اسلامی بینکاری کے نام پر معاشی استحصال ہو رہا ہےسالم سلام
عوام اور قرض خواہوں کیساتھ فراڈ ہوتاہے،مغربی ممالک میں6فیصد سودلیا جاتاہے.
لاہور:
پاکستان میں غیرسودی اسلامی بینکاری کے نام پر بدترین معاشی استحصال کیا جارہا ہے اور عوام بالعموم جبکہ بینک صارفین اور قرضے حاصل کرنیوالوں کے ساتھ بالخصوص فراڈ کیا جارہا ہے۔
سودی بینکاری کرنیوالے ترقی یافتہ ممالک میں6 فیصد سالانہ لیکن پاکستان میں اسلام کے نام پر غیر سودی بینکاری کے نام نہاد نظام میں20 فیصد سالانہ سود یا منافع وصول کیا جارہاہے، بینک صارفین کو مجموعی طور پر5 فیصد سالانہ منافع یا سود دیا جارہا ہے جبکہ روپے کی شرح میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے، اس طرح عوام منفی منافع حاصل کررہے ہیں، ان خیالات کا اظہار بینکاری قوانین کے ماہر سالم سلام انصاری ایڈووکیٹ، سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر اور دیگر نے مقامی ہوٹل میں لا سوسائٹی پاکستان اور پاکستان بینکنگ اینڈ کارپوریٹ لائرز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے منعقدہ بینکاری قوانین کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ میں اپنے لیکچرز اور سوالات کے جوابات کے دوران کیا۔
سالم سلام نے کہا کہ مالیاتی اداروں کے قرضوں کی وصولیابی کے آرڈیننس مجریہ2001 کی دفعہ 15کے تحت بینکوں کو ازخود اور بغیر مقدمات دائر کیے رہن شدہ جائیداد کو 3 نوٹس کے اجرا کے بعد نیلام کردینے کا اختیارانصاف کے اصولوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکلز 8,23,24,25 اور 10-Aکی خلاف ورزی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں 3 بینکنگ کورٹس میں ججوں کی اسامیاں خالی ہیں، انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ اسامیاں جلد از جلد پر کی جائیں جبکہ بائونس چیکوںکا مروجہ قانون مبہم، تضاد کا شکاراور ترمیم کا متقاضی ہے۔
پاکستان میں غیرسودی اسلامی بینکاری کے نام پر بدترین معاشی استحصال کیا جارہا ہے اور عوام بالعموم جبکہ بینک صارفین اور قرضے حاصل کرنیوالوں کے ساتھ بالخصوص فراڈ کیا جارہا ہے۔
سودی بینکاری کرنیوالے ترقی یافتہ ممالک میں6 فیصد سالانہ لیکن پاکستان میں اسلام کے نام پر غیر سودی بینکاری کے نام نہاد نظام میں20 فیصد سالانہ سود یا منافع وصول کیا جارہاہے، بینک صارفین کو مجموعی طور پر5 فیصد سالانہ منافع یا سود دیا جارہا ہے جبکہ روپے کی شرح میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے، اس طرح عوام منفی منافع حاصل کررہے ہیں، ان خیالات کا اظہار بینکاری قوانین کے ماہر سالم سلام انصاری ایڈووکیٹ، سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر اور دیگر نے مقامی ہوٹل میں لا سوسائٹی پاکستان اور پاکستان بینکنگ اینڈ کارپوریٹ لائرز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے منعقدہ بینکاری قوانین کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ میں اپنے لیکچرز اور سوالات کے جوابات کے دوران کیا۔
سالم سلام نے کہا کہ مالیاتی اداروں کے قرضوں کی وصولیابی کے آرڈیننس مجریہ2001 کی دفعہ 15کے تحت بینکوں کو ازخود اور بغیر مقدمات دائر کیے رہن شدہ جائیداد کو 3 نوٹس کے اجرا کے بعد نیلام کردینے کا اختیارانصاف کے اصولوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکلز 8,23,24,25 اور 10-Aکی خلاف ورزی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں 3 بینکنگ کورٹس میں ججوں کی اسامیاں خالی ہیں، انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ اسامیاں جلد از جلد پر کی جائیں جبکہ بائونس چیکوںکا مروجہ قانون مبہم، تضاد کا شکاراور ترمیم کا متقاضی ہے۔