ناقص بیٹنگ کے سبب ویسٹ انڈیز سے شکست ہوئی سابق اسٹارز
بیٹنگ آرڈر کے بارے میں از سر نو غور کرنا ہوگا، رمیز راجہ
سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست کی وجہ ناقص بیٹنگ کو قرار دیتے ہوئے پلیئرزکو بقیہ میچز میں ذمہ داری سے کھیلنے کا مشورہ دیا ہے۔
سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ تجربہ کار بیٹسمینوں نے بغیر حکمت عملی کے پرفارم کیا، نئی گیند پر شاٹ سلیکشن درست نہیں تھا، نئے کھلاڑیوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، ایک انٹرویو میں سوئنگ کے سلطان نے کہا کہ کئی بار کہہ چکا کہ ٹیم کی بیٹنگ چل گئی تو ہمارے لیے جیت کا راستہ بنانا مشکل نہیں ہوگا، ٹاس ہارنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، عمران فرحت تجربہ کار کرکٹرز اور طویل عرصے سے قومی ٹیم میں شامل ہیں، انھیں وکٹ، موسم اور حریف کی بولنگ کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی کے مطابق 40 اوورز تک وکٹ پر قیام کرتے ہوئے بغیر کسی دباؤ کے رنز اسکور کرنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے غیر ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔
محمد حفیظ کے بعد اسد شفیق کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی، نوجوان بیٹسمین کی شارٹ پچ گیندوں پر کمزوری کھل کر سامنے آگئی، میچ دنیا بھر کے شائقین کے ساتھ حریف ٹیموں اور ان کے کوچز نے بھی دیکھا،اسد و دیگر پلیئرز کو خامیوں پر قابو پانا ہوگا، سابق قائد نے کہا کہ ناصر جمشید باصلاحیت اوپنر ہیں، ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد انھوں نے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن 50 رنز بناتے ہی سوچ لیا کہ اب ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی،شعیب ملک اور کامران اکمل نے بھی لاپرواہی سے وکٹیں گنواکر ٹیم کی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔
مصباح الحق نے شاندار پرفارمنس دکھائی جو ایک اچھے کپتان کی پہچان ہوتی ہے لیکن ٹیل اینڈرز نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا، سعید اجمل غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رن آؤٹ نہ ہوتے تو مصباح الحق سنچری مکمل کرنے کے ساتھ اچھا ہدف دینے میں بھی کامیاب ہوجاتے،انھوں نے کہا کہ اگر قومی ٹیم220 رنز بنا لیتی تو ویسٹ انڈیز کیلیے فتح حاصل کرنا مشکل ہوتا، آفریدی کے ہونے سے شائد کچھ فرق پڑ جاتا مگر ٹیم کو ان کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔
وسیم اکرم نے کہا کہ میچ کو دلچسپ بنانے کا کریڈٹ بولرز کو جاتا ہے، ان کی کارکردگی قابل تحسین رہی،کوئی اور ٹیم ہوتی تو کیریبیئنز باآسانی ہدف حاصل کر لیتے۔ سابق کرکٹر رمیز راجہ نے کہاکہ ٹاس ہارنے کے بعد بوکھلاہٹ میں بیٹنگ لائن کا توازن ہی بگڑ گیا اور کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی نہ دکھا سکے، ویسٹ انڈین کے بولرز کو ابتدا میں توقعات کے مطابق پچ سے کافی مدد مل گئی، وکٹیں گرنے کے بعد عام سے پیسرز کی لائن اور لینتھ بھی ہماری ٹیم کیلیے زیادہ مشکل ہوتی گئی، مستقبل کی کرکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بورڈ اور مینجمنٹ کو بیٹنگ آرڈر کے بارے میں از سر نو غور کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ پہلے میچ میں خراب کارکردگی کے باوجود کھلاڑی دلبرداشتہ نہ ہوں، ابھی صلاحیتوں کو منوانے کے مزید مواقع باقی اور قومی ٹیم فیورٹس میں شامل ہے۔
سابق فاسٹ بولر سرفراز نواز نے کہا کہ شروع میں وکٹیں گرنے سے پاکستانی ٹیم دباؤ میں آ گئی، اس کے باوجود مصباح الحق اور ناصر جمشید نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کے مجموعی اسکور میں خاطر خواہ اضافہ کیا، اگر ناصر مزید6 اوورز بھی کھیل جاتے تو 200 سے زائد کا مجموعہ حاصل کیا جاسکتا تھا، گرین شرٹس کی مضبوط بولنگ کے پیش نظر اتنا ہدف بھی ویسٹ انڈیز کیلیے آسان نہیں ہوتا۔ سوئنگ کے موجد نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ابتدائی میچ میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اگلے میچز کیلیے بہتر حکمت عملی اپنانی اور نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے، صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ پر تادیر قیام کی ضرورت ہے، پلیئرز صلاحیتوں کے مطابق پرفارم کرنا شروع کردیں تو ٹورنامنٹ میں بقا کی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔
سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ تجربہ کار بیٹسمینوں نے بغیر حکمت عملی کے پرفارم کیا، نئی گیند پر شاٹ سلیکشن درست نہیں تھا، نئے کھلاڑیوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، ایک انٹرویو میں سوئنگ کے سلطان نے کہا کہ کئی بار کہہ چکا کہ ٹیم کی بیٹنگ چل گئی تو ہمارے لیے جیت کا راستہ بنانا مشکل نہیں ہوگا، ٹاس ہارنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، عمران فرحت تجربہ کار کرکٹرز اور طویل عرصے سے قومی ٹیم میں شامل ہیں، انھیں وکٹ، موسم اور حریف کی بولنگ کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی کے مطابق 40 اوورز تک وکٹ پر قیام کرتے ہوئے بغیر کسی دباؤ کے رنز اسکور کرنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے غیر ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔
محمد حفیظ کے بعد اسد شفیق کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی، نوجوان بیٹسمین کی شارٹ پچ گیندوں پر کمزوری کھل کر سامنے آگئی، میچ دنیا بھر کے شائقین کے ساتھ حریف ٹیموں اور ان کے کوچز نے بھی دیکھا،اسد و دیگر پلیئرز کو خامیوں پر قابو پانا ہوگا، سابق قائد نے کہا کہ ناصر جمشید باصلاحیت اوپنر ہیں، ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد انھوں نے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن 50 رنز بناتے ہی سوچ لیا کہ اب ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی،شعیب ملک اور کامران اکمل نے بھی لاپرواہی سے وکٹیں گنواکر ٹیم کی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔
مصباح الحق نے شاندار پرفارمنس دکھائی جو ایک اچھے کپتان کی پہچان ہوتی ہے لیکن ٹیل اینڈرز نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا، سعید اجمل غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رن آؤٹ نہ ہوتے تو مصباح الحق سنچری مکمل کرنے کے ساتھ اچھا ہدف دینے میں بھی کامیاب ہوجاتے،انھوں نے کہا کہ اگر قومی ٹیم220 رنز بنا لیتی تو ویسٹ انڈیز کیلیے فتح حاصل کرنا مشکل ہوتا، آفریدی کے ہونے سے شائد کچھ فرق پڑ جاتا مگر ٹیم کو ان کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔
وسیم اکرم نے کہا کہ میچ کو دلچسپ بنانے کا کریڈٹ بولرز کو جاتا ہے، ان کی کارکردگی قابل تحسین رہی،کوئی اور ٹیم ہوتی تو کیریبیئنز باآسانی ہدف حاصل کر لیتے۔ سابق کرکٹر رمیز راجہ نے کہاکہ ٹاس ہارنے کے بعد بوکھلاہٹ میں بیٹنگ لائن کا توازن ہی بگڑ گیا اور کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی نہ دکھا سکے، ویسٹ انڈین کے بولرز کو ابتدا میں توقعات کے مطابق پچ سے کافی مدد مل گئی، وکٹیں گرنے کے بعد عام سے پیسرز کی لائن اور لینتھ بھی ہماری ٹیم کیلیے زیادہ مشکل ہوتی گئی، مستقبل کی کرکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بورڈ اور مینجمنٹ کو بیٹنگ آرڈر کے بارے میں از سر نو غور کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ پہلے میچ میں خراب کارکردگی کے باوجود کھلاڑی دلبرداشتہ نہ ہوں، ابھی صلاحیتوں کو منوانے کے مزید مواقع باقی اور قومی ٹیم فیورٹس میں شامل ہے۔
سابق فاسٹ بولر سرفراز نواز نے کہا کہ شروع میں وکٹیں گرنے سے پاکستانی ٹیم دباؤ میں آ گئی، اس کے باوجود مصباح الحق اور ناصر جمشید نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کے مجموعی اسکور میں خاطر خواہ اضافہ کیا، اگر ناصر مزید6 اوورز بھی کھیل جاتے تو 200 سے زائد کا مجموعہ حاصل کیا جاسکتا تھا، گرین شرٹس کی مضبوط بولنگ کے پیش نظر اتنا ہدف بھی ویسٹ انڈیز کیلیے آسان نہیں ہوتا۔ سوئنگ کے موجد نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ابتدائی میچ میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اگلے میچز کیلیے بہتر حکمت عملی اپنانی اور نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے، صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ پر تادیر قیام کی ضرورت ہے، پلیئرز صلاحیتوں کے مطابق پرفارم کرنا شروع کردیں تو ٹورنامنٹ میں بقا کی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔