پہاڑوں نے حلف اٹھالیا
29 مئی 2013 بدھ کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن صبح ساڑھے دس بجے پاکستان میں تبدیلی کے نقیبوں نے ساری اسمبلیوں۔۔۔
29 مئی 2013 بدھ کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن صبح ساڑھے دس بجے پاکستان میں تبدیلی کے نقیبوں نے ساری اسمبلیوں سے پہلے حلف اٹھایا۔ یہ واقعہ ہے پاکستان کے تاریخی شہر پشاور کا جہاں صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں صبح سے ہی عیدکا سماں تھا۔ پہاڑوں کے شہزادے اور شہزادیاں اپنی اپنی وادیوں سے اترکر اسمبلی میں جمع ہورہے تھے۔ سبھی نے نئے کپڑے پہن رکھے تھے، تبدیلی کے خواہاں، تحریک انصاف کے نو منتخب ممبران نے سفید کرتا شلوار کے ساتھ سیاہ واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ 155 ممبران کے ایوان میں یہ لوگ نمایاں نظر آرہے تھے۔
مجھے صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی تقریب حلف برداری کا انتظار تھا۔ میں یہ تاریخی مناظر دیکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلینا چاہتا تھا اور اب میری تمنا پوری ہورہی تھی، میں دیکھ رہا تھا صوبہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اپنی نشست سنبھالنے کے بعد اسپیکر اسمبلی نومنتخب ممبران سے مخاطب تھے وہ کہہ رہے تھے ''سابقہ اسمبلی نے صوبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی، مگر ہم کامیاب نہ ہوسکے صوبے میں آج بھی امن وامان سنگین صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ بے روزگاری بھی اس صوبے کا بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئے آنے والے ہم سے کہیں بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا کو درپیش سنگین مسائل سے نجات دلائیں گے۔
اپنے مختصر خطاب کے بعد اسپیکر صاحب نے نومنتخب ارکان سے حلف اٹھانے کے لیے کھڑے ہونے کو کہا، حلف سے پہلے اسپیکر صاحب نے ممبران اسمبلی سے کہا کہ حلف کی عبارت آپ کے سامنے ڈسک پر موجود ہے۔ آپ یہ حلف اردو، پشتو یا انگریزی جس زبان میں چاہیں، حلف اٹھاسکتے ہیں، مگر میں حلف کی عبارت اردو زبان میں ادا کروں گا''۔
اور قارئین کرام ! اب میرے سامنے وہ منظر تھا جسے میں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے نومنتخب اور بڑی تعداد میں نوخیز ممبران حلف اٹھا رہے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا اور میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں، دل سے دعائیں نکل کر کانپتے لبوں پر آگئیں تھیں، بظاہر میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، مگر اب میرے سامنے بشیر بلور کا اسٹریچر تھا جسے اٹھائے لوگ آپریشن تھیٹر کی طرف جارہے تھے اور ہم سب کا پیارا اور بہادر بشیر بلور زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا تھا۔ میرے سامنے افتخار حسین کا اکلوتا جوان بیٹا تھا جسے دہشت گردوں نے مار ڈالا تھا۔ یہ موت سے لڑنے والے لوگوں کا صوبہ جہاں موت کے سوداگروں نے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا، جہاں کے تاریخی اور پرہجوم بازاروں کو کھنڈر بنادیا۔
اس درجہ تباہی و بربادی کے باوجود پہاڑوں کے بیٹے بیٹیاں پہاڑوں کا سا عزم لیے میدان عمل میں نکلے اور نئے ارادے، نئے ولولے کے ساتھ اپنا سب کچھ نئے پاکستان کے نام پر عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے فیصلے کو جذباتی فیصلہ کہہ کر ووٹروں کی دل آزاری نہ کی جائے کیونکہ یہ جذباتی فیصلہ تو سمندر کے بیٹے بیٹیوں نے بھی کیا ہے۔ کراچی شہر متحدہ قومی موومنٹ کاگڑھ ہے مگر الیکشن 2013 میں متحدہ قومی موومنٹ کے فی حلقہ ہزاروں ووٹ نکل کر پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں جاگرے لہٰذا پہاڑوں سے سمندر تک تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاکھوں ووٹ تبدیلی کے نام پر بیلٹ بکسوں سے نکلے ہیں۔ یہ طاقت کا سرچشمہ کہلانے والے عوام کا فیصلہ ہے اس فیصلے کو احترام دیں، ویسے بھی یہ وقت ایسی باتیں کرنے کا نہیں ہے۔
عوام کے فیصلے جہاں جہاں، جو جو آئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو ان فیصلوں کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی طاقت و صلاحیت سے فائدہ اٹھاکر مسائل میں گھرے عوام کو آسودگی و خوشحالی کی طرف لے جانے کی کوششیں کرنا چاہئیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کو قدم قدم چلتے ہوئے سارے پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ مرکز اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اس جماعت پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے۔ پورے پاکستان سے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملے ہیں، صوبہ بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔ صوبہ سندھ سے مرکز اور صوبائی دونوں سطحوں پر مسلم لیگ (ن) کی نمایندگی موجود ہے اور کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ 258 سے اس جماعت کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی مسلم لیگ (ن) کے نمایندے مرکز اور صوبے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ملک جن نازک مسائل سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے ہر لمحہ ہر لحظہ محبت و یگانگت کی باتیں ہوں کہیں سے کوئی تلخ بات آئے بھی تو بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے درگزر سے کام لیا جائے کیونکہ فطرت کے اصول کے مطابق جس شاخ کو زیادہ پھل لگے ہوں وہ جھکی رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے، عوام کے ووٹوں نے اسے جس اونچے مقام پر بٹھادیا ہے وہاں اسے کام بھی کرنا ہے اور باتیں بھی سننا ہیں۔ امید کامل ہے کہ مسلم لیگ (ن) باتیں سنتی رہے گی اور کام ، کام بس کام کرتی رہے گی۔
تہمینہ دولتانہ کی بات میں سن رہا تھا وہ بڑی ہی سرشاری کے ساتھ کہہ رہی تھیں ''ہمارے پاس بھی ایک جن ہے، جس کا نام شہباز شریف ہے انشاء اللہ ہمارا جن، لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردے گا''۔ تہمینہ دولتانہ کی بات دل کو لگتی ہے، شہباز شریف کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں اور وہ تھکا نہیں، وہ جھکا نہیں شہباز کو اللہ نے بڑی اونچی پرواز عطا فرمائی ہے، وہی اللہ اپنے بندوں کی خاطر اسے لوڈشیڈنگ کے مقابلے میں بھی سرخرو کرے گا۔قارئین کرام! یہ جو میں عمران خان اور نواز و شہباز شریف صاحبان کے لیے توصیفی کلمات لکھ رہا ہوں، اس کے پیچھے دراصل میری وہ خواہشات ہیں کہ عوام کو ڈرون حملوں، بجلی کی لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، تعلیم، صحت، دہشت گردی سے نجات مل جائے اور میرا کوئی مقصد نہیں ہے۔
میں نے تو آج تک عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف سے ہاتھ تک نہیں ملایا ۔ بس تمنا ہے تو فقط اتنی کہ ہم عوام نے ان تینوں کو فتح دلائی ہے۔ اب یہ عوام کے لیے کام کریں۔ قتل و غارت کا بازار اجاڑ دیں ۔امن قائم کریں۔ روشنی پھیلائیں۔ باقی ہمارے صوبہ سندھ میں '' وہی لوگ'' پھر آگئے ہیں جو پانچ سال کچھ نہ کرسکے۔ ان سے کیا کہنا، کیا سننا؟ میرے شہر کراچی کا وہی حال ہے جو تھا۔ ہیٹ ٹرک یافتہ وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ حلف اٹھاتے ہی فریال تالپور کے ساتھ پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری جا پہنچے۔ ٹھیک ہے! حلف اٹھانے کے بعد قائم علی شاہ صاحب کو اپنے گھر ہی جانا چاہیے تھا۔مگر شاہ صاحب دیکھ لیں کہ لیاری والا گھر ناصر کاظمی کا یہ 5شعر سال سے پڑھ رہا ہے۔ ؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
مجھے صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی تقریب حلف برداری کا انتظار تھا۔ میں یہ تاریخی مناظر دیکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلینا چاہتا تھا اور اب میری تمنا پوری ہورہی تھی، میں دیکھ رہا تھا صوبہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اپنی نشست سنبھالنے کے بعد اسپیکر اسمبلی نومنتخب ممبران سے مخاطب تھے وہ کہہ رہے تھے ''سابقہ اسمبلی نے صوبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی، مگر ہم کامیاب نہ ہوسکے صوبے میں آج بھی امن وامان سنگین صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ بے روزگاری بھی اس صوبے کا بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئے آنے والے ہم سے کہیں بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا کو درپیش سنگین مسائل سے نجات دلائیں گے۔
اپنے مختصر خطاب کے بعد اسپیکر صاحب نے نومنتخب ارکان سے حلف اٹھانے کے لیے کھڑے ہونے کو کہا، حلف سے پہلے اسپیکر صاحب نے ممبران اسمبلی سے کہا کہ حلف کی عبارت آپ کے سامنے ڈسک پر موجود ہے۔ آپ یہ حلف اردو، پشتو یا انگریزی جس زبان میں چاہیں، حلف اٹھاسکتے ہیں، مگر میں حلف کی عبارت اردو زبان میں ادا کروں گا''۔
اور قارئین کرام ! اب میرے سامنے وہ منظر تھا جسے میں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے نومنتخب اور بڑی تعداد میں نوخیز ممبران حلف اٹھا رہے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا اور میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں، دل سے دعائیں نکل کر کانپتے لبوں پر آگئیں تھیں، بظاہر میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، مگر اب میرے سامنے بشیر بلور کا اسٹریچر تھا جسے اٹھائے لوگ آپریشن تھیٹر کی طرف جارہے تھے اور ہم سب کا پیارا اور بہادر بشیر بلور زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا تھا۔ میرے سامنے افتخار حسین کا اکلوتا جوان بیٹا تھا جسے دہشت گردوں نے مار ڈالا تھا۔ یہ موت سے لڑنے والے لوگوں کا صوبہ جہاں موت کے سوداگروں نے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا، جہاں کے تاریخی اور پرہجوم بازاروں کو کھنڈر بنادیا۔
اس درجہ تباہی و بربادی کے باوجود پہاڑوں کے بیٹے بیٹیاں پہاڑوں کا سا عزم لیے میدان عمل میں نکلے اور نئے ارادے، نئے ولولے کے ساتھ اپنا سب کچھ نئے پاکستان کے نام پر عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے فیصلے کو جذباتی فیصلہ کہہ کر ووٹروں کی دل آزاری نہ کی جائے کیونکہ یہ جذباتی فیصلہ تو سمندر کے بیٹے بیٹیوں نے بھی کیا ہے۔ کراچی شہر متحدہ قومی موومنٹ کاگڑھ ہے مگر الیکشن 2013 میں متحدہ قومی موومنٹ کے فی حلقہ ہزاروں ووٹ نکل کر پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں جاگرے لہٰذا پہاڑوں سے سمندر تک تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاکھوں ووٹ تبدیلی کے نام پر بیلٹ بکسوں سے نکلے ہیں۔ یہ طاقت کا سرچشمہ کہلانے والے عوام کا فیصلہ ہے اس فیصلے کو احترام دیں، ویسے بھی یہ وقت ایسی باتیں کرنے کا نہیں ہے۔
عوام کے فیصلے جہاں جہاں، جو جو آئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو ان فیصلوں کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی طاقت و صلاحیت سے فائدہ اٹھاکر مسائل میں گھرے عوام کو آسودگی و خوشحالی کی طرف لے جانے کی کوششیں کرنا چاہئیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کو قدم قدم چلتے ہوئے سارے پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ مرکز اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اس جماعت پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے۔ پورے پاکستان سے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملے ہیں، صوبہ بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔ صوبہ سندھ سے مرکز اور صوبائی دونوں سطحوں پر مسلم لیگ (ن) کی نمایندگی موجود ہے اور کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ 258 سے اس جماعت کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی مسلم لیگ (ن) کے نمایندے مرکز اور صوبے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ملک جن نازک مسائل سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے ہر لمحہ ہر لحظہ محبت و یگانگت کی باتیں ہوں کہیں سے کوئی تلخ بات آئے بھی تو بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے درگزر سے کام لیا جائے کیونکہ فطرت کے اصول کے مطابق جس شاخ کو زیادہ پھل لگے ہوں وہ جھکی رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے، عوام کے ووٹوں نے اسے جس اونچے مقام پر بٹھادیا ہے وہاں اسے کام بھی کرنا ہے اور باتیں بھی سننا ہیں۔ امید کامل ہے کہ مسلم لیگ (ن) باتیں سنتی رہے گی اور کام ، کام بس کام کرتی رہے گی۔
تہمینہ دولتانہ کی بات میں سن رہا تھا وہ بڑی ہی سرشاری کے ساتھ کہہ رہی تھیں ''ہمارے پاس بھی ایک جن ہے، جس کا نام شہباز شریف ہے انشاء اللہ ہمارا جن، لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردے گا''۔ تہمینہ دولتانہ کی بات دل کو لگتی ہے، شہباز شریف کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں اور وہ تھکا نہیں، وہ جھکا نہیں شہباز کو اللہ نے بڑی اونچی پرواز عطا فرمائی ہے، وہی اللہ اپنے بندوں کی خاطر اسے لوڈشیڈنگ کے مقابلے میں بھی سرخرو کرے گا۔قارئین کرام! یہ جو میں عمران خان اور نواز و شہباز شریف صاحبان کے لیے توصیفی کلمات لکھ رہا ہوں، اس کے پیچھے دراصل میری وہ خواہشات ہیں کہ عوام کو ڈرون حملوں، بجلی کی لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، تعلیم، صحت، دہشت گردی سے نجات مل جائے اور میرا کوئی مقصد نہیں ہے۔
میں نے تو آج تک عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف سے ہاتھ تک نہیں ملایا ۔ بس تمنا ہے تو فقط اتنی کہ ہم عوام نے ان تینوں کو فتح دلائی ہے۔ اب یہ عوام کے لیے کام کریں۔ قتل و غارت کا بازار اجاڑ دیں ۔امن قائم کریں۔ روشنی پھیلائیں۔ باقی ہمارے صوبہ سندھ میں '' وہی لوگ'' پھر آگئے ہیں جو پانچ سال کچھ نہ کرسکے۔ ان سے کیا کہنا، کیا سننا؟ میرے شہر کراچی کا وہی حال ہے جو تھا۔ ہیٹ ٹرک یافتہ وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ حلف اٹھاتے ہی فریال تالپور کے ساتھ پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری جا پہنچے۔ ٹھیک ہے! حلف اٹھانے کے بعد قائم علی شاہ صاحب کو اپنے گھر ہی جانا چاہیے تھا۔مگر شاہ صاحب دیکھ لیں کہ لیاری والا گھر ناصر کاظمی کا یہ 5شعر سال سے پڑھ رہا ہے۔ ؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے