قمر علی عباسی اور ریاض الرحمن ساغرؔ

دو بہت معروف لکھاری اس دنیا سے رُخصت ہو گئے، اگرچہ قمر علی عباسی ریڈیو کی باقاعدہ ملازمت میں رہے۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

گزشتہ دنوں اوپر تلے ہمارے دو بہت معروف لکھاری اس دنیا سے رُخصت ہو گئے، اگرچہ قمر علی عباسی ریڈیو کی باقاعدہ ملازمت میں رہے اور ریاض الرحمٰن ساغرؔ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایک فری لانس رائٹر کے طور پر گزار ا لیکن دونوں کی زندگیوں میں بہت سی مماثلتیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں سیلف میڈ انسان تھے اور کسی دُنیاوی سہارے یا خاندانی مدد کے بغیر اپنی مسلسل محنت اور جدوجہد سے زندگی کے میدان میں آگے بڑھے اور نام کمایا، پھر یہ کہ دونوں لکھاری تھے۔ اگرچہ قمر علی عباسی مرحوم نے صرف نثر میں لکھا اور ریاض الرحمٰن ساغرؔ نے عمومی طو ر پر شاعری کو ذریعۂ اظہار بنائے رکھا لیکن زندگی کو دیکھنے، سمجھنے، بیان کرنے اور سادہ اور براہِ راست اسلوب میں اپنے خیالات اور محسوسات کا اظہار کرنے کے حوالے سے دونوں میں ایک مخصوص نوع کی قُربت بھی دکھائی دیتی ہے۔

قمر علی عبا سی سے میری پہلی ملاقات لاہور ریڈیو کے پروڈیوسرز جمیل ملک، عتیق اﷲ شیخ' افضل رحمٰن اور اسد نذیر کے ساتھ ساتھ کراچی ریڈیو کے احباب رضی اختر شوق اور انعام صدیقی مرحوم کے توسط سے ہوئی اور یہ بات ستر کی دہائی کے درمیانی برسوں کی ہے یعنی کم و بیش چالیس برس سے میری ان کی ملاقات چلی آ رہی تھی۔ اس دوران میں ان کی ڈرامہ سیریل شہزوری سے شہرت پانے والی نیلوفر علیم (بعد میں نیلوفر عباسی) سے شادی ہوئی، وہ ترقی کرتے ہوئے کراچی ریڈیو اسٹیشن کے جنرل منیجر کے عہدے تک پہنچے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بیوی بچوں سمیت بوجوہ امریکا ہجرت کر گئے لیکن اس سارے عرصے میں کبھی بھی ان سے رابطہ منقطع نہیں ہوا۔

ان کے امریکا کے قیام کے تقریباَ گیارہ برسوں میں میرا پانچ بار وہاں جانا ہوا لیکن ہر بار کہیں نہ کہیں ان سے ملاقات ضرور رہی۔ وہ سفر کے بے حد شوقین تھے اور اس حوالے سے انھوں نے درجنوں کے حساب سے سفر نامے بھی لکھے۔ کالم نگاری میں بھی نہ صرف انھوں نے خود اپنے جوہر دکھائے بلکہ ان کا بیٹا وجاہت عباسی بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب ایک نوجوان کالم نگار کے طور پر اپنی شناخت قائم کر چکا ہے۔ ادب کا یہ حوالہ یہیں تک محدود نہیں رہا، کچھ عرصہ قبل نیلوفر عباسی نے بھی اپنی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھ ڈالی جس کے بیشتر حصوں پر قمر علی عباسی مرحوم کی شخصیت ایک شجرِ سایہ دار کی طرح محیط ہے۔ قمر علی عباسی ریڈیو کے حوالے سے بولنے کے فن کے ماہر تو تھے ہی لیکن وہ ایک بہت اچھے سننے والے بھی تھے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بولنے کے شوقین دوسرے کی بات اول تو دھیان سے سنتے ہی نہیں اور اگر کبھی ایسا کریں بھی تو ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں بلکہ اس کا جواب (اور وہ بھی منہ توڑ) دینا ہوتا ہے۔ قمر علی عباسی اس حوالے سے ایک استثناء کی حیثیت رکھتے تھے کہ وہ مخاطب کی ہر بات کو بہت دھیان اور توجہ سے سنتے تھے اور اس دوران میں ان کی مخصوص مسکراہٹ اور آنکھوں کی دوستانہ چمک ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی تھی۔

وہ ایک مقبول اور پسندیدہ شخصیت کے مالک تھے اور ستر اور اسّی کی دہائیوں میں کراچی کے بیشتر نوجوان ادیبوں اور شاعروں نے ادب کے حوالے سے ریڈیو کی جن چند شخصیات کا سب سے زیادہ ذکر کیا ہے ان میں یاور مہدی، عزیز حامد مدنی، رضی اختر شوق، انعام صدیقی اور قمر جمیل کے ساتھ قمر علی عباسی کا نام نامی بھی شامل ہے۔ اُن کے سفرنامے بھی ایک طرح سے اُن کی صلح کل اور ہر منظر کو دلچسپی سے دیکھنے والی شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔ ایک اچھے براڈکاسٹر کی طرح وہ بات کرتے وقت ''اہلِ نظر، اور تماشائی'' دونوں کو سامنے رکھتے ہیں اور یوں ان کی تحریر میں ایک مخصوص انداز کی میانہ روی پیدا ہو جاتی ہے جو ''سنسنی خیزی'' کے اس دور میں ایک نسبتاً آؤٹ آف فیشن مگر مختلف اور دلچسپ انداز کی حامل ہے ۔


ریاض الرحمٰن ساغرؔ کی سب سے نمایاں اور بنیادی خوبی میرے خیال میں ان کا ''سیلف میڈ'' ہونا ہی ہے۔ جیسا کہ انھوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں بیان کیا اور اپنی سوانح حیات میں بھی لکھا کہ ان کا خاندان جب قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں پہنچا تو راستے میں اور یہاں پہنچنے کے کئی برس بعد تک انھیں کیسے کیسے مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا اور پھر ان سب رکاوٹوں سے وہ کس طرح سے عہد ہ برآ ہوئے۔ مالی مشکلات اور انقلابی خیالات کی وجہ سے درسی تعلیم میں در آنے والے وقفوں نے کس طرح انھیں اس عمر میں روزی کمانے پر لگا دیا جس میں اُن کے ہم عمر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تلاشِ علم میں مصروف تھے۔ رزق کی تلاش انھیں صحافت میں اور پھر فلمی صحافت میں لے آئی۔

جہاں سے قتیل شفائی مرحوم کی شاگردی اور حوصلہ افزائی کے ذریعے وہ فلمی گیت نگاری کے میدان میں داخل ہوئے اور آگے چل کر انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے۔ ہماری فلمی گیت نگاری کے پہلے دور میں جو قیامِ پاکستان سے تقسیم پاکستان یعنی بنگلہ دیش کے ظہور کے درمیان کا عہد ہے، اُردو فلموں کے لیے گیت لکھ کر کئی شاعروں نے بہت نام کمایا جن میں تنویر نقوی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف، منیر نیازی، حبیب جالب، احمد راہی اور کلیم عثمانی کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔

ان کے بعد کی نسل میں مسرور انور، خواجہ پرویز، تسلیم فاضلی اور ریاض الرحمٰن ساغر ؔ نے اپنے ہم عصروں کی نسبت نہ صرف مقدار میں زیادہ لکھا بلکہ معیار کے حوالے سے بھی معتبر ٹھہرے۔ فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ریاض الرحمٰن ساغرؔ نے صحافت سے بھی اپنا تعلق قائم رکھا اور اس میدان میں بھی ایک نسبتاً کم معروف صنف ادب یعنی منظوم کالم کی روایت کو آگے بڑھایا۔

وہ روزانہ ''نوائے وقت'' میں ''عرض کیا ہے'' کے عنوان سے کسی ایک موضوع یا مختلف خبروں پر منظوم انداز میں اظہارِ خیال کرتے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہی روایت ہے جس میں مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری اور مجید لاہوری جیسے اہم نام شامل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان کو چھوڑ کر باقی لوگ ہفتہ وار یا کبھی کبھار اپنے منظوم تاثرات قلم بند کرتے تھے جب کہ ریاض الرحمٰن ساغر نے اس میں ہر روز طبع آزمائی کی جو اپنی جگہ پر ایک بہت مشکل کام ہے۔

وہ گزشتہ کچھ عرصے سے عباس اطہر مرحوم کی طرح خاصے علیل تھے لیکن بدقسمتی سے نہ تو صحافی برادری اور نہ ہی فلمی صنعت سے متعلق احباب نے کوئی ایسا باقاعدہ فنڈ قائم کیا ہے جس سے بیماری اور بے روزگاری کے دوران اپنے ممبران کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ ماضی قریب میں اس کی مثال مہدی حسن، لہری صاحب اور ریاض الرحمٰن ساغر ہیں جب کہ مشہور لوک گلوکارہ ریشماں سخت بیمار ہیں۔

اے فلک افسوس ہے تجھ پر بہت افسوس ہے
Load Next Story