شہباز شریف کی گرفتاری

ملک انارکی، تصادم، افراتفری اور سیاسی بحران کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔

ملک انارکی، تصادم، افراتفری اور سیاسی بحران کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ فوٹو:فائل

قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں اختیارات کا غلط استعمال کرکے قومی خزانہ کو مالی نقصان پہنچانے پر گرفتار کرلیا، نیب نے میاں شہبازشریف کو احتساب عدالت میں پیش کرتے ہوئے 10 روزہ ریمانڈ لے لیا۔

میڈیا کے مطابق میاں شہباز شریف کو جمعرات کو نیب نے صاف پانی کیس میں طلب کر رکھا تھا جس کے لیے میاں شہبازشریف اگلے روز اپنی گاڑی میں نیب لاہور کے دفتر بیان ریکارڈ کرانے گئے، جہاں نیب نے انھیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں حراست میں لے لیا۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے نیب کارروائی کے حوالہ سے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے سیاسی ہلچل پر سیاسی مبصرین نے نیب کے تحقیقاتی طریقہ کار، چارج شیٹ، چالان اور ریفرنسز کی تیاری اور دیگر قانونی تقاضوں پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ گرفتاری کو صریحاً غیر قانونی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایسی گرفتاریاں ابھی حال ہی میں دیگر سیاستدانوں اور ان کے قریبی رفقا کار کی بھی عمل میں لائی گئی ہیں، آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر ملزمان اربوں روپے کے منی لانڈرنگ اسکینڈل میں عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔

بعض ماہرین قانون اور سینئر وکلا کا استدلال ہے کہ شہباز شریف کی اچانک گرفتاری تحیرخیز ضرور ہے مگر کرپٹ عناصر اور بڑے مگرمچھوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا منفی تاثر مناسب نہیں، یہ احتساب کا حصہ ہے جب کہ ن لیگ اور اپوزیشن کا موقف ہے کہ کارروائی کی ٹائمنگ مشکوک او بدنیتی پر مبنی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق شہباز شریف کی گرفتاری ملک میں آئندہ چند روز بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کے تناظر میں ن لیگ کے لیے دھچکا اور پارٹی کے اتحاد و یکجہتی کے لیے ''شاکنگ'' ہے۔

پی ٹی آئی مخالف سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کی خبر میڈیا پر زیر بحث ہے جسکے ضمنی الیکشن کی مہم پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ ہے، بعض ماہرین قانون اور اپوزیشن رہنماؤں نے اسے پارلیمان کی توہین اور سیاسی انتقام سے تعبیر کیا ہے لیکن قانونی آرا کی منطقی بنیاد اس نکتہ پر مرکوز ہے کہ احتساب کے نعرہ پر پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آئی ہے اور اس کے لیے اپنے منشور کی اس بنیادی کمٹمنٹ پر عمل درآمد کرنا پاؤں کی زنجیر بنی ہے جب کہ ووٹروں سے کیے گئے وعدوں کی روشنی میں اس کی سیاسی، اخلاقی اور جماعتی ذمے داری ہے کہ وہ احتساب کا عمل جاری رکھے، لیکن قطع نظر اس بھونچال اور سیاسی ہلچل کے حکومت اور نیب حکام کو یہ بات عوام اور سیاسی و جمہوری حلقوں کو باور کرانا ہوگی کہ احتساب بلاتفریق اور ہر قسم کے دباؤ، ترغیب، انتقام اور بغض و عناد سے بالاتر ہے۔

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور عدالتی عمل کی شفافیت، کیسز کی پیروی، اور انصاف کے مسلمہ تقاضوں اور ''جیورس پروڈینس'' کی اقدار کے طے شدہ عالمی نظائر کی روشنی میں انصاف ہوتا نظر آئے لہٰذا اپوزیشن کا مطالبہ بلاجواز نہیں کہ دوسرے ملزمان کو بھی دندناتے پھرتے نہیں رہنا چاہیے تاہم یہ وقت جوش اور ٹکراؤ کی طرف جانے کا نہیں، سیاسی قیادتوں کو صبر وتحمل کے ساتھ قانونی اور عدالتی عمل پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔


یہ حقیقت ہے کہ ن لیگ کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور دیگر رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، عدلیہ کی حرمت کو ملحوظ رکھا ہے، انھوں نے پاناما اور دیگر کیسز کی پیروی اور سماعتوں میں قانونی طرز عمل اختیار کیا اس لیے حالیہ گرفتاری کو مخاصمانہ کریک ڈاؤن اور ضمنی انتخابات سے قبل کی سیمابی صورتحال سے کسی کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، نیب کی کارروائی بھی زیر بحث لائی گئی ہے، معاملات الزامات اور آئین و قانون سے متعلق ہیں اس لیے جنگ بھی قانونی ہونی چاہیے۔

ملک انارکی، تصادم، افراتفری اور سیاسی بحران کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ المیہ یہ ہے کہ ادارے اگر متنازع نہ بنائے جاتے، سب ایک پیج پر ہوتے، پارلیمنٹ کے تقدس اور عدلیہ کے وقار پر میڈیا ٹرائل کے الزامات کی گونج نہ سنائی دیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت احتساب کے اپنے ایجنڈے کی شفافیت اور معروضیت پر نظر رکھے، نیب ایک آزاد ادارہ کے طور پر آئین و قانون کے مطابق کام کرے، سیاسی انتقام کا کوئی تاثر نہیں ملنا چاہیے اور اسے اس اصول کو پیش نطر رکھنا چاہیے کہ ہر ملزم اس وقت تک بیگناہ ہے جب تک عدالت اسے مجرم قرار نہ دے۔

نیب کی چارج شیٹ میں جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے مطابق ملزم شہباز شریف نے بطور چیف منسٹر پی ایل ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طاقت کا غیرقانونی استعمال کیا۔ میاں شہبازشریف کی گرفتاری کے خلاف مسلم لیگ ن کے کارکنان سراپا احتجاج بن گئے اور نیب دفتر کے باہر احتجاجی نعرے بازی کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری سے دنیا میں منفی تاثر جائیگا۔ بہرکیف ن لیگ کے لیے لمحہ حاضر ہوشمندی جب کہ حکومت کے لیے سنجیدگی سے کام لینے کا ہے۔

 
Load Next Story