جج صاحب کراچی کی بھی سنیں

عدالت ِ عظمیٰ کی ایسی عادل نظر کراچی کی حالت ِ زار اور مقامی آبادی کے حقوق پر کب پڑے گی۔۔۔؟

پنجاب بھر میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت قبضہ مافیہ کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ وفاقی حکومتی جماعت کے لوگوں سے بھی غیر قانونی قبضہ چھڑایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند فیصلے و اقدامات ہیں۔

ان فیصلوں کو سراہتے ہوئے سندھ کے عوام ملک کے سب سے اعلیٰ ادارے سپریم کورٹ کی توجہ اپنے صوبہ بالخصوص صوبہ کے دارالحکومت کراچی کی جانب بھی مبذول کراتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ عدالت ِ عظمیٰ کی ایسی عادل نظر کراچی کی حالت ِ زار اور مقامی آبادی کے حقوق پر کب پڑے گی۔۔۔؟

وہ مقامی آبادی جس کی17ویں صدی کے نصف سے جام مرید جوکھیو کی قیادت میں قائم''مریدکی جاگیر'' (موجودہ درسانو چھنو) ملیر اور گڈاپ سے جامشورو کے کوہستانی علاقوں تک کی ہزاروں ایکڑ زمین پر پاکستان کے سب سے بڑے بلڈر گروپ نے اداراتی ساز باز اور نجی دھوکہ بازی کے ذریعے قبضہ کررکھا ہے اور اس کے خلاف 270 سے زائد اسٹے اور کیسز عدالتوں میں ہونے اور عدالتی پابندی کے باوجود یہ منصوبہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کے تحت متذکرہ گروپ کے غیر قانونی تجاوز کا دائرہ کار کراچی سے آگے بڑھ کر ٹھٹہ اور جامشورو اضلاع کی حدود تک پھیل گیا ہے جس پر گزشتہ سال جامشورو انتظامیہ اور بلڈر میں شدید تنازعہ میں وقت کی صوبائی حکومت بھی بلڈر و قبضہ مافیہ کے کنگ سمجھے جانے والے کے ساتھ نظر آئی۔

گڈاپ اور ملیر پر مشتمل علا قے پر سب کی نظریں ہیں، ایک طرف متذکرہ بلڈر گروپ کے علاوہ ڈی ایچ اے سٹی اور دیگر بلڈر گروپس و قبضہ مافیا کی جانب سے کئی مقامی گوٹھوں پر قبضوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف قدیم آثار اور تاریخی مقامات تک کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے حتی ٰ کہ ملیر ندی اور دیگر قدرتی برساتی و نکاسی ِ آب کے نالوںسمیت تھڈو ڈیم کے ساتھ ساتھ کراچی کے واحد قدرتی ماحول کے حامل علاقے کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

ایسی رہائشی اسکیموں کو پانی کی دستیابی، نکاسی آب کے نظام اور ماحولیاتی و ڈیموگرافی صورتحال کے پیش نظر جائزہ لینے کے بعد NOCجاری کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ نہ کوئی نقشہ، نہ پلان، نہ پانی کا پتہ، نہ نکاسی کا نظام۔ بس ایک فون پر غیرقانونی زمین پر قانونی الاٹمنٹ کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے پھر ان اسکیموں کو شہر میں پہلے سے آباد عوام کے حصے کا پانی بیچ دیا جاتا ہے۔ مستقبل میں کے فور اور دیگر آبی اسکیموں کا پانی ان میگا پروجیکٹس کے لوگوں کو دیکر پہلے سے پانی کی کمی برداشت کرنیوالے کراچی کے عوام کو پیاسہ مارنے کا کام کیا جائے گا۔

حالانکہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے اربن سپورٹ پروگرام کے لیے ورلڈ بینک سے 10ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے لیکن جب تک ان معاملات کو ٹھیک نہیں کیا جاتا یا ٹھیک کرنے کی نیت نہ ہوگی تب تک یہ بیرونی قرضے یا سرکاری اجلاس کی کارروائیاں محض ہاتھی کے دکھاوے کے دانت ہی رہیں گے۔

عدالت میں تو صرف ایم ڈی اے کی جانب سے 1800ایکڑ زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا کیس چل رہا ہے لیکن سرزمین پرہزاروں لوگوں کی جانب سے گھارو، دابیجی اور جامشوروں تک پھیلے اس اژدہا نما منصوبے کے خلاف کافی وقت سے تحریک چل رہی ہے۔ جس میں سندھ کی سماجی تنظیموں اور مختلف مقامی قبیلوں تک کے اتحاد بھی فعال ہیں لیکن ان کی آواز کو دبانے کے لیے سرکاری مشنری، بلڈر مافیا کا پیسہ اور قبضہ مافیا کی قبضہ گردی کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔

مقامی لوگوں اور میڈیا کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سابق پولیس افسر بھی اس قبضہ گرد مافیا کا نمائندہ بن کر مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن کیے رہتا تھا۔ جس پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر کافی شور برپا ہوا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، حتی کہ شہر میں کئی سال سے جاری دوسرے پبلک پرائیوٹ قبضہ مافیا کے پروجیکٹ چائنہ کٹنگ جیسے کاروبار پر بھی ابھی تک کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے ۔

صدیوں سے ملیر و گڈاپ میں پہاڑی سختی و زندگی کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود رہنے اور ان علاقوں کو نہ چھوڑنے کی بنیادی وجہ وہ جذبہ ہے جس کے تحت زمین یا دھرتی کو ماں سمجھا جاتا ہے ۔ جس کا بہترین اظہار کرتے ہوئے سرتاج الشعراء شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒنے کہا ہے کہ

'' اِی ٔنہ مارن رِیت َ ، جو سین مٹائین سون تی''


یعنی سونا دیکھ کر رشتے تبدیل کرنا یہ مارو (دیس باسیوں ) لوگوں کا طرز عمل نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ دل میں چور ہونے یا قول و فعل میں فرق آجانے سے عالم کی زبان سے تاثیر اورریاست میں سرکار کی رٹ ختم ہوجاتی ہے۔ کراچی اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اب یہاں نہ تو مساجد و مدارس کے علماء و خطیبوں کی نصیحتوں پر لوگ کان دھرتے ہیں اور نہ ہی یہاں عوام سرکاری قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ حکومتی رٹ کا تو یہ عالم ہے کہ ٹریفک سگنل کے نظام تک کو عوام نے Followکرنا چھوڑدیا ہے۔

قبضہ فقط انفرادی طور پر نہیں ہوتا بلکہ اب یہ مافیا کا روپ دھار چکا ہے جس میں سرکاری ادارے و عملداران کی سرپرستی، سیاسی و مذہبی تنظیموں اور بااثر افراد و بلڈروں کی گٹھ جوڑ کے باعث انتہائی طاقتور بن چکی ہے۔ وہ مخصوص زمین جو صرف پارکوں، کھیل کے میدانوں، یتیم خانوں یا پھر ایسے فلاحی اداروں کے لیے مخصوص ہوتی ہے جو سرکاری سرپرستی میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں، ان پر قبضوں میں سیاسی تنظیموں سے لے کر سرکاری اداروں تک سبھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ چانڈیو ولیج پنجاب کالونی کے فٹبال گراؤنڈ، گٹر باغیچہ کی زمین ہو۔یا پھر سمندری ساحل سمیت کہیں بھی کوئی خالی پلاٹ یا کھلی زمین نظر آنے کی دیر ہے بس پھر تو وہ پلک جھپکتے کسی نہ کسی قبضہ گروہ کی ملکیت بن جاتی ہے۔

ویسے تو جائز املاکی دستاویزات کی تیاری کے لیے عوام مہینوں کے ڈی اے ، کے ایم سی، بورڈ آف ریوینیو اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں لیکن ان کا کام نہیں ہوتا جب کہ قبضہ مافیا کے لیے یہ تمام ادارے فوری طور پر فارم 2-، فارم 7-، سے لے کر لیز کے دستاویزات جیسے کاغذات ِ ملکیت کی پرانی تاریخوں میں جاری کرنے میں ایسی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جیسے ان ہی کاموں کی سرانجامی کے لیے ہی ان اداروں کی تشکیل ہوئی تھی یا پھر یہ ادارے اسی پبلک پرائیوٹ ادارہ جاتی قبضہ مافیا کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے۔

اسی طرح کے امور پر مبنی نیب کی جانب سے جاری کردہ 278صفحات پر مشتمل گزشتہ برس کی ایک میڈیا رپورٹ کیمطابق کراچی بھر میں موجود ڈھائی ہزار ایکڑ پر موجود 50کھرب مالیت کے رفاہی و فلاحی پلاٹوں پر مشتمل زمین پربھی ریاستی و سرکاری سرپرستی میں قبضے کیے گئے ہیں۔ جہاں نہ صرف لینڈ مافیا و قبضہ مافیا ان فلاحی پلاٹوں پر قابض ہیں بلکہ ان پلاٹوں پرکئی سیاسی تنظیموں اور کالعدم مذہبی و انتہاپسند تنظیموں کے دفاتر بھی قائم ہیں تو بجلی و ہوائی جہاز وں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ افغان اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارتخانے بھی قائم ہیں۔ جن کی غیر قانونی طور پر سرکاری الاٹمنٹ بھی کی گئی ہے۔

یوں تو نیب کی جانب سے اس کیس میں جلد پیشرفت کرنے کا کہا گیا تھا لیکن ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آئی، وہی روایتی فائلوں پر دھول چڑھتی جارہی ہے جب کہ نیب کا دھیان صرف پلی بارگین پر ٹِکا ہوا ہے۔ اسی لیے ایسے قبضوں کے لیے غیر قانونی تجاوزات جیسے روایتی محاورے اب بے معنی لگتے ہیں کیونکہ یہ تو اب پبلک پرائیوٹ قبضہ گروپ جیسی صنعت کا روپ دھارچکے ہیں۔

جب ملک بھر میں غیر قانونی تجاوزات اور قبضوں کے خلاف سپریم کورٹ آستینیں چڑھائے نظر آتی ہے تو وہی سپریم کورٹ کراچی میں ایسی قبضہ گردی کو ڈھیل کیوں دے رہی ہے۔۔؟جس سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت کسی جنگ میں تباہی کے بعد بے ترتیب بسنے والے لوگوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ قبضہ کرنے کی حوس سے بگڑے انفرااسٹرکچر کے حامل شہر سی لگ رہی ہے اورفٹ پاتھوں اور سڑکوں پر غیر قانونی ریڑھیوں اور اسٹالوں کی حالت دیکھ کر شہر لُنڈی کوتل کا لُنڈا بازارمعلوم ہوتا ہے ۔

ماضی کے اس نخلستان کو مفت کا مال سمجھ کر لوٹنے اور بیچنے والے ان قبضہ مافیا کے خلاف کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے، عوام اس بات پر خون کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ عوام کی داد و فریاد کے جب تمام راستے بند ہوجاتے ہیں تو وہ عدالت کی جانب رجوع کرتے ہیں۔

اس بناء پر پھر بھی عدالت سے ہی امید رکھی جارہی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں بلڈر مافیا، ایم ڈی اے حکام و دیگر ذمے داروں کو عبرت کا نشان بناکر عدالت کراچی کو قبضہ مافیا کی مستقل تحویل میں جانے سے بچا سکتی ہے جب کہ سرکار اور سرکاری اداروں کی اختیارات کے ناجائز استعمال والی روش کو بھی بریک لگاسکتی ہے۔

اور ساتھ ہی شہر میں بلاتفریق ایسے آپریشن کی ضرورت ہے جو شہر کی سابقہ کشادگی و ماحولیات دوست اور سہولیات سے پُر شناخت کو بحال کرسکے اورمقامی حقداروں کو ان کا حق مل سکے جب کہ عدالت کی جانب سے اگر ایسی ہدایات آجائیں کہ شہر میں ترقی کی اُٹھنے والی لہر سے جامع منصوبہ سازی کے ذریعے قدرتی آفات سے متاثر مقامی بے گھر آبادی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کو یقینی بنایا جائے اوردیگر ملکوں کے یہاں آنیوالے لوگوں کے لیے شرائط و ضوابط پر مبنی پالیسی ترتیب دی جائے تو اس سے شہر کی ڈیمو گرافی کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب ، دبئی سمیت دنیا کے تمام بڑے ممالک میں کسی بھی دوسرے ملک کا مسلمان کوئی بھی ذاتی ملکیت نہیں خرید سکتا حتیٰ کہ ذاتی کاروبار بھی نہیں کرسکتا ۔

یہ صرف پیارے پاکستان میں کیا جاتا ہے بلکہ خاص طور پر سندھ میں اس بات کی اجازت ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان میں غیرملکی آبادی پر کنٹرول وفاق کی ذمے داری ہے۔ جس کے لیے اسے ملکی سا لمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ملک کی تمام اکائیوں کی ڈیمو گرافی اور جغرافیائی تحفظ کے لیے واضح پالیسی مرتب کرنی چاہیے کیونکہ یہ معاملہ ملک کے تمام تر مسائل کی جڑ ہے ۔
Load Next Story