نے۔ انسان اتنا وسیع الظرف بھی ہوتا ہے کیا، ہاں کبھی وہ بہت وسیع الظرف ہوتا ہے اور کبھی انتہائی کم ظرف اور سنگ دل، انسان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔
یہ لو اس نے بسکٹ کا پیکٹ میرے سامنے کیا اور میں نے ایک بسکٹ لے کر اسے چھیڑا۔ اب چائے کہاں سے آئے گی۔ تم بہت بے صبرے ہو۔ میرے تھرمس میں چائے بھی ہے اور وہ ایک کپ میں چائے نکالنے لگی۔ میرے بیگ میں سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ میری امی نے مجھے سکھایا ہے کہ اپنا سب کچھ ساتھ لے کر چلو۔ تم نے ایبٹ آباد دیکھا ہے، اس نے پوچھا۔ ہاں کیوں نہیں دیکھا بہت اچھی جگہ ہے وہ، میں نے کہا۔ تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ لیکن میں تو پنڈی جا رہا ہوں، کتنی دور ہے پنڈی سے ایبٹ آباد؟ زیادہ دور تو نہیں ہے میں نے کہا تو بس ٹھیک ہے تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ پھر واپس آجانا پنڈی، اس نے خود ہی سب کچھ طے کرلیا۔ حیدر آباد کے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو میں اترنے لگا۔ کہاں جارہے ہو تم؟
ویسے ہی ذرا ٹہلنے جارہا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے آرام سے بیٹھو، اس نے کہا۔ لیکن میں سدا کا خود سر میں نے اس کی بات نہیں مانی اور اسٹیشن پر ٹہلنے لگا۔ وہ دروازے میں کھڑی مجھے دیکھنے لگی اور پھر اس کی آواز آئی، چلو بس اب واپس آجاؤ، گاڑی چلی جائے گی۔ اور مجھے مجبوراً واپس آنا پڑا۔ تم میری فکر کرنا چھوڑ دو، میں نے تلخ ہوکر کہا۔ تم بھی میری نہیں سنو گے اور اس کی پلکیں پھر بھیگ گئیں۔ اچھا ٹھیک ہے مانوں گا۔ میں عجیب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ پنڈی تک کا اتنا لمبا سفر اور اس کی ہدایات پر عمل میرے لیے جان کا آزار بن گیا تھا لیکن میں اس سے وعدہ کرچکا تھا۔
ٹرین دوسرے دن رات کے گیارہ بجے پنڈی پہنچی۔ ہم دونوں نیچے اترے۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹا تھا بس اکا دکا گاڑیاں موجود تھیں یا تانگے، میں نے ایک تانگے والے سے پوچھا ایبٹ آباد کی گاڑی کہاں سے ملے گی۔ بابو جی اس وقت تو مشکل ہے صبح فجر میں ملتی ہے اور یہاں اسٹیشن سے ہی گزرتی ہے۔ صبح اتنی سواریاں بھی نہیں ہوتیں'' اب رات کہاں گزاری جائے میں سوچنے لگا۔ میں اکیلا ہوتا تو میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھی لیکن اب تو میرے ساتھ کنول بھی تھی۔ چلو اسٹیشن پر ہی رات گزارتے ہیں، وہ بولی چلو ناں باتیں کریں گے کٹ ہی جائے گی رات، اس نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔ کتنی باتیں کروگی، تمہاری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے، سفر کی تھکن نے اسے نڈھال کردیا تھا۔ تھوڑی دیر تو وہ باتیں کرتی رہی اور میں بے زار ہوکر سنتا رہا۔ آخر وہ کتنا جاگتی اسے نیند آنے لگی۔ مجھے تو بہت نیند آرہی ہے تو سوجاؤ، میں نے کہا۔ تم کہاں سوگے؟ تم میری فکر چھوڑ دو اپنی کرو اور سوجاؤ۔ تو پھر تمہاری فکر کون کرے گا۔
وہ عجیب پاگل سی لڑکی تھی۔ میرے اصرار پر وہ چادر اوڑھ کر بینچ پر لیٹ گئی اور میں اس کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ سوگئی، نیند بہت ظالم ہے، آدھی موت ہوتی ہے یہ۔ وہ سوگئی تو میں اپنی نامعلوم منزل کا سوچنے لگا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی، اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ آخر مجھے اسے جگانا پڑا۔ صبح ہوگئی کیا؟ کہہ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تم کہاں سوئے تھے؟ بس سوگیا تھا۔ کہاں؟ بس یہیں۔ تم رات بھر نہیں سوئے ناں۔ ہر لڑکی میں ایک ماں ہوتی ہے۔ ہم نے ناشتہ کیا اور اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ کچھ دیر بعد ایک ویگن آگئی اور ہم دونوں ایبٹ آباد جانے کے لیے اس میں سوار ہوگئے۔ وہ تو خاموش رہ ہی نہیں سکتی تھی لیکن وہ خاموش تھی۔ پھر اچانک وہ بولی، میرے ابو کیسے ہوں گے؟ اور اگر وہ وہاں بھی نہ ملے تو کیا تم مجھے چھوڑ کے چلے جاؤگے؟
تمہارے ابو بہت اچھے ہوں اور وہ ہمیں ضرور ملیں گے۔ میری یہ بات سن کر وہ پھر خاموش ہوگئی۔ تمہیں یہ کیسے پتا کہ ابو بہت اچھے ہوں گے اور وہ مجھے ملیں گے بھی۔ بس ویسے ہی معلوم ہوگیا مجھے، تم دیکھ لینا۔ وہ کچھ مطمئن ہوکر پھر خاموش ہوگئی۔ منزل کوئی بھی ہو، دائمی ہو یا عارضی، انسان یا تو بہت چہکتا ہے یا پھر بالکل خاموش ہوجاتا ہے۔ پورے راستے وہ خاموش رہی، نہ جانے کیا کیا خدشات اسے ستا رہے تھے یا وہ اس خوشی کو محسوس کر رہی تھی جو اتنے انتظار کے بعد اسے ملنے والی تھی۔
بابا جی حضور انتہائی باکمال انسان تھے، انہوں نے مجھ جیسے غبی کو جو کچھ عنایت کیا اس کا تذکرہ محال ہے اور کیا بھی جائے تو اس سے کسی اور کا کیا لینا دینا، سو اسے رہنے دیتے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے زمین کی پشت سے اٹھا کر جیتے جی ہی زمین کے پیٹ میں اتار دیا تھا، انہوں نے ہی مجھے بتایا اور مشاہدہ بھی کرایا کہ یہ ہے زمین، دیالو زمین اور سب کے عیوب چھپا لینے والی زمین اور جب ہاں اپنے عزیز ترین رشتے ناتے والے بھی ہمیں قبول کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے انکاری ہوجائیں اور اصرار کریں کہ بس اب اسے جلد لے چلو اور سپرد خاک کردو، تو یہی دیالو زمین ہمیں اپنے اندر ہمارے عیوب سمیت پناہ دیتی ہے، ایسی سخی اور پردہ پوش زمین، اسی لیے تو خالق کائنات نے اس پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے۔
میں تو سدا کا لاابالی، آوارہ اور گم راہ ہوں، کل کیا ہوگا میں جانتا نہیں اور نہ ہی اس کا اشتیاق رہا کہ میرے لیے لمحۂ موجود ہی زندگی ہے، بس لمحۂ موجود۔ ایک دن میں کام پر چلا گیا، جب مغرب سے ذرا پہلے میں واپس ان کے پاس قبرستان پہنچا، کھانے پینے کا سامان میں روز لے کر آتا تھا، بابا جی اکیلے بیٹھے تھے۔ تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی تو میں نے پوچھا، کیا ہُوا بابا جی آج تو آپ اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی آیا نہیں کیا اور تھکے ہوئے بھی لگ رہے ہیں، تو مسکرائے اور کہا آئے تھے کچھ لوگ لیکن میں کہا آج نہیں کل ملوں گا۔ میں نے پوچھا خیریت تو تھی ناں، کیا طبیعت ناساز ہے آپ کی۔ تو کہنے لگے نہیں پگلے میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ مجھے پیار سے ہمیشہ پگلے ہی کہتے ہیں۔
تو پھر آخر سارا دن کیا کرتے رہے آپ؟ میں نے پوچھا۔ بس قبر کھود رہا تھا ناں، انہوں نے کہا۔ یہ کام کب سے شروع کردیا آپ نے، کس کی قبر اور گورکن کہاں چلا گیا، میں نے بے چینی سے پوچھا۔ تُو پگلا ہی رہے گا، گورکن تو مُردوں کی قبریں کھودتا ہے مجھے تو زندہ کی قبر کھودنا تھی ناں۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے تو میں ان کے سَر ہوگیا، کیا کہے جارہے ہیں، کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا مجھے، کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ۔ بہت عجلت میں ہے تُو پگلے! اب سُن! میں تیری قبر کھود رہا تھا بل کہ کھود کر تیار بھی کردی ہے اب اس میں بس تیری کمی ہے اور اسے تیرا انتظار، پکار رہی ہے تجھے کہ میرا انتظار ختم کردے اور آجا مجھے بھر دے۔
مجھے حیرت تو ہوئی اور حیرت کا تو میں عادی ہوگیا تھا، روز ہی کوئی ایسی بات ہوتی جو مجھے حیرت کے سمندر میں غوطے دیتی اور میں تھک ہار کر خاموش ہوجاتا۔ مجھے خاموش دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا: کیا ہوا پگلے، کیوں خاموش ہوگیا۔ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تو بس خاموشی ہی بھلی بابا جی حضور۔ اوہو اتنی جلدی ہے تجھے، تو چل بتاتا ہوں تجھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے، ہمارے ٹھکانے سے بس چند قدم پر ایک نئی قبر بنی ہوئی تھی، بالکل تازہ قبر کی طرح، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، پھر ارشاد فرمایا، لے پگلے دیکھ لے یہ ہے تیری قبر، اب تجھے یہیں رہنا ہوگا، زمین کی پشت پر تو بہت رہ لیا اب ذرا اس کے پیٹ میں بھی رہنا سیکھ۔ میں کبھی قبر اور کبھی انہیں دیکھنے لگا، کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا مجھے، آخر وہ بولے۔ چل کھانا کھائیں اور پھر تجھے دفنائیں۔ ہم نے کھانا کھایا اور پھر انہوں نے میرے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ کر کچھ پڑھنا شروع کیا اس کے بعد کھڑے ہوئے اور ایک ٹہنی سے میرے گرد دائرہ کھینچ دیا۔
اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑا اور اس تازہ قبر کے ساتھ ہی جو بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، اس میں داخل ہونے کا حکم صادر کیا، میں بغیر کوئی سوال کیے اس سوراخ سے قبر میں داخل ہوگیا۔ بابا جی کی آواز شفیق آواز گونجی، دیکھ جب تک میں نہ کہوں باہر مت نکلنا، آرام سے سوجانا، یہی تو ہے اصل ٹھکانا۔ میں قبر میں جاکر لیٹ گیا اس سوراخ سے ہوا اور تھوڑی سی روشنی اندر آرہی تھی، میں سوچنے لگا یہ اچانک ہی بابا جی کو کیا سوجی کہ مجھے جیتے جی ہی قبر میں اتار دیا، تھوڑی دیر بعد میں اندر کے ماحول سے ہم آہنگ ہوگیا تھا کچھ ہی دیر میں نیند کی آغوش میں تھا، ایسی گہری نیند مجھے اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، فجر کی اذان سے خاصا پہلے مجھے کہیں دُور سے بابا جی کی شفیق آواز سنائی دی، اب باہر بھی آجا، کب تک سویا رہے گا پگلے اور میں اس سوراخ سے باہر نکل آیا، بابا جی نے مجھے گلے لگا کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور ہم نماز کی تیاری کرنے لگے۔ پھر تو یہ معمول بن گیا بابا جی قبر کے پاس اور میں قبر کے اندر سونے لگا۔ کئی ماہ ایسے ہی گزر گئے، بابا جی کی بنائی ہوئی قبر آج بھی موجود ہے اور اس پر میرے نام کا کتبہ بھی نصب ہے، میں اب بھی وہاں جاتا اور قیام کرتا ہوں، اس دوران جو کچھ ہوتا رہا اسے میں بتانے سے معذور ہوں، اجازت ملی تو بتاؤں گا۔
دن گزرتے چلے گئے، جنہیں گزرنا ہی ہے، وقت کبھی نہیں رکا کہ اس کی فطرت ہے گزرنا، اور سچ پوچھیں تو یہاں کسی کو ثبات نہیں بس فنا ہے ، ہر شے نے بس گزر ہی جانا ہے۔ اور پھر ایک دن بابا جی حضور نے مجھے سفر کا حکم دیا۔ کہاں جاؤں میں نے پوچھا، تو جواب ملا وہاں جہاں تجھے کوئی نہیں جانتا ہو۔ اور واپس کب آؤں میں نے دریافت کیا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب واپس بلانا ہوگا تو بلا لیں گے کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ اور میں حکم کی تعمیل میں لگ گیا۔ سچ ہے سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ پھر میری روانگی کا دن آپہنچا، بابا جی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا اور پھر میں کینٹ اسٹیشن پر راول پنڈی جانے والی ٹرین کا انتظار کررہا تھا۔
یہ اسٹیشن بھی کیسی جگہ ہے جہاں لوگ ملتے ہیں اور بچھڑتے ہیں، جہاں قہقہے بھی ہیں اور اداسی بھی۔ جہاں ملاپ بھی ہے اور جدائی بھی اور ہُوک بھی۔ اس اسٹیشن سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ جب میں اپنے امی ابو کو تلاش کرتا تھا کہ شاید کوئی مجھے پہچان لے اور گھر پہنچ کر مار کھاتا تھا ہاں یہ اسٹیشن مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور قُلی بھی جو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ''قُلی'' کے نام سے ہمارے بچوں جیسے معصوم اور پیارے یحیٰی بابا نے ایک مختصر ناولٹ بھی لکھا ہے، کبھی کار جہاں سے فرصت ملے تو ضرور پڑھیے گا اور سر دھنیے گا کہ کیا کمال کیا ہے بابا محمد یحیٰی خان نے، بابا یحییٰ بہ ذات خود اک کائنات ہیں، لوگ ابھی انہیں جانتے ہی کب ہیں، وہ تو بس ان کا ایک رخ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا باکمال اور شدھ لکھاری ہیں، انہوں نے اجازت دی تو یہ ان کا بگڑا ہوا بچہ ضرور ان کے کئی رخ آپ کے سامنے رکھ دے گا۔
میں اکثر سوچتا ہوں یہ ریل کی پٹری بھی کیا ہے۔ ساتھ بھی اور جدا بھی۔ پھر ٹرین آگئی اور میں اﷲ جی کا نام لے کر اس میں سوار ہوگیا۔ راول پنڈی کا ٹکٹ میں نے خرید لیا تھا لیکن میری منزل کون سی تھی یہ میں نہیں جانتا تھا۔ بس بابا جی کا حکم تھا اور میں تعمیل میں لگ گیا تھا۔ جی جاننے سے زیادہ ماننا اہم ہوتا ہے۔ یہ ٹرین بھی بہت کمال کی ہوتی ہے۔ ایک انجن اتنے سارے ڈبوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے اس میں مختلف مذاہب، عمر، رنگ و نسل کے انسان سوار ہوتے ہیں۔ جو ایک ساتھ سفر شروع کرتے ہیں لیکن ان کی منزلیں جدا ہوتی ہیں۔ یہ بابا لوگ بھی ٹرین کا انجن ہوتے ہیں، وہ اکیلے اور تنہا اتنے سارے لوگوں کو بلا تفریق و مذہب و ملت رنگ و نسل کے اپنی منزلوں پر پہنچاتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے بھی نہیں۔
اس لیے تو لوگ انہیں مرنے کے بعد بھی نہیں بھولتے، انھیں یاد رکھتے ہیں، وہ بہ ظاہر مرجاتے ہیں۔ مرتے کہاں ہیں وہ۔ مجھے کھڑکی کے ساتھ علیحدہ ایک سیٹ مل گئی تھی اور میرے سامنے والی دوسری سیٹ پر ایک سانولی سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر وسل بچی اور ٹرین نے اسٹیشن چھوڑنا شروع کیا۔ بہت سارے ہاتھ بلند تھے اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، کچھ چہرے شاداں تھے اور کچھ اداس، ایسی ہی ہے دنیا کبھی خوشی کبھی غم، انہی کے درمیان میں ہے زندگی، تھوڑی دیر خاموشی چھائے رہی، ٹرین اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی اور منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ پھر کھسر پھسر ہونے لگی اور تعارف شروع ہوا۔ انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔ اسے اک ہم سفر کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وقتی ہی ہو، میں خاموشی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا اتنے میں میرے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنا بیگ کھولا اور پھر بالوں کو کھول کر کنگا کرنے لگی۔ سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور وہ سب سے بے نیاز تھی۔ اس وقت سماج اتنا کھلا نہیں تھا۔ کسی لڑکی کا سر عام اس طرح بالوں کو کھول کر کنگا کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
لیکن وہ خود میں مگن تھی۔ کیا نام ہے تمہارا کہاں جارہے ہو تم؟ اچانک ہی اس نے مجھ سے پوچھ لیا، نام تو میرا سلطان ہے، جا کہاں رہا ہوں یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیا مطلب تمہیں نہیں معلوم کہ تم کہاں جارہے، کیا کرتے ہو۔ مزدوری۔ پڑھتے نہیں ہو کیا؟ نہیں تم کہاں جارہی ہو؟ میں بمبئی میں رہتی ہوں اور وہاں میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں۔ میرا نام کنول ہے۔ اچھا اچھا وہی کنول جو کیچڑ میں کِھلتا ہے۔ ہاں وہی، وہ مسکرائی تو یہاں کیا کررہی ہو؟ اپنے ابو سے ملنے آئی تھی وہ ایبٹ آباد چلے گئے اب میں وہاں جارہی ہوں، میں نے اب تک اپنے ابو کو دیکھا نہیں۔ کیوں نہیں دیکھا؟ میں نے پوچھا۔ بس نہیں دیکھا۔ میرے ابو پاکستانی ہیں، بہت عرصے پہلے وہ انڈیا گئے تھے تو انھوں نے وہاں میری امی سے شادی کرلی، پھر وہ امی کو چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں شادی کرلی۔ ان کے پاکستان آنے کے بعد میں پیدا ہوئی، ہمارا سارا خاندان امی سے ناراض ہوگیا پھر نانا نے انھیں گھر سے نکال دیا۔ میں نے جب تھوڑا ہوش سنبھالا تو امی ایک دفتر میں کام کرتی تھیں ہم ایک بہت چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے، بس میں اور امی، بہت مشکل دور دیکھا ہم نے، ہم دونوں اک دوسرے کے دوست ہیں، مشکلات تو بہت آئیں لیکن وہ زندگی کے دن کٹ ہی گئے۔ میں نے انٹر کے بعد ابو کو ڈھونڈنا شروع کیا جس دوست نے ان کی شادی کرائی تھی وہ انڈین ہیں۔ انھوں نے میری بہت مدد کی امی نے تو بہت منع کیا تھا لیکن میں انہیں دیکھنے کراچی پہنچ ہی گئی۔
ان کے گھر پہنچی تو ان کے بچوں نے کہا کہ وہ تو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں اب وہاں جارہی ہوں۔ عجیب سی کہانی تھی اس کی۔ تم کیوں دیکھنا چاہتی ہو اپنے ابو کو اور ایسے ابو کو جو تمہاری امی اور تمہیں چھوڑ آئے۔ میرا سوال سن کر وہ خاموش ہوگئی، اسے بہت مشکل ہورہی تھی پھر بھی اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ وہ مسکرائی، کبھی آپ نے آنسوؤں بھری مسکراہٹ دیکھی ہے ایسی مسکراہٹ کا درد بھی وہی جانتا ہے جو خود اس سے گزرا ہو۔ تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ بولی میں انھیں دیکھنا چاہتی ہوں وہ کیسے انسان ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔ وہ کیا مجبوری تھی اور اگر وہ واقعی مجبوری تھی تو میں انھیں معاف کرکے ان کے گلے لگ کر رونا چاہتی ہوں، بس اور کچھ نہیں۔ کیا وہ تمہیں سب کچھ سچ سچ بتادیں گے، میں نے ایک اور سوال اس کے سامنے رکھ دیا۔ اگر وہ جھوٹ بھی بولیں گے تب بھی میں اس پر یقین کرلوں گی وہ آخر میرے ابو ہیں۔ عجیب سی بات کی تھی اس نے۔ انسان اتنا وسیع الظرف بھی ہوتا ہے کیا، ہاں کبھی وہ بہت وسیع الظرف ہوتا ہے اور کبھی انتہائی کم ظرف اور سنگ دل، انسان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔
یہ لو اس نے بسکٹ کا پیکٹ میرے سامنے کیا اور میں نے ایک بسکٹ لے کر اسے چھیڑا۔ اب چائے کہاں سے آئے گی۔ تم بہت بے صبرے ہو۔ میرے تھرمس میں چائے بھی ہے اور وہ ایک کپ میں چائے نکالنے لگی۔ میرے بیگ میں سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ میری امی نے مجھے سکھایا ہے کہ اپنا سب کچھ ساتھ لے کر چلو۔ تم نے ایبٹ آباد دیکھا ہے، اس نے پوچھا۔ ہاں کیوں نہیں دیکھا بہت اچھی جگہ ہے وہ، میں نے کہا۔ تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ لیکن میں تو پنڈی جا رہا ہوں، کتنی دور ہے پنڈی سے ایبٹ آباد؟ زیادہ دور تو نہیں ہے میں نے کہا تو بس ٹھیک ہے تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ پھر واپس آجانا پنڈی، اس نے خود ہی سب کچھ طے کرلیا۔ حیدر آباد کے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو میں اترنے لگا۔ کہاں جارہے ہو تم؟
ویسے ہی ذرا ٹہلنے جارہا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے آرام سے بیٹھو، اس نے کہا۔ لیکن میں سدا کا خود سر میں نے اس کی بات نہیں مانی اور اسٹیشن پر ٹہلنے لگا۔ وہ دروازے میں کھڑی مجھے دیکھنے لگی اور پھر اس کی آواز آئی، چلو بس اب واپس آجاؤ، گاڑی چلی جائے گی۔ اور مجھے مجبوراً واپس آنا پڑا۔ تم میری فکر کرنا چھوڑ دو، میں نے تلخ ہوکر کہا۔ تم بھی میری نہیں سنو گے اور اس کی پلکیں پھر بھیگ گئیں۔ اچھا ٹھیک ہے مانوں گا۔ میں عجیب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ پنڈی تک کا اتنا لمبا سفر اور اس کی ہدایات پر عمل میرے لیے جان کا آزار بن گیا تھا لیکن میں اس سے وعدہ کرچکا تھا۔
ٹرین دوسرے دن رات کے گیارہ بجے پنڈی پہنچی۔ ہم دونوں نیچے اترے۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹا تھا بس اکا دکا گاڑیاں موجود تھیں یا تانگے، میں نے ایک تانگے والے سے پوچھا ایبٹ آباد کی گاڑی کہاں سے ملے گی۔ بابو جی اس وقت تو مشکل ہے صبح فجر میں ملتی ہے اور یہاں اسٹیشن سے ہی گزرتی ہے۔ صبح اتنی سواریاں بھی نہیں ہوتیں'' اب رات کہاں گزاری جائے میں سوچنے لگا۔ میں اکیلا ہوتا تو میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھی لیکن اب تو میرے ساتھ کنول بھی تھی۔ چلو اسٹیشن پر ہی رات گزارتے ہیں، وہ بولی چلو ناں باتیں کریں گے کٹ ہی جائے گی رات، اس نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔ کتنی باتیں کروگی، تمہاری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے، سفر کی تھکن نے اسے نڈھال کردیا تھا۔ تھوڑی دیر تو وہ باتیں کرتی رہی اور میں بے زار ہوکر سنتا رہا۔ آخر وہ کتنا جاگتی اسے نیند آنے لگی۔ مجھے تو بہت نیند آرہی ہے تو سوجاؤ، میں نے کہا۔ تم کہاں سوگے؟ تم میری فکر چھوڑ دو اپنی کرو اور سوجاؤ۔ تو پھر تمہاری فکر کون کرے گا۔
وہ عجیب پاگل سی لڑکی تھی۔ میرے اصرار پر وہ چادر اوڑھ کر بینچ پر لیٹ گئی اور میں اس کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ سوگئی، نیند بہت ظالم ہے، آدھی موت ہوتی ہے یہ۔ وہ سوگئی تو میں اپنی نامعلوم منزل کا سوچنے لگا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی، اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ آخر مجھے اسے جگانا پڑا۔ صبح ہوگئی کیا؟ کہہ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تم کہاں سوئے تھے؟ بس سوگیا تھا۔ کہاں؟ بس یہیں۔ تم رات بھر نہیں سوئے ناں۔ ہر لڑکی میں ایک ماں ہوتی ہے۔ ہم نے ناشتہ کیا اور اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ کچھ دیر بعد ایک ویگن آگئی اور ہم دونوں ایبٹ آباد جانے کے لیے اس میں سوار ہوگئے۔ وہ تو خاموش رہ ہی نہیں سکتی تھی لیکن وہ خاموش تھی۔ پھر اچانک وہ بولی، میرے ابو کیسے ہوں گے؟ اور اگر وہ وہاں بھی نہ ملے تو کیا تم مجھے چھوڑ کے چلے جاؤگے؟
تمہارے ابو بہت اچھے ہوں اور وہ ہمیں ضرور ملیں گے۔ میری یہ بات سن کر وہ پھر خاموش ہوگئی۔ تمہیں یہ کیسے پتا کہ ابو بہت اچھے ہوں گے اور وہ مجھے ملیں گے بھی۔ بس ویسے ہی معلوم ہوگیا مجھے، تم دیکھ لینا۔ وہ کچھ مطمئن ہوکر پھر خاموش ہوگئی۔ منزل کوئی بھی ہو، دائمی ہو یا عارضی، انسان یا تو بہت چہکتا ہے یا پھر بالکل خاموش ہوجاتا ہے۔ پورے راستے وہ خاموش رہی، نہ جانے کیا کیا خدشات اسے ستا رہے تھے یا وہ اس خوشی کو محسوس کر رہی تھی جو اتنے انتظار کے بعد اسے ملنے والی تھی۔