شمالی وزیرستان پر ایک اور ڈرون حملہ

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے عرصہ دراز سے پاکستان اور امریکا کے درمیان وجۂ نزاع بنے ہوئے ہیں۔

ہفتے کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے شوال میں ڈرون حملے میں 7 مشتبہ طالبان ہلاک ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے عرصہ دراز سے پاکستان اور امریکا کے درمیان وجۂ نزاع بنے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے خلاف اگرچہ سرکاری طور پر احتجاج بھی کیا گیا اور اسمبلیوں سے قراردادیں بھی منظور کروائی گئیں مگر امریکی انتظامیہ نے ان کا نوٹس نہیں لیا اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے مسلسل ہو رہے ہیں۔

گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے شوال میں ڈرون حملہ ہوا جس میں سات مشتبہ طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈرون حملہ ایسے وقت کیا گیا جب ملک میں نئی وفاقی کابینہ حلف اٹھا رہی تھی۔ چند روز قبل بھی شمالی وزیرستان میں ہی ایک ڈرون حملہ کیا گیا جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اہم رہنما ولی الرحمن مارا گیا تھا۔ جمعرات کو ہونے والے حملے میں کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

ڈرون طیاروں کے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملوں کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور کے آخری برسوں میں ہوا تھا تاہم ان کے دور میں ایسے حملوں کی تعداد انتہائی کم تھی لیکن بعد میں ڈرون حملوں میں تیزی آنے لگی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ڈرون حملوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھی ہے اور یہ حملے ابھی تک اسی تواتر سے جاری ہیں۔

حکومتی ایوانوں سے ان پے در پے حملوں کے خلاف دبی دبی احتجاجی آواز بھی بلند ہوئی، پھر باقاعدہ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ان کا کوئی نتیجہ سامنے نہ آ سکا بلکہ اسمبلیوں میں ڈرونز کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں مگر امریکا نے اپنی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

یوں پاکستان کا احتجاج امریکی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے میں ناکام ثابت ہوا۔ بلاشبہ ڈرون حملوں میں کئی ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ حملوں میں بے گناہ افراد بھی مارے جا رہے ہیں۔ جتنے زیادہ ڈرون حملے ہوتے ہیں، اتنی ہی بڑی تعداد میں بے گناہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ یوں حکومت پاکستان پر عوامی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔


نومنتخب وزیر اعظم جناب نواز شریف ڈرون حملوں کو وطن عزیز کی خود مختاری کے منافی قرار دیتے رہے ہیں اور ان کے خیالات بالکل واضح ہیں لیکن نئی حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ڈرون حملہ دراصل امریکا کی طرف سے اس پیغام کا غماض ہے کہ ... ''ہمارا پرنالہ یہیں رہے گا'' تم بیشک احتجاج کرتے رہو۔ڈرون حملوں کا ایشو اب خاصا حساس اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔

اس معاملے پر کوئی جذباتی فیصلہ بہت سے مسائل پیدا کر سکتاہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس مسئلے کو کس طرح حل کرے؟ کیا کوئی ڈرون گرانے کی کوشش کی جائے؟ ایسی صورت میں امریکا کا کیا رد عمل ہو گا جو کالعدم سوویت یونین کے انہدام کے بعد اکلوتی سپر پاور کے سنگھاسن پر براجمان ہے؟ یہ آ بیل مجھے مار والی بات تو نہیں ہو گی؟ اس سوال پر لازمی غور ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ڈرون کو گرانے کی باتیں کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس ایشو پر متحرک اور نتیجہ خیز سفارت کاری کی جائے۔ امریکا اور نیٹو ممالک کو دلائل کے ذریعے ڈرون حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔

بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اس مسئلے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرایا جائے۔ اس کٹھن سفارت کاری کا بوجھ کون اٹھائے گا؟ یہ اور اس طرح کے کئی دیگر سوال جواب طلب ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے ڈرون حملے پر شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ یہ ایک بہتر پیش رفت ہے لیکن ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرگرمیاں بھی سب کے سامنے ہیں۔ ایسی صورت میں ڈرون حملوں کو بند کرانے کا مشن معمولی سفارت کاری سے حل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان' صدر بارک اوباما سے مذاکرات کریں اور انھیں پاکستان کے تحفظات اور مشکلات سے آگاہ کریں۔ امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج موجود ہیں۔ امریکا نے اگلے برس اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنا ہے۔ ان معاملات میں اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ دونوں ملک دہشت گردی کے بھی خلاف ہیں۔

پاکستان کا اختلاف ڈرون حملوں پر ہے۔ اگر ٹھوس اور مضبوط استدلال ہو تو امریکا کی ڈرون پالیسی میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ ادھر افغانستان سے امریکی، نیٹو اور ایساف افواج کے انخلاء کا وقت قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے جس سے تمام متعلقہ فریقوں کے اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاک آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اتنا چھوٹا ایشو نہیں کہ اس کو چند منٹوں میں بیان کر دیا جائے تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔ ایوان صدر میں وفاقی کابینہ کی حلف برداری کے بعد صحافیوں نے جب یہ پوچھا کہ 2014ء میں اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو اس انخلا کے بعد آپ کی کیا حکمت عملی ہو گی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ افغانستان اتنا چھوٹا ایشو نہیں کہ چند منٹوں میں اس پر بات ہو جائے، اللہ بہتر کرے گا۔

امریکی فوج کے انخلا کے بعد اللہ پاکستان کا بھلا کرے گا۔ جنرل کیانی نے اپنے دو تین جملوں میں حالات جو تبصرہ کیا ہے اس میں ایک طرف تو امریکی فوجوں کے انخلاء کی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ ہے تو دوسری طرف اس سے پاکستان پر اس کے مثبت اثرات کی آئینہ داری بھی ہوتی ہے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے نہ امریکی فوجوں کا پرامن انخلاء ممکن ہے۔ پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کی پوزیشن کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں نئی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا سے ضرور بات کرنی چاہیے۔ یہ ایسی صورت حال ہے' اگر اس میں کامیاب سفارت کاری کی جائے تو ڈرون حملوں کا معاملہ حل ہو سکتا ہے۔
Load Next Story