پولیس کی ناکامی کے باعث شہر نوسربازوں کے نرغے میں
نشہ آور مشروبات پلا کر لوٹنے والے شہریوں کے کپڑے تک اتارنے لگے
پولیس کو ڈکیتی، چوری اور راہزنی کے علاوہ ان دنوں ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور وہ ہے نوسربازی۔
لوگوں کو نشہ دے کر لوٹنے کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس میں کئی افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں یا انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ان نوسربازوں کے مقابلے میں پولیس بے بس دکھائی دے رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو، جس دن شہر کے کسی حصے میں نوسر بازی کی واردات نہ ہوتی ہو۔ نوسر بازی کی زیادہ تر وارداتیں جنرل بس اسٹینڈ، وہاڑی چوک اور ریلوے اسٹیشن پر ہو رہی ہیں۔
نوسرباز شہریوں کو باتوں میں لگا کر کولڈ ڈرنک یا کوئی شے کھلاتے ہیں جس سے وہ لمحوں میں بے ہوش ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد انہیں سامان اور نقدی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
نوسرباز وارداتوں کے بعد تسلی سے رفو چکر ہوتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ نوسرباز شہر اور موقع واردات پر لگے خفیہ کیمروں میں بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دیتے، جس سے ان کے چہروں کی شناخت نہیں ہو پاتی، اس سے ظاہر ہوتا ہے یا تو وہ مکمل طور پر موقع واردات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے بعد واردات کرتے ہیں یا پھر پولیس میں سے کچھ ملازمین ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، جو انہیں سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کے داؤ پیچ بتاتے ہیں۔
پھر نوسر بازی کے دوران جو خطرناک نشہ متاثرین کو دیا جاتا ہے، اس کے باعث اکثر متاثرین دو سے چار روز تک نشہ کی کیفیت میں ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات وہ ہوش میں آنے کے بجائے موت کی مکمل بے ہوشی میں چلے جاتے ہیں۔ لمحہ فکریہ تو یہ بھی ہے کہ نوسر بازی کی 50فیصد سے زائد وارداتیں پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہو پاتیں اور جو رپورٹ ہوتی ہیں وہ ٹریس نہیں ہو پاتیں۔
چند روز قبل ملتان کے بارونق علاقے وہاڑی چوک کے قریب بس اسٹینڈ پر دو بھائیوں کو نامعلوم افراد نے نشہ آور شے کھلا کر بے ہوش کر دیا اور ان کی جیبوں کا صفایا کرکے فرار ہو گئے، دونوں بھائیوں کو تشویشناک حالت میں نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پر ایک بھائی جس کا نام غلام شبیر عرف وڈیرا ہے دم توڑ گیا جبکہ دوسرے بھائی کو ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد بچا لیا گیا۔
اسی طرح نشتر ہسپتال میں بیٹی کی عیادت کے لیے آنے والی ایک ماں کو نوسربازوں نے نشہ آور مشروب پلا کر بے ہوش کیا اور ان کے زیورات اتارکر انہیں رکشہ میں لے جا کر بستی ملوک کے قریب ایک نجی ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہوگئے، اس واردات میں بھی خفیہ کیمروں کی ریکارڈنگ نکلوائی گئی، جس میں واردات کرنے والوں نے ٹوپی اور رومال کے ذریعے اپنے چہرے کو چھپا رکھا ہے۔ تیسری واردات میں پولیس کو چند روز قبل چوک کمہاراں والا کے قریب ایک نوجوان برہنہ حالت میں ملا، جس کی اطلاع شہریوں نے پولیس تک پہنچائی۔
پولیس نے اس نوجوان کو نشتر اسپتال منتقل کیا، جہاں پر وہ تین دن بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ فیصل آباد سے قاسم بیلہ میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کو ملنے ملتان آیا تھا، بس سٹینڈ پر اتر کر جب وہ چوک قذافی کے قریب اسے دو افراد ملے، جنہوں نے ہمدردیاں جتلا کر اسے پھانس لیا، نوسربازوں نے اس کولڈ ڈرنک پینے کو دی تو جیسے ہی اس نے وہ کولڈ ڈرنک پی تو اس کے بعد اسے ہوش نہیں رہا اور جب ہوش آیا تو وہ نشتر اسپتال میں تھا جبکہ نوسرباز اس کا سامان، نقدی، موبائل اور پہنے ہوئے کپڑے تک لے کر فرار ہو گئے اور اسے برہنہ حالت میں چھوڑ گئے۔
نوسر بازی کی ان وارداتوں میں کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جو خواتین پر مشتمل ہیں، یہ نوسرباز شہر کے مختلف علاقوں، کالونیوں اور گلی محلوں میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوکر اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے یا پھر کسی کا پتہ پوچھنے کا بہانہ بنا کر گھر میں موجود خواتین کو باتوں میں لگا کر انہیں سونا ڈبل کرنے یا پیسوں میں برکت ڈالنے کا جھانسہ دے کر دم کیا ہوا پانی پلاتی ہیں، جس سے اہل خانہ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور نوسرباز خواتین گھروں سے لاکھوں روپے مالیت کے زیورات اور نقدی لے کر فرار ہو جاتی ہیں، البتہ تھانہ کبیروالہ اور تھانہ جہانیاں نے مشترکہ کاوش کرتے ہوئے پھولن دیوی شبانہ شاہ اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، جنہوں نے اب تک 41 وارداتیں تسلیم کی ہیں، تاہم اس گروہ سے مزید تفتیش جاری ہے۔
دوسری طرف ملتان پولیس نے اس سلسلے میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی۔ تاہم پولیس نے دعویٰ کیاہے کہ وہ ناکہ بندی اور گشت کا نظام موثر بنا رہے ہیں، تاکہ وارداتوں پر کنٹرول کیا جاسکے لیکن ابھی تک اس دعوے کی حقیقت سامنے نہیں آ سکی۔ ڈولفن فورس کا قیام جو کہ سٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے وجود میں آیا تھا، ایسے حالات میں سفید ہاتھی دکھائی دے رہا ہے، جس کی کارکردگی کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
ایس ایچ او تھانہ سیتل ماڑی انسپکٹر ملک راشد تھہیم جو کچھ عرصہ قبل ہی یہاں تعینات ہوئے ہیں، نے جنرل بس اسٹینڈ اور شہر کے دیگر علاقوں میں نوسر بازی کی وارداتیں کرنے والے بین الاضلاعی گروہ کے سرغنہ حق نواز ولد ربنواز کو چند روز قبل گرفتار کیا ہے جو کہ ضلع اٹک کا رہنے والا ہے، اس نے پولیس کو ابتدائی تفتیش کے دوران درجنوں وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔
ایس ایچ او کے مطابق وہ جلد ہی اس گروہ کے باقی ارکان کو گرفتارکر لیں گے جس سے ملتان اور گردونواح میں ہونے والی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ دوسری طرف طبی ماہر ڈاکٹر سید عبدالسمیع کے مطابق نوسر باز گروہ ڈیزی پام، کیٹا مین، لیڈو کین،نامی سالٹ کی نشہ آور ادویات استمعال کرتے ہیں، اگر وہ شخص جس کو یہ ادویات دے کر لوٹا جا رہا ہے وہ پہلے سے دل کے مرض ، بلڈ پریشر، ذیا بیطس یا گردوں اور جگر کے مرض میں مبتلا ہے تو ایسے شخص کے موت بھی واقع ہو سکتی ہے ان ادویات کا اثر زائل ہونے میں دوسے تین روز کا وقت لگتا ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں انہیں اس قسم کی وارداتوں کی 84 شکایات موصول ہوئیں جن میں ٹوٹل متاثرین کی تعداد 90 ہے، جن میں سے 87مرد اور 3خواتین شامل ہیں ان میں سے 8 متاثرین کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرکے فارغ کر دیا گیا جبکہ 82 متاثرین کو ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے گزشتہ دنوں ایک شخص دم بھی توڑ چکا ہے۔
لوگوں کو نشہ دے کر لوٹنے کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس میں کئی افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں یا انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ان نوسربازوں کے مقابلے میں پولیس بے بس دکھائی دے رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو، جس دن شہر کے کسی حصے میں نوسر بازی کی واردات نہ ہوتی ہو۔ نوسر بازی کی زیادہ تر وارداتیں جنرل بس اسٹینڈ، وہاڑی چوک اور ریلوے اسٹیشن پر ہو رہی ہیں۔
نوسرباز شہریوں کو باتوں میں لگا کر کولڈ ڈرنک یا کوئی شے کھلاتے ہیں جس سے وہ لمحوں میں بے ہوش ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد انہیں سامان اور نقدی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
نوسرباز وارداتوں کے بعد تسلی سے رفو چکر ہوتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ نوسرباز شہر اور موقع واردات پر لگے خفیہ کیمروں میں بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دیتے، جس سے ان کے چہروں کی شناخت نہیں ہو پاتی، اس سے ظاہر ہوتا ہے یا تو وہ مکمل طور پر موقع واردات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے بعد واردات کرتے ہیں یا پھر پولیس میں سے کچھ ملازمین ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، جو انہیں سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کے داؤ پیچ بتاتے ہیں۔
پھر نوسر بازی کے دوران جو خطرناک نشہ متاثرین کو دیا جاتا ہے، اس کے باعث اکثر متاثرین دو سے چار روز تک نشہ کی کیفیت میں ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات وہ ہوش میں آنے کے بجائے موت کی مکمل بے ہوشی میں چلے جاتے ہیں۔ لمحہ فکریہ تو یہ بھی ہے کہ نوسر بازی کی 50فیصد سے زائد وارداتیں پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہو پاتیں اور جو رپورٹ ہوتی ہیں وہ ٹریس نہیں ہو پاتیں۔
چند روز قبل ملتان کے بارونق علاقے وہاڑی چوک کے قریب بس اسٹینڈ پر دو بھائیوں کو نامعلوم افراد نے نشہ آور شے کھلا کر بے ہوش کر دیا اور ان کی جیبوں کا صفایا کرکے فرار ہو گئے، دونوں بھائیوں کو تشویشناک حالت میں نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پر ایک بھائی جس کا نام غلام شبیر عرف وڈیرا ہے دم توڑ گیا جبکہ دوسرے بھائی کو ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد بچا لیا گیا۔
اسی طرح نشتر ہسپتال میں بیٹی کی عیادت کے لیے آنے والی ایک ماں کو نوسربازوں نے نشہ آور مشروب پلا کر بے ہوش کیا اور ان کے زیورات اتارکر انہیں رکشہ میں لے جا کر بستی ملوک کے قریب ایک نجی ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہوگئے، اس واردات میں بھی خفیہ کیمروں کی ریکارڈنگ نکلوائی گئی، جس میں واردات کرنے والوں نے ٹوپی اور رومال کے ذریعے اپنے چہرے کو چھپا رکھا ہے۔ تیسری واردات میں پولیس کو چند روز قبل چوک کمہاراں والا کے قریب ایک نوجوان برہنہ حالت میں ملا، جس کی اطلاع شہریوں نے پولیس تک پہنچائی۔
پولیس نے اس نوجوان کو نشتر اسپتال منتقل کیا، جہاں پر وہ تین دن بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ فیصل آباد سے قاسم بیلہ میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کو ملنے ملتان آیا تھا، بس سٹینڈ پر اتر کر جب وہ چوک قذافی کے قریب اسے دو افراد ملے، جنہوں نے ہمدردیاں جتلا کر اسے پھانس لیا، نوسربازوں نے اس کولڈ ڈرنک پینے کو دی تو جیسے ہی اس نے وہ کولڈ ڈرنک پی تو اس کے بعد اسے ہوش نہیں رہا اور جب ہوش آیا تو وہ نشتر اسپتال میں تھا جبکہ نوسرباز اس کا سامان، نقدی، موبائل اور پہنے ہوئے کپڑے تک لے کر فرار ہو گئے اور اسے برہنہ حالت میں چھوڑ گئے۔
نوسر بازی کی ان وارداتوں میں کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جو خواتین پر مشتمل ہیں، یہ نوسرباز شہر کے مختلف علاقوں، کالونیوں اور گلی محلوں میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوکر اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے یا پھر کسی کا پتہ پوچھنے کا بہانہ بنا کر گھر میں موجود خواتین کو باتوں میں لگا کر انہیں سونا ڈبل کرنے یا پیسوں میں برکت ڈالنے کا جھانسہ دے کر دم کیا ہوا پانی پلاتی ہیں، جس سے اہل خانہ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور نوسرباز خواتین گھروں سے لاکھوں روپے مالیت کے زیورات اور نقدی لے کر فرار ہو جاتی ہیں، البتہ تھانہ کبیروالہ اور تھانہ جہانیاں نے مشترکہ کاوش کرتے ہوئے پھولن دیوی شبانہ شاہ اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، جنہوں نے اب تک 41 وارداتیں تسلیم کی ہیں، تاہم اس گروہ سے مزید تفتیش جاری ہے۔
دوسری طرف ملتان پولیس نے اس سلسلے میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی۔ تاہم پولیس نے دعویٰ کیاہے کہ وہ ناکہ بندی اور گشت کا نظام موثر بنا رہے ہیں، تاکہ وارداتوں پر کنٹرول کیا جاسکے لیکن ابھی تک اس دعوے کی حقیقت سامنے نہیں آ سکی۔ ڈولفن فورس کا قیام جو کہ سٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے وجود میں آیا تھا، ایسے حالات میں سفید ہاتھی دکھائی دے رہا ہے، جس کی کارکردگی کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
ایس ایچ او تھانہ سیتل ماڑی انسپکٹر ملک راشد تھہیم جو کچھ عرصہ قبل ہی یہاں تعینات ہوئے ہیں، نے جنرل بس اسٹینڈ اور شہر کے دیگر علاقوں میں نوسر بازی کی وارداتیں کرنے والے بین الاضلاعی گروہ کے سرغنہ حق نواز ولد ربنواز کو چند روز قبل گرفتار کیا ہے جو کہ ضلع اٹک کا رہنے والا ہے، اس نے پولیس کو ابتدائی تفتیش کے دوران درجنوں وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔
ایس ایچ او کے مطابق وہ جلد ہی اس گروہ کے باقی ارکان کو گرفتارکر لیں گے جس سے ملتان اور گردونواح میں ہونے والی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ دوسری طرف طبی ماہر ڈاکٹر سید عبدالسمیع کے مطابق نوسر باز گروہ ڈیزی پام، کیٹا مین، لیڈو کین،نامی سالٹ کی نشہ آور ادویات استمعال کرتے ہیں، اگر وہ شخص جس کو یہ ادویات دے کر لوٹا جا رہا ہے وہ پہلے سے دل کے مرض ، بلڈ پریشر، ذیا بیطس یا گردوں اور جگر کے مرض میں مبتلا ہے تو ایسے شخص کے موت بھی واقع ہو سکتی ہے ان ادویات کا اثر زائل ہونے میں دوسے تین روز کا وقت لگتا ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں انہیں اس قسم کی وارداتوں کی 84 شکایات موصول ہوئیں جن میں ٹوٹل متاثرین کی تعداد 90 ہے، جن میں سے 87مرد اور 3خواتین شامل ہیں ان میں سے 8 متاثرین کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرکے فارغ کر دیا گیا جبکہ 82 متاثرین کو ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے گزشتہ دنوں ایک شخص دم بھی توڑ چکا ہے۔